Sunday, 24 August 2014

Hazrat Khabab Bin Al Arat (RA)


چو تھی کہانی

حضرت خباّب بن ارت 

یہ کہانی حضرت خبابؓ بن ارت کی ہے۔ لڑکپن میں غلام بن کر غلاموں کی منڈی میں بکنے کے لیے لائے گئے۔ اگر ایک طرف منڈی میں بکنے کے لیے جنس آتی ہے تو دوسری طرف خریداربھی آتے ہیں۔ ان خریداروں میں مکہ معظمہ کی ایک رئیسہ ام انمار خزاعیہ بھی تھی۔وہ ایک ایسا (غلام) لڑکا خریدنا چاہتی تھی جس سے وہ گھریلو خدمت بھی لے اور اسے کوئی کاروبار بھی سکھلا دے ‘جو اس کے لیے مالی طور پر مفید اور نفع بخش ثابت ہو ۔وہ ان غلاموں کو بغور دیکھنے لگی جنہیں بیچنے کے لیے منڈی میں لایا گیا تھا۔ اس کی نگاہِ انتخاب اسی لڑکے پرپڑی جو صحت مند تھا اور ابھی سن بلوغت کو نہیں پہنچا تھا‘ شرافت کے آثار البتہ اس کے چہرے سے نمایاں تھے۔ اسے یہ ہونہار بچہ پسند آگیا ۔ قیمت ادا کی اور اسے اپنے ساتھ لے کر گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔ راستے میں اُمّ انمار نے بچے سے پوچھا : 
ارے لڑکے !تیرا نام کیا ہے؟
بتایا: خباّب
اس نے پوچھا: تیرے باپ کا نام ؟ 
بتایا: اَرت
پوچھا:کہاں سے آئے ہو؟ 
بتایا: نجد سے 
اس نے کہا: پھر تو عربی ہو ؟ 
کہا: ہاں میں عربی اور قبیلہ بنو تمیم سے تعلق رکھتا ہوں۔ 
اُمِّ انمار نے پھرپوچھا:یہاں مکہ میں تم غلاموں کے سوداگروں کے ہاتھ کیسے چڑھ گئے؟ بتایا: ہمارے محلے میں ایک عرب قبیلے نے لوٹ مار کی ۔ ہمارے مویشی ہانک کر لے گئے ۔ عورتوں کو گرفتار کر لیا۔ بچوں کوبھی اپنے قبضے میں لے لیا‘ ان بچوں میں‘ میں بھی تھا۔ اس طرح ہاتھوں ہاتھ بکتا ہوا یہاں پہنچا اور اب میںآپ کے قبضے میں ہوں۔ 
اُمِّ انمار نے اس لڑکے کو مکہ کے ایک مشہور کاریگر کے حوالے کیاتاکہ وہ اسے تلوار بنانا سکھا دے ۔ اس لڑکے نے بہت جلد تلوار بنانے میں مہارت حاصل کر لی۔جب خباّب ایک اچھا کاریگر بن گیا تو ام انمار نے اسے اس کام میں لگا دیا تاکہ محنت سے کام کرے اور عمدہ تلواریں بیچ کر خوب فائدہ اٹھایا جائے۔حضرت خباّبؓ تھوڑے ہی عرصے میں اپنے فن میں اتنا ماہر ہو گئے کہ لوگ ان کے ہاتھ کی بنی ہوئی تلواریں بڑے شوق سے خریدنے لگے ۔ چونکہ وہ خوش اخلاق‘ نرم خو‘ شیریں گفتار ہونے کے ساتھ مضبوط‘ نفیس اور اعلیٰ قسم کی تلوار بنانے کے ماہر تھے اس لیے ان کا کاروبار خوب چمکا۔حضرت خبابؓ نو عمری کے باوجود بڑے زیرک‘ معاملہ فہم اور ذہین تھے۔ جب وہ اپنے کام سے فارغ ہوتے تو اکثر جاہلیت سے معمور عرب معاشرے کی حالتِ زار پر غور و خوض کیا کرتے جو پاؤں کے تلووں سے لے کر سر کی چوٹی تک شرو فساد میں غرق ہو چکا تھا۔ عرب معاشرے کی جہالت‘ گمراہی‘ لاقانونیت اور ظلم و ستم دیکھ کر ان کا دل دہل جاتا اور وہ اس احساس سے کانپ اٹھتے کہ میں بھی تو اسی معاشرے کا ایک فرد ہوں۔وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ اس شبِ تاریک کی بالآخر سحر بھی ہو گی اور ان کی یہ دلی تمناّ تھی کہ مجھے عمرِ دراز ملے تا کہ میں اپنی آنکھوں سے اندھیرے کا انجام اور صبحِ نور کا دلآ ویز طلوع دیکھ سکوں۔ حضرب خباّبؓ کو زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا کہ ایک روز انہیں دلربا خبر ملی کہ بنو ہاشم کے ایک جوان حضرت محمدﷺ نے نبوّت کا دعویٰ کر دیا ہے اور وہ اپنے دین مبارک کے نورانی کلمات کے ذریعے انسانی دلوں کو مسخر کر رہے ہیں ۔ خباّب یہ خبر سنتے ہی رسول اللہ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے‘ آپ ﷺکے دلپذ یر نصیحت آموز نورانی کلمات آپﷺ کے دہن مبارک سے نکل رہے تھے اور خباب مسرور ہو رہے تھے۔ آپ ﷺ کی باتوں نے ان کے دل پر ایسا اثر کیا کہ فورا اپنا ہاتھ بڑھایا، آپﷺکے ہاتھ پر بیعت کی اور زبان سے پکار اٹھے ۔ \"اشھد ان لاّ الہ الاّ اللّٰہ واشھد انَّ محمد اً عبدہ ورسولہ\"
(میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور حضرت محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسولﷺ ہیں)۔ یوں اس روئے زمین پر بسنے والے انسانوں میں حضرت خبابؓ بن ارت ان چند خوش قسمت اشخاص میں شامل ہوگئے جو اول اول اسلام لانے والے تھے۔حضرت خباّب نے اپنے اسلام لانے کو کسی سے چھپایا نہیں۔یہ خبر ان کی مالکہ امِ انمار کو جب ملی تو وہ غصے سے بھڑک اٹھی۔ اپنے بھائی سباع بن عبدالعزیٰ کو ہمراہ لیا اور یہ دونوں بنو خزاعہ کے نوجوانوں سے ملے ۔ انہیں صورت حال سے آگاہ کیا اور حضرت خباّبؓ کے مسلمان ہونے کی خبر دی اور ان کے خلاف نوجوانوں کو بھڑکا یا۔ پھر یہ سب مل کر حضرت خبابؓ کے پاس گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے کام میں منہمک ہے ۔ام انمار کا بھائی سباع آگے بڑھا اور کہا : اے خباّب ! ہمیں ایک ایسی خبر ملی ہے کہ ہمارے دل اسے صحیح نہیں مانتے۔ حضرت خباّب نے پوچھا: کونسی خبر ؟ 
سباع نے کہا یہ خبر مشہور ہو چکی ہے کہ تم بے دین ہو گئے ہو اور تم نے بنو ہاشم کے نوجوان کی پیروی اختیار کر لی ہے۔ حضرت خبابؓ نے یہ بات سن کر بڑے ہی نرم لہجے میں جواب دیا ۔ میں بے دین نہیں ہوا میں تو اللہ وحد ہ لا شریک پر ایمان لایا ہوں اور میں نے یہ اقرار کر لیا ہے کہ حضرت محمدﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسولﷺ ہیں۔اب میں بتوں کو نہیں مانتا۔ اللہ وحدہ لا شریک کے سامنے ان کی کیا حیثیت ہے ۔ وہ نفع پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان ۔ محض بت ہیں پتھر کے بیکار سے مجسمے۔ حضرت خبابؓ کے منہ سے یہ کلمات نکلے ہی تھے کہ سب آپ پر ٹوٹ پڑے‘ گھونسوں‘ جوتوں‘ لوہے کی سلاخوں اور ڈنڈوں سے آپؓ کو اتنا مارا کہ آپ بے ہوش ہو کر گرپڑے اور آپؓ کے جسم کے مختلف حصوں سے خون بہہ نکلا۔
حضرت خبابؓ اور امِ انمار کے مابین پیش آنے والے اس واقعے کی خبر مکہ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ لوگ حضرت خبابؓ کی جرأت سے ورطہ ء حیرت میں پڑ گئے کیونکہ انہوں نے اس سے پہلے یہ سنا ہی نہ تھا کہ کسی نے حضرت محمدﷺ کا اتباع اختیار کیا ہو اور پھر لوگوں کے سامنے دلیری کامظاہرہ کرتے ہوئے پوری وضاحت سے اپنے اسلام لانے کا اعلان بھی کیا ہو۔ قریش کے بوڑھے حضرت خبابؓ کے اس جرأ ت مندانہ اقدام پر انگشت بد نداں ہو کر رہ گئے۔ انہوں نے دل میں سوچا کیا ایک لوہار سے یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ اعلانیہ ہمارے خداؤں کو برا بھلا کہے اور ہمارے آباؤ اجداد کے دین کو ہدفِ تنقید بنائے۔ انہیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ آج حضرت خباّبؓ نے جس دلیری و شجاعت کا مظاہرہ کیا ہے‘ آگے چل کر اس میں مزید اضافہ ہو گا۔ قریش کایہ اندیشہ درست ثابت ہوا۔ حضرت خبابؓ کی جرأت مؤمنانہ نے بیشتر صحابہؓ کو اس بات پر برانگیختہ کیا کہ وہ بھی اسی طرح اپنے اسلام لانے کا برملا اعلان کریں‘ لہٰذا وہ یکے بعد دیگرے کلمہ حق کا ببانگِ دہل اعلان کرنے لگے۔ 
ایک روز قریش سردار کعبہ کے نزدیک اکٹھے ہوئے‘ ان میں ابو سفیان بن حرب‘ ولید بن مغیرہ اور ابو جہل بن ہشام کے علاوہ اور بھی سرکردہ سردار موجود تھے۔ وہ اس موضوع پر تبادلہ خیال کرنے لگے کہ حضرت محمد ﷺ کی دعوت دن بدن اور لحظہ بہ لحظہ پھیلتی جا رہی ہے ۔ اس صورتِ حال کے پیش نظر انہوں نے پختہ ارادہ کیا کہ اپنے آبائی دین کو چھوڑنے کی اس لہر کو شدت اختیار کرنے سے پہلے ہی ختم کر دیاجائے اور انہوں نے یہ طے کیا کہ ہر قبیلہ اپنے ایمان لانے والے فرد کوایسی عبرتناک سزا دے کہ یا تو وہ اپنے آبائی دین کی طرف لوٹ آئے یااسے مار ہی ڈالاجائے۔ ایک ایک مؤمن کا دماغ درست کرنے کے لیے ایک ایک سردار کو ذمہ داری دے دی گئی۔ اس فیصلے کی رو سے سباع بن عبدالعزّیٰ اور اس کے قبیلے کے حصے میں حضرت خباّبؓ ؓ آئے۔ جب دوپہر کے وقت گرمی نقطہء عروج پر ہوتی تو وہ حضرت خبابؓ کو مکہ کے قریب چیٹل پتھریلے میدان میں لے جاتے ،ان کے کپڑے اتار دیتے اور لوہے کی زِرہ پہنا دیتے۔ پینے کا پانی بند کر دیتے۔ جب پیاس اور تکلیف سے وہ نڈھال ہو جاتے تو قریب آتے اور پوچھتے کہ اب حضرت محمدﷺ کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟آپؓ فرماتے۔ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسولﷺ ہیں‘ ہمارے پاس ہدایت و صداقت کا دین لے کر آئے ہیں تاکہ ہمیں تاریکیوں سے نور کی طرف نکال لائیں۔ یہ سن کر وہ بپھر جاتے اور بے تحاشہ پٹائی شروع کر دیتے ۔مار مار کر جب تھک جاتے تو وہ پوچھتے لات اور عزّیٰ کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے۔آپ فرماتے ’’یہ دونوں گونگے بہرے بت ہیں نہ کسی کو نفع دے سکتے ہیں اور نہ ہی نقصان پہنچا سکتے ہیں‘‘۔ یہ سن کر وہ آپے سے باہر ہو جاتے ۔ گرم پتھراٹھا کر لاتے اور آپؓ کی پیٹھ کے ساتھ لگائے رکھتے۔ پتھروں میں اس قدر تمازت ہوتی کہ ان کی گرمی سے حضرت خبابؓ کے وجود سے چربی اور خون بہنے لگتے۔ انہی ایام کے حالات بیان کرتے ہوئے حضرت خباّبؓ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضرہوا‘ آپﷺ اس وقت کعبہ کے سائے میں چادر اوڑھے ہوئے آرام فرما رہے تھے‘ یہ اس وقت کی بات ہے جب مشرکین کی طرف سے ہمیں شدید تکلیف پہنچ رہی تھی‘ میں نے عرض کیا:’’کیا آپﷺ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعانہیں فرمائیں گے ؟ ‘‘ آپﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے‘ چہرہ اقدس کا رنگ سرخ ہو رہا تھا‘ آپﷺ نے فرمایا:’’ تم سے پہلے لوگوں کے گوشت اور پٹھوں کو لوہے کی کنگھیو ں کے ساتھ ہڈیوں سے الگ کر دیاجاتا تھا‘ اس طرح کی شدید ایذا بھی انہیں دین سے نہیں ہٹاتی تھی‘ کسی کے سر پر آرے کو رکھ کر اسے دو لخت کر دیا جاتااور اس طرح کے آلام مصائب بھی اسے دین سے دور نہیں کر سکتے تھے۔ اللہ تعالی اس دین کو ضرور مکمل فرمائے گا حتی ٰ کہ ایک سوار صنعا ء سے حضرموت تک سفر کرے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہیں ہو گا‘ البتہ بکریوں کے بارے میں بھیڑیے کا ڈر ہو سکتا ہے۔ لیکن تم جلدی کر رہے ہو (صحیح البخاری حدیث:۔6943,3852,3612)
حضور ﷺ اپنے دوسرے جاں نثار صحابہ کرامؓ کو بھی تسلی دیتے کہ دینِ حق کی خاطر ان آلام و مصائب سے گھبرانا نہیں‘ دل برداشتہ نہ ہونا‘ دیکھنا تمہارے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہ آئے‘ اہلِ حق کوہمیشہ ابتلاء و آزمائش کی ان کٹھن منزلوں سے گزرنا ہی پڑتا ہے‘، اہل حق کی تاریخ ہی یہ ہے۔ ؂
کس روز تہمتیں نہ تراشا کئے عدو کس دن ہمارے سر پہ نہ آ رے چلا کیے
اُمّ انمار سخت گیری اورسنگ دلی میں اپنے بھائی سے رتی برابر کم نہ تھی۔ اس نے ایک روز حضرت محمد ﷺ کو اپنی دکان پر کھڑے حضرت خبابؓ سے باتیں کرتے دیکھ لیا تو غصے سے بپھر گئی ۔ اس کے بعد اس نے اپنا یہ معمول بنا لیا کہ ہر دوسرے تیسرے روز آتی ۔ لوہے کی بھٹی سے گرم سلاخ نکالتی اور اس سے حضرت خبابؓ کے سر کو داغ دیتی‘جس سے آپؓ بے ہو ش ہو جاتے اور آپؓ کی زبان سے اُمِّ انمار اور اس کے بھائی کے بارے میں بددعا نکلتی۔ جب رسول کرمﷺ نے صحابہ کرامؓ کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی تو حضرت خباّبؓ بھی ہجرت کے لیے تیار ہو گئے لیکن انہیں تو اس مدت تک مکہ نہیں چھوڑنا تھا جب تک اللہ سبحانہ و تعالیٰ اُمّ انمار کے خلاف کی گئی دعا کو قبول نہ فرما لیں۔ اس دوران وہ اپنے کاروباری معاملات کو نمٹانے لگے۔ عاص بن وائل جو اچھی حیثیت والا مالدار اور اولاد والا کٹر مشرک تھا اس کے ذمے مزدوری کی کچھ رقم بقایا تھی ۔ حضرت خبّابؓ اس کے پاس تقاضا کیلئے گئے ۔ وہ کہنے لگا تو اسلام سے منکر ہو جا پھر میں تیری مزدوری ادا کردوں گا۔ خباّبؓ نے کہا کہ تو مر جائے اور پھر جئے تو بھی میں اسلام سے منکر نہیں ہوں گا۔ جواب میں اس نے کہا کہ اگر میں مرکر پھر جیوں گا تو ایسا مال و اولاد اس وقت بھی مجھے ضرور ملے گا ۔ تجھ کو میں مزدوری وہاں دے دوں گا ۔ اس پر سورہ مریم کی آیات۷۷تا۸۰نازل ہوئیں۔ \" اَفَرَیتَ الّذِی کَفَرَ بِاٰیٰتِنَا وَقَالَ لَاُوتَیَنَّ مَالاَََ ووَلَداََ۔ اِلٰی آخِرَھٰا(ترجمہ:۔ بھلا تو نے اس کو دیکھا جو ہماری آیتوں کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے وہاں بھی مال و اولاد مل کر رہے گا۔ اللہ پوجھتا ہے کہ کیا وہ غیب کو جھانک آیا ہے یا اس نے رحمان سے عہد لے رکھا ہے ؟ ایسا ہر گز نہیں ہو گا اور ہم لکھ رکھیں گے جو وہ کہتا ہے اور ہم اس کا عذاب لمبا بڑھاتے جائیں گے اور اس کے مرنے پر جو کچھ وہ بتلا رہا ہے ہم وارث ہو کر لے لیں گے اور وہ ہمارے پاس اکیلا ہی آئے گا۔ (بعد میں اس کے دونوں بیٹے بھی کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلام کی آغوش رحمت میں آ گئے)۔چند روز کے بعد اُمّ انمار کے سر میں ایسا درد اٹھا کہ اس جیسا درد پہلے سننے میں نہ آیا۔ وہ شدت درد سے اس طرح کراہتی اور آواز نکالتی جس طرح کوئی کتا بھونکتا ہے۔ اس کے بیٹے کا مل حکیم کی تلاش میں ہر جگہ پہنچے‘ حکماء نے اس کا یہ علاج تجویز کیاکہ اس کے سر کو لوہے کی گرم سلاخ سے داغا جائے‘ اس کے علاوہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اس طرح اس کے سر کو لوہے کی گرم سلاخ سے داغا جانے لگا ۔ جب گرم سلاخ سر کو لگتی تو اس کی تکلیف دہ تمازت سر کے درد کو کچھ دیر کے لیے بھلا دیتی۔ یہ اس کے کئے کا پہلا پھل تھا۔ بالآخر حضرت خبابؓ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے‘ جہاں انصار مدینہ کی ضیافت میں ایسی راحت و آرام کی زندگی آپؓ بسر کرنے لگے جس سے وہ ایک طویل مدت سے محروم تھے۔ نبی اقدس ﷺ کا قرب ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کاباعث بنا۔ حضرت خبابؓ ، نبی اکرمﷺ کے ہمراہ غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور آپ ﷺ کے جھنڈے تلے لڑائی کے جوہر دکھائے۔ اسی طرح غزوہ احد میں شریک ہوئے‘ میدان احد میں جب انہوں نے اُمّ انمار کے بھائی سباع بن عبدالعزیٰ کی لاش دیکھی تو بہت خوش ہوئے‘ سباع کو شیرِ خدا حضرت حمزہؓ نے موت کے گھات اتارا تھا۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے حضرت خبابؓ کو طویل عمر عطا کی‘ یہاں تک کہ انہوں نے خلفائے اربعہ کا دور دیکھا اور ہر دور میں انہیں ایک جلیل القدر صحابیؓ کی حیثیت حاصل رہی۔ایک روز حضرت عمرؓ بن خطاب کے پاس تشریف لائے۔ وہ اس وقت مسند خلافت پر جلوہ افروز تھے تو فاروق اعظمؓ نے حضرت خبابؓ کو اپنی مسند پر بٹھایا اور فرمایا:تمام صحابہ میں آپؓ یاحضرت بلالؓ اس کے حقدار ہیں کہ اس مسند پر بیٹھ جائیں۔ پھر آپؓ نے مشرکین کے ہاتھوں پہنچنے والی تکالیف کی روئداد سنانے کا مطالبہ کیا تو آپؓ جواب دینے میں ہچکچائے۔ جب حضرت عمرؓ نے اصرا ر کیا تو آپؓ نے پیٹھ سے چادر سرکادی ، تو حضرت عمرؓ جسم پر زخموں کے نشانات دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے اور پوچھا‘ جسم میںیہ گہرے زخم کیسے آئے؟ حضرت خبابؓ فرمانے لگے: مشرکین لوہے کی چادر گرم کرتے جب وہ انگارہ بن جاتی تو میرے کپڑے اتار کر مجھے پیٹھ کے بل اس پر گھیسٹتے‘ جس سے میرے بدن کا گوشت پیٹھ کی ہڈیوں سے الگ ہو جاتا۔ آگ کو وہ خون اور پانی بجھاتا جو میرے بدن سے نکلتا۔ یہ حُبّ دین تھی اور یہ مثال عشق رسولﷺ کی تھی ۔
ع۔ بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن خدا رحمت کندایں عاشقانِ پاک طینت را
