تیرھویں کہانی
امام احسن البنّا شہید رحمہ اللہ تعالیٰ
پیدائش ، تربیت و تعلیم
حسن البناّ شہید اپنے باپ کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ محمودیہ میں اکتوبر ۹۰۶اء کو ان کی پیدائش ہوئی۔ یہ سنتِ الٰہی کا ایک حیرت انگیز کرشمہ ہے کہ بیسویں صدی کے عشرہ اوّل میں مصر کے جانفروش اور محبوب رہنما مصطفٰے کامل (وفات۹۰۸اء)دنیا سے رخصت ہو رہے تھے اور قدرت اس خلا کوحسن البناّ شہید کے ذریعے بطریقِ احسن پُرکرنے کا انتظام فرما رہی تھی۔ حسن البناّ کا گھرانہ دیہاتی بودو باش کے اندر علم وعمل اور اعلیٰ اسلامی ماحول سے آراستہ تھا۔ حسن البناّ کی ابتدائی تعلیم میں ا ن کے والد کا بہت بڑا حصہ تھا۔ والد نے بچپن میں انہیں قرآن حفظ کر ا دیا تھا اور ان کی توجہ دینی علوم کی طرف مبذول کرا دی۔ گھریلو تعلیم و تربیت کے ساتھ ہی محمودیہ کی ایک ابتدائی درسگاہ مدرسۃ الرشاد الدینیہ میں داخل ہو گئے‘وہاں اپنے استاد محمد زیران رحمہ اللہ سے اخلاقی تربیت کا بہرہ وافر حاصل کر لیا۔
اس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ اپنی بستی کے ننھے داعی کے طور پر ابھرے ۔ ابھی ابتدائی مکتب کی تعلیم حاصل کر رہے تھے کہ ان کے اندر معاشرے کی اصلاح کا جذبہ موجزن تھا۔ انہوں نے اپنے ہم عمر کمسن بچوں کی ایک بزم قائم کی جس کا نام جمعیت اخلاقِ ادبیہ رکھا۔ اس بزم کے وہ خود صدر منتخب ہوئے۔ اس کے مقاصد ننھے طلبہ کے اندر اچھی عادات کو فروغ دینا تھا۔ اتفاق سے ایک دن محمودیہ کی ندی پر ان کا گزر ہوا۔ کنارے کے پاس ایک کشتی پر لکڑی کی ایک عریاں مورتی آویزاں تھی ‘اس جگہ عورتوں کا بھی کثرت سے آنا جانا رہتا تھا۔ اس ننھے داعی نے جب اس منکر کا مشاہدہ کیا تو اس سے رہا نہ گیا۔ فورا مقامی پولیس چوکی میں گیا۔ پولیس افسر کے سامنے اس مورتی کے خلاف احتجاج کیا۔ پولیس افسر طالب علم کی غیرت اسلامی سے متاثر ہوا اور وہ فوراً ملاح کے پاس گیا اور مورتی کو مستول سے اتروا دیا۔ پھر اگلے روز اس پولیس افسر نے الارشاد الدینیہ میں جا کر مدرسہ کے صدر رئیس کے سامنے معصوم طالبعلم کے جذبہ غیرت کی بڑی ستائش کی۔
اس کے بعدحسن البناّ نے پہلے ٹیچر ٹریننگ سکول سے سہ سالہ کورس اوّل پوزیشن کے ساتھ پاس کیا۔ پھر قاہرہ کے دارالعلوم (موجودہ قاہرہ یونیورسٹی) میں داخلہ لیا اور۹۲۷اء میں وہاں سے اوّل پوزیشن کے ساتھ ڈپلومہ حاصل کیا۔ مزید تعلیم کے لیے بیرونی سکالرشپ کی بندش کی وجہ سے بالآخر انہیں ملک کے اندر معلمی کی پیشکش ہوئی اور وہ اسماعیلہ میں مدرس لگا دیئے گئے۔ شروع میں تعلیم و تدریس سے فارغ اوقات میں کچھ عرصہ معاشرتی حالات کا مطالعہ کرتے رہے تاکہ دعوت و تبلیغ کے لیے زیادہ سے زیادہ نتیجہ خیز اسلوب اور طریقِ کاراختیار کیاجائے اور شہر کے اندر ایک کامیاب معلم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب داعی بھی ثابت ہوں۔ ابتدائی مطالعہ و تفکر کے بعد انہوں نے مسجدوں کے بجائے قہوہ خانوں کے اندر اشاعت دعوت اور اصلاح فکر کا کام شروع کر دیا اور اجتماعات کے لیے تکیوں اور زاویوں کو منتخب کیا اور انہوں نے مختصر عرصہ کی جدو جہد کے بعد عقیدت مندوں اور صاحبِ حمیت لوگوں کی مختصر سی تعداد جمع کرلی اور فیصلہ کیا کہ ایک باقاعدہ تنظیم کی داغ بیل ڈال دی جاے۔مارچ۹۲۸اء میں حسن البناّ کے گھر میں چھ باہمت افراد نے عہد کیا کہ ان کا مرنا جینا صرف اسلام کے لیے ہو گا اور اس پہلے ہی اجتماع میں ایک نئی تنظیم ’’اخوان المسلمون ‘‘ کے نام سے وجود میںآگئی۔۹۲۹اء میں اس تنظیم نے اپنے مرکز اور ایک مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا اور نہ صرف اسماعیلیہ کے اندر بلکہ سویز اور سکندریہ میں بھی جگہ جگہ ’’اخوان المسلمون ‘‘کی شاخیں قائم ہو گئیں۔یوں یہ قافلہ پورے نظم و ضبط کے ساتھ منزلِ مقصود کی جانب تیزی سے رواں دواں ہو گیا۔
اکتوبر۹۳۲اء میں حسن البناّء کا قاہرہ میں تبادلہ ہو گیا۔ اسماعیلیہ میں جو چھ سال آپ نے گزارے تھے‘ وہ نتیجہ اور کام کے لحاظ سے اخوان کا اصل سرمایہ ثابت ہوئے۔ قاہرہ میں منتقل ہونے سے پہلے ہی وہاں اخوان کا مرکز کھل چکا تھا۔ قاہرہ میں جمعیت تہذیب اسلامی کے نام سے ایک تنظیم موجود تھی‘ جس نے مخلص نوجوانوں کا ایک گروہ جمع کر رکھا تھا۔ اس جمعیت نے اسماعیلیہ کے اندر اخوان المسلمون کے کام اور دعوت سے متاثر ہو کر اپنے آپ کو الاخوان کے اندرمدغم کر لینے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کے بعد قاہرہ کے اندر جمعیت کا مرکز اور اس کی شاخیں الاخوان کے مرکز اور شاخوں میں تبدیل ہوگئیں۔ ۹۳۲ا ء ہی میںیعنی جب حسن البناّء قاہرہ آئے تو وہاں جماعت کا کام اس حد تک بڑھ چکا تھا کہ تھوڑے عرصے کے بعد امام کو معلمی چھوڑ کر ہمہ تن الاخوان کے لیے وقف ہونا پڑا۔
شادی اور اولاد
اسماعیلیہ کے ایک بزرگ الحاج حسین الصولی نے امام البناّ کی دعوت اور اخلاق سے متاثر ہوکر امام صاحب سے روحانی رشتہ پر اکتفا نہ کیا بلکہ اپنی لڑکی لطیفہ کی حسن البناّء سے شادی کر دی۔ اللہ تعالی کا یہ ارشاد ا لطیبّاتُ للطَیبین بالکل برحق ہے۔۲۷رمضان ا۳۵اھ۹۳۲اء میں اس نیک خاتون نے آرام میں تکلیف میں ہر طرح سے امام البناّء کا ساتھ دینا قبول کیا اورجس فقرو قناعت سے امام نے زندگی بسر کی‘ اسی فقر و قناعت کا اس نے بھی مظاہرہ کیا۔ امام صاحب کو اللہ تعالیٰ نے چھ اولادیں عطا فرمائیں۔ پانچ لڑکیاں اور ایک لڑکا۔ پانچویں لڑکی اس روز پیدا ہوئی جس روز امام صاحب کو شہید کیا گیا۔ اس شہادت کی مناسبت سے اس لڑکی کا نام استشہاد رکھاگیا۔ لڑکے کا نام
احمد سیف لاسلام تھا۔ ظاہری شکل و صورت اور اخلاق و عادات میں اپنے والد کے ساتھ گہری مشابہت رکھتا تھا۔ تعلیمی معیار کے حوالے سے بھی وہ اپنے باپ کی طرح ہمیشہ اوّل رہتا تھا۔ پھر بھی جمال عبدالناصر کی حکمرانی کے زمانے میں اس کو تمام ملازمتوں سے محروم کر کے ۲۵سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی مگر عربی کا یہ محاورہ احمد سیف لاسلام پر کیسا پورا منطبق ہوتا ہے کہ ہذالشبیل من ذاک الاسد۔ (شیر کابچہ شیر ہوتا ہے)
تصنیف و تالیف
امام حسن البناّء صحیح معنوں میں ایک داعی اور مصلح تھے۔ ان کی اصل تصنیف ‘ تصنیف الرجال تھی ‘یعنی وہ انسان سازی کرتے تھے۔ اگرچہ انہوں نے بہت سے رسالے اپنی جماعت کے ساتھیوں کے لیے تصنیف کئے مگر ان سب کا احاطہ کرنا ایک طویل امر ہو گا۔ البتہ رسالۃ ’’التعلیم ‘‘جو امام صاحب نے الاخوان المسلمون سے باقاعدہ منسّلک ہونے والوں کے لیے تصنیف کیا‘ بہت اہم ہے۔ اس میں بیان کی ہوئی ہدایت کے مخاطب وہ کارکن ہیں جن سے بیعت لی جاتی ہے۔ امام صاحب نے اس رسالہ میں واضح کردیا کہ جماعتی بیعت کی بنیادیں مندرجہ ذیل دس اصول ہیں۔ ا۔ تدبر۔ ۲۔ اخلاص۔ ۳۔ عمل۔ ۴۔ جہاد۔ ۵۔ قربانی۔ ۶۔ اطاعت۔ ۷۔ ثابت قدمی۔ ۸۔ یکسوئی۔ ۹۔ اخوّت۔ ۰ا۔ باہمی اعتماد۔
آخر میں یہ بتایا کہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں کیا کیا ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔انہیں انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کن باتوں کا پابند ہونا ہے اور کن سے اجتناب کرنا ہے ۔ یہ رسالہ گویا جماعت کے کارکن کے لیے گائیڈ بک یا ہدایت نامہ ہے۔
شہادت
امام حسن البناّء کی ساری زندگی حرکت و عمل والی زندگی تھی۔ ان کو آرام و سکون کے اوقات بہت کم ملے۔ دن ان کے اسلام کی دعوت اور انسان کی خدمت میں گزرتے او رراتیں ان کی اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری اور آہ و زاری کے لیے وقف تھیں۔ موصوف اکتوبر۹۰۶اء میں پیدا ہوئے اور ۲افروری ۹۴۹اء کو قاہرہ کی سب سے بڑی شاہراہ پر۴۳ء سال کی عمر میں شہید کر دیئے گئے۔ اسی مختصر سی عمر میں انہوں نے ایک عظیم الشان تحریک کو قائم کیا‘ پھر اسے اس قدر ترقی دی کہ وہ عالمِ عرب کی سب سے بڑی اسلامی تحریک کہلائی۔ اس تحریک نے فکر و عمل کی دنیا میں اس قدر عظیم انقلاب بر پا کر دیا کہ آج تک اس کے اثرات نہیں مٹائے جا سکے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بے پناہ روحانیت‘ بے کراں جذبہ عشق اور بے نہایت اخلاص و عزیمت سے نوازا تھا، جس کی بدولت اپنی مختصر سی زندگی میں انہوں نے بے مثال کارہائے نمایاں انجام دیئے ۔ ان کی شہادت کے واقعہ پر مصر کے نامو ر عالم دین شیخ محمدالغزالی نے ان الفاظ میں اظہار خیال کیا:
’’قاتل کی گولی نے ایک ایسے جسم کو چیرا جسے خشوع و خضوع سے لبریز عبادت نے چکنا چور کر رکھا تھا‘جو طول قیام اور طول سجود کے سبب بے حد گھل چکا تھا‘ جواللہ کی راہ میں مسلسل سفروں سے خاک آلود ہو چکا تھا‘ جس کی پیشانی پے در پے دوروں کی وجہ سے بے پناہ خشکی کی غمازی کر رہی تھی۔ گو قاتل نے ایسے آرام ناآشنا و جود پر گولی چلا کر ایک گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا مگر یہ گولی ایک ابدی آرام کا پیغام لے کر آئی اور وہ ابدی آرام جس کی خبررسالت مآب ﷺنے دیتے ہوئے فرمایاکہ مومن جب دنیا سے رخصت ہو تا ہے تو تکالیف سے نجات پا کر آرام و راحت کی دنیا میں منتقل ہو جاتا ہے۔ ‘‘
