گیارہویں کہانی
مجاہد اکبرسیّد احمد شہیدرحمہ اللہ تعالیٰ
تحریک احیاء دین کے فعال سردار کی ہے۔ ہجرت نبوی ﷺ کی تیرہویں صدی کے پہلے سال ۶ صفر ا۲۰اھ نومبر۷۸۶اء قصبہ رائے بریلی میں آپ کی ولادت با سعادت ہوئی۔ شرفاء ہند کے معمول کے مطابق ان کو چار سال چار ماہ کی عمر پہنچنے پر مکتب میں بٹھایا گیا مگر تین سال میں قرآن پاک کی صرف چند سورتیں حفظ کر سکے اور مفردحروف کے سوا کچھ لکھنا نہ آیا۔ خاندان کا سب سے بڑا سرمایہ علم دین تھا یا ذکر و سلوک ۔ذکر و سلوک کا بھی آپ کوئی درجہ طے نہ کر سکے مگر عربی فارسی خوب جانتے تھے۔ بے تکلف بات چیت عربی فارسی میں کرتے تھے۔ عربی میں اتنی مہارت پیدا کر لی تھی کہ مشکوۃ المصابیح کا مطالعہ کر لیتے۔ حافظ‘ بیدل اور بعض دوسرے شعراء کے اشعار بھی انہیں یاد ہوتے۔ ا یسا معلوم ہوتا کہ علم ظاہری ان کی قسمت میں نہیں تھا۔ یا وہ علم پڑھانے سے نہیں آئے گا بلکہ علم لدنّی حاصل ہو گا۔
سیّد صاحب کومردانہ کھیلوں کا بے حد شوق تھا۔ کبڈی کھیلتے ۔ ایک دوسرے گروہ کے قلعے پر حملہ کرتے۔ ہم سن لڑکوں کا فرضی لشکر اسلام تیار کرتے۔ بطور جہاد بلند آواز میں تکبیریں کہتے ہوئے فرضی لشکر کفار پر حملہ کرتے اور ’’وہ مارا ، یہ فتح ہو ا ‘‘کی صدائیں لگاتے۔ سیّد صاحب خود فرماتے کہ عہد طفلی میں ہی میرے دل میں یہ بات جم گئی تھی کہ میں کافروں سے جہاد کروں گا۔ تمام اقربا متعجب ہوئے‘ صرف والدہ ماجدہ میرے دعوے کو حرفاً حرفاً سچ سمجھتی تھیں۔ آخر ایک روز بعض اقربا ء جمع تھے۔ عام دستور کے مطابق انہوں نے دیوان حافظ سے فال نکالا تویہ شعر نکلا۔
تیغے کہ آسمانش از فیضِ خود دہد آب تنہا جہاں بگیردبے منّتِ سپاہی
ایک بڑھیا پاس بیٹھی تھی ‘اس نے شعر کا ترجمہ سنا تو بولی کہ ان کو (سیّدصاحب کو) واقعی سپاہ کی حاجت نہ ہو گی۔ عجیب امر ہے کہ جب سید صاحب ہندوستان سے ہجرت کر کے بہ عزم جہاد سرحد جارہے تھے تو کابل میں بعض اصحاب کو ان کے رفقاء اور اسباب حرب و ضرب کی قلت پر سخت تعجب ہوا‘ انہوں نے بھی دیوان حافظ سے فال نکالاتو یہی شعر نکلا۔ سیّدخود بھی اقبال کے اس مصرعہ کے مصداق ہوئے کہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
ورزش اور غیر معمولی قوّت
جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے‘ سیّدصاحب کو ابتدائے عمر میں تعلیم سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ زیادہ سپہ گری و سپہ سالاری اور جہاد سے دلچسپی تھی۔ اس وجہ سے انہوں نے سخت ورزشیں کر کے اپنے جسم کو انتہائی شدائد اور غیر معمولی قوت کا عادی بنا لیا تھا۔فطری طور پرجسم میں طاقت غیر معمولی تھی اور ورزش کی کثرت سے اس میں اور بھی اضافہ ہو تا رہتا۔ اسی زمانہ میں آپ نے تلوار‘ تیر کمان اور بندوق کا استعمال سیکھا اور ان میں بھی غیر معمولی مشق بہم پہنچائی۔انہوں نے تیراکی میں بھی کمال پیدا کر لیا تھا۔ دہلی میں مولوی سلیم اللہ پیرا کی کے مشہور استاد تھے‘ وہ کہا کرتے تھے کہ پانی کے بہاؤ کے خلاف بے تکلف تیرنے کا وصف میں نے سیّد صاحب میں دیکھا۔اپنی عمر مشاقی میں گزار دینے کے باوجود میں اس کمال کو نہیں پہنچ سکا ۔ سیّد صاحب نے دم اتنا بڑھا لیا تھا کہ دریا کی تہہ میں اتنی دیر تک بیٹھے رہتے کہ عام نمازی اس اثنا میں دو رکعت نماز ادا کر لے۔ غرض قوت و طاقت اور مشاقی و چابکدستی کے جتنے فنون رائج تھے ‘سید صاحب نے ان سب میں اعلیٰ درجہ حاصل کر لیا۔ غالباً یہ سب کچھ شوقِ جہاد ہی کی عطا تھا۔آپ نے ماکولات و ملبوسات میں کبھی کسی چیز کی عادت نہ ڈالی۔ جو ملا کھا لیا‘ جو میسر آیا پہن لیا۔ طبیعت میں ایثار کا مادہ اتنا زیادہ تھا کہ دوسروں کو ہمیشہ خود پر ترجیح دیتے۔ اکثر معمولی کھانا خود کھاتے اور دوسروں کو بہترین چیزیں کھلاتے ۔ کبھی اپنی پوری غذا دوسروں کو دے دیتے اورخود فاقہ کرلیتے۔ خدمتِ خلق کا جذبہ ان میں شدید تھا۔ یتیموں‘ ضعیفوں‘بچوں‘ بیواؤں کی خدمت کر کے‘ ان کی ضرورتیں پوری کر کے دلی سکون محسوس کرتے۔ لوگ آپ کے اونچے خاندان کا خیال کرکے کہتے کہ ہم تو آپ کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور آپ الٹا ہماری خدمت کرتے ہیں توہم شرمندہ ہوجاتے ہیں اور گنہگار بنتے ہیں۔
فطری سعادت۔
