Tuesday, 9 September 2014

Abdullah ibn Umar


ساتویں کہانی

حضرت عبداللہ بن عمرؓفقیہ الامت



حضرت سفیان ثوریؒ ‘ امام شعبی ؒ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ قریش کے چار نوجوان حرمِ کعبہ میں جمع ہوئے اور چاروں میں طے پایا کہ ہم میں سے ہر شخص رکنِ یمانی پکڑ کر اللہ تعالیٰ سے اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری کرنے کے لیے دعا مانگے۔پہلے ایک جوان اٹھا اور اس نے دعا مانگی۔ الٰہی تو عظیم ہے اور تجھ سے عظیم چیز یں ہی مانگی جاتی ہیں‘اس لیے میں تجھ کو تیرے عرش‘ تیرے حرم‘ تیرے نبیﷺ اور تیری ذات کی حرمت کا واسطہ دے کر دعا کرتا ہوں کہ مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک ارضِ حجاز پر میری خلافت نہ قائم ہو جا ئے۔ اس کے بعد دوسرے جوان نے رکنِ یمانی پکڑ کر دعا مانگی۔ بارالٰہا !تو کائنات کی ہر شے کا خالقِ ہے ۔ آخر میں ہر چیز کو تیری ہی طرف لوٹنا ہے ۔ میں تجھ سے تیری قدرت کا واسطہ دے کر جس کے قبضے میں تمام عالم ہے‘ دعا کرتا ہوں کہ مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک کہ میں عراق کا والی نہ ہو جاؤں۔پھر تیسرے جوان نے دعا مانگی۔ اے ارض وسماء کے مالک !میں تجھ سے ا یسی چیز مانگتا ہوں جس کو تیرے اطاعت گزار بندوں نے تیرے حکم سے مانگا ہے ۔ میں تجھ سے تیری ذات کی کبریائی کا واسطہ دے کر دعا مانگتا ہوں کہ تو مجھے دنیا سے اس وقت تک نہ اٹھا جب تک مشرق و مغرب پر میری حکومت قائم نہ ہو جائے اور جو شخص میرے خلاف کھڑا ہو اس کا سر نہ کچل دوں۔ اس کے بعد چوتھا جوان اٹھا اور اس نے بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ یہ دعا مانگی۔ اے اللہ !تو رحمن و رحیم ہے‘ میں تیری اس رحمت کا واسطہ دے کر دعا کرتا ہوں جو تیرے غضب پر غالب ہے کہ مجھے آخرت میں رسوا نہ کرنا اور مجھے اس عالم میں جنت عطا فرمانا۔ پہلے جوان حضرت عبداللہ بن زبیرؓ تھے‘ دوسرے ان کے چھوٹے بھائی عروہ بن زبیرؓ ‘ تیسر ا جوان عبدالملک بن مروان تھا اور چوتھے جو ان جن کی زندگی کی سب سے بڑی تمنا صرف اور صرف آخرت کی بھلائی تھی‘ فقیہ الاُمت حضرت عبداللہ بن عمرؓ تھے۔ 
سیدنا حضرت ابو عبدالرحمن عبداللہ بن عمرؓ کا شمار اساطین امت میں ہوتا ہے ۔ وہ عام طور پر ’’ ابنِ عمرؓ ‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ یعنی اس عمرِ فاروقؓ کے فرزند جن کے بارے میں سیدالانبیاء و المرسلین ﷺنے فرمایا تھا کہ لوکان بعدی نبی لکان عمر ( رواہ الطبرانی فی الکبیر(۷ا/۸۰ا) (اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتا )حضرت ابنِ عمرؓ کا سلسلہ نسب یہ ہے۔ عبداللہؓ بن عمرؓ بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزیٰ بن رباح بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوئی۔ کعب بن لوئی پر ان کا سلسلہ نسب سرور کائنات حضرت محمد ﷺ کے نسب نامہ سے مل جاتا ہے ۔ ماں کا نام زینبؓ بنت مظعون تھا‘وہ بنو جمح سے تھیں اور شرفِ صحابیت سے بہرہ ور تھیں ۔ ام الموئمنین حضرت حفصہؓ بنتِ عمرؓ ‘ حضرت عبداللہؓ کی حقیقی بہن تھیں۔ حضرت عبداللہؓ تاریخ اسلام کے چار معروف عباداللہ میں سے ایک ہیں۔ باقی تین عبداللہ ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ و بن العاص اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ ہیں۔ یہ چاروں نادرِ روزگار شخصیات تھیں۔ 
معتبر روایات کی رو سے حضرت عبداللہ بن عمرؓ بعثت کے دوسرے سال پیدا ہوئے ۔ حضرت عمرؓ نے سنہ۶ بعد بعثت میں اسلام قبول کیا تو حضرت ابن عمرؓ تقریباً پانچ برس کے بچے تھے۔ والد گرامی کے قبول اسلام کے ساتھ وہ خود بخود ہی اسلام کے دامن رحمت سے وابستہ ہو گئے اور ان کی نشو و نما خالص اسلامی ماحول میں ہونے لگی۔ سنہ ۳ا بعد بعثت میں حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تو حضرت عبداللہ بھی والد گرامی کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچ گئے‘اس وقت ان کا سن گیارہ برس کا تھا۔ غزوات کا آغاز ہوا اور سرور عالم حضرت محمدﷺ غزوہ بدر کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے شوق جہاد سے بے تاب ہو کر حضور سے لڑائی میں شریک ہونے کی اجازت مانگی لیکن آپ ﷺ کا معمول تھا کہ پندرہ برس سے کم عمر کے لڑکوں کو لڑائی میں شریک ہونے کی اجازت نہ دیتے تھے ۔ چونکہ حضرت ابن عمرؓ کی عمر اس وقت صرف تیرہ برس تھی‘ اس لیے حضورﷺ نے انہیں واپس بھیج دیا ۔ غزوہ احد میں وہ چودہ برس کے تھے ‘اس لیے اس میں بھی شریک نہ ہو سکے۔سب سے پہلا غزوہ جس میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے داد شجاعت دی ‘ غزوہ احزاب
( سنہ ۵ھ) تھا۔ اس وقت ان کی عمر لڑائی کے قابل ہو چکی تھی۔ سنہ ۶ ہجری میں صلح حدیبیہ کے موقعہ پر بیعت رضوان میں شریک ہونے کا عظیم شرف حاصل ہوا۔ اس طرح وہ اصحاب الشجرہ میں شامل ہو گئے۔ جنہیں اللہ تعالی نے کھلے لفظوں میں اپنی خوشنودی کی بشارت دی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حسن اتفاق سے بیعت رضوان کا شرف انہیں اپنے جلیل القدر والد سے پہلے حاصل ہو گیا تھا۔ وہ اس طرح کہ حضرت عمرؓ نے حضرت عبداللہؓ کو ایک انصاری سے گھوڑا لانے کے لیے بھیجا۔ حضرت عبداللہؓ باہر نکلے تو حضورﷺ صحابہ کرامؓ سے بیعت لے رہے تھے ‘ انہوں نے لپک کر پہلے خود بیعت کی اور پھر والد گرامی کو جا کر اطلاع دی۔ وہ بھی فوراً بارگاہ رسالت میں پہنچے اور بیعت کی سعادت حاصل کی۔