امام حسن البناّء کی تحریک کی خصوصیات
آپ کی تحریک ایک جامع نظریہ پر قائم ہے اور اصلاح کے تمام گوشوں کو حاوی ہے‘ مثلاََیہ کہ
ا۔ کتاب و سنت کی علمبردار ہے۔ اسلام کے اصل چشمہ صافی کی طرف افرادِ ملت کوواپس لانا چاہتی ہے اور اسی لیے سنت مطہرہ پر عمل کرناان پر لازم ہے۔
۲۔ سلسلہ تصوف کا لزوم چاہتی ہے کیونکہ ہر بھلائی کی بنیاد پاکیز گی ء نفس ‘صفائے دل اور محبتِ الٰہی ہے۔
۳۔ سیاسی تنظیم اس لیے ہے کہ ملک کے اندر بھی اور باہر بھی حکومت کی اصلاح چاہتی ہے۔
۴۔ ریاضیاتی گروپ بھی ہے جو ورزشی ٹیموں کے ذریعے اپنی جسمانی تربیت کرتے ہیں اور دوسری کھلاڑی ٹیموں کے ساتھ میچ کھیلتے ہیں۔
۵۔ ایک علمی وثقافتی انجمن بھی ہے اس لیے کہ اخوان کے کلب اور مراکز فی الحقیقت تعلیم و تربیت کے مدرسے اور عقل و روح کومنور کرنے کے ادارے ہیں۔
۶۔ ایک اقتصادی کمپنی بھی ہے‘اس لیے کہ اسلام مالی امور بھی سلجھاتا ہے۔اخوان مالی کمپنیاں کھول کر قومی اقتصادیات کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
۷۔ ایک معاشرتی نظریہ بھی ہے اس لیے کہ اخوان معاشرے کی بیماریوں کو معلوم کرتے ہیں اور امت کو ان سے شفایاب کرنے کے لیے علاج تجویز کرتے ہیں۔
امام حسن البناّ ایک مردِ قلندر تھا‘ جس نے ایسی تحریک ملک کے اندر کھڑی کر دی جس نے تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔ وہ نوجوان جو الحادواباحیت میں ڈوب رہا تھااور وطنی قومیت اور دوسرے جاہلی افکار کا علمبردار بن چکا تھا‘ اس تحریک کی بدولت اس کی ایسی کایا پلٹی کہ اب اس کی زبان پر نعرہ تھا ۔ اللّٰہ غایتنا ۔ یعنی اللہ کی خوشنودی ہمارا اصل مدعا ہے۔ الرسول زعیمنا یعنی رسولﷺ ہمارا قائد ہے۔ ۔ القرآن دستورنا یعنی قرآن ہمارا دستور ہے۔ الجہادسبیلنا یعنی جہاد ہمارا راستہ ہے اور الموت فی سبیل اللّٰہ اسمیٰ امانینا یعنی اللہ کی راہ میں جا ن دے دینا ہماری بلند ترین آرز و ہے۔
تحریک میں وسعت و ترقی
۹۳۹اء سے لے کر ۹۴۵اء تک سیاسی لحاظ سے’’ الاخوان ‘‘کی دعوت ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی۔ اب اخوان کے اندر قاہرہ یونیورسٹی اور الازہر یونیورسٹی کے نوجوان جوق درجوق شامل ہوگئے۔ مصری معاشرے کے تقریبا تمام گروہوں کی اب ’’ اخوان‘‘ میں نمائندگی ہونے لگی۔ ’’اخوان‘‘ نے ایک طرف اقتصادی زندگی میں بڑھ چڑھ کر سرگرمی دکھائی اور دوسری طرف جسمانی ریاضت مثلاً سکاؤٹنگ وغیرہ میں انہوں نے حصہ لیا ۔’’اخوان‘‘ کی شاخیں مصر کے کونے کونے میں پھیل چکی تھیں اور بڑے منظم طریقے سے ہر کام کو سرنجام دینے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے’’ اخوان ‘‘ایک ایسی طاقت بن گئے‘ جسے اب نظر انداز نہ کیا جا سکتا تھا۔
آزمائشوں کی آمد آمد
جب الاخوان ایک قابل قدر طاقت بن گئے تو ان کے لیے آزمائشوں اور آلام کے دروازے بھی کھل گئے اور اسلام کے پکے دشمن انگریز سفارتخانے نے مصری حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ کسی طرح اخوان کے سیلاب کو روکے۔ اس پر مصری حکومت حرکت میں آئی اور اس نے ان کا ماہانہ رسالہ ’’المنار ‘‘ممنوع قرار دے دیا‘، ہفت روزہ ’’التّعارف‘‘ اور’’ الشّعاع‘‘ بھی بند کر دیئے۔ ان کا پریس بھی ضبط کر لیا اور ملکی اخبارات کو ہدایت بھیج دی کہ اخوان کے بارے میں کوئی چیز اخبارات میں نہ چھاپی جائے۔ اخوان کو اجتماعات کرنے کی بھی اجازت نہ دی گئی۔ پھر جب مصری حکومت نے انگریزوں کے دباؤ کے تحت جرمنی اور اٹلی کے خلاف جنگ میں شمولیت کا اعلان کر دیاتو اخوان نے اس فیصلے کی مخالفت کی اور جونہی احمد ماہر کے قتل کے بعد نقراشی پاشا کی حکومت آئی تو اس نے آغازِ کار ہی امام حسن البناّ‘اخوان کے سیکرٹری جنرل اور سرکردہ لیڈروں کی گرفتاری سے کیا۔
انگریزی استعمار کے خلاف پر زور تحریک کا قیام
۹۴۵اء میں جب دوسری عالمگیر جنگ ختم ہوئی تو الاخوان اب ایک اور شدید تر آزمائش میں داخل ہوئے۔ انگریزوں نے جنگ کے دورا ن مصری قوم سے وعدہ کیا تھا کہ مصر اگر جنگ میں انگریزوں کا ساتھ دے گا تو جنگ کے بعد برطانیہ مصر کو آزاد کردے گا۔ چنانچہ جنگ کے بعد الاخوان نے ملک کے اندر ایک زور دار تحریک بر پا کر دی اور مطالبہ کیا کہ انگریز اپنا وعدہ پورا کریں۔ ساتھ ہی انہوں نے جنرل کونسل کا اجلاس منعقد کر کے ا پنے دستور میں بدلے ہوئے حالات کے پیش نظر ضروری تبدیلیاں کیں۔ اپنا ایک نیا روزنامہ جاری کیا۔ رضا کار تنظیمیں قائم کیں اور فوجی تربیت کے لیے جگہ جگہ عوامی مراکز کھول دیئے ۔ مصر اور دوسرے عرب ممالک کے اندر انہوں نے عوام کو نہایت مستحکم انداز میں منظم کیا۔ انہوں نے اپنے مرشد امام حسن البناّ سے از سرِ نو تجدید بیعت کی اور انہیں تاحیات اپنا سربراہ منتخب کر لیا۔
تحریک کا عروج ،جنگ فلسطین میں اخوان کا حصہ اور اس کا ثمرہ
تاریخ شاہد ہے کہ الاخوان کے فعال کارکنوں کی تعداد صرف مصرہی کے اندر پانچ لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ صرف مصر میں دوہزار شاخیں قائم ہو گئیں۔ ادھر سوڈان میں پچاس شاخیں بن گئیں جبکہ دوسرے عرب ممالک میں لا تعداد شاخیں قائم ہو گئیں۔ پھر نقراشی پاشا کے دور میں حسن البناّء نےانگریزوں کے خلاف اعلان جہاد کر دیااور پورے ملک کے اندر آزادی کی آگ بھڑکا دی۔ ۶مئی ۹۴۸اء کو الاخوان کی مجلسِ اساس کا اجلاس ہوا۔ اس میں حکومت مصر اور تمام عرب حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیل کے خلاف اعلانِ جہاد کیاجائے اور فلسطین کو بچانے کے لیے تما م تدابیر اختیار کی جائیں۔ الاخوان نے دوسروں کا انتظار کیے بغیر اپنے ہزاروں رضا کار مجاہدین فلسطین میں بھیج دیئے۔ انہوں نے اس جنگ میں جوانمردی اور شجاعت کے ایسے حیرت انگیز کارنامے دکھائے کہ انگریز اور یہودی دونوں کے اوسان خطا ہو گئے ۔ اس صورت حال سے نقراشی پاشا شدید پریشان ہوا ۔ شاہ فاروق بھی پیچ و تاب کھا رہا تھا ۔چند غیر ملکی سفارت خانوں نے برطانوی فوج کے مستقر فاید میں کانفرنس کی اور بالاتفاق نقراشی پاشا سے الاخوان کو خلاف قانون قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ الاخوان اس وقت یہودیوں کے خلاف میدان جنگ میں اترے ہوئے تھے۔ حسن البناّ اپنے رضا کاروں کو مسلسل منظم کر کے جہاد کے لیے بھیج رہے تھے۔ مگر نقراشی پاشا نے اپنے آقاؤں کی خوشنودی کی خاطر ۸دسمبر ۹۴۸اء کو ہنگامی قوانین کی دفعہ۷۳کے موجب الاخوان کو خلاف قانون قرار دے دیا۔
اس اقدام کے بعد پورے مصر میں الاخوان پر ظلم کا بازار گرم ہو گیا۔جماعت کے تمام مراکز اور ادارے ضبط کرلیے گئے۔ ہزاروں پڑھے لکھے جوان جیلوں میں بند کر دیئے گئے اور ان پر طرح طرح کے مظالم توڑے گئے‘ جنہیں سن کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ خود نقراشی پاشا بھی انہی ہنگاموں میں ایک نوجوان کے ہاتھوں قتل ہو گیا ۔ اس سے پہلے احمد ماہر جو نقراشی پاشا کا پیشرو تھا‘ وہ بھی ایک نوجوان کے ہاتھوں قتل ہو چکا تھا۔ اس کے بعد ابراہیم عبدالہادی پاشا کا دور وزارت عظمیٰ شروع ہوا۔ اس نے بھی ظلم کی انتہا کر دی۔ اسی کا دور وزارت تھا کہ ۲افروری۹۴۹اء کو حسن البنّاء جیسے پیکرِ صدق وفا،کوہ عزم ووفا ، مشعل بردارِ دین مبین اور داعیِ ایمان ویقین کو شبان المسلمین کے مرکزکے سامنے سرِ بازار شہید کردیاگیا۔ اس کے بعد انگریزوں‘ یہودیوں اور اسلام دشمن طاقتوں نے گھی کے چراغ جلائے۔
حسن البنا کے کام کا خلاصہ
امام حسن البنا ۹۰۶اء میں مصرکی ایک دور افتادہ بستی میں ایک غریب دیہاتی گھرانے میں پیدا ہوئے اور ۹۴۹اء میں وہ قاہرہ کی سب سے بڑی سڑک پر شہید کر دیئے گئے۔ انہیں شہید کرنے کے لیے انگریز‘ یہودی‘ مصر کی کٹھ پتلی حکومت اور شاہ فاروق سب طاقتوں کو مل جل کر سازش تیار کرناپڑی۔ ان کی کل عمر۴۳سال ہوئی۔ الاخوان کی تاسیس۹۲۸اء میں عمل میں آئی ۔ گویا۲۰سال کے اند ر اس مردِ قلندر نے ایک ایسی تحریک ملک کے اندر کھڑی کر دی‘ جس نے تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا اور قوم جو جاہلیت کے نرغے میں جا چکی تھی‘ اسے دوبارہ اسلام کی طرف موڑ دیا۔ صرف بیس سال کے اندر ایسا ذہنی و فکری انقلاب بر پا کر دینااسی ہستی کا کام ہو سکتا ہے‘ جسے اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی صلاحیتیں دے کر دنیا میں بھیجا ہو اور اللہ تعالیٰ جب کوئی خاص کام اپنے بندوں سے لینا چاہتا ہے تو اس کے لیے اپنا خاص بندہ بھی چن لیتا ہے‘ جس کی رہنمائی میں وہ ہدف حاصل کیا جاتا ہے ۔ بیشک اللہ پاک نے اتنے بڑے انقلاب کے لیے امام حسن البناّ کو چنا اور ان کی نہایت موزوں گھرانے میں پرورش ہوئی‘جہاں ماں کی گود اور باپ کی صحبت ہی میں ان کی ایسی سیرت سازی ہو گئی جو آگے چل کران کی قائدانہ فرائض کی ادائیگی میں ممد ثابت ہوئی۔ اس حوالے سے فارسی کی ضرب المثل \"ہر کسے رابہرِکارے ساختند\" امام صاحب پر پوری طرح منطبق ہوتی ہے۔ یہ کہانی نامکمل رہے گی اگر آپ کے عام اخلاق و اوصاف کی بابت کچھ نہ بتایاجائے۔ لہٰذا ذیل میں آپ کی سیرت کے ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی جا تی ہے جو آپ کو نبی کریم ﷺ کے ساتھ وفا کا عہد نبھانے والوں کی صف میں خاص مقام دیتے ہیں۔