سیّد صاحب کو فطرت اتنی سعیداور پاکیزہ ملی تھی کہ مرضیات الٰہی سے خفیف سا اختلاف بھی گوارانہ تھا اور اتباعِ سنت کا ذوق طبیعت پر اس قدر غالب تھا کہ گویا ان کی تمام حرکات و سکنات کی عنان شریعت حقہ کے قبضہ میں تھی۔ کبھی ان کا قدم جادہِ حق سے ادھر ادھر نہیں پڑا‘ نہ عزیمتِ عمل کے مقابلے میں رخصت کو ترجیح دی‘ یہ فطری سعادت بہت کم خوش نصیبوں کے حصے میں آتی ہے۔
عملی زندگی کا پہلا سفر۔
سیّدصاحب سترہ اٹھارہ برس کے تھے‘جب احباب و اقرباء کی ایک جماعت کے ساتھ رائے بریلی سے لکھنو گئے۔ ان آٹھ افراد کی جماعت میں ایک ان کا بھانجا بھی تھا۔سیّدمحمد علی مؤ لف مخزنِ احمدیِ۔ یہ انچاس میل کا سفر حقیقتاََ پیدل ہی طے کیا کیونکہ سواری کے لیے صرف ایک گھوڑا تھا۔ کچھ ذاتی سامان سب کا تھا جس کا اٹھانا سید صاحب کے ساتھی جو مشقت کے عادی نہ تھے ‘ان کو بھاری لگا۔ آخر سیّدصاحب جو ورزشی جسم والے مشقت کے عادی تھے ‘انہوں نے سب کا سامان چادر میں باندھ کر خود اٹھایا اور لکھنو پہنچے جبکہ باقی ساتھیوں کا مقصد یہ تھا کہ کوئی روزگارلکھنو میں ملے۔ سیّدصاحب وہاں سے آگے دہلی میں جا کر شاہ عبدالعزیز ؒ سے کسب فیض کی خواہش رکھتے تھے۔
ساتھیوں میں سے کوئی بھی دہلی جانے کو تیار نہ تھا۔ آپ اکیلے ایک روز پیدل دہلی تک کی چودہ منزلیں طے کرنے کے ارادے سے نکل پڑے۔ ان کے پاس صرف تین پیسے تھے۔ مشقت کے عادی تھے ‘ ایک دن میں دو دو تین تین منزلیں بھوکے پیاسے طے کر لیتے۔ پھر ایک پیسہ کے ستو اور گُڑلے کر گھول کر پی لیتے۔ پہلی مرتبہ توعین وقت پر ایک زیادہ حاجتمند نہایت کمزور مسکین نے ستو مانگ لئے۔سیّدصاحب نے اس کو دے کر خود فاقہ کر لیا۔ دوسری مرتبہ انہو ں نے دوسرے پیسے کے گُڑستو لے کر پیٹ کی آگ بجھائی‘ مگر اب پاؤں کے چھالوں کی وجہ سے سفر جاری نہ رکھ سکے۔ ایک قصبے میں ایک مسجد میں رات آرام کرنے کے لیے رک گئے۔صبح اٹھے ۔ عصر تک پیروں کے چھالوں نے ہلنے نہ دیا۔ ایک نمازی مسجد میں آئے اور نو وارد سیّد صاحب کو غور سے دیکھنے لگے۔ جب پتہ چلا رائے بریلی سے آئے ہیں تو وہ شخص جو سید صاحب کے والد کا مرید تھا‘ پہچان گیا کہ آپ سادات میں سے ہیں۔ پھر اصرار کیا کہ گھر چلئے ۔ سیّدصاحب نے فرمایا اس شرط پر چل سکتا ہوں کہ عہد کریں مجھے دہلی جانے سے نہیں روکیں گے۔ اس نے جواب دیا کہ نہ محض روکو ں گا نہیں بلکہ خود دہلی پہنچا دوں گا۔ البتہ ضروری ہے کہ آپ چند روز آرام فرما لیں ۔ اس نے گھر لے جا کر پاؤں دھوئے۔حنا اور ببول کی پتیاں رگڑ کر چھالوں پر لیپ کیں۔جب آپ کے پاؤں اچھے ہو گئے تو سواری کا انتظام کر کے انہیں دہلی پہنچایا۔ پھر رائے بریلی جا کر اقربا کو سیّدصاحب کاپورا حال سنایا۔
دہلی میں پہنچ کر سید صاحب شاہ عبدالعزیز کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ پہلے سے شناسائی نہ تھی نہ کسی ذریعہ تعارف کا انتظام کیا تھا۔ شاہ صاحب نے معمول کے مطابق مصافحت کے بعد پاس بٹھا کر پوچھا کہاں سے آئے ہو؟ جب پتہ چلا کہ رائے بریلی کے سادات میں سے ہیں۔ سیّدابو سعید کے نواسے اور سیّدنعمان کے بھتیجے ہیں تو دوبارہ گرمجوشی سے معانقہ فرمایا۔ جب معلوم ہوا کہ محض اللہ تعالیٰ کی طلب سیّد صاحب کوادھر کھینچ لائی ہے تو آپ نے انہیں اکبر آبادی مسجد میں اپنے بھائی مولوی عبدالقادر کے پاس تحصیل علم کے لیے بھیج دیا۔وہاں بھی کتابوں سے کم مگر صادقین کی صحبت سے اصل علم حاصل کیا۔ اصل علم کیا ہے فقط یہ کہ بار ی تعالیٰ کی پسند یا ناپسند یا متعلقات علم ہیں یا بعض حالتوں میں مضافات علم سے انسان بخوبی آگاہ ہو جائے ‘باقی چیزیں علم نہیں ہیں۔
ع۔ ایں ہاہمہ آرائشِ افسانہِ عشق است۔
صادقین کی اسی مختصرسی صحبت نے سیّدصاحب کو یقیناًصحیح معنوں میں کامل بنا یا۔ اپنے جہاد کے ساتھیوں کا صحیح معلم اور سچا مخلص رہبر بنا دیا۔ اسی استادی شاگردی نے آگے کی عملی اور جہاد والی زندگی میں نہایت عمدہ اثر دکھایا‘ جس کے سبب سیّدصاحب اور آپ کے جاں نثار ساتھیوں نے دونوں جہانوں کی سعادت اور فلاح حاصل کی۔۲۲۲اھ میں سیّد صاحب نے شاہ عبدالعزیزؒ سے تزکیہ نفس کی بیعت کی۔ مختلف اذکاراور اشغال کی تعلیم حاصل کی۔ اس اثنامیں آخر میں نفی و اثبات ‘ پھر شغل برزخ کاحکم ہوا ‘جس میں صورت شیخ کا تصور تھا جو صوفیاء میں مروج تھا۔ شیخ کا حکم سنا تو سید صاحب نے ادب کے ساتھ عرض کیا کہ حضرت اس شغل اور بت پرستی میں کیا فرق ہے؟ شاہ عبدالعزیز نے جواب میں خواجہ حافظ کا مشہور شعر پڑھا:۔ بہ مے سجادہ رنگیں کن گرت پیرِ مغاں گوید کہ سالک بے خبرنبود زِراہ و رسمِ منزلھا