بیعتِ رضوان کے بعد حضرت ابن عمرؓ نے خیبر‘ فتح مکہ‘حنین ‘ طائف اور تبوک کے غزوات میں سرور کائنات حضرت محمد ﷺ کی ہمرکابی کا شرف حاصل کیا۔ امام بخاری ؒ نے فتح مکہ کے سلسلہ میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ فتح مکہ کے وقت حضرت ابن عمرؓ کا سن بیس برس کا تھا اور وہ ایک منہ زور تیز رفتار گھوڑے پر سوار تھے۔ ان کے جسم پر ایک چھوٹی سی چادر تھی اور ہاتھ میں ایک بھاری نیزہ ۔ ایک جگہ گھوڑے سے اتر کر اس کے لیے گھاس کا ٹنے لگے ۔ اتفاق سے حضور ﷺ کی نظر ان پر پڑی تو آپﷺ نے مدح و تحسین کے لہجے میں فرمایا۔’’یہ عبداللہ ہے عبداللہ ۔‘‘ اس کے بعد وہ حضورﷺ کے پیچھے پیچھے مکہ میں داخل ہوئے۔ حضرت اسامہؓ بن زیدؓ حضورﷺ کے ساتھ سوار تھے اور حضرت بلالؓ اور حضرت عثمانؓ بن طلحہ آپ ﷺکے پہلومیں تھے۔ خانہ کعبہ کے صحن میں اونٹ بٹھا کر کنجی منگائی گئی اور کعبہ کا دروازہ کھول کر تینوں ایک ساتھ داخل ہوئے ان کے بعد خانہ کعبہ میں سب سے پہلے داخل ہونے کی سعادت حضرت ابن عمرؓ کو حاصل ہوئی۔
۰ا ہجری میں حضرت ابن عمرؓ نے حجۃ الوداع میں محمدﷺ کی ہمر کابی کا شرف حاصل کیا۔ اا ہجری میں حضور ﷺ کا وصال ہوا تو حضر ت ابن عمرؓ اس قدر ملول اور شکستہ دل ہوئے کہ عمر بھر نہ کوئی مکان بنایا اور نہ کوئی باغ لگایا۔ جب بھی رسول اللہﷺ کی یاد آتی‘ بے قابو ہو کر رونے لگتے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے دل میں جہاد فی سبیل اللہ کی بے پناہ تڑپ تھی۔ عہد صدیقی میں تو وہ بعض وجوہ کی بنا ء پر مدینہ منورہ سے باہر نہ جا سکے لیکن عہد فاروقی میں ایران‘ شا م اور مصر کی فتوحات میں سرفروشانہ حصہ لیا۔ والد گرامی امیر الموئمنین تھے لیکن وہ ایک عام مجاہد کی حیثیت سے لشکر اسلام میں شریک ہوئے اور کبھی کسی عہدے کی خواہش نہیں کی۔ واقدی نے کئی معرکوں میں ان کی شجاعت اور جانبازی کے واقعات بیان کئے ہیں۔ 
سنہ ۲۳ ہجری کے اواخر میں حضرت عمر فاروقؓ پر قاتلانہ حملہ ہوااور ان کی جانبری کی کوئی امید نہ رہی تو انہو ں نے اپنی جانشینی کا مسئلہ مسلمانوں کی ایک جماعت کے سپرد کر دیا جس میں ا کابر صحابہؓ داخل تھے۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ اگرچہ اپنے علم و فضل اور دوسری صلاحیتوں کی بنا پر ہر طرح سے خلافت کے اہل تھے لیکن حضرت عمرؓ فاروق تقویٰ کے اتنے بلند مقام پر فائز تھے کہ انہیں اپنے فرزند کو خلیفہ نامزد کرنا گوارا نہ ہوا۔ انہو ں نے وصیت کر دی کہ وہ خلیفہ کے انتخاب میں مشیر کی حیثیت سے تو شریک ہو سکتے ہیں لیکن خلافت کے لیے ان کے نام پر کسی صورت میں غور نہ کیاجائے ۔ حضرت عثمان ذوالنورینؓ نے اپنے عہد خلافت میں حضرت ابن عمرؓ کو قضاء کا عہدہ پیش کیا لیکن انہوں نے اس کو قبول کرنے سے معذرت کر دی۔ علامہ بلا ذری نے فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ ۲۷ ہجری میں حضرت عثمانؓ نے افریقہ (تیونس، الجزائر اور مراکش ) پر فوج کشی کی تو حضرت ابن عمرؓ لشکر اسلام میں شریک ہو گئے اور جہاد فی سبیل اللہ میں پر جوش حصہ لیا ۔ ابن اثیرؓ کے بیان کے مطابق سنہ ۳۰ ہجری میں انہوں نے خراسان اور طبرستان کے معرکوں میں بھی حصہ لیا۔ 
حضرت عثمان ذوالنورینؓ کے عہد میں فتنوں نے سر اٹھا یا تو حضرت ابن عمرؓ نے گوشہ نشینی اختیار کر لی کیونکہ انہیں مسلمانوں کا ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہونا کسی صورت میں گوارانہ تھا۔ ابن سعد ؒ کا بیان ہے کہ امیر الموئمنین حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد لوگوں نے خلافت ان کے سپرد کرنا چاہی لیکن انہوں نے یہ بار گراں اٹھانے سے صاف انکار کر دیا۔ امام حاکم نے اپنی مستدرک میں غسان بن عبدالحمید کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ حضرت علیؓ سر یر آرائے خلافت ہوئے تو حضرت ابن عمرؓ نے اس شرط پر ان کے ہاتھ پر بیعت کی کہ وہ خانہ جنگی میں شریک نہ ہوں گے۔ چنانچہ وہ جنگ جمل اور جنگِ صفین سے بالکل کنارہ کش رہے لیکن بعد میں ہمیشہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے رہے کہ انہوں نے حضرت علیؓ کی عملاً حمایت کیوں نہ کی ۔ حضرت علیؓ کی شہادت اور حضرت حسنؓ کی خلافت سے دستبرداری کے بعد انہوں نے حضرت امیر معاویہؓ کی بیعت کر لی اور قسطنطنیہ کی مہم میں بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ شریک ہوئے۔ حضرت امیر معاویہؓ کے بعد یزید تخت حکومت پر بیٹھا تو بقول ابن سعد ؒ انہوں نے اختلاف امت کے فتنہ سے بچنے کے لیے یہ کہہ کر اس کی بیعت کر لی کہ اگر یہ خیر ہے تو ہم اس پر راضی ہیں اور اگر بلا ہے تو ہم نے صبر کیا ۔ پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی۔ فان تولو فانما علیہ ماحمل وعلیکم ما حملتم ۔ (پھر اگرانہوں نے منہ پھیرا تو اس کے ذمہ ہے جو بوجھ اس پر رکھا گیااور تمہارے ذمہ ہے جو بوجھ تم پر رکھا گیا ہے۔)یزید کے بعد معاویہ ثانی اور مروان بن الحکم مسند حکومت پر بیٹھے، سنہ۶۵ہجری میں مروان نے وفات پائی تو اس کا بیٹا عبدالملک خلیفہ بنا۔ حضرت ابن عمرؓ نے اس کو تحریری بیعت نامہ بھیج دیا جس میں لکھا کہ میں اور میرے لڑکے اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کی سنت پر امیر المومنین عبدالملک کی سمع و اطاعت کا بقدر استطاعت عہد کرتے ہیں۔ 
حضرت ابن عمرؓ نے عبدالملک ہی کے عہد خلافت میں 74ہجری میں بعمر چوراسی سال وفات پائی۔ اہل سیر نے ان کی وفات کے بارے میں مختلف روایتیں بیان کی ہیں۔ ابن سعد ؒ نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حجاج بن یوسف خطبہ دے رہا تھا‘ اس میں اس نے اپنے حریف حضرت عبداللہ بن زبیرؓ پر تہمت لگائی کہ انہوں نے قرآن حکیم میں تحریف کی ہے۔ حضرت ابن عمرؓ یہ سن کر اٹھ کھڑے ہوئے اور بھر ے مجمع میں کڑک کر کہا‘ تو جھوٹ بولتا ہے‘نہ ابن زبیرؓ میں اتنی طاقت ہے اور نہ تجھ میں یہ مجال کہ کلام اللہ میں تحریف کر سکو۔ حجاج کو حضرت ابن عمرؓ کی یہ ڈانٹ سخت ناگوار گزری لیکن علانیہ ان پر ہاتھ اٹھانے کی جرات نہ ہوئی ۔البتہ ایک شامی کو اس بات پر مقرر کر دیا کہ حج کے موقع پر نیزہ کی زہر آلود نوک ان کے پاؤں میں چبھو دے اس نے ایسا ہی کیا۔ زہران کے جسم میں سرایت کر گیا اور وہ جانبر نہ ہو سکے۔ 
