دوسری کہانی
ابو عبیدہؓ بن الجراّح
یہ کہانی اس امت کے امین حضرت عامر بن عبداللہؓ بن جرّاح الفہری القرشی کی ہے جن کی کنیت ابو عبیدہؓ ہے اور تاریخ میں اسی کنیت کے حوالے سے مشہور ہیں‘ اصل نام ان کا بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ۔۔آپ خوش شکل ‘ہنس مکھ‘ اکہرے جسم‘ دراز قد اور ایسے تیکھے خدو خال والے تھے کہ دیکھنے والے کی آنکھوں کو سرور حاصل ہواور آپ سے ملاقات کرنے والے کی طبعیت مانوس ہو اور اسے دلی سکون میّسرآئے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ خوشحال‘ منکسر المزاج اور بہت ہی شرمیلے تھے لیکن جب کوئی افتاد آن پڑتی یا کوئی مشکل وقت آ جاتا تو پھر آپ شیر کی مانند چاق و چوبند ہو جاتے۔ آپ مجموعہ ء جلال و جمال تھے‘ طبیعت کی تیزی اور اثر و نفوذ میں چمک دار تیزتلوار کی طرح تھے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قریش میں تین شخصیات ایسی ہیں جن کے چہرے تمام لوگوں سے بڑھ کر زیادہ حسین‘ جن کا اخلاق سب سے زیادہ عمدہ اور جن میں حیاء سب سے زیادہ پائی جاتی ہے ۔ اگروہ آپ سے گفتگو کریں تو قطعاً جھوٹ نہ بولیں گے‘ اگر آپ ان سے کوئی بات کریں تو وہ جھٹلا ئیں گے نہیں۔ میری نظر میں وہ تین عظیم شخصیات یہ ہیں۔
ا۔ حضرت صدیق اکبرؓ
۲۔ حضرت عثمانؓ بن عفان
۳۔ حضرت ابو عبیدؓہ بن جرّاح
حضرت ابو عبیدہؓ کا شمار ان صحابہ کرام میں ہوتا ہے جنہوں نے اسلام قبول کرنے میں سبقت کی۔ آپ حضرت صدیق اکبرؓ کے اسلام قبول کرنے کے بعد دوسرے روز ہی مسلمان ہو گئے تھے۔
حضرت ابو عبیدہؓ بن جرّاح‘حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف‘حضرت عثمانؓ بن مظعون اور حضرت ارقمؓ بن ابی الار قم حضرت صدیق اکبرؓ کے ہمراہ رسول اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کے روبرو کلمہ حق لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔
آپ ان عظیم شخصیات میں سے ہیں جن کے توانا کردار اسلام کے عظیم الشان محل کی بنیاد کے پتھر قرار پاتے ہیں۔
حضرت ابو عبیدہؓ نے مکہ معظمہ میں شروع سے آخر تک مسلمانوں کو پیش آنے والے تلخ حالات میں زندگی بسر کی‘ ایسی شدید تکالیف اور رنج و الم میں ان کا ساتھ دیا کہ جن شدائد و تکالیف کا روئے زمین پر بسنے والے کسی بھی دین کے پیروکاروں کو شاید کبھی سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔یہی وہ مردانِ جری تھے ‘جنہوں نے تب بھی استقامت دکھائی جب سماجی بائیکاٹ کر کے کفارِ مکہ نے انہیں شعب ابی طالب میں اتنا مجبور کر دیا تھا کہ یہ نفوس قدسی اپنے جوتوں کے چمڑے تک ابال کر چبانے پر مجبور ہوگئے۔ انہی میں اللہ کا وہ محبوب تھا جس کو اہلِ طائف نے لہو لہان کر دیا تو اہلِ مکہ نے واپسی پر مکہ میں آنے سے روک دیا‘ وہ آئے تو ایک قبیلہ کی پناہ لے کر ہی آ سکے تھے۔ آپ اس دور ابتلاء میں ثابت قدم رہے اور ہر صورت میں اللہ تعالیٰ اور رسولِ مقبول ﷺ کو صمیم قلب سے سچا مانا۔ لیکن میدانِ بدر میں حضرت ابو عبیدؓ بن جرّاح کو پیش آنے والی آزمائش اس قدر نازک تھی کہ انسانی تخیل میں بھی نہ آسکے۔ غزوہ بدر میں حضرت ابو عبیدہؓ بے خوف و خطر دشمنوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھتے جارہے تھے ۔ آپ کے اس جرأت مندانہ اقدام سے دشمنوں میں بھگدڑمچ گئی۔ آپ میدانِ جنگ میں اس طرح بپھرے ہوئے چکر لگا رہے تھے کہ جیسے موت کا کوئی ڈر ہی نہ ہو۔ آپ کا یہ انداز دیکھ کر قریش کے شہسوار گھبرا گئے ۔ جو نہی آپ ان کے سامنے آتے تو وہ خوفزدہ ہو کر ایک طرف ہو جاتے۔ لیکن ان میں صرف ایک شخص ایسا تھا جو آپ کے سامنے اکڑ کر کھڑا ہو جاتا اور آپ اس سے پہلوتہی اختیار کرجاتے۔ با لآخر اس شخص نے جناب ابو عبیدہؓ کے لیے تمام راستے بند کر دیئے۔ حتی ٰ کہ وہ آپ کے اور دشمنانِ اسلام کے مابین حائل ہو گیا ، لیکن جب آپ نے دیکھا کہ اب کوئی چارہ کار باقی نہیں رہا تو اس کے سر پر تلوار کا ایسا زور دار وار کیا جس سے اس کی کھوپڑی کے دو ٹکڑے ہو گئے اور وہ آپ کے قدموں میں ڈھیر ہو گیا۔
کیا آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ قتل ہونے والا کون تھا؟ بلا شبہ میدانِ بدر میں حضرت ابو عبیدہؓ کو پیش آنے والی یہ آزمائش حساب دانوں کے حساب سے بھی ماوراء تھی اور ایسی نازک کہ انسانی قوّت وادراک میں بھی نہ آ سکے۔ جب قاری یہ پڑھے گا کہ یہ لاش تو جناب ابو عبیدہؓ کے والد عبداللہ بن جراح کی تھی تو آپ انگشت بدنداں رہ جائیں گے۔
دراصل حضرت ابو عبیدہؓ نے اپنے باپ کو قتل نہیں کیا بلکہ انہوں نے میدانِ بدر میں اپنے باپ کے ہیولے کی شکل میں شرک کو نیست و نابود کر دیا ۔ آپ کا یہ اقدام اللہ سبحانہ تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ آپ کی شان میں درج ذیل آیات نازل کر دیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
لا تجد قوماََ یؤمنون باللہ والیوم الآخر یوآدّون من حآ دّ اللہ ورسولہ ولو کانو آ بآء ھم او اخوانھم او عشیر تھم اولءِک کتب فی قلوبھم الایمان وایّدھم بروح منہ ویدخلھم جنّات تجری من تحتھا الانھار خالدین فیھا رضی اللہ عنھم ورضواعنہ اولئک حزب اللہ الا انّ حزب اللہ ھم المفلحونo(المجادلہ، آیت۲۲)
ترجمہ: ۔ تم کبھی یہ نہ پاؤ گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہوں‘ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺکی مخالفت کی ہے‘خواہ وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے اہلِ خاندان ‘ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کر کے ان کو قوت بخشی ہے‘ وہ ان کو ایسی جنّتوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہتی ہوں گی‘ ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہی لوگ اللہ کا گروہ ہیں۔ خبردار رہو ! اللہ کا گروہ فلاح پانے والا ہے۔
حضرت ابو عبیدہؓ کے لیے یہ کوئی انوکھا کارنامہ نہیں تھا ۔ وہ تو اپنی قوتِ ایمانی‘ جذبہ ء دینی اور امتِ محمد ﷺ میں امانت و دیانت کے اس اعلیٰ مقام پر فائز تھے جس کے لیے بڑی بڑی ہستیاں اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ہاں آرزو مند رہتی ہیں۔