سیّد صاحب نے دوبارہ عرض کیا کہ میں آپ کا فرماں بردار ہوں‘ اس لیے کسبِ فیض کی غرض سے آیا ہوں لیکن تصور شیخ تو صریحاً بت پرستی معلوم ہوتی ہے ۔ اس خدشے کو زائل کرنے کے لیے قرآن یاحدیث سے کوئی دلیل پیش فرمائیں ورنہ اس عاجز کو ایسے شغل سے معاف رکھیں۔ شاہ صاحب نے یہ سنتے ہی سیّد صاحب کو سینے سے لگا لیا۔ رخساروں اور پیشانی پر بوسے دیئے اور فرمایا اے فرزند ارجمند !خدائے برتر نے اپنے فضل و رحمت سے تجھے ولایت انبیاء عطا فرمائی ہے۔ شاہ عبدالعزیزؒ کی اس تصدیق کے بعد کوئی شک نہیں رہتا کہ سیّداحمد اوائل عمر میں ہی راہ مستقیم کے جادہ پیما ہو گئے تھے اور ان کو ان علماء حق کی صف میں مقام حاصل ہو گیا تھا ۔سید صاحب کی عملی زندگی جو حقیقت میں احیائے دین کی مجاہد انہ تحریک سے عبارت ہے‘ دین اسلام کے غلبہ کے حوالے سے نبی کریم ﷺ کے ساتھ عہدِوفا نبھانے والوں کی کہانی کا درجہ رکھتی ہے اور اسی لیے اس کتاب ’’ یہ جہاں چیز ہے کیا‘‘ میں اسے درج کیا گیا ہے ۔ سیّدصاحب کے دل میں محبت الٰہی اس طرح سما گئی کہ اس کے سوا کسی چیز کی گنجائش باقی نہ رہی اور ولی کا بھی یہ خاصہ ہے کہ وہ ہر وقت بندگانِ الٰہی کو نیکی کی راہ پر لگانے کے لیے کوشاں رہتا ہے‘ وہ توحید کی اشاعت اور سنن رسولﷺ کے احیاء میں بیباک ہوتا ہے‘ اس کا رِخیر میں تکلیفیں اذیتیں پیش آئیں تو صبر کرتا ہے‘اسے اصطلاح میں قرب بالفرائض کہتے ہیں۔
جب تزکیہ نفس اور علم حاصل ہو چکا تو اسلامی حکومت کے احیاء کی خاطر جہاد فی سبیل اللہ کاعزم لے کروسطِ ہندکے نواب امیر خان کے پاس گئے جو ایک لشکر کے امیر تھے لیکن حالات نے ایسی صورت اختیار کر لی کہ امید نہ رہی۔سیّدصاحب کے سامنے اصل نصب العین یہ تھا کہ ہندوستان کو انگریزوں کے تصرف سے پاک کریں اور یہاں خالص اسلامی نظام حکومت کی بنیاد رکھیں۔ وہ اسی غرض سے امیر خان کے پاس پہنچے تھے۔ جب تک نواب امیر خان آزاد رہا اس کے ساتھ رہے لیکن جب باوجود بہاد راور نڈر ہونے کے بے تدبیری سے ہار مان کر انگریزوں سے مل گیا توسیّدصاحب کا نواب کے ساتھ رہنا ناممکن ہو گیا کیونکہ آگ اور پانی یکجا نہیں رہ سکتے تھے۔ چنانچہ سید صاحب چند ساتھیوں کو ساتھ لے کر اسی وقت نواب کے لشکر سے نکل کر جے پور چلے گئے۔
پھرسیّدصاحب کو پتہ چلا کہ انگریزوں کا نمائندہ معاہدے کا آخری مسودہ لے کر نواب امیرخان کے پاس عنقریب آیا چاہتا ہے تو وہ آخری مرتبہ نواب کو سمجھانے کے لیے ان کے پاس پہنچ گئے اور کہا ’’ابھی کچھ نہیں گیا۔ اختیار باقی ہے‘میرا کہنا مانو تو ان انگریزوں سے لڑو اور ان کے ساتھ ہر گز نہ ملو۔ بعد ملنے کے آپ سے کچھ نہ ہو سکے گا۔ یہ کفار بڑے دغا باز اور مکاّر ہیں۔ کچھ آ پ کے واسطے جاگیر یا تنخواہ مقرر کر کے یہیں بٹھا دیں گے کہ روٹیاں کھایا کیجیے‘پھر ہر بات ہاتھ سے جا تی رہے گی۔‘‘ مگر نواب نے پھر وہی جواب دیا کہ’’ اس وقت ملنا ہی مناسب ہے‘ میں لڑائی سے عہدہ برا نہیں ہو سکوں گا ۔‘‘سیّدصاحب نے کہا کہ خیر آپ مختار ہیں‘ میں آپ سے رخصت ہوتا ہوں۔
کئی دن بعد سیّدصاحب نے شاہ عبدالعزیز کے نام خط بھیجا ۔ جس کا مضمون یہ تھا ’’ یہ خاکسار سراپا انکسار حضرت کی قدم بوسی میں عنقریب حاضر ہوتا ہے۔ یہاں لشکر کا کارخانہ درہم برہم ہو گیا ہے۔ نواب صاحب فرنگی سے مل گئے۔ اب یہاں رہنے کی کوئی صورت نہیں۔
نواب کے پاس اس وقت بھی خاصی فوج تھی‘ صرف اس کے سردار جمشید خان دس ہزار سوار پیادے لیے بیٹھا تھا لیکن عزم و ہمت پر ایسا اچانک ضعف طاری ہوا کہ کچھ بھی نہ کر سکا۔ ہندوستان کا وہ آخری طاقتور شہباز تھا لیکن خود ہی اپنے بازو نچوا کر انگریزوں کے جال میں پھنس گیا۔محمد عمر خان‘ محمدایازخان اور راجا بہادر لال سنگھ کی فوجیں انگریزوں کی طرف منتقل کر دی گئیں‘ یاتو ڑ دی گئیں‘ جمشیدخان نے مصالحت سے انکار کر دیا ۔ کرنل سکنز نے اسے شکست دے کر حوالگی پر مجبور کیا۔