امام حاکم نے اپنی مستدرک میں بیا ن کیا ہے کہ جب حجاج ابن زبیرؓ سے لڑنے کے لیے مکہ معظمہ آیا اور منجنیق نصب کر اکر خانہ کعبہ کو سنگباری کا نشانہ بنایا تو وہ سخت برہم ہوئے اور حجاج کو بہت برا بھلا کہا ۔ اس پر وہ غضب ناک ہو گیا اور اس کے اشارے پر ایک شامی نے ان کو اپنے نیزے کی زہر آلود نوک سے زخمی کر دیا۔ جب وہ بیمار ہوئے تو حجاج ان کی عیادت کے لیے آیا اور کہا کاش مجھ کو مجرم کا پتہ چل جاتا تو میں اس کا سر اڑا دیتا۔ حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا‘ یہ سب کچھ تمہارا ہی کیا دھرا ہے نہ تم حرم میں ہتھیار لانے کی اجازت دیتے اور نہ یہ واقعہ پیش آتا۔ ابن زبیرؓ کا بیان ہے کہ ایک دن حجاج خطبہ دے رہا تھا ۔ اس کو اتنا طول دیا کہ عصر کا وقت تنگ ہو گیا۔ حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا آفتاب تیرا انتظار نہیں کر سکتا ۔اس پر حجاج برافروختہ ہو گیا اور ان کا دشمن ہو گیا۔ 
ابن خلکان نے لکھا ہے کہ عبدالملک نے فرمان جاری کیا کہ تمام مناسک حج حضرت ابن عمرؓ کی اقتدا میں ادا کئے جائیں۔ حجاج بن یوسف کو یہ حکم سخت ناگوار گزرا لیکن خلیفہ کے حکم سے مجبور تھا ۔ اس نے اپنے دل کی بھڑاس اس طرح نکالی کہ حضرت ابن عمرؓ کو نیزے کی زہر آلود نوک سے زخمی کرا دیا۔ ابن سعدؒ نے یہ واقعہ بھی بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ حجاج کوخطبہ دیتے دیتے شام ہو گئی نماز کا وقت آیا تو حضرت ابن عمرؓ نے کہا اے شخص نماز کا وقت آ گیا ہے اب بیٹھ جا۔ ان الفاظ کا تین بار اعادہ کیا لیکن اس نے خطبہ جاری رکھا۔ چوتھی بار انہوں نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں اگر اٹھ جاؤں تو تم لوگ اٹھنے کے لیے تیار ہو۔ لوگوں نے کہا کہ ہاں ہم تیار ہیں۔ یہ کہہ کر اٹھے اور حجاج سے کہا کہ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں نماز کی ضرورت نہیں ہے۔ اب حجاج منبر سے اتر آیا اور نماز پڑھی ۔ نماز کے بعد حضرت ابن عمرؓ کو بلا کر پوچھا کہ آپ نے ا یسا کیوں کیا؟ انہوں نے فرمایا ہم نماز کے لیے آتے ہیں‘ اس لیے جب نماز کا وقت آ جائے تو ٹھیک وقت پر نماز پڑھ لو اس کے بعد جو چاہو کہتے رہو۔ حضرت ابن عمرؓ کی اسی صاف گوئی کی وجہ سے حجاج ان کا دشمن بن گیا اور زہر آلود نیزہ سے حج کی بھیڑ بھاڑ میں انہیں زخمی کر دیا۔ حضرت ابن عمرؓ کی دلی تمنا تھی کہ وہ مدینہ منورہ میں وفات پائیں لیکن قدرت نے ان کی وفات مکہ معظمہ میں لکھ رکھی تھی۔ وفات سے پہلے اپنے فرزند سالم کو وصیت کی کہ اب میں یہاں وفات پا رہا ہوں تو مجھے حدود حرم کے باہر دفن کر نا۔ انہوں نے والد گرامی کی وصیت پر عمل کرنا چاہا لیکن حجاج نے مداخلت کی اور ان کی نمازِ جنازہ پڑھا کر فخ مہاجرین کے قبرستان میں سپر د خاک کیا۔ 
علم و فضل کے اعتبار سے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا شمار ان صحابہؓ کبار میں ہوتا ہے ۔جو جملہ دینی علوم کا بحربے پایاں تھے۔ انہیں نہ صرف سالہا سال تک فیضان نبوی ﷺسے براہ راست بہرہ یاب ہونے کا موقع ملا بلکہ سیدنا فاروق اعظمؓ جیسے نابغہ عصر والد کی تعلیم و تربیت بھی میسر آئی۔ اس طرح وہ فضل و کمال کے اتنے بلند مقام پر فائز تھے کہ بڑے بڑے فضلا ء صحابہؓ ان پر رشک کیا کرتے ۔ قرآن حکیم اور اس کی تفسیر سے اتنا شغف تھا کہ اپنے وقت کا بیشتر حصہ قرآنی سورتوں اور آیات پر فکر و تدبر میں گزارتے تھے۔ ’’موطاء امام مالک‘‘ میں ہے کہ انہوں نے صرف سورہ بقرہ پر فکر و تدبر میں چودہ برس صرف کئے۔ عہد رسالت ﷺمیں انہیں اکابر صحابہؓ کے ساتھ اکثر سرور عالم حضرت محمدﷺ کی علمی مجلسوں میں شریک ہونے کی سعادت حاصل ہوتی تھی۔ اس طرح ان کو قرآن حکیم کی تفسیر اور تفہیم میں غیر معمولی بصیرت حاصل ہو گئی تھی۔ 
صحیح بخاری میں ہے کہ ایک مرتبہ حضورﷺ صحابہ کرامؓ کے مجمع میں رونق افروز تھے ۔ حضرت ابن عمرؓ بھی موجود تھے۔ حضورﷺ نے قرآن حکیم کی یہ آیت پڑھی ۔ الم ترکیف ضرب اللّٰہ مثلاکلمۃً طیبۃ کشجرتہ طیبۃ اصلھا ثابت فی الارض وفرعھا فی السمآo توتی اکلھا کل حین باذن ربھا ۔ (سورہ ابراہیم)(کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے پاک بات کی کیسی مثال بیان فرمائی ہے جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ مضبوط ہو اور شاخیں آسمان تک اور وہ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا اور میوے دیتا ہو۔ 
پھر آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ اس آیت میں کس درخت کی مثال دی گئی ہے؟تمام صحابہ کرامؓ خاموش رہے تو آپ ﷺ نے خود بتایا کہ یہ کھجور کا درخت ہے۔ بعد میں حضر ت ابن عمرؓ نے اپنے والد گرامی حضرت عمرؓ کو بتایا کہ میں سمجھ چکا تھا کہ یہ کھجور کے درخت کی مثال ہے لیکن بزرگ صحابہؓ کی خاموشی کی وجہ سے چپ رہا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا بیٹے !اگر تم اس مجلس میں بتا دیتے تو مجھے فلاں فلاں چیز سے زیادہ مجبوب ہوتا ۔ قرآن حکیم کے فہم و بصیرت کے علاوہ حضرت ابن عمرؓ کو حدیث سے بھی گہرا لگاؤ تھا۔ ان سے ایک ہزار چھ سو تیس احادیث مروی ہیں۔ ان میں ۷۰امتفق علیہ ہیں، ا۸میں بخاری اورا۳میں مسلم منفرد ہیں۔ وہ حضور ﷺ کے نہ صرف ان ارشادات کو جو آپ ﷺ سے براہ راست سنتے تھے‘ حرزِ جان بنا لیتے تھے بلکہ ان کو بھی یاد کر لیتے تھے جو دوسروں کی وساطت سے ان تک پہنچتے تھے ۔ اس طرح حفاظِ حدیث میں ان کو ایک خاص مقام حاصل ہو گیا تھا۔ بایں ہمہ وہ روایت حدیث میں بہت محتاط تھے اور اسی وقت کوئی حدیث بیان کرتے تھے جب پورا یقین ہوتا تھا کہ اس میں کسی قسم کی کمی بیشی نہیں ہے۔ اسی شدت احتیاط کی بنا پر ان کی مرویات کو بہت مستند تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان کے اساتذہ میں حضرت ابو بکر صدیقؓ ‘ حضرت عمر فاروقؓ ‘ حضرت عثمان ذوالنورینؓ ‘ حضرت علیؓ ‘ اُم المو منین عائشہ صدیقہؓ ‘ اُم المومنین حضرت حفصہؓ ‘ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ‘ حضرت بلال حبشیؓ ‘ حضرت صہیب رومیؓ ‘ حضرت زیدؓ بن ثابت اور حضرت رافعؓ بن خدیج جیسے عظیم المرتبت صحابہؓ و صحابیات شامل ہیں۔ ان کے ارشد تلاندہ میں سالم ؒ ‘ عبداللہ‘ محمدؓ نافع حفص ‘ عروہ بن زبیر‘ موسیٰ بن طلحہؓ ‘ ابو سلمہؓ بن عبدالرحمان‘ سعیدؓ بن مسیب ‘ قاسمؓ ‘ ابو بردہؓ بن ابو موسیٰ اشعریؓ ‘ سعید بن یسار‘ عکرمہ ؒ مجاہد ؒ سعید بن جبیر ؒ ‘ طاؤس‘ عطاؒ ‘ ابو الزبیر ؒ اور ابی ملیکہ کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ کو فقہ میں بھی درجہ تبحر حاصل تھا‘ انہوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ تعلیم و تعلم اور درس و افتاء میں گزارا۔ حافظ ابن قیم ؒ کہتے ہیں کہ اگر ابن عمرؓ کے فتاویٰ جمع کئے جائیں تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ فقہ مالکی کا تمام تر دارومدار حضرت ابن عمرؓ ہی کے فتاویٰ پر ہے۔ امام مالک ؒ کا قول ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ آئمہ دین میں سے تھے۔ اپنے تفقہ فی الدین کی بنا پر حضرت ابن عمرؓ فقیہ الامت کے لقب سے مشہور ہو گئے تھے ۔ بایں ہمہ وہ فتویٰ دینے میں بے حد محتاط تھے۔ اگر کسی بات میں ذرا بھی شبہ ہوتا تو ہر گز فتویٰ نہ دیتے اور مستفتی کو یہ کہہ کر لوٹا دیتے کہ یہ مسئلہ مجھے معلوم نہیں ۔ قیاس و اجتہاد میں بھی خداداد ملکہ حاصل تھا لیکن ان سے اسی وقت کام لیتے جب کتاب و سنت میں کسی مسئلہ کے بارے میں واضح احکام نہ ملتے۔ ایسا کرتے وقت وہ مستفتی سے صاف صاف کہہ دیتے کہ ’’یہ میرا قیاس ہے‘‘ اس کے باوجود بڑے بڑے آئمہ ان کی رائے کے بعد پھر کسی دوسری رائے کی ضرورت نہ سمجھتے تھے۔ 
دینی علوم کے علاوہ حضرت ابن عمرؓ عرب کے دیگر علوم شاعری‘خطابت اور نسابی میں بھی درک رکھتے تھے لیکن ان میں اپنا وقت صرف کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ بحیثیت مجموعی وہ علم و فضل کے مجمع البحرین تھے اور بقول ا بن سعد ؒ ایک زمانہ میں لوگ دعا مانگا کرتے تھے کہ الٰہی ہماری زندگی میں ابن عمر ؒ کو زندہ رکھ تاکہ ہم ان کے چشمہ فیض سے سیراب ہوتے رہیں۔ آج ان سے زیادہ عہد رسالت کا کوئی واقف کا ر نہیں۔ 
حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے گلشن اخلاق میں حُبِ رسولﷺ ‘اتباعِ سنت ‘خشیتِ الٰہی‘ شوقِ جہاد و عبادت و زہد و تقویٰ‘ فیاضی و ایثار‘ تواضع و انکسار ‘ استغنا و قناعت ‘ سادگی اور حق گوئی و بیباکی سب سے خوش رنگ پھول ہیں۔ حُبِ رسول ﷺ کی یہ کیفیت تھی کہ عہد رسالت میں زیادہ سے زیادہ وقت بارگاہ رسالت میں حاضر رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ حضورﷺ کا وصال ہوا تو وہ اس قدر مغموم اور شکستہ دل ہوئے کہ عمر بھر نہ کوئی مکان بنایا اور نہ کوئی باغ بنایا ۔ جب بھی زبان پر رسول اللہ ﷺ کا اسم گرامی آتا تو آنکھوں سے آنسو ؤں کی جھڑی لگ جاتی۔ جب غزوات رسول ﷺ کے مقامات سے گزر ہوتا تو آنکھوں کے سامنے عہد رسالت کا نقشہ کھنچ جاتا اور اشکبار ہو جاتے۔ کوئی ان کے سامنے حضور ﷺ کا ذکر کرتا تو بے قابو ہو کر رونے لگتے۔ یحییٰ بن یحییٰ ؒ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے شیوخ سے سنا ہے کہ بعض لوگ حضرت ابن عمر ؒ کے عشق رسول ﷺکی کیفیت دیکھ کر انہیں مجنوں تک کہنے لگے تھے۔ دراصل حضرت ابن عمرؓ کو عشق رسول ﷺ کی بنا پر پابندی سنت کا والہانہ جنون تھا اور ان کی زندگی رسول اللہ ﷺ کی حسین و دلکش زندگی کا پرتو جمیل بن گئی تھی۔ وہ چھوٹی سے چھوٹی باتوں میں بھی نہایت شدت کے ساتھ اتباعِ سنت کا التزام کرتے تھے حتیٰ کہ اتفاقی اور بشری عادات میں بھی وہ حضور ﷺ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے تھے۔ سفر و حضر میں حضور ﷺ نے جہاں کبھی نماز ادا کی‘ حضر ت ابن عمرؓ بھی وہاں نماز ادا کرتے تھے‘جہاں آپﷺ نے آرام فرمایا‘ وہاں آرام کرتے تھے۔ جہاں آپ ﷺ نے تھوڑی دیر کے لیے قیام فرمایا‘ حضرت ابن عمر ؒ نے بھی وہاں ضرور قیام کیا۔جن درختوں کے سایہ میں حضور ﷺ نے کبھی آرام فرمایا تھا‘ حضرت ابن عمرؓ ان کو پانی دیتے رہتے تھے تاکہ خشک نہ ہونے پائیں اور وہ بھی ان کے سایہ میں آرام کر کے سنت کی پیروی کر سکیں۔ جب سفر سے لوٹتے تو سب سے پہلے روضہ نبوی ﷺ پر حاضر ہوتے اور سلام کہتے۔ مدینہ منورہ سے اس قدر محبت تھی کہ کسی حالت میں بھی وہاں سے نکلنا گوارا نہ تھا۔ ایک مرتبہ ان کے غلام نے تنگدستی کی بنا پر مدینہ چھوڑنے کی اجازت چاہی‘فرمایا میں نے حضور ﷺ سے سنا ہے کہ جو شخص مدینہ کے مصائب پر صبر کرے گا‘ قیامت کے دن میں اس کی شفاعت کروں گا۔ 