ا۔ ذکر وعبادت
امام حسن البنّا کو بچپن ہی سے نماز و روزے اور ذکر اللہ کا بے حد شوق تھا۔ چھوٹے بھائی سے مل کر وہ دونوں عشا ء کے وقت مدرسے کے ساتھ والی مسجد میں چلے جاتے اور نماز کے بعد صافی اخوان کی مجلس ذکر میں بیٹھے رہتے اور اہل ذکر کے ساتھ ذکر الٰہی میں مشغول رہتے۔ اس وقت مسجد میں اہل ذکر کے سوا اور کوئی انسان موجود نہ ہوتا تھا۔ رات کا پردہ ء سکوت چھا جاتا اور مناجاتوں کی دھیمی دھیمی صدائیں کانوں میں پڑتیں۔ جسن البنا کی زبان پر یہ اشعار بار بار جاری رہتے۔
اللّٰہ قل و ذر الو جود ماحوی
ان کنت مرتا دا بلوغ کمال
فلکل دون اللّٰہ حققتہ
عدم علی التفصیل والاجمال
ترجمہ۔’’ایک اللہ کو پکار اور باقی تمام موجودات کو ترک کر دے اگر تجھے درجہ کمال تک پہنچنے کا شوق ہے۔ اگر تو تحقیق کرے گا تو معلوم ہوجائے گا کہ اللہ کے سوا ہر چیز نیست ہے ۔ تفصیلاً بھی اورا جما لاََ بھی ‘‘
۲۔ فقر و درویشی۔
امام حسن البناّ کو فقیروں‘ درویشوں اور نیک انسانوں سے بڑی محبت تھی۔ بچپن ہی میں وہ ایسے انسانوں کی صحبت میں شریک ہوتے تھے ۔اپنے اس شوق کو وہ اس شعر کے ذریعے اپنے دوستوں کے سامنے بیان کیا کرتے :۔
ما لذ ۃ العیش الا صحبۃ الفقرآء
ھم السّلاطین والسّادات والامرآء
ترجمہ۔ زندگی کی لذت صرف فقیروں کی صحبت میں حاصل ہوتی ہے ۔ یہی بادشاہ ہیں ‘سردار ہیں‘ امراء ہیں۔
علامہ اقبالؔ نے اس مضمون کو یوں بیان کیا ہے۔
تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
۳۔ جود وغناسے لبریز طبیعت
امام صاحب کی طبیعت میں انتہائی غنا تھی۔ اخوان کی انتظامیہ کے رکن امین اسماعیل جو سفروں اور دوروں میں مرحوم کے ساتھ رہتے تھے ‘وہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے قمطراز ہیں: ان کی شانِ استغنا کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ مجھے اپنے ساتھ ایک درزی کے پاس لے گئے‘جسے انہوں نے اپنی عبا سلنے کے لیے دے رکھی تھی۔ ہم دونوں ایک تنگ و تاریک گلی میں داخل ہوئے ‘درزی نے ہمیں دیکھ کر روائتی طریقے سے تکلف کیے بغیر عبا حاضر کر دی اور تین مصری پونڈ اجرت طلب کی۔ امام صاحب نے اسے پانچ پونڈ کا نوٹ دیا اور عبا لے کر چل دیئے۔ میں متردّ د تھا کہ درزی سے زائد رقم واپس لوں مگر امام نے مجھے کھینچا اور میں سمجھ گیاکہ وہ رقم واپس نہیں لینا چاہتے۔ آگے چل کر ایک بدحال گداگر نظر آیا۔ امام صاحب نے مجھے ارشاد فرمایا کہ میں اسے ایک ریال پیش کر دوں۔ مجھے معلوم ہوا کہ امام صاحب کے پاس وہی پانچ پونڈ تھے جو وہ درزی کو دے چکے تھے ۔یہ جو دوغنا تادمِ آخران کے ساتھ رہا ۔
۴۔ دنیا پرستی سے نفرت اور کردار و ضمیر کی پختگی
۹۳۲اء میں اخوان کی تاسیس کے چند سال بعد امام صاحب کو ایک اعلیٰ سرکاری منصب پیش کیا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ انہیں دعوت الی اللہ کے کام سے ہٹایا جائے۔ مگر امام صاحب نے منصب پیش کرنے والے کو ایسا مؤثر جواب دیا کہ وہ شرم کے مارے زمین میں گڑا جا رہا تھا۔ اگر امام وہ پیشکش قبول کر لیتے تو آج ان کی اولاد اس حال میں ہوتی کہ لوگ انہیں دیکھ کر رشک کرتے مگر امام حسن البناّ نے دنیا پرستی کا راستہ ہی ٹھکرا دیا۔
دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں انگریزوں نے بھی امام صاحب کو ہزارہا پونڈ کی پیشکش کی بلکہ آپ کے ایک اشارے پر انگریز اپنے خزانے قربان کرنے کو تیار ہو گئے۔ لیکن اس درویش صفت انسان نے بڑی سختی کے ساتھ انگریزوں کے فرستادہ کو جو ان کے ضمیر و ایمان کو خریدنے کے لیے آیا تھا گھر سے نکال دیا۔ انگریزوں نے ناکام ہو کر یہ سمجھ لیا کہ سونے اور چاندی سے اس شخص کا علاج نہیں کیا جا سکتا۔ آپ پر ہر طرح کے الزام بھی لگائے گئے۔ مگر جب آپ کو فروری۹۴۹اء میں سرِ عام شہید کر دیاگیا‘ تب دنیاکو پتہ چلا کہ وہ اس قدر قلاش انسان تھا کہ اس کے پاس قاہرہ میں اپنا ذاتی مکان بھی نہیں تھا بلکہ وہ ایک قدیم طرز کے محلے میں ایک پرانے‘ بوسیدہ مکان میں رہتا تھا جس کا وہ ایک پونڈ اسی قرش ماہانہ کرایہ ادا کرتا تھا۔ اس کی شہادت کے بعد اس کے بچے واحد آمدنی سے کلیۃً محروم ہو گئے۔
۵۔ پسند و ناپسندکا معیار
امام صاحب کی درویشی کا یہ عالم تھا کہ انہیں جو کچھ کھانے کو مل جاتا‘ کھا لیتے۔ پہننے کے لیے جو میسر آتا ‘پہن لیتے۔ مکان انہوں نے ایسا لے رکھا تھا جو قلّ و کفیٰ کی تعریف میں آتا ہے۔ ان کی زندگی کفاف پر تھی۔ انہیں اس بات کی کبھی فکر نہ لاحق ہوئی کہ وہ اپنے بچوں کے لیے کیاچھوڑ رہے ہیں۔ ان کو جس چیز سے آنکھوں اور دل کا چین حاصل ہوتا‘ وہ صرف یہ تھی کہ لوگوں کے سامنے کلمہ حق کہہ دیں۔
۶۔ محبت کا سفر
امام حسن البنا ایک وسیع الظرف انسان تھے۔ محبت و مؤدّت کا پرچار ان کا مشن تھا۔ایک مرتبہ وہ بالائی مصر کے دورے پر گئے اور عیسائی پادریوں کی ایک جماعت عیسائی پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد کے ہمراہ آپ کو ملنے کے لیے آئی۔ امام صاحب نے ان کے ساتھ جو گفتگو کی وہ تمام تر ان قرآنی آیات پر مبنی تھی‘ جن میں حضرت عیسیٰ اور مریم علیھما السّلام کا ذکر آیا ہے۔ انہوں نے آیات کی تلاوت کی اور پھر ان کی تفسیر بیان کی۔ مسیحی یہ محسوس کرنے لگے کہ یہ اجتماع گویا خاص طور پر انہی کے لیے منعقد کیا گیا ہے کیونکہ اس میں مسلمانوں کے کسی مسئلے کو نہیں چھیڑا گیا اور خاص طورپر انہی کے مسئلے کو ٰچھیڑاگیا ہے۔ اس رویے کا عیسائیوں پر گہرا اثر ہوا‘خاص طور پر اس لیے کہ عام مسلمان علماء ہمیشہ قبطی عیسائیوں کے خلاف تعصبانہ رویہ اختیار کرتے رہتے تھے۔
۷۔ امام حسن البناّء کی حکیمانہ باتیں
امام صاحب نے اسماعیلیہ میں وارد ہونے کے بعد درس دینے کا سلسلہ شروع کیا مگر بجائے مساجد کے‘ جہاں اختلافی جھگڑوں کا چرچا ہوتا ہے‘ انہوں نے قہوہ خانوں اور دور دراز زاویوں کا انتخاب کیا۔ ایسی جگہوں میں ہر رنگ کے لوگ کثرت سے آنے لگے۔ ان میں جھگڑالو اور سابقہ فتنوں کی لکیر پیٹنے والے تفرقہ پسند لوگ بھی تھے۔ ایک ایسی جگہ امام صاحب نے درس شروع کیا ہی تھا کہ ایک شخص نے آپ سے پوچھا کہ وسیلہ کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ امام صاحب نے کہا میرا خیال ہے کہ آپ مجھ سے صرف یہی ایک سوال نہیں کر رہے بلکہ آپ یہ بھی پوچھیں گے کہ اذان کے بعد درودو سلام پڑھنا چاہیے کہ نہیں‘ جمعہ کے روز سورۃ الکھف پڑھنی چاہیے کہ نہیں‘ تشہد کے اندر محمد (ﷺ)سے پہلے سید نا پڑھاجائے کہ نہ، نبی کریم ﷺ کے والدین کس کیفیت میں ہیں ؟‘ قرآن خوانی کاثواب مردے کو پہنچتا ہے کہ نہیں‘ صوفیاء کی مجالس معصیت ہیں کہ تقرب الی اللہ کا ذریعہ۔ وغیرہ وغیرہ۔۔ ۔ یہ سن کر وہ شخص حیران ہو گیا اور کہنے لگا‘ جی ہاں ، میں ان تمام باتوں کا جواب معلوم کرنا چاہتا ہوں۔
امام صاحب نے فرمایا: بھائی! میں عالم نہیں ہوں‘ میں ایک درس و وعظ سے دلچسپی رکھنے والا عام شہری ہوں ۔ مجھے کچھ قرآن کی آیات یاد ہیں۔ چند احادیث شریفہ بھی از بر ہیں اور کتابوں کا کچھ مطالعہ کر کے کچھ دینی احکام ومسائل جانتا ہوں اور رضاکارانہ طور پر لوگوں کو دینی درس دیتا ہوں۔ اگر ان حدود سے آپ مجھے باہر لے جائیں گے تو مجھے نازک پوزیشن میں ڈال دیں گے اور جو شخص کہہ دے لا ادری یعنی میں کچھ نہیں جانتا تو یہ بھی اس کا ایک فتویٰ ہے۔ اگر آپ کو میری باتیں بھلی لگیں اور ان کے اندر آپ کوخیر کا پہلو نظر آئے تو براہ کرم انہیں سماعت فرمائیں ‘اگر مزید معلومات حاصل کرنا چاہیں تو میرے سوا دوسرے علماء و فضلا ء کی طرف رجوع کریں‘ جس مسئلے کا پوچھیں گے وہ آپ کو فتویٰ دے دیں گے ۔ میرا مبلغِ علم تو اتنا ہی ہے جو آپ کے سامنے رکھ دیا ہے اور اللہ کسی شخص کو اتنی ہی تکلیف دیتا ہے جو اس کی وسعت میں ہوتی ہے۔ اس طرح وہ سائل امام صاحب کی گرفت میں آ گیا ‘اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا مگر اس سے عام حاضرین تک یہ پیغام پہنچ گیا کہ معمولی باتوں کی وجہ سے تفرقہ پسندی چھوڑ کر اتحاد امت کی طرف آئیں۔
۸۔ رفقا ئے تحریک کے ساتھ برتاؤ۔
دفتر کے رفقا کے ساتھ ان کا سلوک ایسا تھا کہ ان کی ہر بات ساتھیوں کے دل میں محبت کی ایک نئی لہر پیدا کر دیتی ۔ امین اسماعیل (ان کے رفیق حضرو سفر )بیان کرتے ہیں کہ آپ دفتر میں میرے کام پر نظر ثانی کرتے اور بڑی شائستگی کے ساتھ میری غلطیوں کی تصحیح کردیتے۔ مجھے یہ محسوس نہ ہوتا کہ میں نے کوئی غلطی کی ہے بلکہ میرا احساس صرف یہ ہوتا کہ جو کچھ وہ فرماتے ہیں‘ وہی درست ہے اور میرا کام مجھے واپس کرتے ہوئے بڑی شفقت سے کہتے ‘ آپ میری تصحیح پر نظر ثانی کر لیں اور اگر
کوئی تبدیلی کرنا چاہیں تو کر لیں۔ لیکن میں حلفاََ کہتا ہوں کہ میں نے ان کی اصلاح میں کبھی حذف و اضافہ یا تبدیلی کو ضرور ی نہ جانا۔
میرے ہاں اگر کوئی پیدائش ہوتی تو میرے گھر تشریف لاتے۔ میں بیمار ہوجاتا تو میری تیمارداری کرتے۔ کبھی مجھے کوئی تکلیف پیش آتی تو گھر پر آ کر مجھے دلاسا دیتے‘ حالانکہ میں دفتر کا ایک معمولی کلرک تھااور وہ بڑے مشغول انسان تھے ۔ شب و روز میں صرف چند منٹ سوتے اور دونوں وقت چند لقموں پر گزارا کرتے۔