حضرت محمد بن جعفرؓ بیان فرماتے ہیں کہ عیسائیوں کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ حضرت ! اپنے صحابہؓ میں سے ہمارے ساتھ کسی ایسے شخص کو روانہ فرمائیں جسے آپ مناسب سمجھتے ہوں ۔ وہ ہمارے ان باہمی مالی اختلافات کو نپٹائے جو شو مئی قسمت سے شدّت اختیار کر چکے ہیں۔ ہم برملا یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہمیں مسلمان بہت پسند ہیں۔ اللہ اللہ کیا زمانہ تھا کہ غیر مسلم اپنی زبان سے اہلِ اسلام کے کردار کی پسندیدگی بیان کرتے۔ یہ صحابہ کی بلندئیِ کردار کا کرشمہ تھا۔
ان کی باتیں سن کر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : شام کو میرے پاس آنا۔ میں آپ کے ساتھ ایک ایسا شخص روانہ کروں گا جو طاقتور بھی ہے اور دیانتدار بھی ۔حضرت عمرؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں اس روز جلدی جلدی نماز ظہر کے لیے مسجد نبوی ﷺ میں آیا کہ شاید اس انتخاب میں میرا نام آجائے۔ بخدا! مجھے کوئی امارت و قیادت کا شوق نہ تھا بلکہ میری یہ تمنا تھی کہ وفد کے سامنے رسول ﷺ نے جو اوصاف بیان فرمائے ہیں‘ ان کا مصداق میں ٹھہروں۔ آپ ﷺ جب نماز ظہر سے فارغ ہوئے تو بڑے غور سے دائیں بائیں دیکھنے لگے۔ اس دوران میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تاکہ آپ ﷺ کی نظر مجھ پر پڑے۔ آپ ﷺ مسلسل نمازیوں کی طرف دیکھتے رہے ‘یہاں تک کہ آپﷺ کی نظر کرم حضرت ابو عبیدہؓ پہ پڑی۔اشارے سے انہیں اپنے پاس بلایا اور ارشاد فرمایا: کہ آپ اس وفد کے ساتھ جائیں اور ان کے باہمی اختلافات کو عدل و انصاف کے ساتھ نپٹائیں۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں اس موقع پر بے اختیار پکار اٹھا کہ آج ابو عبیدہؓ مجھ سے بازی لے گئے۔
حضرت ابو عبیدہؓ دیانت و امانت کے اعلی مقام پر فائز تھے اور آپ میں قائدانہ صلاحیت بدرجہ ء اتمّ پائی جاتی تھی۔ بہت سے مواقع پر آپ کی دیانت و امانت اور قائدانہ صلاحیتوں کا نہایت خوش اسلوبی سے اظہار بھی ہوا۔
ایک روز رسول اللہﷺ نے صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت کو قریش کے ایک قافلے کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ حضرت ابو عبیدہؓ کو اس جماعت کا امیر مقرر کر دیا اور زادِ راہ کے لیے کھجوروں کا ایک تھیلا عطا فرمایا۔ صورتِ حال یہ تھی کہ آپ کے پاس اس کے علاوہ مجاہدین کے زادِ راہ کے لیے کوئی اور چیز نہ تھی۔ اس سفر میں صحابہء کرامؓ نے کمال صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور امیرِ قافلہ حضرت ابو عبیدہؓ نے بھی قیادت و امانت کا حق ادا کر دیا۔ آپ روزانہ ہر ایک مجاہد کو ایک کھجور دیتے اور وہ اسے کھا کر پانی پی لیتا اور یہ خوراک دن بھر کے لیے کافی ہوتی۔