سرورِ عالم حضرت محمد ﷺ کی آل واولاد سے بھی غیر معمولی محبت تھی اور وہ لوگوں کو اکثر ان کے فضائل سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ عام طور پر معلوم ہے کہ حضرت ابن عمرؓ مناسکِ حج کے سب سے بڑے عالم تھے ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ مناسکِ حج میں رسول اللہ ﷺ کے تمام سنن کا بدرجہ غایت لحاظ رکھتے تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ نے جہاں جہاں طہارت کی تھی‘ وہاں وہ بھی ضرور طہارت کرتے تھے۔ حج کے سفر میں وہی راستہ اختیار کرتھے تھے جو حضور ﷺ نے اختیار کیا تھا۔ حضور ﷺ نے ذوالحلیفہ میں اتر کر نماز پڑھی ‘ حضرت ابن عمرؓ بھی ذوالحلیفہ میں ضرور نماز پڑھتے تھے۔ حضور ﷺ نے جن مقامات پر منزل کی تھی وہ بھی وہاں منزل کرتے تھے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت محمد ﷺ مسجد قبا میں کبھی پاپیادہ اور کبھی سواری پر تشریف لے جاتے تھے۔ حضرت ابن عمرؓ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔حضو ر ﷺ مکہ میں داخل ہونے سے قبل بطحا میں تھوڑا سا سو لیتے تھے‘حضرت ابن عمرؓ کا بھی یہی معمول تھا۔ حضور ﷺ اپنے جان نثاروں کی دعوت ہمیشہ قبول فرما لیا کرتے تھے حضرت ابن عمرؓ بھی کسی کی دعوت رد نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ روزہ کی حالت میں بھی دعوت میں تشریف لے جاتے تھے۔ گو کھانے میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ غرض وہ تمام کاموں میں اسوہ نبوی ﷺکو پیش نظر رکھتے تھے۔ حضرت ابن عمرؓ نے نہایت نرم اور دردمند دل پایا تھا، خوفِ خدا اور روزِ جزاسے ہر وقت لرزاں و ترساں رہتے تھے۔ کوئی آیت جس میں محاسبہ آخرت کا ذکر ہوتا سنتے تو لرزہ براندام ہو جاتے اور رونے لگتے ۔ ایک دن عبیدؓ بن عمر سے یہ آیت سنی:
فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید وجئنا بک علٰی ھٰوٰلآء شھیدا 
( اے رسول ﷺ آخرت کے اس دن کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لا کھڑا کریں گے اور آپ ﷺ کو ان سب پر گواہ لائیں گے۔) آیت سنتے ہی بے اختیار رونے لگے‘ یہاں تک کہ داڑھی اور گریبان آنسوؤں سے بھیگ گئے۔ خشیتِ الٰہی نے ان کے د ل میں جہاد اور عبادت کا ایسا شوق پیدا کر دیا تھا کہ ان کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے تھے۔ پندرہ برس کی عمر سے لے کر بڑھاپے تک جہادفی سبیل اللہ میں برابر حصہ لیتے رہے۔ عبادت کی یہ کیفیت تھی کہ قائم اللیل اور دائم الصوم تھے۔ (نہایت کثرت سے نمازیں پڑھتے تھے اور نہایت کثرت سے روزے رکھتے تھے)۔ بعض اوقات ایک رات میں پورا قرآن پڑھ لیتے تھے۔ ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ساٹھ حج کئے اور ایک ہزار عمرے۔ زہد و تقویٰ میں اپنی مثال آپ تھے ۔ حافظ ابن حجرؒ نے تہذیب التہذیب میں لکھا ہے کہ جو انان قریش میں عبداللہ بن عمرؓ سے زیادہ کوئی شخص اپنے نفس پر قابو رکھنے والا نہیں تھا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن عمرؓ آغازِ شباب ہی میں مسجد میں جا کر سویا کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے خواب میں دوزخ کے فرشتوں کو دیکھا ۔ دوسرے دن اس کا ذکر اپنی بہن ام الموئمنین حضرت حفصہؓ سے کیا ۔ انہوں نے رسول اکرم ﷺسے اس کا تذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا عبداللہ بہت اچھے آدمی ہیں بشرطیکہ رات کو نماز(تہجد)پڑھیں۔(صحیح البخاری)۔حضرت جابرؓ بن عبداللہ انصاریؓ فرمایا کرتے تھے کہ ہم میں سوائے ابن عمرؓ کے کوئی شخص ایسا نہ تھا جس کو دنیا کی دلفریبیوں نے اپنی طرف مائل نہ کیا ہو لیکن عبداللہ وہ تھے جن کا دامن کبھی دنیا سے آلودہ نہ ہوا ۔ جو شخص حضور ﷺ کے کسی ایسے صحابی کو دیکھنا چاہے جس کی شخصیت میں آپ ﷺ کے وصال کے بعد بھی مطلقاًکوئی تغیر نہیں ہوا تو وہ ابن عمرؓ کو دیکھے۔ ایک دفعہ کوئی شخص ان کی خدمت میں جوارش (یا چورن) لے کر حاضر ہوا۔ پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے کہا ہاضم طعام ۔ انہوں نے فرمایا مجھے اس کی کیا ضرورت ہے‘ میں نے تو مہینوں سے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔ ایک مرتبہ کسی سے پانی مانگا ۔ اس نے شیشے کے پیالے میں لا کر پیش کیا۔ انہوں نے پینے سے انکار کر دیا۔ پھر ان کے سامنے لکڑی کے پیالے میں پانی پیش کیا گیا تو انہوں نے پی لیا۔ پانی پی کر وضو کے لیے برتن مانگا توان کے سامنے طشت و آفتابہ لایا گیا۔انہوں نے صاف انکار کر دیا اور لوٹے سے وضو کیا۔ میمون بن مہرانؒ کا بیان ہے کہ میں ایک دفعہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کے تمام اثاث البیت کی قیمت لگائی تو سو درہم سے زیادہ کا سامان نہ تھا۔ اس میں بستربھی شامل تھا۔ 
حضرت ابن عمرؓ کے پاس دنیا کئی با رپورے سازو سامان کے ساتھ آئی لیکن انہوں نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ ان کو بارہا ایسے موقعے ملے کہ اگر چاہتے تو بڑے سے بڑا عہدہ کیا‘ مسندِ خلافت تک پہنچ سکتے تھے۔ زرو جواہر سمیٹنا چاہتے تو اپنے دور کے متمول ترین آدمی بن سکتے تھے لیکن انہوں نے زہد و تقوٰ ی کی زندگی اختیار کر کے آخرت کو دنیا پر ترجیح دی۔ان کے زمانے میں جو سیاسی لڑائیاں ہوئیں‘ انہوں نے ان میں مطلق کوئی حصہ نہ لیا۔ سادگی کا یہ عالم تھا کہ تمام کام جو خود کر سکتے تھے اپنے ہی ہاتھ سے انجام دیتے حتّیٰ کہ اونٹنی وغیرہ بٹھانے میں بھی دوسروں سے مدد نہ لیتے تھے۔ لباس عموماًنہایت معمولی پہنتے تھے البتہ کبھی کبھار عمدہ لباس بھی زیب تن کر لیتے تھے وہ بھی اس لیے کہ ایک دو مرتبہ حضورﷺ کو ایسا کرتے دیکھا تھا ۔ لباس قمیص ‘ازاراور سیاہ عمامہ پر مشتمل ہوتا تھا۔ ازار نصف ساق تک ہوتا تھا۔ دستر خوان بھی تکلفات سے خالی ہوتا تھا۔ بعض اوقات ایک بڑے تھال میں کھانا رکھ دیاجاتا تھا ‘ وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ اس کے گرد بیٹھ کر کھا لیتے تھے۔ انہیں ہر وہ چیز ناپسند تھی جس میں کسی قسم کی نمائش یا تکلف کی آمیزش ہوتی یہاں تک کہ جمعہ کے د ن کے سوا کبھی سر‘ ڈاڑھی اور کپڑوں میں خوشبو نہیں لگائی۔ 