حضرت خبابؓ اپنی زندگی کے آخری دور میں بہت مالدار ہو گئے اور اتنے سونے چاندی کے مالک بن گئے کہ جس کا انہیں وہم و گمان بھی نہ تھا لیکن انہوں نے اپنامال راہِ خدا میں خرچ کرنے کا ایسا انوکھا طریقہ اختیار کیا جو پہلے کسی نے بھی اختیار نہیں کیا تھا۔ یہ درہم و دینار گھر میں ایک ایسی جگہ پر رکھ دیتے جس کاضرورت مندوں‘ فقراء و مساکین کو بھی پتہ تھا۔نہ تو اس پر کسی کو نگران مقرر کیا اور نہ تالا لگایا۔ ضرورت مند ان کے گھر آتے اور پوچھے اور اجازت طلب کئے بغیر اپنی ضرورت کے مطابق وہاں سے مال لے جاتے۔ اس کے باوجود انہیں یہ اندیشہ تھا کہ اس مال کے متعلق قیامت کے روز میرا حساب لیاجائے گا اور ڈرتے رہتے کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے اس مال کی موجودگی کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کر دیاجائے ۔ آپؓ کے ہم نشین صحابہؓ نے یہ بتایا :حضرت خبابؓ کے پاس ہم اس وقت گئے جب آپؓ مرض الموت میں مبتلا تھے‘ہمیں دیکھ کر آپؓ نے ارشاد فرمایا: اس گھر میں میرے پاس اسیّ ہزار درہم ہیں‘ اللہ کی قسم میں نے کبھی ان کو کہیں چھپایا نہیں اور نہ ہی کسی سائل کو میں نے محروم واپس لوٹایا ۔ یہ بات کہی اور زارو قطار رونا شروع کر دیا۔ ہم نے پوچھا: آپؓ روتے کیوں ہیں؟ فرمایا:میں اس لیے روتا ہوں کہ میرے بہت سے ساتھی اس دنیا سے اس حالت میں کوچ کر گئے کہ ا نہیں دنیاوی مال و متاع سے کچھ بھی نہ ملا مجھے یہ مال مل گیاہے اب مجھے اندیشہ ہے کہ اس مال کو کہیں میرے اعمال صالحہ کا بدلہ قرار دے کرمجھے اخروی اجر سے محروم نہ کر دیاجائے ۔جب حضرت خبابؓ اللہ کو پیارے ہو گئے تو امیر المومنین حضرت علیؓ بن ابی طالب رضی اللہ عنہ قبر کے پاس کھڑے ہو کر فرمانے لگے کہ’’ اللہ حضرت خبابؓ پر رحم فرمائے۔ اس نے دلی رغبت سے اسلام قبول کیا‘ خوش دلی سے ہجرت کی اور مجاہد کے روپ میں زندگی بسر کی۔ اللہ سبحانہ تعالی نیکی کرنے والے کا اجر ہر گز ضائع نہیں کرے گا۔‘‘ کسی خاص مہم کے سلسلے میں امیر المومنین حضرت عمرؓ بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد نبویﷺ میں مجلس مشاورت منعقد کی۔ کچھ اصحاب ابو سفیان اور سہیل بن عمر دیر سے پہنچے۔ ان کو اندر جانے کی اجازت نہ ملی۔ خبابؓ بن ارت بھی اس دن اتفاق سے دیرسے پہنچے مگر جب دربان نے ان کے بارے میں امیر المومنین کو خبر دی تو آپؓ نے فوراً اندر بلا لیا اور جہاں خود بیٹھے تھے حضرت خبابؓ کو وہاں بٹھا کر آپؓ ذرا آگے ہٹ کر بیٹھ گئے ۔ جب اس بات کا علم ابو سفیان کو ہوا تو پکار اٹھا کہ آج سے بڑھ کر میں نے کبھی ایسی ذّلت محسوس نہیں کی ۔ اس پر حضرت سہیلؓ بن عمر نے کہا یہ ہمارے تکبر کا بدلہ ہے۔ اگر ہم بھی آگے بڑھ کر اپنے اس صادق اور امین ہاشمی رسول ﷺ کا دامن پکڑ لیتے تو ہم بھی آج حضرت خبابؓ کی طرح معزّز ہوتے۔بے شک السابقون السابقون دونوں جہانوں میں زیادہ عزت و اکرام کے حقدار ہوتے ہیں اور حضرت خبابّ ؓ اسی علو مرتبت کے اہل تھے اور خلیفہ راشد حضرت عمرؓ بن خطاب نے انہیں جو اتنی عزت دی وہ حق بحق دار رسید کی عمدہ مثال ہے۔ دعا ہے اللہ پاک آخرت میں بھی ان کا بہت اکرام فرمائیں اور مقربین کے زمرے میں انہیں جگہ دیں۔ آمین!

No comments:

Post a Comment