دسویں کہانی
شیخ احمد سرہندیؒ
دسویں کہانی شیخ احمد سرہندی ؒ کی ہے جن کا لقب مجدّد الف ثانی ہے۔ آپ کی پوری زندگی میں جو چیز سب سے نمایاں نظر آتی ہے وہ سنت رسول اللہ ﷺ کی سختی سے پابندی ہے۔
آپ کے زمانے کی عالمی طاقت بنیادی طور پر مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھی۔ عالم اسلام کی متحدہ مرکزی طاقت ترکی والی خلافت عثمانیہ تھی جس کی اطاعت کا عہد ہر علاقہ کی مسلم حکومت کرتی تھی۔ عالمی تہذیب و تمدن کی مظہر دو اور بڑی سلطنتیں بھی تھیں۔ وہ دونوں بھی مسلمان طاقتیں تھیں ۔ ایک ایران و خراسان کی صفوی سلطنت‘ دوسری متحدہ برصغیر کی سلطنت ہند جو ابراہیم لودھی کی شکست کے بعد بابر اور ہمایوں سے ہوتی ہوئی اکبر اور جہانگیر تک آئی تھی۔ شیخ احمد سرہندی کو قدرت نے اکبر کے دین الٰہی کے خاتمے کے لیے چنا۔ دین الٰہی ہندومت‘ بدھ مت ‘ پارسی‘ جین مت کی من پسند آسان رسوم پر مشتمل ایک سرکاری مذہب تھا جو اس لیے بنایا گیاتھاکہ ہندو جو بہت بڑی تعداد میں تھے‘ کہیں مسلمان بادشاہ کے خلاف نفرت یا بغاوت نہ کر دیں۔ اس نئے سرکاری دین نے درحقیقت اسلام کی پوری عمارت کو منہدم کر دیا تھا حالانکہ لودھی حکمرانوں کے زمانے میں دین کے حامل کئی صاحب کمال بزرگ تھے۔ سلسلہ قادریہ اور چشتیہ کی شاخیں پھیلی ہوئی تھیں۔ مگر رفتہ رفتہ اکبر بادشاہ کے نافذ کردہ دین الٰہی کا فتنہ کبریٰ سرکاری سرپرستی اور شیطان کی اعانت سے مقبول ہوتا گیا۔ اس وقت دین اسلام کی صحیح بنیادوں پر تجدید کی ضرورت پیش آئی اور اللہ پاک نے اس کام کے لیے شیخ احمد سرہندیؒ کو چنا جنہوں نے اس فریضہ کو نہایت دشوار ماحول میں (جس کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی) حکومت وقت کی عقوبتیں سہہ سہہ کر بکمال عزیمت ادا کیا۔ اس سے نہ صرف ہند کے دین دار طبقے ممنون ہوئے بلکہ تمام دنیائے اسلام نے اس مشکل ہدف کے حاصل کرنے پر شیخ صاحب موصوف کی ہمت اور کاوش کی دل کھول کر تعریف کی۔
شیخ احمد سرہندیؒ کا دین اسلام کی تجدید کا کارنامہ ایسا عظیم کام ہے کہ ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ آپ نے حضور ﷺ سے غیب میں باندھا ہوا عہدِ وفا اپنے جد امجد امیر المومنین حضرت عمرؓ بن خطاب کی طرح ایسے نبھایا‘ جیسا کہ نبھانے کا حق تھا ۔
آپ کا نام احمد‘ لقب بدر الدین اور کنیت ابو البر کات تھی۔ شیخ احمد بن شیخ زین العابدین نسبًاً فاروقی تھے اوران کا سلسلہ نسب ۲۰ ویں پشت میں جا کر حضرت عمرؓ بن خطاب سے مل جاتا ہے۔ آپ کا خاندان ظاہری و باطنی علوم اور دینی فیوض و برکات کے لیے مشہور تھا۔ خود آپ کے والد اپنے وقت کے جید عالم تھے۔ انہوں نے علم دین کے حصول کے لیے مختلف مقامات کے سفر کیے اور اپنے وقت کے معروف بزرگ شیخ عبدالقدوس گنگوہی اور ان کے بیٹے رکن الدین سے استفادہ کیا اور منازل سلوک طے کیں۔ وہ چشتی اور قادری سلسلہ میں خرقہ خلافت سے سرفراز ہوئے۔ اس کے علاوہ مشہور بزرگ شاہ کمال کیتھلی سے بھی آپ کا خصوصی رابطہ تھا۔ آپ کے والد اکثر علوم میں مہارت رکھتے تھے۔ خصوصاََ فقہ اور اصول فقہ میں ان کی نظیر نہیں ملتی ۔ کتب تصوف کا بھی درس دیتے تھے۔ سنت کے سخت پابند اور شریعت کا احترام کرتے تھے۔ ان کواللہ تعالیٰ نے سات فرزند دیئے۔ سب نے دنیاوی علوم اور سلوک کی تعلیم اپنے والد سے لی لیکن دین کی تجدید اور ہندوستان میں سرمایہ ملت کی نگہبانی کی سعادت تقدیر نے احمد سرہندی ؒ کے نام لکھ دی تھی۔آپ کی ولادت ۴ا شوال ا۹۷ہجری بمطابق ۵۶۳اء کو ہندوستان کے شہر سر ہند میں ہوئی۔
ابتدائی حالات