دنیو ی حیثیت سے حضرت ابن عمرؓ بہت مرفہ الحال تھے۔ دینی خدمات کی بنا پر ان کا ڈھائی ہزار ماہانہ وظیفہ مقرر تھا۔ اس کے علاوہ صحیح بخاری کے مطابق وہ بہت سی لگانی زمینوں کے مالک بھی تھے۔ لیکن وہ اپنے مال کو بے دریغ اللہ کی راہ میں لٹاتے رہتے تھے ۔ ایک ہزار سے زیادہ غلام آپؓ نے آزاد کئے۔ فیاضی اور سیر چشمی ان کی گھٹی میں پڑی تھی ۔ کسی سائل کو اپنے دروازے سے خالی ہاتھ نہ جانے دیتے تھے۔ بیسیوں فقراء و مساکین ان کے دستر خوان پر پرورش پاتے تھے ۔ آپؓ عموماً کسی مسکین کو اپنے ساتھ دستر خوان پر بٹھائے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے بلکہ بعض اوقات اپنے حصے کا کھانا بھی مسکینوں کو کھلا دیتے اور خود بھوکے رہتے۔ ایک مرتبہ ان کو مچھلی کی خواہش ہوئی ‘جب مچھلی بھون کر ان کے سامنے رکھی گئی تو ایک سائل کا گزر ہوا۔ا نہوں نے مچھلی اٹھا کر اس کو دے دی۔ ایک دفعہ علیل ہوئے اور ان کے لیے انگور کے چند دانے ایک درہم میں خریدے گئے‘ اتفاق سے ایک سائل آ گیا۔ انہوں نے حکم دیا یہ انگور اس کو دے دو ‘اہل خانہ نے عرض کیا آپ ان کو کھا لیں‘ ہم اس کو کچھ اور دے دیں گے لیکن وہ مصر ہوئے کہ یہ انگور سائل کو دے دو۔ مجبوراً وہی دینے پڑے اور پھر اس سے خرید کر ان کی خدمت میں پیش کئے گئے۔ ایک مرتبہ سفر میں ایک ہی کھجور تھی‘منہ تک لے جانے بھی نہ پائے تھے کہ ایک سائل کا گزر ہوا انہوں نے وہ کھجور اس کو دے دی۔ 
طبقاتِ ابن سعد میں حضرت ابن عمرؓ کے غلام اور شاگرد نافع ؒ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ان کے پاس ہزار درہم( یا دینار اس کی تصریح نہیں کی گئی )آئے۔ ا نہوں نے دونوں ہاتھوں سے لوگوں کو دینے شروع کیے‘ یہاں تک کہ سب ختم کر ڈالے ۔ تقسیم ہو جانے کے بعد جو لوگ آئے‘ ان کو دوسرے لوگوں سے جنہیں پہلے دے چکے تھے قرض لے کر دیئے۔کہیں قیام ہوتا تو اکثر روزہ رکھتے تھے لیکن کو ئی مہمان آ جاتا تو روزہ توڑ دیتے اور فرماتے کہ مہمان کی موجود گی میں نفلی روزہ رکھنا فیاضی سے بعید ہے۔ حافظ ابن حجرؓ نے ’’اصابہ ‘‘میں لکھا ہے کہ حضرت ابن عمرؓ دو دو تین تین ہزار کی رقمیں تو آئے دن خیرات کرتے رہتے تھے لیکن بعض اوقات بیس بیس اور تیس تیس ہزار کی رقمیں بھی یکمشت اللہ کی راہ میں لٹا دیتے تھے۔ اگر کبھی کوئی غلام یا لونڈی بہت پسند ہوتی یا اپنے کسی غلام کو بہت عبادت گزار دیکھتے تو اس کو آزاد کر دیتے ۔
ایک دفعہ سفر حج کے لیے ایک اونٹنی خریدی‘ سوار ہوئے تو اس کی چال بہت پسند آئی‘ فوراً اتر پڑے اور حکم دیا کہ سامان اتار لو اور اس کو قربانی کے اونٹوں میں شامل کر دو۔ ایک مرتبہ چند دوستوں کے ساتھ مدینہ کے ایک نواحی علاقے میں تشریف لے گئے۔ ایک مقام پر دستر خوان بچھایا گیا تو ایک چرواہا ادھر آ نکلا ۔ اس نے سلام کیا ۔حضر ت ابن عمرؓ نے اس کو کھانے کی دعوت دی۔ اس نے عذر کیا کہ میں روزے سے ہوں۔ انہوں نے فرمایا‘ اتنی گرمی میں روزہ رکھتے ہو اور پھر بکریاں بھی چراتے ہو ؟ پھر اس سے پوچھا کیا یہ بکریاں ہمارے ہاتھ فروخت کر سکتے ہو؟‘ ہم تمہیں نقد قیمت بھی دیں گے اور افطار کے لیے گوشت بھی۔ چرواہے نے عرض کیا یہ بکریاں میری نہیں ہیں‘ ان کا مالک میرا آقاہے۔ حضرت ابن عمرؓ نے (اس کے تقویٰ کا امتحان لینے کی خاطر) فرمایا:تو تمہارا آقا کیا کر لے گا؟چرواہے نے آسمان کی طرف انگلیاں اٹھائیں اور این اللہ این اللہ (اللہ کہاں ہے اللہ کہاں ہے) کہتا ہوا چلاگیا (مطلب یہ تھا کہ اللہ تو اس بددیانتی کو جان لے گا) ۔ حضرت ابن عمرؓ کو اس کا یہ قول بہت پسند آیا اور اس کو بار بار دہراتے رہے ۔ چونکہ اس کی دیانت اور خدا خوفی سے بے حد خوش ہوئے تھے اس لیے جب مدینہ آئے تو اس کے آقا سے اس کی بکریوں سمیت اسے خرید لیااور آزاد کر دیا اور تمام بکریاں بھی اس کو بخش دیں۔ 
ایک دفعہ کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ایک بدّو ملا۔ حضرت ابن عمرؓ نے اس کو سلام کیا اور سواری کا گدھا اور سر کا عمامہ اتار کر اس کو دے دیا۔ ابن دیناؓر ساتھ تھے‘انہوں نے عرض کیا اللہ آپؓ کونیکی کی توفیق دے ‘یہ بدو تو معمولی چیزوں سے خوش ہو جاتے ہیں۔ (گدھا اور عمامہ دینے کی کیا ضرورت تھی) فرمایا‘ اس کے والد میرے والد کے دوست تھے ۔ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ سب سے بڑی نیکی اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ حسنِ سلوک ہے۔ حضرت ابن عمرؓ کے بعض غلام آزاد ہونے کے لیے بڑے عبادت گزار بن جاتے تھے۔ ان کے بعض احباب نے عرض کیا کہ یہ لوگ عبادت میں مخلص نہیں ہیں اور آپؓ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں۔ فرمایا:جو شخص ہم کو اللہ کے ذریعے دھوکا دیتا ہے ہم اس سے دھوکا کھا جاتے ہیں۔ ان کے ہاتھ سے جو مال نکل جاتا تھا‘ اس کو پھر وا پس نہیں لیتے تھے۔ عطاءؒ کا بیان ہے کہ ایک بار میں نے ان کو دو ہزار درہم قرض دیئے ۔ انہوں نے جب اس قرض کو چکایا تو میں نے ان کے درہموں کا وزن کیا‘ وہ وزن میں دو سو درہم زیادہ نکلے۔ میں نے یہ دو سو درہم واپس کرنے چاہے تو فرمایا: اب یہ تمہارے ہیں۔ چونکہ اکثر اپنا کھانا مسکینوں کو کھلا دیتے تھے ‘ اس لیے بہت لاغر ہو گئے تھے۔ لوگوں نے ان کی اہلیہ سے کہا کہ آپ ان کی خدمت اچھی طرح نہیں کرتیں۔ انہوں نے کہا میں کیا کروں‘ جب ان کے لیے کوئی کھانا پکتا ہے تو وہ مساکین کو کھلا دیتے ہیں۔ ان کی اس عادت کی بناء پر جب وہ مسجد سے نکلتے تو فقراء و مساکین ان کے راستے میں آ بیٹھتے۔ وہ انہیں اپنے ساتھ لے آتے اور کھانا کھلاکر بھیجتے ۔ ایک دن ان کی بی بی نے ان فقراء کے گھروں میں کھانا بھجوا دیا اور ساتھ ہی کہلا بھیجا کہ ان کے راستے میں مت بیٹھنا اور وہ بلائیں بھی تومت آنا۔ حضرت ابن عمرؓ اس دن مسجد سے نکلے تو کسی فقیر کو راستے میں بیٹھا نہ پایا‘گھر آئے تو واقعہ معلوم ہوا ۔ غصہ سے فرمایا کیا تم چاہتی ہو کہ مساکین میرے دستر خوان پر نہ ہوں اور میں رات فاقہ سے بسر کروں ۔ چنانچہ اس رات کو کھانا نہ کھایا اور بھوکے پڑے رہے۔ 