سیّدصاحب کا نصب العین اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ مسلمانوں کو حقیقی معنوں میں مسلمان بنایاجائے۔ جہاد فی سبیل اللہ کی اس روح کو زندہ کیاجائے جو قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کا طرّہ امتیاز تھا۔سیّدصاحب نہ کسی خطے کے رئیس تھے نہ ذخائرِ زر کے مالک۔ آپ کے پاس دینی حمیت‘ جذبہ احیائے اسلامیت اور روحانی دولت کے سوا کچھ نہیں تھا۔ یہی قدوسی جوہر تھے جن کے بل پر انہوں نے ارشاد و ہدایت کا سلسلہ جاری کیا۔ ایک طرف مسلمانوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح پیش نظر رکھی‘ دوسری طرف ان کے سینوں میں جہاد فی سبیل اللہ کی حرارت پیدا کی۔ یہی طریقہ تھا جسے سید صاحب کے چند سال بعد قفقاز کے شہرہ آفاق مجاہد شیح امام شاملؒ نے اختیار کیا اورغازیوں کی ایک ایسی جماعت تیار کر لی جو ربع صدی تک روس کی جابرانہ طاقت سے ٹکراتی رہی۔ یہی طریقہ تھا جسے سید صاحب کے چالیس سال بعد شیخ محمد احمد سوڈانی نے اپنے وطن میں اختیار کیا اور نہایت قلیل مدت میں بے روح سوڈانیوں کو منظم کر کے حمیت اسلام اور شوقِ آزادی کی راہ میں ایک بے پناہ قوت بنا دیا۔
سیّد صاحب نے دہلی پہنچ کر فوراََ بیعت طریقت کا سلسلہ شروع کیا۔ سب سے پہلے بیعت مولوی محمد یوسف پھُلتی نے کی جو ولی اللٰھی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور آخری سانس تک سیّدصاحب کے خاص رفیق ‘معتمد علیہ مشیر‘ خزانہ دار اور داروغہ کل بنے رہے ۔ مولوی محمد یوسف پھُلتی سرحد میں سوات کا دورہ کر رہے تھے‘جب آپ فوت ہوئے اور قطبِ لشکر اسلام کا لقب پایا۔ اس کے بعد مولانا عبدالحیّ جو شاہ عبدالعزیز ؒ کے بھانجے اور داماد تھے‘ انہوں نے بیعت کی ۔ دو رکعت نماز سیّدصاحب کے پیچھے پڑھنے سے انہیں جو اطمینان اور انعام حاصل ہوا‘ اس کے نتیجے میں انہوں نے سیّدصاحب کی بیعت کی۔ اس نماز اور بیعت کی پوری کیفیت جب شاہ اسماعیلؒ کو سنائی تو وہ بھی سیّدصاحب کی خدمت میں بیعت کے لیے پیش ہو گئے۔ انہوں نے شاہ اسماعیل کو بھی دو رکعت نماز پڑھائی‘اسی دن سے ان دونوں نے سیّد صاحب کا دامن اس مضبوطی سے پکڑ لیا کہ پھر جیتے جی الگ نہ ہوئے۔ ان کے بعد شاہ اسحق‘ شاہ یعقوب‘ حکیم مغیث الدین اور ان کے فرزند وں نے بیعت کی۔ یہ سب لوگ خصوصاََ مولانا عبدالحیّ ‘ شاہ اسماعیل اور شاہ اسحق علم و فضل کے ستون مانے جاتے تھے۔ شاہ عبدالعزیز کے سوا شہرت اور درجے میں کوئی ان سے فائق نہ تھا۔ خود شاہ صاحب موصوف مولانا عبدالحی کو شیخ الاسلام اور شاہ اسماعیلؒ کو حجۃ الاسلام کہا کرتے تھے۔ شاہ اسماعیل بھتیجے اور شاہ اسحق نواسے تھے۔ اکثر بطور تحدیثِ نعت یہ آیت پڑھا کرتے تھے۔ الحمد اللّٰہ الذی وھب لی علی الکِبَرِاسماعیل واسحٰق ۔ ایک موقع پر شاہ صاحب نے فرمایا تھا کہ تفسیرِ قرآن میں عبدالحی میرا نمونہ ہے۔ تحریر میں رشیدالدین ‘ حدیث میں مرزا حسن علی اور فقہ میں اسحق اور فرمایا اسماعیل کا علم کسی خاص شعبے میں محدود نہیں ۔ جن لوگوں نے میرے شباب کا علم دیکھا ہے اس کا نمونہ دیکھنا ہو تو اسماعیل کو دیکھ لیں۔ ان اکا برِعلم کی بیعت نے وقت کے اکثر اصحاب کی توجہ سیّد صاحب کی طرف پھیر دی۔ دور دور سے لوگ بیعت کے لیے دہلی پہنچنے لگے۔ شاہ اسماعیل نے شاہ عبدالعزیز کے پوچھنے پر بتایا کہ سیّد عالی تبارکے رتبے کا اندازہ میرے لیے مشکل ہے البتہ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ آپ کو دو علم عطا ہوئے تھے۔ علِم ظاہر کے حامل شاہ عبدالقادر ہوئے۔ علِم باطن کی وراثت سنبھالنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے سیّدصاحب کو کھڑا کر دیا۔ یہ سن کر شاہ عبدالعزیز نے اپنے بارے میں کلمات عجز کہے‘ پھر فرمایا۔’’میاںیہ بات سمجھنے کے لائق ہے ‘بارگاہِ احدیت کے محب بہت ہیں‘ محبوب کمیاب ہیں۔ محب ہمیشہ بلاؤ محنت اور رنج و کلفت میں مبتلا رہتے ہیں‘اس کے برعکس محبوبوں کو کوئی تکلیف نہیں دیتا بلکہ ان کی راحت و آرام کو دل و جان سے پسند کیاجاتا ہے۔‘‘ شاہ اسماعیل فرماتے ہیں کہ شاہ عبدالعزیزؒ نے نام تو نہیں لیا لیکن اشارے بداہتہً سیّد احمد ہی کی طرف تھے کہ وہ بارگاہِ احدیت کے نزدیک درجہ محبوبیت پہ فائز تھے۔
بیعت شروع ہونے کے تھوڑے دن بعدسیّدصاحب کے پاس مخلصوں کی ایک جماعت فراہم ہو گئی۔ یہ اس تنظیم کی ابتداء تھی جس کے لیے آپ اپنی زندگی وقف کرچکے تھے۔ پھر شاہ عبدالعزیز کے مشورے پرسیّدصاحب نے دو آبے یعنی گنگا اور جمنا کے درمیان کے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں کا دورہ کیا۔ سیّدصاحب کا دورہ بہ ہمہ وجوہ کامیاب رہا۔ آپ نے محسوس کیا کہ لوگ اغیار کے تسلط کو ختم کرنے کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کا آغاز اور حکومتِ اسلامیہ کی تائسیس دل و جان سے چاہتے
ہیں۔ اسی طریقے پر دعوت احیاء اسلامیت دیتے ہوئے وہ رائے بریلی پہنچے۔ پھر اسی رنگ میں انہوں نے الہ آباد‘ بنارس‘ کانپور‘ لکھنو وغیرہ کے اطراف میں دورے کئے۔ یہاں تک کہ فدا کاران اسلام کی ایک قدوسی جماعت تیار ہو گئی اور مستقلًا جہاد کا آغاز ہو گیا۔