دوروں میں جماعت کے رفقاء سے جب ملتے تو ایک ایک کو سلام کرتے‘نام لے لے کر ان کے بچوں کی خیریت دریافت کرتے اور ان کی تعلیم کی حالت پوچھتے بلکہ میں نے تو یہ بھی دیکھا کہ فلاحین (کسانوں)کے ساتھ تخلیہ میں ملتے اور ان کے جانوروں تک کی صورتِ حال دریافت کرتے ۔ اس معاملے میں ان کا حافظہ بے پناہ مضبوط تھااور چھوٹی چھوٹی باتیں بھی انہیں یاد رہتی تھیں۔ میں مرحوم سے بڑا مانوس تھا۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے عرض کیا\" استاذ محترم! اللہ تعالیٰ نے ابھی مجھے معاف نہیں فرمایا اور وہ مجھ سے خوش نہیں ہوا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ میں رات بھر کوشش کرتا رہا ہوں کہ قرآن کریم کا ایک صفحہ حفظ کر لوں ۔ مگر کامیاب نہیں ہو سکا۔ یعنی میں تو فیق خدا وندی سے ابھی تک محروم ہوں۔ مرحوم نے مجھے حسرت و قلق میں مبتلاپا کر تھپکی دی اور اپنے ہاتھ سے میرے آنسو پونچھے اور فرمایا جب کوئی بندہ اللہ کی رضا میں آنسو بہاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے معافی سے محروم نہیں کرتا اور جہاں تک حفظِ قرآن کا تعلق ہے تو اس بارے میں آپ پریشان نہ ہوں ۔حضرت عمرؓ بن خطاب کو بھی پورا قرآن حفظ نہ تھا۔ ان کا جواب سن کر مجھے انتہائی روحانی تسکین حاصل ہوئی۔
ایک بار مجھ سے ایک غلطی سرزد ہو گئی ۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرنے لگا مگر انہوں نے کوئی دوسری بات چھیڑ دی جس کا اس موضوع سے کوئی تعلق نہ تھا۔ میں بار بار اپنے موضوع کی طرف رجوع کرتا ۔ مگر وہ مجھے کوئی جواب نہ دیتے ۔ ان کے چہرے پر بھی میں نے ملال کا کوئی اثر نہ دیکھا ۔ میں نے پھران سے تنہائی میں ملنا چھوڑ دیا۔ ایک روز یکا یک انہوں نے مجھے اپنے گھر طلب کیااور مجھے دیکھتے ہی میرا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا آئیے ہم بیعت کی تجدید کرلیں ۔ چنانچہ میں نے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کراللہ اور رسولﷺ کی وفا داری کا ازسر نو عہد کیا۔ اس کے بعد وہ مجھے فرمانے لگے ،میں نے تمہیں مکتب الارشاد (انتظامی کونسل) کا رکن نامزد کر دیا ہے۔
۹۔ دعوت سے شغف۔
دعوت کافریضہ امام مرحوم پر ایک بخار بن کر سوار تھا۔ اس بخار کا اثر تمام حاضرین تک پہنچ جاتا اور وہ سب دنیا و مافیھا سے غائب ہوجاتے ۔ وہ لوگوں کو اس طرح پکارتے۔ ’’ لوگو !ہماری طرف آؤ جو رسول اللہ ﷺ کو نہیں پا سکا وہ ہمیں آ ملے۔ ہم اسی ذات پاک ﷺکے قافلے میں شامل ہیں۔ جو آنجنابﷺ کی خدمت میں حاضر ی نہیں دے سکا ‘وہ ہماری جانب رخ کرے ۔ ہم مدتوں سے آنجناب ﷺ کے در کے بھکاری بن کر کھڑے ہوئے ہیں۔ جس نے آنجناب ﷺ کی سیرتِ پاک نہیں سنی ‘وہ ہم سے سن لے کہ ۔۔
ان النبی الحیی فی ضما ئرنا
علی الزمان منھا ویستمع
ففی قلوب یقوم الدین محسرھا
وفی قلوب یقو م الحب والواسع
ترجمہ۔ حضور ﷺ ہمارے ضمیروں کے اندر ہمیشہ سے زندہ ہیں اور وہ سب کچھ سن رہے ہیں۔ وہ ایسے دلوں کے ا ندر پائے جاتے ہیں جو دین کی رکھوالی کرتے ہیں اور ایسے دلوں کے اندر موجود ہیں جو ان کی محبت و عقیدت سے لبریز ہیں۔
وہ جب کبھی تبلیغی دورے پر جاتے تو سیدھے کسی مسجد میں جا اترتے۔ رمضان المبارک میں پانی اور کھجور سے افطاری کر لیتے۔ لوگ جب گھروں سے کھا پی کر آتے تو اس نووارد کو دیکھتے‘ یہ نودارد نماز کے بعد اپنے سادہ لباس میں ملبوس کھڑا ہو جاتا اور نہایت مؤثر وعظ شروع کر دیتا اور لوگوں کو بعد میں معلوم ہوتا کہ یہ شیخ حسن البناّ تھا۔
۰ا۔ قیادت کی شان۔
جب فلسطین کے مسئلے پر اخوان نے قاہرہ میں جلوس نکالا تو اس جلوس کی قیادت خود امام صاحب نے کی۔ جب الحقبہ الخضرا کے میدان میں پہنچے تو پولیس نے حملہ کر دیا۔ امام حسن البناّ آگے بڑھے ۔ پولیس والوں کو فائرنگ کرنے سے روکا۔ مظاہرین کو بچانے کے لیے ہاتھ آگے کر دیئے۔ آپ کے دونوں ہاتھ بری طرح خون آلود ہو گئے مگر مظاہرین کو دلاسا دیتے رہے کہ معمولی بات ہے‘ پریشان نہ ہوں۔ مگر مظاہرین یہ محسوس کرتے تھے کہ گولی حسن البنا کے ہاتھوں کو نہیں لگی‘ ہمارے ہاتھ مجروح ہوئے ہیں۔
الحلیمۃ کے میدان میں موصوف ہر بدھ کو درس دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک نوجوان نے بڑا دلچسپ سوال کیا۔ کیا محبت کرنا حلال ہے یا حرام؟ امام صاحب سوال پر دیر تک مسکراتے رہے‘پھر بڑی لطافت کے ساتھ جواب دیا۔ حلال محبت حلال ہے اور حرام محبت حرام ہے۔
دارالاخوان کے معاونین سے انہیں بڑی محبت تھی۔ جب لوگ کھانے کے لیے گھرو ں کو چلے جاتے تو وہ دفتر کے ملازموں کے ساتھ بیٹھ کر وہیں کھا لیتے۔
اا۔ مومنانہ بصیرت۔
اس انسان کو اللہ تعالیٰ نے مومنانہ بصیرت کا بہرہ وافر عطا کر رکھا تھا۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم سے پیشتر ہی اپنے ساتھیوں کو بتا دیا تھا کہ وہ جس دعوت کو لے کر اٹھے ہیں‘ اس کا راستہ کہاں کہاں سے ہو کر گزرتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ابھی اخوان آزمائشوں میں داخل نہیں ہوئے تھے اور ان کی تحریک اپنا ابتدائی سفر طے کر رہی تھی۔ انہوں نے اسی زمانے میں اپنے ساتھیوں کو فرما دیا تھا۔
’’ ایہا الاخوان ! میں تمہیں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ تمہاری دعوت سے ابھی اکثر لوگ ناواقف ہیں‘‘۔ جس روز وہ اس کی حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے اور اس کے اغراض و مقاصد کو سمجھ جائیں گے‘ اس روز تمہیں ان کی طرف سے شدید مخالفت بلکہ تندو تیز عداوت کا سامنا ہو گا۔ اس روز تم اپنے سامنے طرح طرح کی تکالیف کا مشاہدہ کرو گے اور بے شمار رکاوٹیں تمہارے راستے میں حائل ہو جائیں گی۔ اس وقت ہی تم صحیح معنوں میں دعوتِ حق کے علمبرداروں کی وادی میں داخل ہوگے‘آج تم گمنام ہو‘ لیکن تمہیں دعوت کے لیے برابر راستہ ہموار کرتے رہنا چاہیے اور یہ دعوت جس جہاد و قربانی کی جانب ہے‘ اس کے لیے خوب تیاری کرنی چاہیے۔ عوام الناّس کی اسلام سے ناواقفیت بھی تمہارے راستے کا روڑا بنے گی۔ سرکاری علماء تمہارے اسلامی تصور پر حیرت کا اظہار کریں گے۔ راہِ حق میں تمہارا جہاد ناپسند کیاجائے گا۔ حکاّم اور زعماء اور اصحابِ جاہ و اقتدار تم سے جلیں گے۔ تمام حکومتیں تمہارے آگے دیوار بن کر کھڑی ہو جائیں گی۔ ہر حکومت تمہاری سرگرمیوں کو محدود کرنے کی کوشش کرے گی اور تمہارے راستے میں کانٹے بچھائے گی۔ لٹیرے تمہاری مخالفت کے لیے اور تمہاری شمع دعوت کو گل کرنے کے لیے ہر ہتھکنڈے استعمال کریں گے اور کمزور و بزدل حکومتوں کو اس غرض کے لیے استعمال کریں گے۔ گھٹیا اخلاق اور ہر وقت سوال کے لیے دراز رہنے والے ہاتھ تمہارے خلاف استعمال ہوں گے ۔ایک گروہ تمہاری دعوت پر شکوک و شبہات کی گرد اڑائے گا‘افترا پر دازیاں کرے گااور کوشش کرے گاکہ ہر عیب تم پر چسپاں کیاجائے اور اس دعوت کو بری سے بری شکل میں لوگوں کے سامنے لایاجائے۔ ان کے پاس طاقت ہو گی‘ اقتدار ہو گا‘ مال ہو گا‘ نفوذ و اثر ہو گا۔ ان حالات میں تم لوگ بیشک تجربہ اور امتحان کے مرحلے میں داخل ہو جاؤ گے۔ تمہیں جیلوں میں ڈال دیاجائے گا‘ جلا وطن کیا جائے گا‘ گھروں سے نکالا جائے گا‘ تمہاری جائیدادیں ضبط کی جائیں گی‘ تمہارے گھروں کی تلاشیاں لی جا ئیں گی اور ہو سکتا ہے کہ امتحان کا یہ مرحلہ دراز تر ہو جائے۔
امام صاحب اعلے ٰ خصائل کے پیکر تھے ۔آپ کی کہانی کے اختتام سے پہلے ان کے ہمعصر مفتی اعظم فلسطین الحاج امین الحسینی اور ان کے بھائی عبدالرحمن البناّ کی امام شہید کے بارے میں تاریخی حیثیت کی آراء کو قیمتی یادداشت کے طور پر یہاں قلمبند کیا جا رہا ہے۔
ا۔ مفتی اعظم فلسطین الحاج امین الحسینی کی امام شہید کے بارے میں رائے۔
پہلی ملاقات میں جب میں نے امام حسن البناّ کو دیکھا‘ان کی گفتگو سنی تو مجھے ان کے اندر صاف اور شفاف روح نظر آئی۔ بعد میں جب ہمارے تعلقات زیادہ مستحکم ہو گئے تو مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ اس عظیم انسان کو اللہ تعالیٰ نے بڑی نادر خوبیاں‘ اعلیٰ خصائل اور کریمانہ صفات سے نواز رکھا ہے۔ نمایاں صفات ان کی یہ تھیں: ۔ گہرا اخلاص ‘ عقلِ سلیم اور عزمِ قوی ۔ ان تینوں خوبیوں کو ان کے مضبوط عقیدے اور محمد ی اخلاق نے مزین کر رکھا تھا۔ وہ بڑے بلند ہمت اور ایثار پیشہ انسان تھے۔ قربانی‘ ثابت قدمی اور سادگی ان کی صفات تھیں‘وہ دینی محنت سے لگن رکھتے اور منفعت سے گریز کرتے‘ پاک و شفاف سیرت سے بہرہ ور تھے اور یہی وہ اوصاف تھے ‘ جن کی بنا پر وہ قیادت کے منصبِ عظیم پر فائز ہوگئے ۔ میں حلیمہ میں ان کے مکان پر گیا۔ گھر کا سازو سامان بالکل سادہ اور گھر کی ہر چیز تقشف اور قناعت کی گواہ۔ امام صاحب کا مزاج نہایت خاکسارانہ تھا۔ ایک دعوت میں جو عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل عبدالرحمان عزام نے مرحوم قائداعظم اور لیاقت علی خان کے اعزاز میں دی تھی‘ میں اور امام حسن البناّ صاحب دعوت کے گھر سب سے پہلے پہنچے تھے ۔دیر تک ہم دونوں پاکستانی قائدین کے ساتھ باتیں کرتے رہے‘پھر جب دیگرمدعووین پہنچنے شروع ہو ئے تو حسن البناّ ہر نئے مہمان کے لیے اپنی نشست چھوڑ کر پیچھے ہوتے ہوتے دروازے تک کے پاس والی نشست تک چلے گئے۔ اب امام صاحب آخری نشست کی وجہ سے کھانے کے کمرے سے قریب تر تھے ۔ صاحب خانہ عزام صاحب نے امام صاحب کو کھانے کے کمرے میں تشریف لے جانے کے لیے کہا لیکن وہ دوسرے مہمانوں کو ترجیح دیتے رہے اور خود پیچھے ہٹتے رہے۔ چنانچہ سب سے آخر میں جو شخص کھانے کے کمرے میں داخل ہوا وہ امام البناّ تھے۔ علاوہ ازیں موصوف معاملات میں اور مشکلات کو حل کرنے میں بڑی غیر معمولی لچک دکھاتے تھے‘ میں جب انہیں یاد کرتا ہوں تو بے ساختہ یہ شعر میری زبان پر آجاتا ہے۔