اپنی جلالتِ قدر کے باوجود حضرت عبداللہ بن عمرؓ تو اضع ‘ انکسار اور اخلاقِ حسنہ کا مجسمہ تھے۔ لوگوں کو سلام کرنے میں ہمیشہ پہل کیا کرتے تھے‘ اس میں امیر و غریب کی بالکل تفریق نہ کرتے تھے ۔ فرماتے تھے کہ میں بازار میں اس لیے نکلتا ہوں کہ لوگوں کو سلام کروں اور جواب میں مجھے سلام کیاجائے۔ اگر کسی کو سلام کرنا بھول جاتے تو پلٹ کر سلام کرتے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ سفر میں ہوتا تھا‘ جہاں تک ممکن ہوتا وہ اپنا کام خود کرتے تھے‘یہاں تک کہ خود اونٹ کا پاؤں دباتے تو میں اس پر سوار ہوتا۔ مسند احمد میں ہے کہ اپنی تعریف سننا ان کو سخت ناپسند تھا۔ ایک مرتبہ کوئی شخص ان کی تعریف کررہا تھا انہوں نے اس کے منہ پر مٹی جھونک دی اور فرمایا کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا ہے کہ منہ پر تعریف کرنے والے کے منہ میں مٹی ڈالا کرو۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے ان پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ انہوں نے جواب میں صرف اتنا فرمایا:بھائی ہم لوگ عالی نسب ہیں‘ گالی کا جواب نہ دیا۔
ایک دفعہ ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ آپؓ کون ہیں؟ فرمایا جو تم کہومیں وہی ہوں‘اس نے کہا آپ سبط ہیں‘ آپ وسط ہیں۔ فرمایا سبحان اللہ‘ سبط تو بنی اسرائیل تھے اور وسط تمام امتِ محمدیہ ﷺہے البتہ ہم قبیلہ مضر کے اوسط ہیں۔ اس سے زیادہ رتبہ کوئی ہمیں دیتا ہے تو وہ جھوٹا ہے۔ 
وہ ہمیشہ اس کو مکر وہ سمجھتے تھے کہ کوئی ان کو وضو کرائے۔ ایک دفعہ کسی نے ان کو نہایت بیش قیمت ہروی کپڑے ہدیتہ پیش کیے۔ انہوں نے ان کو یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ ان کے پہننے میں کوئی حرج نہیں تھا لیکن ہم کبرو غرور کے خوف سے ان کو نہیں پہن سکتے۔ایک دفعہ حالت احرام میں سردی محسوس ہوئی تو اپنے ایک شاگرد قرعہ عقیلی سے فرمایا: میرے اوپر چادر ڈال دو۔ انہوں نے چادر اوڑھا دی ۔ بیدار ہوئے تو اس کے نقش و نگار اور بوٹوں کو جو ریشمی تھے‘ دیکھنے لگے ۔ پھر فرمایا اگر یہ بوٹے نہ ہوتے تو اس کے اوڑھنے میں کوئی مضائقہ نہ تھا۔ اگر کسی ایسی جگہ تشریف لے جاتے جہاں لوگ انہیں دیکھ کر ازراہِ تعظیم کھڑے ہو جاتے تو وہاں نہ بیٹھتے تھے۔ (ابن سعد)
غلاموں کے ساتھ ان کا سلوک نہایت مشفقانہ بلکہ مساویانہ ہوتا تھا۔ انہیں اپنے ساتھ دسترخوان پر بٹھا کر کھانا کھلاتے تھے اور اپنے اہل و عیال کی طرح ان کے کھانے پینے کا خیال رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ ان لوگوں کو کھانا کھلانے میں دیر ہو گئی ‘حضرت ابن عمرؓ کو معلوم ہوا تو بہت ناراض ہوئے اور حکم دیا کہ انہیں فوراً کھانا کھلایا جائے پھر فرمایا انسان کے لیے یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ اپنے غلاموں کے کھانے پینے کا خیال نہ رکھے۔(مسلم)۔ دستر خوان پر بیٹھے ہوتے اور کسی دوسرے کا غلام وہاں آ جاتا تو اس کو بھی شریکِ طعام کر لیتے۔ انہوں نے اپنے غلاموں کو ہدایت کر رکھی تھی کہ جب مجھے خط لکھو تو اس میں میرے نام سے پہلے اپنا نام لکھو حالانکہ اس وقت کے رواج کے مطابق آقا کا نام پہلے لکھا جاتا (ابن سعد)۔غلاموں کو نہ کبھی سخت سست کہتے تھے اور نہ کبھی ان پر ہاتھ اٹھاتے تھے۔ اگر کبھی ایک آدھ مرتبہ غصہ کی حالت میں کسی غلام پر سختی کر بیٹھتے تو کفارہ کے طور پر اس کو آزاد کر دیاجاتا۔ (صحیح مسلم)
اپنے اخلاق حسنہ‘ تواضع اور انکسار کی بدولت انہیں عوام الناس میں درجہء محبوبیت حاصل ہو گیا تھا۔ لوگ ان سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے۔ گھر سے باہر نکلتے تو قدم قدم پر لوگ ان کو سلام کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت مجاہد ساتھ تھے‘ ان سے مخاطب ہو کر تحدیثِ نعمت کے طور پر فرمایا‘ لوگ مجھ سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ اگر سونے چاندی کے بدلے میں بھی محبت خریدنا چاہتا تو اس سے زیادہ نہ مل سکتی۔ (طبقات ابنِ سعد)۔
حضرت ابن عمرؓ کی طبیعت میں استغنا اور قناعت کا مادہ بدرجہ اتم پایا جاتا تھا۔ اگر چہ وہ سنتِ نبوی ﷺ کے مطابق ہدیہ قبول کر لیتے تھے لیکن کسی کے سامنے کبھی دستِ سوال دراز نہیں کیا۔ علامہ ابنِ سعد ؒ نے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ میں کسی سے مانگتا نہیں لیکن جو اللہ تعالی دیتا ہے اس کو رد بھی نہیں کرتا۔ ایک دفعہ ان کی پھوپھی رملہؓ نے دو سو دینار بھیجے ۔ انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کر لئے اور انہیں دعا دی۔ ایک مرتبہ عبدالعزیز بن ہارون نے ان کو لکھا کہ آپ کی جو حاجت ہو‘ مجھ سے طلب فرمایئے ۔ انہوں نے جواب میں لکھ بھیجا کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا ہے کہ اپنے اہل و عیال سے (لینے دینے کی)ابتدا کرو اور اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے۔ میرا خیال ہے کہ دینے والا ہاتھ اوپر کا ہے اور لینے والا نیچے کا ۔ میں آپ سے نہ سوال کروں گا اور نہ اس کو رد کروں گا جس کو اللہ نے میری طرف بھیجا ہے۔ 