ہندوستان میں اس وقت تصوّف کے طریقے قادری‘ چشتی اور نقشبندی رائج تھے۔ ایک طریقہ شیخ احمد سرہندی کے انتساب کے باعث مجدد یہ کہلاتا تھا۔ سیّدصاحب ان طریقوں کے علاوہ طریقہ محمدیہ میں بھی بیعت لیتے تھے۔ طریقہ محمدیہ یہ تھا کہ زندگی کا ہر کام صرف رضائے الٰہی کے لیے کیاجائے ۔ نکاح کی غرض یہ ہو کہ انسان فسق و فجور سے بچا رہے۔ تجارت یا ملازمت اس نیت سے کی جائے کہ حلال روزی کما کر خود بھی کھائے اور اہل و عیال کو بھی کھلائے۔ رات کے آرام کا مدعا یہ ہو کہ جوف لیل میں اٹھ کر نماز تہجد ادا کرے اور فجر اول وقت پڑھے۔ کھانا اس لیے کھائے کہ جسم میں بقدر ضرورت طاقت بحال رہے تاکہ انسان اللہ کے احکام مستعدی سے بجا لائے ۔ نماز پڑھے ۔ روزے رکھے‘ حج کے لیے جائے اور ضرورت پڑے تو جہاد کے لیے تیار ہو۔ غرض مقصود احکام خدا وندی کی بجاآوری اور مرضیات باری تعالیٰ کی پابندی کے سوا کچھ نہ ہو۔ بہ الفاظ دیگر ہر فرد آیہ مبارکہ ان صلاتی ونسکی و محیا یٰ ومماتی للّٰہ رب العالمین کا عملی نمونہ بن جائے۔۔۔۔ رام پور میں اس مرتبہ جن اکابر نے بیعت کی‘ ان میں نواب احمد علی والی رام پور بھی تھے۔
جہاد کا معاملہ
سیّد صاحب جہاد کا پختہ ارادہ کر چکے تھے۔ آپکے نزدیک پہلا ہدف انگریز تھے‘ جوہندوستان کے بہت بڑے علاقے پر قابض ہو چکے تھے۔ سکھوں سے آغازِ جہاد اس لیے ہوا کہ سیّدصاحب نے جہاد کے لئے جو مرکز تجویز کیا تھا‘ اس میں سکھ سب سے پیشتر سامنے آگئے۔ اس مسئلے پر مفصل بحث بعد میں اپنے وقت پر کی جائے گی۔رائے بریلی میں سیّد صاحب اپنے ارادت مندوں کے ساتھ اکثر ذکر و فکر اور مراقبوں میں مشغول رہے۔ تاہم وقتاً فوقتاً جہاد کا ذکر بھی آتا رہتا تھا۔ پھر ایک روز آپ نے حکم دے دیا کہ تمام رفیق اور اراتمند زیادہ وقت جنگی فنون کی مشق میں صرف کیا کریں۔اس طرح اپنے ساتھیوں کے دلوں میں سیّد صاحب نے جہاد کی اہمیت ثبت کر دی۔ دین کا نصب العین اعلائے کلمتہ الحق تھا‘ اس لیے ذکر اور مراقبہ سے ہٹا کر آپ نے ساتھیوں کو جہاد کی تیاری میں لگا دیا۔
دیگر کارنامے ۔
سیّد صاحب نے احیائے سنت کے جو کارنامے انجام دیئے‘ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اپنے گھر سے نکاح بیوگان کا آغاز کیا۔ بے شمار بیوگان آپ کی کوشش سے نکاح ثانی پر راضی ہو گئیں اور پرسکون سائبان کے تحت بقیہ زندگی امن سے گزارنے لگیں۔ اس کے بعد آپ نے بہت سے تبلیغی دورے کیے الہ آباد‘، سلطان پور‘ کانپور‘ لکھنو وغیرہ کے اور بہت سے لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور آپ کی تبلیغ سے غلط اعتقاداور عملی خرابی کا خاتمہ ہوا۔
حج کا غیر متوقع فیصلہ۔
سیّدصاحب نے نواب امیر خان سے الگ ہو کر جہاد کے لیے جس مستقل سکیم کا فیصلہ کیا تھا‘ وہ اس حد تک پوری ہو چکی تھی کہ آپ ہندوستان سے ہجرت کر کے ایک آزاد مقام پر جا بیٹھے ۔ اس طرح اصل کا م بھی کر تے اور تنظیم کو بھی ساتھ ساتھ پورے اہتمام سے چلاتے جاتے۔ ایک روز آپ نے اچانک حج کو چلنے کا ارادہ فرمایا۔ وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ علمائے ہند کے ایک گرو ہ نے بحری سفر میں اندیشہ ہلاکت کے پیش نظر فریضہ حج کے اسقاط کا فتویٰ دے دیا تھا۔ غور و فکر کے بعد سیّد صاحب اس نتیجے پر پہنچے کہ خود حج کریں‘ مسلمانوں کو صلائے عام دے دیں کہ جس کا جی چاہے تیار ہو کر آ جائے‘ خواہ اس کے پاس خرچ ہو یا نہ ہو‘ میں اپنی ذمہ داری پر سب کو حرمین شریفین پہنچاؤں گا اور اللہ کے فضل و کرم سے حج کر اکے واپس لاؤں گا۔ اسقاطِ فریضہ حج کی دلیل علمی اعتبار سے بھی کمزور تھی‘ اگرچہ جہاز بعض اوقات ڈوب جاتا ہے مگر چونکہ بالاکثر بہ سلامت منزلِ مقصود پر پہنچ جاتا ہے اس لیے گاہ گا ہ کی غرقابی کوپر امن طریق کے خلاف نہیں سمجھا جا سکتا۔ پھر بھی فتنے کے انسداد کے لیے ایک زبردست عملی اقدام
کی ضرورت تھی۔ یہ اقدام ایک اولو العزم قائد اور ایک بلند ہمت رہنما کی سبقت بالخیرات کے سوا پورا نہ ہو سکتا تھا۔ سیّدصاحب کواللہ تعالیٰ نے اپنے فضلِ خاص سے یہ اوصاف عطا کئے تھے‘ لہٰذا وہ بظاہر فقدان وسائل کے باوجود میدانِ عمل میں آ گئے۔ ان کے سوا کون ایسے اہم کام کا بیڑا اٹھا سکتا تھا۔
سفر کا انتظام