ھیہات ان یاتی الزّمان بمثلہ
انّ الزّمان بمِثلِہٖ لبخیل
ترجمہ:۔ کاش زمانہ ان جیسی شخصیت پھر ہمیں فراہم کرتالیکن زمانہ ایسے انسا ن پیدا کرنے میں بڑے بخل سے کام لیتا ہے۔
ب۔ امام صاحب کے بھائی عبدالرحمان البنّا کی رائے۔
مرحوم شہید کی عام زندگی اور طریق گفتگو نہایت سادہ اور خاکسار انہ تھا۔ اگر مجلس زمینی ہوتی تو مرحوم بوریے پر ہی بیٹھ جاتے اور آخری نشستوں میں بیٹھنا پسند کرتے۔ جہاں انہیں پہچاننے کی علامت اس کے سوا اورنہ ہوتی کہ ان کے چہرے سے علم کی تابانی اور روح کی نورانیت ٹپک رہی ہوتی۔ بالعموم وہ سستے کپڑے کا معمولی (لمبا کرتا جسے عام طور پر عرب پہنتے ہیں ) زیب تن کرتے اور عبا پہن لیتے ۔ سر پرعمامہ باندھ لیتے‘ جس کے نیچے ایک روشن جبین اور ذہین چہرہ دمک رہا ہوتا۔ گفتگو میں وہ تصنع سے کام نہ لیتے تھے بلکہ نہایت سلیس اور رواں دواں زبان اختیار کرتے۔ بات بات پر وہ قرآن کریم کی آیات سے استدلال کرتے۔ قرآن کریم انہیں بڑی پختگی کے ساتھ حفظ تھا اور اس کی تلاوت بھی وہ نہایت لطف و لذت میں ڈو ب کر کرتے۔
مفتی اعظم فلسطین الحاج امین الحسینی نے امام شہید کی سیرت کے جن حسین اور نادر خصائل کا ذکر فرمایا ہے ‘ان کے اس آخری زمانے میں کسی ایک فرد کے اندر جمع ہونا خاص اللہ کی کرم نوازی کا کرشمہ ہے۔اس کے بعد امام صاحب کی سیرت کے بارے میں مزید کچھ کہنا عبث ہے۔
امتحان کے جس دراز تر مرحلہ کی طرف امام شہید نے اوپر اپنے ہمعصر حضرات کی آراء ک کے بیان سے پہلے صفحہ۲۱۹ اشارہ کیا ہے غالباَ وہ سورۃ العنکبوت کی دوسری آیت اَ حسِبَ النّاسُ اَن یُترکوا ان یقُولُوٰ اٰمناّ وھم لَا یُفتَنون الی آخرہاکی سخت تنبیہ کے حوالہ سے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جاننے کے لئے کہ کون ایمان کے دعویٰ میں سچا ہے اور کون جھوٹا ‘ اللہ اپنے بندوں کا امتحان ضرور لے گا۔ اس طرح کے امتحان کے بعد امام حسن البناّء اور ان کے جان نثار ساتھی جنہوں نے اعلاءِ کلمۃ الحق کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں دیں‘ سب سچے ثابت ہوں گے۔ ظاہر ہے ایسے سچے بندوں کے لیے ہی یہ اللہ کی طر ف سے بشارت ہے کہ ۔۔۔۔
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں ۔
یعنی ان کی ہر خواہش کو پورا کیاجائے گا ۔ ایسی ایسی نعمتوں سے ا ن کو نوازا جائے گا جن کو کسی آنکھ نے دیکھا نہ ہو گا‘ کسی کان نے سنا نہ ہو گا اور نہ ہی جن کا کسی ذہن میں خیال ہی آیا ہو گا۔ اللہ پاک کی طرف سے اور تمام فرشتوں کی طرف سے ان کو سلام آئے گا۔ سلامُٗ قَولاً مِنّ رَبِّ رَّحِیم،قیلًا سلامً سلاماَ، سلامُٗ علَِیکم طِبتُم
اور رب غفورُ رّحیمِ ان کی میزبانی فرمائے گا۔ نُزُلًِ من غفورُُ رَّحِیم۔ ۔ان کی قسمت پر جتنا بھی رشک کیاجائے‘ کم ہے۔
اللّٰھمَّ الدخِلہ فی الجَنّتِ الفِردوسِ مَعَ احبَابہٖ
این دعا ازمن واز جملہ جہاں آمیں باد!
*******
امام حسن البناّء کی ساری زندگی حرکت و عمل والی زندگی تھی۔ ان کو آرام و سکون کے اوقات بہت کم ملے۔ دن ان کے اسلام کی دعوت اور انسان کی خدمت میں گزرتے او رراتیں ان کی اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضری اور آہ و زاری کے لیے وقف تھیں۔ موصوف اکتوبر۹۰۶اء میں پیدا ہوئے اور ۲افروری ۹۴۹اء کو قاہرہ کی سب سے بڑی شاہراہ پر۴۳ء سال کی عمر میں شہید کر دیئے گئے۔ اسی مختصر سی عمر میں انہوں نے ایک عظیم الشان تحریک کو قائم کیا‘ پھر اسے اس قدر ترقی دی کہ وہ عالمِ عرب کی سب سے بڑی اسلامی تحریک کہلائی۔ اس تحریک نے فکر و عمل کی دنیا میں اس قدر عظیم انقلاب بر پا کر دیا کہ آج تک اس کے اثرات نہیں مٹائے جا سکے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بے پناہ روحانیت‘ بے کراں جذبہ عشق اور بے نہایت اخلاص و عزیمت سے نوازا تھا، جس کی بدولت اپنی مختصر سی زندگی میں انہوں نے بے مثال کارہائے نمایاں انجام دیئے ۔ ان کی شہادت کے واقعہ پر مصر کے نامو ر عالم دین شیخ محمدالغزالی نے ان الفاظ میں اظہار خیال کیا:
’’قاتل کی گولی نے ایک ایسے جسم کو چیرا جسے خشوع و خضوع سے لبریز عبادت نے چکنا چور کر رکھا تھا‘جو طول قیام اور طول سجود کے سبب بے حد گھل چکا تھا‘ جواللہ کی راہ میں مسلسل سفروں سے خاک آلود ہو چکا تھا‘ جس کی پیشانی پے در پے دوروں کی وجہ سے بے پناہ خشکی کی غمازی کر رہی تھی۔ گو قاتل نے ایسے آرام ناآشنا و جود پر گولی چلا کر ایک گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا مگر یہ گولی ایک ابدی آرام کا پیغام لے کر آئی اور وہ ابدی آرام جس کی خبررسالت مآب ﷺنے دیتے ہوئے فرمایاکہ مومن جب دنیا سے رخصت ہو تا ہے تو تکالیف سے نجات پا کر آرام و راحت کی دنیا میں منتقل ہو جاتا ہے۔ ‘‘
امام حسن البناّء کی تحریک کی خصوصیات
آپ کی تحریک ایک جامع نظریہ پر قائم ہے اور اصلاح کے تمام گوشوں کو حاوی ہے‘ مثلاََیہ کہ
ا۔ کتاب و سنت کی علمبردار ہے۔ اسلام کے اصل چشمہ صافی کی طرف افرادِ ملت کوواپس لانا چاہتی ہے اور اسی لیے سنت مطہرہ پر عمل کرناان پر لازم ہے۔
۲۔ سلسلہ تصوف کا لزوم چاہتی ہے کیونکہ ہر بھلائی کی بنیاد پاکیز گی ء نفس ‘صفائے دل اور محبتِ الٰہی ہے۔
۳۔ سیاسی تنظیم اس لیے ہے کہ ملک کے اندر بھی اور باہر بھی حکومت کی اصلاح چاہتی ہے۔
۴۔ ریاضیاتی گروپ بھی ہے جو ورزشی ٹیموں کے ذریعے اپنی جسمانی تربیت کرتے ہیں اور دوسری کھلاڑی ٹیموں کے ساتھ میچ کھیلتے ہیں۔
۵۔ ایک علمی وثقافتی انجمن بھی ہے اس لیے کہ اخوان کے کلب اور مراکز فی الحقیقت تعلیم و تربیت کے مدرسے اور عقل و روح کومنور کرنے کے ادارے ہیں۔
۶۔ ایک اقتصادی کمپنی بھی ہے‘اس لیے کہ اسلام مالی امور بھی سلجھاتا ہے۔اخوان مالی کمپنیاں کھول کر قومی اقتصادیات کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
۷۔ ایک معاشرتی نظریہ بھی ہے اس لیے کہ اخوان معاشرے کی بیماریوں کو معلوم کرتے ہیں اور امت کو ان سے شفایاب کرنے کے لیے علاج تجویز کرتے ہیں۔
امام حسن البناّ ایک مردِ قلندر تھا‘ جس نے ایسی تحریک ملک کے اندر کھڑی کر دی جس نے تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔ وہ نوجوان جو الحادواباحیت میں ڈوب رہا تھااور وطنی قومیت اور دوسرے جاہلی افکار کا علمبردار بن چکا تھا‘ اس تحریک کی بدولت اس کی ایسی کایا پلٹی کہ اب اس کی زبان پر نعرہ تھا ۔ اللّٰہ غایتنا ۔ یعنی اللہ کی خوشنودی ہمارا اصل مدعا ہے۔ الرسول زعیمنا یعنی رسولﷺ ہمارا قائد ہے۔ ۔ القرآن دستورنا یعنی قرآن ہمارا دستور ہے۔ الجہادسبیلنا یعنی جہاد ہمارا راستہ ہے اور الموت فی سبیل اللّٰہ اسمیٰ امانینا یعنی اللہ کی راہ میں جا ن دے دینا ہماری بلند ترین آرز و ہے۔
تحریک میں وسعت و ترقی
۹۳۹اء سے لے کر ۹۴۵اء تک سیاسی لحاظ سے’’ الاخوان ‘‘کی دعوت ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی۔ اب اخوان کے اندر قاہرہ یونیورسٹی اور الازہر یونیورسٹی کے نوجوان جوق درجوق شامل ہوگئے۔ مصری معاشرے کے تقریبا تمام گروہوں کی اب ’’ اخوان‘‘ میں نمائندگی ہونے لگی۔ ’’اخوان‘‘ نے ایک طرف اقتصادی زندگی میں بڑھ چڑھ کر سرگرمی دکھائی اور دوسری طرف جسمانی ریاضت مثلاً سکاؤٹنگ وغیرہ میں انہوں نے حصہ لیا ۔’’اخوان‘‘ کی شاخیں مصر کے کونے کونے میں پھیل چکی تھیں اور بڑے منظم طریقے سے ہر کام کو سرنجام دینے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے’’ اخوان ‘‘ایک ایسی طاقت بن گئے‘ جسے اب نظر انداز نہ کیا جا سکتا تھا۔
آزمائشوں کی آمد آمد
جب الاخوان ایک قابل قدر طاقت بن گئے تو ان کے لیے آزمائشوں اور آلام کے دروازے بھی کھل گئے اور اسلام کے پکے دشمن انگریز سفارتخانے نے مصری حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ کسی طرح اخوان کے سیلاب کو روکے۔ اس پر مصری حکومت حرکت میں آئی اور اس نے ان کا ماہانہ رسالہ ’’المنار ‘‘ممنوع قرار دے دیا‘، ہفت روزہ ’’التّعارف‘‘ اور’’ الشّعاع‘‘ بھی بند کر دیئے۔ ان کا پریس بھی ضبط کر لیا اور ملکی اخبارات کو ہدایت بھیج دی کہ اخوان کے بارے میں کوئی چیز اخبارات میں نہ چھاپی جائے۔ اخوان کو اجتماعات کرنے کی بھی اجازت نہ دی گئی۔ پھر جب مصری حکومت نے انگریزوں کے دباؤ کے تحت جرمنی اور اٹلی کے خلاف جنگ میں شمولیت کا اعلان کر دیاتو اخوان نے اس فیصلے کی مخالفت کی اور جونہی احمد ماہر کے قتل کے بعد نقراشی پاشا کی حکومت آئی تو اس نے آغازِ کار ہی امام حسن البناّ‘اخوان کے سیکرٹری جنرل اور سرکردہ لیڈروں کی گرفتاری سے کیا۔