غزوہء احد میں جب عارضی طور پر مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو ایک مشرک بڑے غضبناک انداز میں چلاّ رہا تھا۔ مجھے بتاؤ کہ مسلمانوں کا نبیﷺ کہاں ہے؟ اس ناز ک وقت میں حضرت ابو عبیدہؓ ان دس جاں نثار صحابہ میں سے ایک تھے جنہوں نے رسول اللہ ﷺکے گرد گھیرا ڈال رکھا تھا اور اپنے سینوں پر دشمن کے تیر کھا کر حضرت محمد ﷺ کی جانب سے دفاع کافریضہ سرانجام دیا۔ جب جنگ کا زور ختم ہوا تو صورتِ حال یہ تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے کے دانت مبارک شہید ہو چکے تھے‘ آپ ﷺ کی پیشانی مبارک زخمی ہو چکی تھی اور آپ ﷺ کے رخسار مبارک میں خود کے دو حلقے پیوست ہو چکے تھے ۔ آپ ﷺ کی یہ حالت دیکھ کر صدّیق اکبرؓ تیزی سے آگے بڑھے تاکہ آپ کے رخسا ر مبارک میں دھنسے ہوئے خود کے حلقے نکال دیں۔ اتنے میں ابو عبیدہؓ نے آگے بڑھ کر عر ض کی ’’خدا را اس خدمت کا مجھے موقع دیں‘‘۔ آپ کا شوق دیکھ کر حضرت صدّیق اکبرؓ ایک طرف ہو گئے۔ حضرت ابو عبیدہؓ کو اندیشہ تھا کہ اگر ہاتھ سے ان حلقوں کو نکالا تو اس سے رسول اکرم ﷺ کو بہت تکلیف ہو گی آپ نے اس طرح کیا کہ اپنا ایک دانت مضبوطی سے ایک حلقہ میں پیوست کر دیا اور پورے زور سے دانت کودبا کر اسے رخسار مبارک سے نہایت نرمی کے ساتھ نکال دیا، لیکن اس زور آزمائی میں آپ کا وہ دانت جس سے لوہے کا حلقہ کھولا وہ ٹوٹ گیا۔پھر دھنسے ہوئے دوسرے حلقے میں اپنا دوسرادانت پیوست کر دیا اور اسی طرح دوسرا حلقہ بھی نکال دیا مگر اس کوشش میں آپ کا دوسرا دانت بھی ٹوٹ گیا۔ یہ لوگ تھے حضور ﷺ کے سچے عاشق ۔ حضرت صدّیق اکبرؓ فرماتے ہیں کہ اگلے دونوں دانت ٹوٹ جانے کے باوجود جناب ابو عبیدہؓ بن جرّاح نہایت خوبصورت دکھائی دیتے تھے۔
حضرت ابو عبیدہؓ تمام غزوات میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شریک رہے یہاں تک کہ رسول اللہﷺ ‘ اللہ کو پیارے ہوگئے۔
سقیفہ بنی ساعدہ میں بیعتِ خلافت کے دن حضرت عمرؓ بن خطاب نے جناب ابو عبیدہؓ سے کہا کہ اپنا ہاتھ آگے بڑھائیں تاکہ میں آپ کی بیعت کروں کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے ’’ہر امت کا امین ہوتا ہے اور اس امت کا امین حضرت ابو عبیدہؓ ہے‘‘ لیکن حضرت
ابو عبیدہؓ نے فرمایا’’ میں اس عظیم ہستی سے بھلا کیسے سبقت لے جا سکتا ہوں جسے رسول اللہﷺ نے اپنی زندگی میں ہمارا امام مقرر کر دیا ہو۔‘‘ اس کے بعد تمام صحابہ کرامؓ نے صدّیق اکبرؓ کے ہاتھ پر بالاتفاق بیعت کی۔ حضرت ابو عبیدہؓ صدّیق اکبرؓ کے دورِ خلافت میں ان کے معاون رہے۔ جب صدّیق اکبرؓ نے اپنی وفات سے پہلے فاروق اعظمؓ کو خلیفۃ المسلمین نامزد فرما دیا تو حضرت ابو عبیدہؓ فاروق اعظمؓ کے پورے دورِ خلافت میں آپ کے مدد گارو معاون اور اطاعت شعار رہے۔ صرف ایک حکم کے سوا کسی بھی معاملہ میں خلیفتہ المسلیمن کے کسی اور حکم کو تسلیم کرنے سے انکار نہ کیا۔واقعہ یہ ہے کہ حضرت ابو عبیدہؓ ملک شام میں لشکر اسلام کی قیادت کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے اور بڑی تیزی سے شہر در شہر فتح ہوئے جا رہے تھے۔ پورا ملک شام بھی فتح ہو گیا اور اسلامی حکومت کی سرحدیں مشرق میں دریائے فرات تک اور شمال میں ایشیائے کوچک تک پہنچ چکی تھیں۔ جب فتوحات کا سلسلہ پورے نقطہ ء عروج پر تھا‘ عین اس موقع پر شام میں طاعو ن کی ایسی خطرناک وباء پھیلی جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔لوگ بڑی تیزی سے اس بیماری کا شکار ہو رہے تھے۔ حضرت عمر ؓ کو جب اس نازک صورت حال کا علم ہوا تو فوراً ایک قاصد کو خط دے کر حضرت ابو عبیدہؓ کی طرف روانہ کیا ۔ خط میں یہ لکھا تھا کہ مجھے آپ سے ایک بہت ضروری کام ہے۔ خط ملتے ہی فوراً میری طرف چل پڑیں‘ رات کو میرا خط ملے تو صبح کا انتظار نہ کرنا‘اگر دن کو ملے تو پھر رات کا انتظار نہ کرنا۔ جب حضرت ابو عبیدہؓ نے فاروقِ اعظمؓ کا خط پڑھا تو فرمایا مجھے معلوم ہے کہ امیر المومنین کو مجھ سے کیا ضروری کا م ہے ۔ دراصل وہ ایک ایسے شخص کو باقی رکھنا چاہتے ہیں جو ا س دنیا میں ہمیشہ باقی رہنے والا نہیں ہے۔ پھر امیر المومنین کو اس خط کا یہ جواب تحریر کیا۔ \" امیر المومنین ! بعد از تسلیمات عرض ہے ۔ مجھے یہ علم ہے کہ آپ کو میرے ساتھ کیا ضروری کام ہے۔ میں اس وقت لشکرِ اسلام میں ہوں ۔ آج مسلمان جس مصیبت میں مبتلا ء ہیں‘ میں اس نازک حالت میں انہیں تنہا نہیں چھوڑ سکتا‘ نہ ہی میں ان سے جدا ہو نا چاہتا ہوں یہاں تک کہ ربِ ذوالجلال میرے اور ان کے متعلق اپنا فیصلہ صادر فرما دے۔ مجھے آپ اس سلسلے میں معذور سمجھتے ہوئے ان مجاہدین اسلام میں ہی رہنے کی اجازت مرحمت فرمائیں‘ والسلام۔‘‘
جب یہ خط امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کے پاس پہنچا‘ اسے پڑھ کر آپؓ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے۔ آپؓ کے پاس بیٹھے ہوئے صحابہ ء کرامؓ نے آپؓ کو زارو و قطار روتے ہوئے دیکھ کر دریافت کیا:’’ کیا حضرت ابوعبیدہؓ فوت ہو گئے ہیں؟‘‘ فرمایا!’’نہیں لیکن موت اب ان کے بہت قریب پہنچ چکی ہے۔‘‘ اس سلسلے میں حضرت فاروق اعظمؓ کا اندازہ غلط نہ تھا۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد جناب حضرت ابو عبیدہؓ طاعون کی خطرناک بیماری میں مبتلاء ہو گئے ۔ جب موت کا وقت قریب آیا تو آپؓ نے لشکر اسلام کو وصیت کی۔ فرمایا: ’’میں تمہیں آج ایک وصیت کرتا ہوں ‘ اگر آپ لوگوں نے اسے تسلیم کیا تو ہمیشہ خیریت سے رہو گے ۔ سنو !نماز قائم کرنا‘ رمضان کے روزے رکھنا‘ صدقہ و خیرات کرتے رہنا‘حج بیت اللہ کرنا اورعمرہ ادا کرنا‘آپس میں ایک دوسرے کو اچھی باتوں کی تلقین کرتے رہنا‘ اپنے حکمرانوں کے ساتھ خیر خواہی سے پیش آنا اور انہیں کبھی دھوکہ نہ دینا اور دیکھنا کہیں دنیاتمہیں غافل نہ کردے۔ ‘‘آخری بات یہ کہی کہ ’’میری یہ بات غور سے سنو!اگر کسی شحص کو ایک ہزار سال کی بھی عمر مل جائے تو آخر کار اس کا انجام یہی ہو گا جو آج میرا دیکھ رہے ہو ‘ موت سے کوئی بچ نہیں سکتا‘ سب کو میری طرف سے سلام اور تم پر خدائے ذوالجلال والاکرام کی رحمت ہو۔‘‘ پھر حضرت معاذ بن جبلؓ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا ۔ ’’معاذ لوگوں کو نماز پڑھایا کریں‘ اچھا خدا حافظ ۔ ‘‘یہ کہا اور آپ کی پاکیزہ روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ پھر اس موقع پر حضرت معاذ بن جبلؓ اٹھے اور ارشاد فرمایا:
’’لوگو! آج تم ایک ایسی شخصیت کے غم میں مبتلا ہو‘ اللہ کی قسم میں نے ان سے بڑھ کر نیک دل‘ حسد و بغض سے پاک سینہ‘ آخرت سے بہت زیادہ محبت کرنے والا اور عوام الناّس کے ساتھ خیر خواہی سے پیش آنے والا کسی اور کونہیں پایا ۔ سب مل کر خلوصِ دل سے دعا کرو کہ اللہ تعالی ان پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے‘‘۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
ایک اور واقعہ حضرت ابو عبیدہؓ کی زندگی کا یہ ہے کہ جب آپؓ کی قیادت میں بیت المقدس فتح ہوا اور وہاں کے لاٹ پادری نے استدعا کی کہ ہم شہر کی کنجیاں آسمانی کتاب میں دی ہوئی کچھ نشانیاں دیکھ کر آپؓ کو دیں گے تو آپؓ کی درخواست پر امیر المومنین حضرت عمرؓ بن خطاب تشریف لائے‘ آپؓ کی حالت یہ تھی کہ لباس میں سترہ پیوند لگے ہوئے تھے اور جب شہر میں داخلے کا وقت آیا تو اس وقت آپؓ سواری کی مہار پکڑے ہوئے تھے اور غلام اپنی باری پر سواری کررہا تھا۔ یہ دیکھ کر لشکر اسلام کے سرداروں نے امیر المومنین کو فاخرانہ لباس زیب تن کر نے کی تجویز دی تاکہ رومیوں پر اچھا اثر پڑے۔ مگر امیر المومنین نے فرمایا ہمیں اسلام سے عزّت ملی ہے‘ لباس سے نہیں۔ رومیوں نے جب مسلمانوں کے امیر کو اس فقیرانہ شان میں فاتح کی حیثیت سے شہر میں داخل ہوتے دیکھا تو دل سے تصدیق کرنے لگے کہ واقعی ہماری کتاب نے ایسے ہی شخص کو شہر کی کنجیاں سپرد کرنے کی پیشین گوئی کی تھی جو سچی ثابت ہوئی ہے۔
پھر جب حاکمیت مسلمانوں کے ہاتھ منتقل ہو جانے کی معمول کی کارروائی ختم ہوئی تو
امیر المومنین حضرت عمرؓ بن خطاّب نے حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح سے کہا کہ چلو مجھے اپنا گھر تو دکھاؤ۔ انہوں نے کہا ’’میرا گھر دیکھ کر کیا کریں گے ‘‘۔ تاہم جب آپ کا اصرار بڑھا تو حضرت ابو عبیدہؓ شہر سے باہر جنگل کی طرف دو تین میل کے فاصلے پر ایک معمولی سے خیمہ میں آپؓ کو لے گئے ۔معمولی چراغ کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو صرف ایک پانی کا برتن‘ ایک مٹی کا پیالہ‘ایک مصلیٰ ‘زمین پر لیٹنے کو ایک بوریا کا ٹکڑا نظر آیا۔ پوچھا ابو عبیدہؓ ! یہ کل اثاثہ ہے تمہارا؟ اور کھاتے پیتے کہاں سے ہو؟ اس پرانہوں نے خیمے کی چھت کے ایک کونے سے کپڑے میں لپٹی ہوئی ایک روٹی نکال کر دکھائی ۔ کہا ’’پانی میں بھگو کر کھا لیتا ہوں جو میرے لیے کافی ہے۔‘‘ یہ سب کچھ دیکھ کر امیر المومنین بہت روئے اور کہا ’’دنیا نے ہم سب کی حالت کو بدل کر رکھ دیا ہے‘ صرف آپ ہی ایسے ہیں جن پر ان فتوحات کا کوئی اثر نہیں پڑا۔‘‘ ایسی ہی عظیم الشان صفات تھیں حضرت ابو عبیدہؓ کی ‘ جن سے متاثر ہو کر امیر المومنین عمرؓ بن خطاب نے اپنے جانشین کے چناؤ کے لیے چھ اصحاب مبشرہ کا پینل بناتے وقت یہ کہا تھا کہ اگر آج ابو عبیدہؓ زندہ ہوتے تو میں ان کو جانشین نامزد کر کے آسانی سے سرخرو ہو گیا ہوتا۔
حضرت ابو عبیدہؓ کی وفات عمواس میں طاعون کی بیماری سے ۸اھجری میں ہوئی اور نماز جنازہ حضرت معاذؓ بن جبل نے پڑھائی۔
اللِّھم اغفرلہ، وسکِّنہ فی الجنَۃ۔ آمین!
No comments:
Post a Comment