سیّد صاحب گھر سے خالی ہاتھ چلے تھے۔ راستے میں تحائف و ہدایاکی شکل میں جو کچھ ملا اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ آپ کے کل رفقاء حج سات سو ترپن(۷۵۳) تھے۔ ان میں سے چھ سو ترانوے کا کرایہ بیس روپے فی کس کے حساب سے تیرہ ہزار آٹھ سو ساٹھ روپے (۳۸۶۰ا)کی رقم محض کرائے پر ادا کی گئی۔ ساٹھ عازمین مساکین میں محسوب ہوئے اور ان کا کرایہ نہ لیا گیا۔ پورا قافلہ دس جماعتوں میں تقسیم کیاگیا جن کے لیے دس جہاز کرائے پہ لئے گئے۔ ہر جماعت کا ایک ایک امیر مقرر کیاگیا‘ ایک جہاز میں ۵۰ا افراد سوار تھے‘ ان کے امیرسیّدصاحب خود تھے۔ باقی نو جہازوں میں سوار عازمین حج کے لیے بھی بہت سمجھدار امیر مقرر کئے گئے۔ سامان خورد و نوش آٹا‘ چاول اور دال کی خرید میں ہی سات ہزار تین سو ستاسی روپے خرچ ہوگئے ۔ چھ سو رو پے کے برتن خریدے اور عورتوں کے لیے جہازوں میں پردہ دار جگہوں کا انتظام کیا گیا‘جس پرمزید بارہ سو خرچ آئے۔گویا کل تئیس ہزار سنتالیس (۲۳۰۴۷)روپے صرف ہوئے۔ اس پاک نفس سیّدکی کرامت کا اس سے روشن تر ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ جو خود خالی ہاتھ گھر سے نکلا تھامگر پورے ملک کے مسلمانوں کو حج کے لیے صلائے عام دیتا آیا جبکہ کلکتہ سے صرف حجاز تک کا خرچ (۲۳۰۴۷) روپے تھا۔پھر خود حجاز میں ہزاروں روپے صرف ہوئے۔ پھر پورے قافلے کو اسی اہتمام کے ساتھ واپس لایا گیا اور جب تک لوگ گھروں میں نہ پہنچ گئے ‘ ان کے کھانے پینے کا پورا خرچ سیّدصاحب کے ذمے تھا۔ علاوہ بریں سیّدصاحب عام غربا ء کو بھی رقمیں دیتے رہے۔ اس مد میں کم و بیش دس ہزار روپے خرچ ہوئے۔
حرمین شریفین میں قیام
قیام کے دوران سیّد صاحب اور آپ کے رفقا ء نے جی بھر کے دونوں حرموں کی زیارتیں بھی دیکھیں‘طوافِ کعبہ اور ریاض الجنۃ میں نمازوں کی ادائیگی کے جو دل میں ارمان تھے‘ خوب نکالے۔ مگر بقول غالب مرحوم ’’بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے‘‘خود سیّدصاحب کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ طواف میں خیال آیا کہ اہل و عیال ساتھ ہیں اب ہندوستان کیوں جاؤں جو دارالحرب ہے۔ بہتر ہے حرم پاک ہی میں بیٹھا رہوں ۔ لیکن غیب سے اشارہ ہوا کہ تم یہاں بیٹھے رہو گے تو ہم اپنا کام کسی دوسرے سے لے لیں گے۔ اس پر واپسی کا ارادہ پختہ ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ کونسا کام لینا چاہتے تھے۔
وہی جہا د کا فریضہ جس کے لیے اللہ پاک نے سیّد صاحب اور ان کے جان نثار ساتھیوں کو چنا ہوا تھا ۔ پس حرمین سے واپسی کے بعد سیّدصاحب ہمہ تن جہاد کے سرو سامان میں مشغول ہو گئے‘ جس کے لیے وہ اپنی حیات گراں مایہ وقف کر چکے تھے۔ آپ کے داعی شہر بہ شہر قریہ قریہ دورے کرتے رہے اور جو غازی ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے سرفروشانہ میدانِ عمل میں آئے وہ سینکڑوں مختلف مقامات کے باشندے تھے۔ پھر سیّدصاحب سرحد چلے گئے تو اس کے بعد بھی جگہ جگہ سے لوگ تیار ہو کر آتے رہے۔ روپیہ بھی فراہم ہوتا رہا ۔ یہ سب کچھ اللہ کی مدد سے ہوتا رہا۔
سیّدصاحب کا عقیدہ کیا تھا۔
بلا شبہ آپ کا عقیدہ اعلائے کلمتہ اللہ اور احیائے سنت سید المرسلین تھا اور ساتھ ساتھ وہ بلادالمسلمین کو کفار کے قبضے سے آزاد کرانابھی بہت ضروری سمجھتے تھے اور کفار میں سکھوں اور مرہٹوں کے مقابلے میں وہ انگریزوں کو پہلا ہدف سمجھتے تھے کیونکہ انگریز ہی ہندوستان کے وسیع علاقوں کو مسلمانوں سے چھین کر اپنے قبضے میں لائے تھے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ مرکز جہاد کے لیے صوبہ سرحد کو صدہا مصلحتوں کے باعث جب چنا گیا تورنجیت سنگھ والیء لاہور نے چونکہ سرحد کے مسلمانوں کو تنگ کررکھا تھا‘طرح طرح کی اذیتیں پہنچاتا تھا تو اس وجہ سے ہندوستان کو انگریزوں کے قبضے سے چھڑانے سے پہلے سکھوں سے مڈبھیڑ ہو گئی ورنہ جہاد کے عمل کو سکھوں سے جنگ کر کے شروع نہیں کرنا تھا اور اس حوالے سے مورخین کا یہ بیان کہ جہاد شروع ہی سکھوں کا زور توڑنے کے لیے کیا گیا‘ باطل بلکہ غلط ہے ۔ سکھ راجہ رنجیت سنگھ کی دریائے ستلج اور دریائے سندھ کے درمیان کے پنجابی علاقہ میں کوئی باقاعدہ حکومت نہ تھی‘وہ زیادہ سے زیادہ ایک فوجی غلبہ اور عسکری تسلط تھا اور ایسے غلبہ و تسلط میں کبھی کوئی کام قاعدے ضابطے کی بنا پر انجام نہیں پاتا ۔ حکومت کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ حاکم و محکوم کے درمیان کم یا زیادہ ربط و تعلق ہو جو ایک دوسرے کے لیے ہمدردی اور باہمی حقوق کی پاسداری پر مبنی ہو ۔ مگر راجہ رنجیت سنگھ کے یہاں نہ کوئی ربط و تعلق تھا نہ ہمدردی یا حقوق کی پاسداری کاکوئی عملی ثبوت تھا۔ سکھوں کا یہ بالکل عارضی سا دور تھا جو رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد نہایت مختصرعرصے میں ختم ہو گیا اور رنجیت سنگھ کے جانشینوں کی انگریز فوج کے ہاتھوں شکست کے بعد سارا پنجاب انگریزوں کی حکمرانی کے تحت آگیا۔ سو اصل واقعہ یہی ہے کہ سیّد صاحب کا جہاد انگریزوں کی حکمرانی سے ہندوستان کے وسیع علاقوں کو آزاد کرانا تھا جو انہوں نے مسلمانوں سے طرح طرح کے حیلوں بہانوں بشمول رشوت ‘ جوڑ توڑ اور جنگی مہمات کے چھین لیے تھے۔ البتہ اس اصل جہاد کے لیے آپ نے سرحد کے علاقے کو کئی مصلحتوں کی وجہ سے منتخب کیا تھا۔
مالوفات کی قربانی۔
انسان کا دل ماں باپ‘ بال بچوں‘ گھر بار‘مال و دولت اور احباب و اقرباء کی محبت کی زنجیروں میں جکڑا ہوتا ہے۔سیّد صاحب جہاد کے اعلیٰ فریضہ کی ادائیگی کے لیے ان سب زنجیروں کو توڑ کر ۷اجنوری۸۲۶ا دوشنبہ کے دن اپنے گھر رائے بریلی سے نکلے ۔ خادم کی معرفت تہہ خانہ سے رقم نکلوائی گئی تو دس ہزار روپے نکلے۔ سیّد صاحب نے پانچ ہزار بیبیوں کے حوالے کر دیئے اور پانچ ہزار اپنے لئے رکھے۔ چھوٹی چھوٹی رقمیں تھیلیوں میں سلوائیں اور یہ تھیلیاں مختلف غازیوں کی کمروں میں باندھ دیں۔ غازی جو ساتھ تھے ان کی تعداد ساڑھے پانچ سو تھی۔ یہ سرو سامان اربابِ دانش و تدبیر کی نگاہ میں کیا وقعت رکھتا تھا۔ لیکن قوت عزم و ایمان کے کرشمے دیکھئے کہ سرحد پہنچ کر کام شروع کیا تو ساڑھے چار برس تک پنجاب کی سکھ حکومت کو معرضِ اضطراب میں ڈالے رکھا‘ یہاں تک کہ وہ ایک موقع پر پورا سرحدی علاقہ دے کر صلح کر لینے کے لیے تیار ہو گئی تھی۔ اگر اپنوں کی غرض پر ستیاں رخنہ انداز نہ ہوجاتیں تو معاملہ اسی زمانے میں تکمیل کی آخری منزل پر پہنچ جاتا۔
نہ برگ و ساز کی پروا نہ انتظارِ رفیق یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
اگر خدا پہ بھروسہ ہے، ہو یگانہ رواں خدا سے بڑھ کے نہیں برگ و ساز کی توفیق
جہاد کے لئے سرحد کا سفر
سیّدصاحب کا جہادی قافلہ رائے بریلی سے رخصت ہو کر مختلف شہروں قصبوں‘پر ٹھہرتے ہوئے بالآخر سندھ‘ بلوچستان ہوتاہوا افغانستان میں قندھار جاپہنچا ۔ وہاں سے غزنی پھر آگے کابل جاکر قیام کیا۔ وہاں ڈیڑھ ماہ قیام کیا۔ پھر پانچ روز کا سفر طے کر کے پشاور پہنچے۔ وہاں تین یا چار دن ٹھہرے اور آگے چار سدہ کا قصد فرمایا۔ سارے علاقے کا دورہ کر کے عوام کو جہاد کے لیے منظم کیا۔ بہت سے مقامی لوگوں نے بھی سیّد صاحب کے ہاتھ پر جہاد کے لیے بیعت کی۔
اس طرح آپ کے ساتھ تقریبا پندرہ سو مجاہدین جمع ہو گئے۔ پانچ سو ہندوستانی‘ کچھ اوپر دو سو قندھاری اور کوئی آٹھ سو سرحد کے مقامی جو اپنے گھروں سے کھانا کھا کر آتے تھے ۔ سیّد صاحب اپنے لشکر کے ساتھ نوشہرہ پہنچے۔
اکوڑہ کا پہلا معرکہ
اکوڑہ پہنچے تووہاں سکھوں کا ایک جاسوس پکڑا گیا جوسیّدصاحب کے سامنے پیش ہوا تو اس نے سکھوں کی چاکری سے توبہ کی اور جہاد پربیعت کر لی۔ اس نے بتایا کہ بدھ سنگھ دس ہزار کا لشکر لے کر اکوڑہ میں داخل ہو چکا ہے۔ دشمن کے قرب کے پیش نظر سیّدصاحب نے حکم دے دیا کہ غازی کمر نہ کھولیں اور کھانا کھا کر تیار رہیں۔ آپ کا ارادہ تھا کہ سکھوں سے پہلے شبخون مار کر دشمن کو نقصان پہنچایاجائے۔ جب لشکر کے گھڑیال نے تین پہر پر تین گھڑیاں بجاءَیں تو اس کے ساتھ ہی غازی اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے سکھ لشکر میں گھس گئے۔ خیموں کی طنابیں کاٹیں ۔ تلواروں اور بندوقوں سے کام لینا شروع کر دیا۔ پوری لشکر گاہ میں سراسیمگی پھیل گئی۔شبخون کامیاب رہا لیکن اہل سرحد اپنی عام عادت کے مطابق اصل کام چھوڑ کر مال و متاع سمیٹنے لگے۔ اس جنگ میں چھتیس ہندوستانی اور
چھیالیس قندھاری غازی شہید ہوئے۔ سکھوں میں مقتولین کی تعداد سات سو سے کم نہ ہو گی۔ نتیجے میں بدھ سنگھ کے پائے ثبات میں تزلزل پیداہو گیا اور وہ اکوڑہ سے ہٹ کر شید و پہنچ گیا جو چار پانچ میل جنوب میں تھا۔ اس کا ارادہ تھا کہ دریائے اباسین کو عبور کر کے اٹک چلا جا ئے لیکن قلعہ دار اٹک نے یہ کہہ کر روکا کہ اگر سرحدی علاقے سے فوج ہٹا لیں تو اٹک خطرے میں پڑ جائے گا اور اگرسیّدصاحب نے اپنے لشکر کو لے کر یورش کر دی تو مقابلہ مشکل ہو جائے گا ۔ایک طرف سکھ سیّد صاحب کے جوانمردغازیوں کے پرزور عزم سے ڈرے ہوئے تھے اور دوسری طرف لوگ جو ق درجوق سیّدصاحب کے پاس جہاد میں حصہ لینے کے لئے پہنچنے لگے اور ان کے جھنڈے تلے لڑنے کو باعثِ فخر سمجھنے لگے ۔ حق یہ ہے کہ اجبنی تسلط سے نجات حاصل کرنے کی یہی واحد جائے امید تھی۔