انگریزی استعمار کے خلاف پر زور تحریک کا قیام
۹۴۵اء میں جب دوسری عالمگیر جنگ ختم ہوئی تو الاخوان اب ایک اور شدید تر آزمائش میں داخل ہوئے۔ انگریزوں نے جنگ کے دورا ن مصری قوم سے وعدہ کیا تھا کہ مصر اگر جنگ میں انگریزوں کا ساتھ دے گا تو جنگ کے بعد برطانیہ مصر کو آزاد کردے گا۔ چنانچہ جنگ کے بعد الاخوان نے ملک کے اندر ایک زور دار تحریک بر پا کر دی اور مطالبہ کیا کہ انگریز اپنا وعدہ پورا کریں۔ ساتھ ہی انہوں نے جنرل کونسل کا اجلاس منعقد کر کے ا پنے دستور میں بدلے ہوئے حالات کے پیش نظر ضروری تبدیلیاں کیں۔ اپنا ایک نیا روزنامہ جاری کیا۔ رضا کار تنظیمیں قائم کیں اور فوجی تربیت کے لیے جگہ جگہ عوامی مراکز کھول دیئے ۔ مصر اور دوسرے عرب ممالک کے اندر انہوں نے عوام کو نہایت مستحکم انداز میں منظم کیا۔ انہوں نے اپنے مرشد امام حسن البناّ سے از سرِ نو تجدید بیعت کی اور انہیں تاحیات اپنا سربراہ منتخب کر لیا۔
تحریک کا عروج ،جنگ فلسطین میں اخوان کا حصہ اور اس کا ثمرہ
تاریخ شاہد ہے کہ الاخوان کے فعال کارکنوں کی تعداد صرف مصرہی کے اندر پانچ لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔ صرف مصر میں دوہزار شاخیں قائم ہو گئیں۔ ادھر سوڈان میں پچاس شاخیں بن گئیں جبکہ دوسرے عرب ممالک میں لا تعداد شاخیں قائم ہو گئیں۔ پھر نقراشی پاشا کے دور میں حسن البناّء نےانگریزوں کے خلاف اعلان جہاد کر دیااور پورے ملک کے اندر آزادی کی آگ بھڑکا دی۔ ۶مئی ۹۴۸اء کو الاخوان کی مجلسِ اساس کا اجلاس ہوا۔ اس میں حکومت مصر اور تمام عرب حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیل کے خلاف اعلانِ جہاد کیاجائے اور فلسطین کو بچانے کے لیے تما م تدابیر اختیار کی جائیں۔ الاخوان نے دوسروں کا انتظار کیے بغیر اپنے ہزاروں رضا کار مجاہدین فلسطین میں بھیج دیئے۔ انہوں نے اس جنگ میں جوانمردی اور شجاعت کے ایسے حیرت انگیز کارنامے دکھائے کہ انگریز اور یہودی دونوں کے اوسان خطا ہو گئے ۔ اس صورت حال سے نقراشی پاشا شدید پریشان ہوا ۔ شاہ فاروق بھی پیچ و تاب کھا رہا تھا ۔چند غیر ملکی سفارت خانوں نے برطانوی فوج کے مستقر فاید میں کانفرنس کی اور بالاتفاق نقراشی پاشا سے الاخوان کو خلاف قانون قرار دینے کا مطالبہ کیا۔ الاخوان اس وقت یہودیوں کے خلاف میدان جنگ میں اترے ہوئے تھے۔ حسن البناّ اپنے رضا کاروں کو مسلسل منظم کر کے جہاد کے لیے بھیج رہے تھے۔ مگر نقراشی پاشا نے اپنے آقاؤں کی خوشنودی کی خاطر ۸دسمبر ۹۴۸اء کو ہنگامی قوانین کی دفعہ۷۳کے موجب الاخوان کو خلاف قانون قرار دے دیا۔
اس اقدام کے بعد پورے مصر میں الاخوان پر ظلم کا بازار گرم ہو گیا۔جماعت کے تمام مراکز اور ادارے ضبط کرلیے گئے۔ ہزاروں پڑھے لکھے جوان جیلوں میں بند کر دیئے گئے اور ان پر طرح طرح کے مظالم توڑے گئے‘ جنہیں سن کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ خود نقراشی پاشا بھی انہی ہنگاموں میں ایک نوجوان کے ہاتھوں قتل ہو گیا ۔ اس سے پہلے احمد ماہر جو نقراشی پاشا کا پیشرو تھا‘ وہ بھی ایک نوجوان کے ہاتھوں قتل ہو چکا تھا۔ اس کے بعد ابراہیم عبدالہادی پاشا کا دور وزارت عظمیٰ شروع ہوا۔ اس نے بھی ظلم کی انتہا کر دی۔ اسی کا دور وزارت تھا کہ ۲افروری۹۴۹اء کو حسن البنّاء جیسے پیکرِ صدق وفا،کوہ عزم ووفا ، مشعل بردارِ دین مبین اور داعیِ ایمان ویقین کو شبان المسلمین کے مرکزکے سامنے سرِ بازار شہید کردیاگیا۔ اس کے بعد انگریزوں‘ یہودیوں اور اسلام دشمن طاقتوں نے گھی کے چراغ جلائے۔
حسن البنا کے کام کا خلاصہ
امام حسن البنا ۹۰۶اء میں مصرکی ایک دور افتادہ بستی میں ایک غریب دیہاتی گھرانے میں پیدا ہوئے اور ۹۴۹اء میں وہ قاہرہ کی سب سے بڑی سڑک پر شہید کر دیئے گئے۔ انہیں شہید کرنے کے لیے انگریز‘ یہودی‘ مصر کی کٹھ پتلی حکومت اور شاہ فاروق سب طاقتوں کو مل جل کر سازش تیار کرناپڑی۔ ان کی کل عمر۴۳سال ہوئی۔ الاخوان کی تاسیس۹۲۸اء میں عمل میں آئی ۔ گویا۲۰سال کے اند ر اس مردِ قلندر نے ایک ایسی تحریک ملک کے اندر کھڑی کر دی‘ جس نے تاریخ کا دھارا بدل کر رکھ دیا اور قوم جو جاہلیت کے نرغے میں جا چکی تھی‘ اسے دوبارہ اسلام کی طرف موڑ دیا۔ صرف بیس سال کے اندر ایسا ذہنی و فکری انقلاب بر پا کر دینااسی ہستی کا کام ہو سکتا ہے‘ جسے اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی صلاحیتیں دے کر دنیا میں بھیجا ہو اور اللہ تعالیٰ جب کوئی خاص کام اپنے بندوں سے لینا چاہتا ہے تو اس کے لیے اپنا خاص بندہ بھی چن لیتا ہے‘ جس کی رہنمائی میں وہ ہدف حاصل کیا جاتا ہے ۔ بیشک اللہ پاک نے اتنے بڑے انقلاب کے لیے امام حسن البناّ کو چنا اور ان کی نہایت موزوں گھرانے میں پرورش ہوئی‘جہاں ماں کی گود اور باپ کی صحبت ہی میں ان کی ایسی سیرت سازی ہو گئی جو آگے چل کران کی قائدانہ فرائض کی ادائیگی میں ممد ثابت ہوئی۔ اس حوالے سے فارسی کی ضرب المثل \"ہر کسے رابہرِکارے ساختند\" امام صاحب پر پوری طرح منطبق ہوتی ہے۔ یہ کہانی نامکمل رہے گی اگر آپ کے عام اخلاق و اوصاف کی بابت کچھ نہ بتایاجائے۔ لہٰذا ذیل میں آپ کی سیرت کے ان پہلوؤں پر روشنی ڈالی جا تی ہے جو آپ کو نبی کریم ﷺ کے ساتھ وفا کا عہد نبھانے والوں کی صف میں خاص مقام دیتے ہیں۔
ا۔ ذکر وعبادت
امام حسن البنّا کو بچپن ہی سے نماز و روزے اور ذکر اللہ کا بے حد شوق تھا۔ چھوٹے بھائی سے مل کر وہ دونوں عشا ء کے وقت مدرسے کے ساتھ والی مسجد میں چلے جاتے اور نماز کے بعد صافی اخوان کی مجلس ذکر میں بیٹھے رہتے اور اہل ذکر کے ساتھ ذکر الٰہی میں مشغول رہتے۔ اس وقت مسجد میں اہل ذکر کے سوا اور کوئی انسان موجود نہ ہوتا تھا۔ رات کا پردہ ء سکوت چھا جاتا اور مناجاتوں کی دھیمی دھیمی صدائیں کانوں میں پڑتیں۔ جسن البنا کی زبان پر یہ اشعار بار بار جاری رہتے۔
اللّٰہ قل و ذر الو جود ماحوی
ان کنت مرتا دا بلوغ کمال
فلکل دون اللّٰہ حققتہ
عدم علی التفصیل والاجمال
ترجمہ۔’’ایک اللہ کو پکار اور باقی تمام موجودات کو ترک کر دے اگر تجھے درجہ کمال تک پہنچنے کا شوق ہے۔ اگر تو تحقیق کرے گا تو معلوم ہوجائے گا کہ اللہ کے سوا ہر چیز نیست ہے ۔ تفصیلاً بھی اورا جما لاََ بھی ‘‘
۲۔ فقر و درویشی۔
امام حسن البناّ کو فقیروں‘ درویشوں اور نیک انسانوں سے بڑی محبت تھی۔ بچپن ہی میں وہ ایسے انسانوں کی صحبت میں شریک ہوتے تھے ۔اپنے اس شوق کو وہ اس شعر کے ذریعے اپنے دوستوں کے سامنے بیان کیا کرتے :۔
ما لذ ۃ العیش الا صحبۃ الفقرآء
ھم السّلاطین والسّادات والامرآء
ترجمہ۔ زندگی کی لذت صرف فقیروں کی صحبت میں حاصل ہوتی ہے ۔ یہی بادشاہ ہیں ‘سردار ہیں‘ امراء ہیں۔
علامہ اقبالؔ نے اس مضمون کو یوں بیان کیا ہے۔
تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقیروں کی
نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں
۳۔ جود وغناسے لبریز طبیعت
امام صاحب کی طبیعت میں انتہائی غنا تھی۔ اخوان کی انتظامیہ کے رکن امین اسماعیل جو سفروں اور دوروں میں مرحوم کے ساتھ رہتے تھے ‘وہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے قمطراز ہیں: ان کی شانِ استغنا کا یہ حال تھا کہ ایک مرتبہ مجھے اپنے ساتھ ایک درزی کے پاس لے گئے‘جسے انہوں نے اپنی عبا سلنے کے لیے دے رکھی تھی۔ ہم دونوں ایک تنگ و تاریک گلی میں داخل ہوئے ‘درزی نے ہمیں دیکھ کر روائتی طریقے سے تکلف کیے بغیر عبا حاضر کر دی اور تین مصری پونڈ اجرت طلب کی۔ امام صاحب نے اسے پانچ پونڈ کا نوٹ دیا اور عبا لے کر چل دیئے۔ میں متردّ د تھا کہ درزی سے زائد رقم واپس لوں مگر امام نے مجھے کھینچا اور میں سمجھ گیاکہ وہ رقم واپس نہیں لینا چاہتے۔ آگے چل کر ایک بدحال گداگر نظر آیا۔ امام صاحب نے مجھے ارشاد فرمایا کہ میں اسے ایک ریال پیش کر دوں۔ مجھے معلوم ہوا کہ امام صاحب کے پاس وہی پانچ پونڈ تھے جو وہ درزی کو دے چکے تھے ۔یہ جو دوغنا تادمِ آخران کے ساتھ رہا ۔
۴۔ دنیا پرستی سے نفرت اور کردار و ضمیر کی پختگی
۹۳۲اء میں اخوان کی تاسیس کے چند سال بعد امام صاحب کو ایک اعلیٰ سرکاری منصب پیش کیا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ انہیں دعوت الی اللہ کے کام سے ہٹایا جائے۔ مگر امام صاحب نے منصب پیش کرنے والے کو ایسا مؤثر جواب دیا کہ وہ شرم کے مارے زمین میں گڑا جا رہا تھا۔ اگر امام وہ پیشکش قبول کر لیتے تو آج ان کی اولاد اس حال میں ہوتی کہ لوگ انہیں دیکھ کر رشک کرتے مگر امام حسن البناّ نے دنیا پرستی کا راستہ ہی ٹھکرا دیا۔
دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں انگریزوں نے بھی امام صاحب کو ہزارہا پونڈ کی پیشکش کی بلکہ آپ کے ایک اشارے پر انگریز اپنے خزانے قربان کرنے کو تیار ہو گئے۔ لیکن اس درویش صفت انسان نے بڑی سختی کے ساتھ انگریزوں کے فرستادہ کو جو ان کے ضمیر و ایمان کو خریدنے کے لیے آیا تھا گھر سے نکال دیا۔ انگریزوں نے ناکام ہو کر یہ سمجھ لیا کہ سونے اور چاندی سے اس شخص کا علاج نہیں کیا جا سکتا۔ آپ پر ہر طرح کے الزام بھی لگائے گئے۔ مگر جب آپ کو فروری۹۴۹اء میں سرِ عام شہید کر دیاگیا‘ تب دنیاکو پتہ چلا کہ وہ اس قدر قلاش انسان تھا کہ اس کے پاس قاہرہ میں اپنا ذاتی مکان بھی نہیں تھا بلکہ وہ ایک قدیم طرز کے محلے میں ایک پرانے‘ بوسیدہ مکان میں رہتا تھا جس کا وہ ایک پونڈ اسی قرش ماہانہ کرایہ ادا کرتا تھا۔ اس کی شہادت کے بعد اس کے بچے واحد آمدنی سے کلیۃً محروم ہو گئے۔
۵۔ پسند و ناپسندکا معیار
امام صاحب کی درویشی کا یہ عالم تھا کہ انہیں جو کچھ کھانے کو مل جاتا‘ کھا لیتے۔ پہننے کے لیے جو میسر آتا ‘پہن لیتے۔ مکان انہوں نے ایسا لے رکھا تھا جو قلّ و کفیٰ کی تعریف میں آتا ہے۔ ان کی زندگی کفاف پر تھی۔ انہیں اس بات کی کبھی فکر نہ لاحق ہوئی کہ وہ اپنے بچوں کے لیے کیاچھوڑ رہے ہیں۔ ان کو جس چیز سے آنکھوں اور دل کا چین حاصل ہوتا‘ وہ صرف یہ تھی کہ لوگوں کے سامنے کلمہ حق کہہ دیں۔
۶۔ محبت کا سفر
امام حسن البنا ایک وسیع الظرف انسان تھے۔ محبت و مؤدّت کا پرچار ان کا مشن تھا۔ایک مرتبہ وہ بالائی مصر کے دورے پر گئے اور عیسائی پادریوں کی ایک جماعت عیسائی پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد کے ہمراہ آپ کو ملنے کے لیے آئی۔ امام صاحب نے ان کے ساتھ جو گفتگو کی وہ تمام تر ان قرآنی آیات پر مبنی تھی‘ جن میں حضرت عیسیٰ اور مریم علیھما السّلام کا ذکر آیا ہے۔ انہوں نے آیات کی تلاوت کی اور پھر ان کی تفسیر بیان کی۔ مسیحی یہ محسوس کرنے لگے کہ یہ اجتماع گویا خاص طور پر انہی کے لیے منعقد کیا گیا ہے کیونکہ اس میں مسلمانوں کے کسی مسئلے کو نہیں چھیڑا گیا اور خاص طورپر انہی کے مسئلے کو ٰچھیڑاگیا ہے۔ اس رویے کا عیسائیوں پر گہرا اثر ہوا‘خاص طور پر اس لیے کہ عام مسلمان علماء ہمیشہ قبطی عیسائیوں کے خلاف تعصبانہ رویہ اختیار کرتے رہتے تھے۔
۷۔ امام حسن البناّء کی حکیمانہ باتیں
امام صاحب نے اسماعیلیہ میں وارد ہونے کے بعد درس دینے کا سلسلہ شروع کیا مگر بجائے مساجد کے‘ جہاں اختلافی جھگڑوں کا چرچا ہوتا ہے‘ انہوں نے قہوہ خانوں اور دور دراز زاویوں کا انتخاب کیا۔ ایسی جگہوں میں ہر رنگ کے لوگ کثرت سے آنے لگے۔ ان میں جھگڑالو اور سابقہ فتنوں کی لکیر پیٹنے والے تفرقہ پسند لوگ بھی تھے۔ ایک ایسی جگہ امام صاحب نے درس شروع کیا ہی تھا کہ ایک شخص نے آپ سے پوچھا کہ وسیلہ کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ امام صاحب نے کہا میرا خیال ہے کہ آپ مجھ سے صرف یہی ایک سوال نہیں کر رہے بلکہ آپ یہ بھی پوچھیں گے کہ اذان کے بعد درودو سلام پڑھنا چاہیے کہ نہیں‘ جمعہ کے روز سورۃ الکھف پڑھنی چاہیے کہ نہیں‘ تشہد کے اندر محمد (ﷺ)سے پہلے سید نا پڑھاجائے کہ نہ، نبی کریم ﷺ کے والدین کس کیفیت میں ہیں ؟‘ قرآن خوانی کاثواب مردے کو پہنچتا ہے کہ نہیں‘ صوفیاء کی مجالس معصیت ہیں کہ تقرب الی اللہ کا ذریعہ۔ وغیرہ وغیرہ۔۔ ۔ یہ سن کر وہ شخص حیران ہو گیا اور کہنے لگا‘ جی ہاں ، میں ان تمام باتوں کا جواب معلوم کرنا چاہتا ہوں۔
امام صاحب نے فرمایا: بھائی! میں عالم نہیں ہوں‘ میں ایک درس و وعظ سے دلچسپی رکھنے والا عام شہری ہوں ۔ مجھے کچھ قرآن کی آیات یاد ہیں۔ چند احادیث شریفہ بھی از بر ہیں اور کتابوں کا کچھ مطالعہ کر کے کچھ دینی احکام ومسائل جانتا ہوں اور رضاکارانہ طور پر لوگوں کو دینی درس دیتا ہوں۔ اگر ان حدود سے آپ مجھے باہر لے جائیں گے تو مجھے نازک پوزیشن میں ڈال دیں گے اور جو شخص کہہ دے لا ادری یعنی میں کچھ نہیں جانتا تو یہ بھی اس کا ایک فتویٰ ہے۔ اگر آپ کو میری باتیں بھلی لگیں اور ان کے اندر آپ کوخیر کا پہلو نظر آئے تو براہ کرم انہیں سماعت فرمائیں ‘اگر مزید معلومات حاصل کرنا چاہیں تو میرے سوا دوسرے علماء و فضلا ء کی طرف رجوع کریں‘ جس مسئلے کا پوچھیں گے وہ آپ کو فتویٰ دے دیں گے ۔ میرا مبلغِ علم تو اتنا ہی ہے جو آپ کے سامنے رکھ دیا ہے اور اللہ کسی شخص کو اتنی ہی تکلیف دیتا ہے جو اس کی وسعت میں ہوتی ہے۔ اس طرح وہ سائل امام صاحب کی گرفت میں آ گیا ‘اس سے کوئی جواب نہ بن پڑا مگر اس سے عام حاضرین تک یہ پیغام پہنچ گیا کہ معمولی باتوں کی وجہ سے تفرقہ پسندی چھوڑ کر اتحاد امت کی طرف آئیں۔
۸۔ رفقا ئے تحریک کے ساتھ برتاؤ۔
دفتر کے رفقا کے ساتھ ان کا سلوک ایسا تھا کہ ان کی ہر بات ساتھیوں کے دل میں محبت کی ایک نئی لہر پیدا کر دیتی ۔ امین اسماعیل (ان کے رفیق حضرو سفر )بیان کرتے ہیں کہ آپ دفتر میں میرے کام پر نظر ثانی کرتے اور بڑی شائستگی کے ساتھ میری غلطیوں کی تصحیح کردیتے۔ مجھے یہ محسوس نہ ہوتا کہ میں نے کوئی غلطی کی ہے بلکہ میرا احساس صرف یہ ہوتا کہ جو کچھ وہ فرماتے ہیں‘ وہی درست ہے اور میرا کام مجھے واپس کرتے ہوئے بڑی شفقت سے کہتے ‘ آپ میری تصحیح پر نظر ثانی کر لیں اور اگر
کوئی تبدیلی کرنا چاہیں تو کر لیں۔ لیکن میں حلفاََ کہتا ہوں کہ میں نے ان کی اصلاح میں کبھی حذف و اضافہ یا تبدیلی کو ضرور ی نہ جانا۔
میرے ہاں اگر کوئی پیدائش ہوتی تو میرے گھر تشریف لاتے۔ میں بیمار ہوجاتا تو میری تیمارداری کرتے۔ کبھی مجھے کوئی تکلیف پیش آتی تو گھر پر آ کر مجھے دلاسا دیتے‘ حالانکہ میں دفتر کا ایک معمولی کلرک تھااور وہ بڑے مشغول انسان تھے ۔ شب و روز میں صرف چند منٹ سوتے اور دونوں وقت چند لقموں پر گزارا کرتے۔
دوروں میں جماعت کے رفقاء سے جب ملتے تو ایک ایک کو سلام کرتے‘نام لے لے کر ان کے بچوں کی خیریت دریافت کرتے اور ان کی تعلیم کی حالت پوچھتے بلکہ میں نے تو یہ بھی دیکھا کہ فلاحین (کسانوں)کے ساتھ تخلیہ میں ملتے اور ان کے جانوروں تک کی صورتِ حال دریافت کرتے ۔ اس معاملے میں ان کا حافظہ بے پناہ مضبوط تھااور چھوٹی چھوٹی باتیں بھی انہیں یاد رہتی تھیں۔ میں مرحوم سے بڑا مانوس تھا۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے عرض کیا\" استاذ محترم! اللہ تعالیٰ نے ابھی مجھے معاف نہیں فرمایا اور وہ مجھ سے خوش نہیں ہوا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ میں رات بھر کوشش کرتا رہا ہوں کہ قرآن کریم کا ایک صفحہ حفظ کر لوں ۔ مگر کامیاب نہیں ہو سکا۔ یعنی میں تو فیق خدا وندی سے ابھی تک محروم ہوں۔ مرحوم نے مجھے حسرت و قلق میں مبتلاپا کر تھپکی دی اور اپنے ہاتھ سے میرے آنسو پونچھے اور فرمایا جب کوئی بندہ اللہ کی رضا میں آنسو بہاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے معافی سے محروم نہیں کرتا اور جہاں تک حفظِ قرآن کا تعلق ہے تو اس بارے میں آپ پریشان نہ ہوں ۔حضرت عمرؓ بن خطاب کو بھی پورا قرآن حفظ نہ تھا۔ ان کا جواب سن کر مجھے انتہائی روحانی تسکین حاصل ہوئی۔
ایک بار مجھ سے ایک غلطی سرزد ہو گئی ۔ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرنے لگا مگر انہوں نے کوئی دوسری بات چھیڑ دی جس کا اس موضوع سے کوئی تعلق نہ تھا۔ میں بار بار اپنے موضوع کی طرف رجوع کرتا ۔ مگر وہ مجھے کوئی جواب نہ دیتے ۔ ان کے چہرے پر بھی میں نے ملال کا کوئی اثر نہ دیکھا ۔ میں نے پھران سے تنہائی میں ملنا چھوڑ دیا۔ ایک روز یکا یک انہوں نے مجھے اپنے گھر طلب کیااور مجھے دیکھتے ہی میرا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا آئیے ہم بیعت کی تجدید کرلیں ۔ چنانچہ میں نے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کراللہ اور رسولﷺ کی وفا داری کا ازسر نو عہد کیا۔ اس کے بعد وہ مجھے فرمانے لگے ،میں نے تمہیں مکتب الارشاد (انتظامی کونسل) کا رکن نامزد کر دیا ہے۔
۹۔ دعوت سے شغف۔
دعوت کافریضہ امام مرحوم پر ایک بخار بن کر سوار تھا۔ اس بخار کا اثر تمام حاضرین تک پہنچ جاتا اور وہ سب دنیا و مافیھا سے غائب ہوجاتے ۔ وہ لوگوں کو اس طرح پکارتے۔ ’’ لوگو !ہماری طرف آؤ جو رسول اللہ ﷺ کو نہیں پا سکا وہ ہمیں آ ملے۔ ہم اسی ذات پاک ﷺکے قافلے میں شامل ہیں۔ جو آنجنابﷺ کی خدمت میں حاضر ی نہیں دے سکا ‘وہ ہماری جانب رخ کرے ۔ ہم مدتوں سے آنجناب ﷺ کے در کے بھکاری بن کر کھڑے ہوئے ہیں۔ جس نے آنجناب ﷺ کی سیرتِ پاک نہیں سنی ‘وہ ہم سے سن لے کہ ۔۔
ان النبی الحیی فی ضما ئرنا
علی الزمان منھا ویستمع
ففی قلوب یقوم الدین محسرھا
وفی قلوب یقو م الحب والواسع
ترجمہ۔ حضور ﷺ ہمارے ضمیروں کے اندر ہمیشہ سے زندہ ہیں اور وہ سب کچھ سن رہے ہیں۔ وہ ایسے دلوں کے ا ندر پائے جاتے ہیں جو دین کی رکھوالی کرتے ہیں اور ایسے دلوں کے اندر موجود ہیں جو ان کی محبت و عقیدت سے لبریز ہیں۔
وہ جب کبھی تبلیغی دورے پر جاتے تو سیدھے کسی مسجد میں جا اترتے۔ رمضان المبارک میں پانی اور کھجور سے افطاری کر لیتے۔ لوگ جب گھروں سے کھا پی کر آتے تو اس نووارد کو دیکھتے‘ یہ نودارد نماز کے بعد اپنے سادہ لباس میں ملبوس کھڑا ہو جاتا اور نہایت مؤثر وعظ شروع کر دیتا اور لوگوں کو بعد میں معلوم ہوتا کہ یہ شیخ حسن البناّ تھا۔
۰ا۔ قیادت کی شان۔