ایک مرتبہ امیر معاویہؓ نے ایک لاکھ کی رقم ایک خاص مقصد کے لیے انہیں بھیجی لیکن انہوں نے یہ رقم قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ مال و دولت ان کے نزدیک بالکل بے حقیقت شئے تھی۔ اگر ذرا بھی شبہ ہو جاتا کہ مالی ہدیہ خلوص سے نہیں بلکہ کسی ذاتی غرض سے پیش کیا گیا ہے تو اس کو قبول نہ کرتے ۔ اسی طرح کسی چیز میں صدقہ کے شائبہ کا بھی خیال ہوتا تو اس کو استعمال نہ کرتے۔ ایک دفعہ انہوں نے اپنی والدہ کو ایک غلام دیا ۔اتفاق سے اس غلام کے ساتھ بازار گئے وہاں ایک شیر دار بکری فروخت ہو رہی تھی۔ انہوں نے غلام سے کہا‘ اپنے مال سے اس کو خرید لو۔ اس نے خرید لی اور افطار کے وقت اسی بکری کا دودھ ان کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے فرمایا یہ دودھ بکری کا ہے‘ بکری غلام کے مال کی ہے اور غلام صدقہ کا ہے۔ اس کو ہٹاؤ میں نہیں پیوں گا۔ مشتبہ چیزوں سے سخت اجتناب کرتے تھے۔ ایک دفعہ کسی نے کھجور کا سرکہ بطور ہدیہ بھیجا ۔پوچھا کیا چیز ہے؟ معلوم ہوا کھجور کا سرکہ ہے۔ انہوں نے اس کو فوراً گرا دیا کیونکہ اس کے استعمال سے سکر(نشہ) پیدا ہونے کا احتمال تھا۔ 
ابن سعد ؒ کا بیان ہے کہ وہ ککڑی اور خربوزہ صرف اس لیے نہیں کھاتے تھے کہ ان میں گندی چیزوں کی کھاد دی جاتی ہے۔ (یہ ان کی شدتِ احتیاط تھی ورنہ ان چیزوں کے استعمال میں کوئی کراہیت نہیں)۔ مروان بن الحکم نے اپنے زمانہ میں راستوں پر میل کے سنگی نشان نصب کرائے تھے۔ حضرت ابن عمرؓ ان پتھروں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا مکروہ سمجھتے تھے اور ان سے ہٹ کر نماز پڑھتے تھے کیونکہ ان زمانوں میں پتھروں کے بتوں کے خاتمے کو زیادہ وقت نہ گزراتھا‘ پتھر کے بت کی پوجا کے شبہ سے احتیاط کرنا پسند کرتے۔ 
حضرت ابن عمرؓ کی زندگی ہمیشہ مصالحانہ رہی۔ انہوں نے مسلمانوں کے باہمی جھگڑوں میں حصہ لیا نہ حکومتِ وقت کے خلاف کسی سرگرمی میں شامل ہوئے‘ تاہم جس بات کو حق سمجھتے تھے‘ اس کا برملا اظہار کرتے تھے ‘خواہ حاکمِ وقت کی پیشانی پر بل ہی کیوں نہ پڑ جائیں۔ ان کی حق گوئی اور بے باکی کے کچھ واقعات اوپر بیان کئے جا چکے ہیں ۔ اکثرمؤرخین کی رائے میں ان کی یہی حق گوئی ان کی شہادت کا باعث بنی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ مچھر کے خون کا کفارہ کیا ہے۔ انہوں نے دریافت کیا تم کون ہو؟ اس نے کہا ‘ عراقی۔ فرمایا: لوگو ذرا اس کو دیکھنا یہ شخص مجھ سے مچھر کے خون کا کفارہ پوچھتا ہے حالانکہ ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے جگر گوشہ کو شہید کیا ہے‘ جن کے بارے میں حضور ﷺ فرماتے تھے کہ یہ دونوں حسنؓ اور حسینؓ میرے باغِ دنیا کے دو پھول ہیں۔ سانحہ کربلا کے بارے میں اس طرح کے جذبات کااظہار ارباب اقتدار کو مشتعل کر سکتا تھا لیکن حضرت ابن عمرؓ نے اس کی کبھی پروا نہیں کی‘ جو دل میں ہوتا وہ بلا جھجک زبان پر لے آتے۔
حضرت ابن عمرؓ نہایت صائب الرائے اور دانا تھے۔ اہل سیر نے ان کے متعدد حکیمانہ اقوال نقل کئے ہیں جن سے ان کی غیر معمولی بصیرت و حکمت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ان میں سے کچھ یہ ہیں۔ 
* سب سے آسان نیکی خندہ پیشانی اور شیریں کلامی ہے۔ 
* علم تلاش کرو چاہے وہ دشمن کے پاس ہو۔ 
* دوسروں کے عیوب ڈھونڈنے سے پہلے اپنے عیوب پر نظر ڈالو۔
* جس طرح میٹھا شربت پی جاتے ہو‘ اسی طرح غصہ بھی پی جا یا کرو۔ 
* بندہ خواہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک برگزیدہ ہی کیوں نہ ہو مگر جب اس کو دنیا کا کچھ حصہ مل جاتا ہے تواللہ کے یہاں اس کا کوئی نہ کوئی درجہ ضرور گھٹ جاتا ہے۔ 
* آدمی اس وقت اہلِ علم کی جماعت میں شمار ہونے کے قابل ہو گا جب وہ اپنے سے بلند آدمی پر حسد نہیں کرے گا‘اپنے سے کم تر کو حقیر نہ سمجھے گااور اپنے علم کی قیمت نہ لے گا۔ 
* اخلاق خراب ہیں تو ایمان بھی خراب ہو گا۔
* گناہ کرنا چاہتے ہو تو وہ جگہ تلاش کرو جہاں اللہ موجود نہ ہو۔ 
* عبادت کی لذت حاصل کرنا چاہتے ہو تو تنہائی ڈھونڈو، دوستوں اور واقف کاروں سے علیحدگی اختیار کرو مگر یہ اس وقت ہو گاجب روزی تلاش کر لو اور اہل و عیال کو میٹھی نیند سو لینے دو۔ 
* میں پہلے خود حدیث پر عمل کرتا ہوں اور پھر لوگوں کو سناتا ہوں۔ 
سید نا ابن عمرؓ شکل و صورت میں اپنے جلیل القدر والد حضرت عمر فاروقؓ کے مشابہ تھے۔ دراز قد‘گندمی رنگ اور بھاری بھر کم جسم‘ کندھوں تک کاکلیں تھیں جن میں کبھی کبھی مانگ نکالا کرتے تھے ۔ داڑھی بقدر یک مشت‘مونچھیں بہت باریک کترواتے تھے ۔ بقول ابن سعدزرد خضاب استعمال کرتے تھے۔ تمام صحابہؓ و تابعین جنھوں نے حضرت ابن عمرؓ کو دیکھاتھا‘ بالاتفاق ان کے اوصاف حمیدہ ‘ تبحّرِ علمی اور جلالت قدر کے معترف اور مداح تھے۔ ام الموئمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ عہد رسالت کی حالت و کیفیت کا عبداللہ بن عمرؓ سے زیادہ پابند کوئی نہیں رہا۔ حضرت حذیفہ بن ا لیمانؓ فرماتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد ہر شخص کچھ نہ کچھ بدل گیا مگر عمرؓ اور ان کے بیٹے عبداللہؓ نہیں بدلے۔ حضرت سعید بن مسیبؓ کہا کرتے تھے کہ اگر میں کسی کے جنتی ہو نے کی گواہی دے سکتا ہوں تو وہ ابن عمرؓ ہیں۔ میمون بن مہران ؒ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمرؓ سے بڑھ کر کوئی متقی اور پرہیزگار نہیں دیکھا ۔ حضرت سلمہؓ بن عبدالرحمان فرماتے تھے کہ میں نے ابن عمرؓ کی وفات کے بعد ان جیسا کوئی نہیں دیکھا‘ وہ فضیلت میں اپنے والد کے قریب تھے۔ حضرت علی بن حسینؓ زین العابدین فرماتے تھے کہ عبداللہ بن عمرؓ کو زہد و تقویٰ اور اصابتِ رائے میں ہم سب پر برتری حاصل تھی۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللھم اغفرلہ واسکنہ فی الجنّتہ لفردوس۔ آمین!ایں دعااز من واز جملہ جہاں آمیں باد۔

No comments:

Post a Comment