مزید معرکے
اکوڑہ کے پہلے کامیاب معرکے کے بعد سیّدصاحب کے جہادی لشکر کوکئی دیگر معرکوں میں اپنی جاں نثاری کے جوہر دکھانے کے موقعے ملے جن کی فہرست نیچے دی جا رہی ہے۔
ا۔ حضرو کی لڑائی
۲۔ شیدو کی لڑائی
۳۔ ہزارہ کی جنگ
جس میں سکھ جرنیل ہری سنگھ نلوہ نے بڑی کامیابی حاصل کی اور فتح کا جشن منایا اور ایک نئی بستی ہرکشن گڑھ کے نام سے آباد کی جو بعد میں ہری پور کے نام سے مشہور ہوئی اور آج کل ایبٹ آباد کی تحصیل کا درجہ رکھتی ہے۔
۴۔ ڈمگلہ اور شنکیاری کے معرکے
۵۔ جنگ اتمان زئی
۶۔ جنگ ہنڈ
۷۔ جنگ زیدہ
۸۔ پھولڑہ کی جنگ
۹۔ جنگ مردان
۰ا۔ جنگ مایار
آخری رزمگاہ بالاکوٹ
اوپر بیان کیے گئے درجن بھر معرکوں کے بعدسیّدصاحب بالاکوٹ کے آخری معرکے پر پہنچ گئے جس میں اس پاک باطن مجاہد حق نے اپنے عزیز ترین مقصد حیات پر خونِ شہادت سے مہر لگائی۔ اس آخری رزمگا ہ میں بے شمار چھوٹی بڑی جھڑپیں شیر سنگھ کے لشکریوں اورسیّدصاحب کے مجاہدوں کے درمیان ہوئیں۔ طرفین کے لشکری زخم کھاتے رہے‘ جانیں لٹاتے رہے‘پھر سکھ جب بڑھتے بڑھتے قندھاری جماعت کے مورچوں سے تیس چالیس قدم کے فاصلے پر رہ گئے تو ملا لعل محمد نے ہلہ کر دیا۔ حضرت صاحب کو خبر ملی تو اگرچہ اتنے فاصلے سے حملے کا ارادہ نہ تھا لیکن قندھاریوں کو دیکھ کر دیر کرنا مناسب نہ جانا۔ چنانچہ آپ بھی بہ آواز بلند تکبیر کہتے ہوئے مسجد زیریں سے نکل کر حملہ آور ہوئے۔ دھان کی کیاریوں میں پہنچے اور تلوار چلنی شروع ہو گئی ۔ اس وقت یہ حال تھا کہ جو سکھ غازیوں کے مقابلے پر تھے‘ ان کے ہاتھوں اور بدنوں پر رعشہ پڑ گیا۔ بندوقیں نہ چلاسکے ۔ غازی لوگ ایک ہاتھ سے ان کی بندوق پکڑتے‘ دوسرے ہاتھ سے تلوار مارتے‘ سکھ پیچھے ہٹتے ہٹتے پہاڑ کی طرف چلے جاتے تھے۔ بے شمار سکھ اس وقت مارے گئے۔ سکھ سردار کے جوش دلانے پر اس کا لشکر پھر اکٹھا ہو کر دوبارہ مجاہدین پر حملہ آور ہوا۔ گھمسان کا رن پڑا ۔ سیّدصاحب دامن کوہ کے سکھوں کو مار کرمٹی کوٹ کے نالے میں بیٹھ گئے۔ آپ کے ساتھ بیس پچیس مجاہد وں کی جماعت بھی تھی۔سیّدصاحب کے ایک ہاتھ میں تلوار تھی ‘ دوسرے میں بندوق ۔ آپ نے داہنی چھاتی پر رکھ کر بندوق چلائی تو آپ کے ہاتھ پر تازہ خون نظر آیا۔ غالبا آپ کے مونڈھے میں گولی لگی۔ آپ کے قریب غازیوں کی کئی لاشیں تھیں۔ آپ کے سر پر بھی پتھر کا زخم تھا۔ پھر آپ نظر نہ آئے ۔ گویا وہیں گر گئے ۔ لیکن آپ کی لاش کسی نے نہ دیکھی۔ اس کے بعد شہادت کے بارے میں کوئی روایت نہ مل سکی‘ اس لیے کہ جو غازی ساتھ تھے اور جن کے سامنے شہادت ہوئی ‘ وہ خود بھی شہید ہو گئے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ سیّدصاحب مٹی کوٹ کے نالے میں دامن کوہ کے قریب زندگی کے آخری سانس تک لڑتے رہے اور اسی حالت میں شہید ہو گئے۔ اس آخری وقت میں قتال کے لیے آگے پیچھے ہٹنے کی اور اپنے لشکر کی کسی جماعت میں جا کر ملنے کی شریعت میں رخصت تھی مگر سید صاحب کی عزیمت اس کی روادار نہ ہوئی اور آپ اذا لقیتم الذین کفر وفلا تولو ھم الادبار(کہ جب کفار سے جنگ ہو رہی ہو تو ان کے سامنے سے پیٹھ نہ پھیرو ) ہی پر عمل پیرا رہے‘ خصوصاََ اس وجہ سے کہ جس مقام پر آپ کھڑے تھے وہ شجاعت کا مقام تھا نہ کہ تدبیر کا۔ زخمی ہو کر باہر نکلنے یا نکالے جانے کی ایک بھی شہادت نہیں۔ پس آپ کی شہادت بالیقین ان کی دلی تمنا کے مطابق ذیقعدہ ۲۴۶اکی چوبیسویں تاریخ مطابق۴ مئی ا۸۳ابروز جمعہ دن کے گیارہ بجے ہوئی۔
مشہد بالاکوٹ کے دیگر شہداء
سید صاحب شہید کے دیگر جاں نثاررفقاء مولانا شاہ اسماعیل‘ ارباب بہرام خان‘ قاضی علاؤالدین ‘ منشی انصاری اور کئی دوسرے مجاہدوں نے بھی رسمِ شبیر ی ادا کرتے ہوئے جانیں اسی پاکیزہ مقصد کے لیے اسی آخری بالاکوٹ کے معرکے میں لٹا دیں جہاں امیر المومنین نے شہادت کی خلعت پہنی تھی۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را بنا کر دند خوش رسمے بہ خاک و خون غلطیدن
الّٰلھُمَّ اغْفِرْلَھُمْ وَ سَکِّنھُمْ فیِ الْجَنَّۃِ الْفِرْدَوْسِ ایں دعا ازمن وازجملہ جہاںآمیں باد!
No comments:
Post a Comment