جب فلسطین کے مسئلے پر اخوان نے قاہرہ میں جلوس نکالا تو اس جلوس کی قیادت خود امام صاحب نے کی۔ جب الحقبہ الخضرا کے میدان میں پہنچے تو پولیس نے حملہ کر دیا۔ امام حسن البناّ آگے بڑھے ۔ پولیس والوں کو فائرنگ کرنے سے روکا۔ مظاہرین کو بچانے کے لیے ہاتھ آگے کر دیئے۔ آپ کے دونوں ہاتھ بری طرح خون آلود ہو گئے مگر مظاہرین کو دلاسا دیتے رہے کہ معمولی بات ہے‘ پریشان نہ ہوں۔ مگر مظاہرین یہ محسوس کرتے تھے کہ گولی حسن البنا کے ہاتھوں کو نہیں لگی‘ ہمارے ہاتھ مجروح ہوئے ہیں۔
الحلیمۃ کے میدان میں موصوف ہر بدھ کو درس دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک نوجوان نے بڑا دلچسپ سوال کیا۔ کیا محبت کرنا حلال ہے یا حرام؟ امام صاحب سوال پر دیر تک مسکراتے رہے‘پھر بڑی لطافت کے ساتھ جواب دیا۔ حلال محبت حلال ہے اور حرام محبت حرام ہے۔
دارالاخوان کے معاونین سے انہیں بڑی محبت تھی۔ جب لوگ کھانے کے لیے گھرو ں کو چلے جاتے تو وہ دفتر کے ملازموں کے ساتھ بیٹھ کر وہیں کھا لیتے۔
اا۔ مومنانہ بصیرت۔
اس انسان کو اللہ تعالیٰ نے مومنانہ بصیرت کا بہرہ وافر عطا کر رکھا تھا۔ انہوں نے دوسری جنگ عظیم سے پیشتر ہی اپنے ساتھیوں کو بتا دیا تھا کہ وہ جس دعوت کو لے کر اٹھے ہیں‘ اس کا راستہ کہاں کہاں سے ہو کر گزرتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ابھی اخوان آزمائشوں میں داخل نہیں ہوئے تھے اور ان کی تحریک اپنا ابتدائی سفر طے کر رہی تھی۔ انہوں نے اسی زمانے میں اپنے ساتھیوں کو فرما دیا تھا۔
’’ ایہا الاخوان ! میں تمہیں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ تمہاری دعوت سے ابھی اکثر لوگ ناواقف ہیں‘‘۔ جس روز وہ اس کی حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے اور اس کے اغراض و مقاصد کو سمجھ جائیں گے‘ اس روز تمہیں ان کی طرف سے شدید مخالفت بلکہ تندو تیز عداوت کا سامنا ہو گا۔ اس روز تم اپنے سامنے طرح طرح کی تکالیف کا مشاہدہ کرو گے اور بے شمار رکاوٹیں تمہارے راستے میں حائل ہو جائیں گی۔ اس وقت ہی تم صحیح معنوں میں دعوتِ حق کے علمبرداروں کی وادی میں داخل ہوگے‘آج تم گمنام ہو‘ لیکن تمہیں دعوت کے لیے برابر راستہ ہموار کرتے رہنا چاہیے اور یہ دعوت جس جہاد و قربانی کی جانب ہے‘ اس کے لیے خوب تیاری کرنی چاہیے۔ عوام الناّس کی اسلام سے ناواقفیت بھی تمہارے راستے کا روڑا بنے گی۔ سرکاری علماء تمہارے اسلامی تصور پر حیرت کا اظہار کریں گے۔ راہِ حق میں تمہارا جہاد ناپسند کیاجائے گا۔ حکاّم اور زعماء اور اصحابِ جاہ و اقتدار تم سے جلیں گے۔ تمام حکومتیں تمہارے آگے دیوار بن کر کھڑی ہو جائیں گی۔ ہر حکومت تمہاری سرگرمیوں کو محدود کرنے کی کوشش کرے گی اور تمہارے راستے میں کانٹے بچھائے گی۔ لٹیرے تمہاری مخالفت کے لیے اور تمہاری شمع دعوت کو گل کرنے کے لیے ہر ہتھکنڈے استعمال کریں گے اور کمزور و بزدل حکومتوں کو اس غرض کے لیے استعمال کریں گے۔ گھٹیا اخلاق اور ہر وقت سوال کے لیے دراز رہنے والے ہاتھ تمہارے خلاف استعمال ہوں گے ۔ایک گروہ تمہاری دعوت پر شکوک و شبہات کی گرد اڑائے گا‘افترا پر دازیاں کرے گااور کوشش کرے گاکہ ہر عیب تم پر چسپاں کیاجائے اور اس دعوت کو بری سے بری شکل میں لوگوں کے سامنے لایاجائے۔ ان کے پاس طاقت ہو گی‘ اقتدار ہو گا‘ مال ہو گا‘ نفوذ و اثر ہو گا۔ ان حالات میں تم لوگ بیشک تجربہ اور امتحان کے مرحلے میں داخل ہو جاؤ گے۔ تمہیں جیلوں میں ڈال دیاجائے گا‘ جلا وطن کیا جائے گا‘ گھروں سے نکالا جائے گا‘ تمہاری جائیدادیں ضبط کی جائیں گی‘ تمہارے گھروں کی تلاشیاں لی جا ئیں گی اور ہو سکتا ہے کہ امتحان کا یہ مرحلہ دراز تر ہو جائے۔
امام صاحب اعلے ٰ خصائل کے پیکر تھے ۔آپ کی کہانی کے اختتام سے پہلے ان کے ہمعصر مفتی اعظم فلسطین الحاج امین الحسینی اور ان کے بھائی عبدالرحمن البناّ کی امام شہید کے بارے میں تاریخی حیثیت کی آراء کو قیمتی یادداشت کے طور پر یہاں قلمبند کیا جا رہا ہے۔
ا۔ مفتی اعظم فلسطین الحاج امین الحسینی کی امام شہید کے بارے میں رائے۔
پہلی ملاقات میں جب میں نے امام حسن البناّ کو دیکھا‘ان کی گفتگو سنی تو مجھے ان کے اندر صاف اور شفاف روح نظر آئی۔ بعد میں جب ہمارے تعلقات زیادہ مستحکم ہو گئے تو مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ اس عظیم انسان کو اللہ تعالیٰ نے بڑی نادر خوبیاں‘ اعلیٰ خصائل اور کریمانہ صفات سے نواز رکھا ہے۔ نمایاں صفات ان کی یہ تھیں: ۔ گہرا اخلاص ‘ عقلِ سلیم اور عزمِ قوی ۔ ان تینوں خوبیوں کو ان کے مضبوط عقیدے اور محمد ی اخلاق نے مزین کر رکھا تھا۔ وہ بڑے بلند ہمت اور ایثار پیشہ انسان تھے۔ قربانی‘ ثابت قدمی اور سادگی ان کی صفات تھیں‘وہ دینی محنت سے لگن رکھتے اور منفعت سے گریز کرتے‘ پاک و شفاف سیرت سے بہرہ ور تھے اور یہی وہ اوصاف تھے ‘ جن کی بنا پر وہ قیادت کے منصبِ عظیم پر فائز ہوگئے ۔ میں حلیمہ میں ان کے مکان پر گیا۔ گھر کا سازو سامان بالکل سادہ اور گھر کی ہر چیز تقشف اور قناعت کی گواہ۔ امام صاحب کا مزاج نہایت خاکسارانہ تھا۔ ایک دعوت میں جو عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل عبدالرحمان عزام نے مرحوم قائداعظم اور لیاقت علی خان کے اعزاز میں دی تھی‘ میں اور امام حسن البناّ صاحب دعوت کے گھر سب سے پہلے پہنچے تھے ۔دیر تک ہم دونوں پاکستانی قائدین کے ساتھ باتیں کرتے رہے‘پھر جب دیگرمدعووین پہنچنے شروع ہو ئے تو حسن البناّ ہر نئے مہمان کے لیے اپنی نشست چھوڑ کر پیچھے ہوتے ہوتے دروازے تک کے پاس والی نشست تک چلے گئے۔ اب امام صاحب آخری نشست کی وجہ سے کھانے کے کمرے سے قریب تر تھے ۔ صاحب خانہ عزام صاحب نے امام صاحب کو کھانے کے کمرے میں تشریف لے جانے کے لیے کہا لیکن وہ دوسرے مہمانوں کو ترجیح دیتے رہے اور خود پیچھے ہٹتے رہے۔ چنانچہ سب سے آخر میں جو شخص کھانے کے کمرے میں داخل ہوا وہ امام البناّ تھے۔ علاوہ ازیں موصوف معاملات میں اور مشکلات کو حل کرنے میں بڑی غیر معمولی لچک دکھاتے تھے‘ میں جب انہیں یاد کرتا ہوں تو بے ساختہ یہ شعر میری زبان پر آجاتا ہے۔
ھیہات ان یاتی الزّمان بمثلہ
انّ الزّمان بمِثلِہٖ لبخیل
ترجمہ:۔ کاش زمانہ ان جیسی شخصیت پھر ہمیں فراہم کرتالیکن زمانہ ایسے انسا ن پیدا کرنے میں بڑے بخل سے کام لیتا ہے۔
ب۔ امام صاحب کے بھائی عبدالرحمان البنّا کی رائے۔
مرحوم شہید کی عام زندگی اور طریق گفتگو نہایت سادہ اور خاکسار انہ تھا۔ اگر مجلس زمینی ہوتی تو مرحوم بوریے پر ہی بیٹھ جاتے اور آخری نشستوں میں بیٹھنا پسند کرتے۔ جہاں انہیں پہچاننے کی علامت اس کے سوا اورنہ ہوتی کہ ان کے چہرے سے علم کی تابانی اور روح کی نورانیت ٹپک رہی ہوتی۔ بالعموم وہ سستے کپڑے کا معمولی (لمبا کرتا جسے عام طور پر عرب پہنتے ہیں ) زیب تن کرتے اور عبا پہن لیتے ۔ سر پرعمامہ باندھ لیتے‘ جس کے نیچے ایک روشن جبین اور ذہین چہرہ دمک رہا ہوتا۔ گفتگو میں وہ تصنع سے کام نہ لیتے تھے بلکہ نہایت سلیس اور رواں دواں زبان اختیار کرتے۔ بات بات پر وہ قرآن کریم کی آیات سے استدلال کرتے۔ قرآن کریم انہیں بڑی پختگی کے ساتھ حفظ تھا اور اس کی تلاوت بھی وہ نہایت لطف و لذت میں ڈو ب کر کرتے۔
مفتی اعظم فلسطین الحاج امین الحسینی نے امام شہید کی سیرت کے جن حسین اور نادر خصائل کا ذکر فرمایا ہے ‘ان کے اس آخری زمانے میں کسی ایک فرد کے اندر جمع ہونا خاص اللہ کی کرم نوازی کا کرشمہ ہے۔اس کے بعد امام صاحب کی سیرت کے بارے میں مزید کچھ کہنا عبث ہے۔
امتحان کے جس دراز تر مرحلہ کی طرف امام شہید نے اوپر اپنے ہمعصر حضرات کی آراء ک کے بیان سے پہلے صفحہ۲۱۹ اشارہ کیا ہے غالباَ وہ سورۃ العنکبوت کی دوسری آیت اَ حسِبَ النّاسُ اَن یُترکوا ان یقُولُوٰ اٰمناّ وھم لَا یُفتَنون الی آخرہاکی سخت تنبیہ کے حوالہ سے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جاننے کے لئے کہ کون ایمان کے دعویٰ میں سچا ہے اور کون جھوٹا ‘ اللہ اپنے بندوں کا امتحان ضرور لے گا۔ اس طرح کے امتحان کے بعد امام حسن البناّء اور ان کے جان نثار ساتھی جنہوں نے اعلاءِ کلمۃ الحق کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں دیں‘ سب سچے ثابت ہوں گے۔ ظاہر ہے ایسے سچے بندوں کے لیے ہی یہ اللہ کی طر ف سے بشارت ہے کہ ۔۔۔۔
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں ۔
یعنی ان کی ہر خواہش کو پورا کیاجائے گا ۔ ایسی ایسی نعمتوں سے ا ن کو نوازا جائے گا جن کو کسی آنکھ نے دیکھا نہ ہو گا‘ کسی کان نے سنا نہ ہو گا اور نہ ہی جن کا کسی ذہن میں خیال ہی آیا ہو گا۔ اللہ پاک کی طرف سے اور تمام فرشتوں کی طرف سے ان کو سلام آئے گا۔ سلامُٗ قَولاً مِنّ رَبِّ رَّحِیم،قیلًا سلامً سلاماَ، سلامُٗ علَِیکم طِبتُم
اور رب غفورُ رّحیمِ ان کی میزبانی فرمائے گا۔ نُزُلًِ من غفورُُ رَّحِیم۔ ۔ان کی قسمت پر جتنا بھی رشک کیاجائے‘ کم ہے۔
اللّٰھمَّ الدخِلہ فی الجَنّتِ الفِردوسِ مَعَ احبَابہٖ
این دعا ازمن واز جملہ جہاں آمیں باد!
*******
No comments:
Post a Comment