شیخ احمد کا رجحان بچپن ہی سے دین کی جانب تھا۔ نماز بڑے شوق سے پڑھتے تھے۔نوافل تک کی ادائیگی کا خاص خیال رکھتے تھے۔ آپ کے والد کے شیخ شاہ کمال کیتھلی آپ پر خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ مشہور ہے کہ بچپن میں ایک بار شاہ کمال نے فرط محبت سے اپنی زبان آپ کے دہن میں دے دی۔ تو آپ نے شاہ صاحب کی زبان پکڑ لی اور منہ میں دبا لی۔ آخر شاہ صاحب کہنے لگے ۔ بابا بس کرو اتنا کافی ہے۔ کچھ ہماری اولاد کے لیے بھی چھوڑ دو۔ تم نے تو ہماری ساری نسبت ہی کھینچ لی۔ آپ کی عمر ابھی سات سال ہی تھی جب شیخ کمال نے رحلت فرمائی۔تاہم آپ کو ان کا حلیہ اور جس گھر میں ان سے ملاقات ہوئی تھی اس کا نقشہ تک یاد رہا۔
تعلیم و تربیت
تعلیم کی ابتداء حفظ قرآن سے ہوئی۔ پھر والد سے مختلف مضامین کی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں سیالکوٹ جا کر مولانا کشمیری جن کی ذکاوت‘ حافظہ اور کثرت مطالعہ کا شہرہ تھا‘ ان سے اس وقت کے نصاب تعلیم کی بعض کتابیں پڑھیں۔ حدیث کی تعلیم شیخ یعقوب صرفی کشمیری سے حاصل کی‘ جن کی تصنیفات میں صحیح بخاری کی ایک شرح بھی ہے اور وہ خود اپنے زمانے کے مشہور اساتذۂ حدیث سے شرف تلمذ حاصل کر چکے تھے۔ یوں سترہ سال کی عمر میں آپ فارغ التحصیل ہوئے۔ آپ نے عربی فارسی میں چند رسالے لکھے۔ اس کے علاوہ درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ بائیس برس کی عمر میں آپ آگرہ تشریف لے گئے۔ آگرہ میں طویل قیام کے بعد اپنے والد کی خواہش پر ان کے ساتھ واپس آئے۔ راستے میں شہر تھانیسرپرسے گزر ہوا۔وہاں کے حاکم کی خواہش پر ان کی بیٹی سے آپ کا نکاح ہوا اور آپ دلہن اور والد کے ساتھ سرہند تشریف لے آئے۔ سرہند پہنچ کر آپ والد ماجد کی حیات تک انہی کی خدمت میں رہے اور سلسلہ چشتیہ و قادریہ کا سلوک طے کیا۔
والد کے انتقال کے بعد ادائے حج کے لیے رختِ سفر باندھا اور سرہند سے کوچ کر کے دہلی پہنچے۔ وہاں کے علماء جن میں مولانا حسن کشمیری بھی تھے آپ سے ملاقات کے لیے آئے۔ دورانِ ملاقات حسن کشمیری نے برسر تذکرہ حضرت خواجہ باقی باللہ کے بلند مرتبے اور قوت باطنی کی بہت تعریف کی۔ آپ کو بھی ملاقات کا شوق ہوااور مولانا حسن کشمیری کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
خواجہ باقی باللہ سے تعلقِ معرفت
خواجہ باقی باللہ عجیب و غریب روحانی قوت رکھتے تھے۔ جس پر آپ کی نظرپڑ جاتی‘ اس کی قلبی کیفیات بدل جاتیں۔ دل اللہ کی معرفت کا مشتاق ہو جاتا اور اس پر محویت کا غلبہ ہو جاتا۔اہلِ سلوک آپ کے دروازے پرمست الست پڑے رہتے۔ خواجہ صاحب طبعاََ انتہائی منکسر المزاج تھے۔ لوگوں سے اپنی باطنی صلاحیتیں اورکیفیات چھپایا کرتے تھے۔ لوگ آپ کے پاس باطنی استفادے کے لیے آتے تو انہیں یہ کہہ کر واپس کر دیتے کہ میرے پاس تو کچھ نہیں ہے۔ اپنے احباب کو بھی اپنے لیے تعظیم بجا لانے اورکھڑا ہونے سے منع کرتے۔ اپنے مریدوں سے غلطی کا ارتکاب ہوجاتا تو ان کی غلطی اپنی غلطی بتاتے۔ انسانوں کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر اس قدر شفقت فرماتے کہ ایک بار سخت جاڑے کی ایک رات میں آپ کسی کام سے بستر سے اٹھ گئے۔ واپس آئے تو انپے لحاف میں ایک بلی کو سوتا دیکھ کر اسے جگانے کے بجائے صبح تک بیٹھے رہے۔ قیام لاہور کے زمانے میں جب قحط پڑا تو اس عرصے میں اپنی خوراک حاجت مندوں میں صدقہ کر دیاکرتے۔
شیخ احمد خواجہ باقی باللہ کے پاس پہنچے تو وہ بہت محبت سے پیش آئے اور انہوں نے خلافِ توقع آپ کو کچھ عرصہ اپنے ساتھ قیام کرنے کی دعوت دی‘آپ نے حامی بھر لی۔ چند ہی روزکی خواجہ صاحب کی صحبت کا ایسا اثرہوا کہ آپ نے بیعت کی درخواست کی۔ حضرت خواجہ نے قبول کر لیا اور ذکر قلبی کی تلقین کی۔ آپ کی باطنی کیفیات میں روز افزوں ترقی ہونے لگی اور محض دوماہ کے عرصے میں فنائے حقیقی کے وہ مدارج طے کر لیے کہ خود فرماتے ہیں کہ دل کو اس قدر وسعت حاصل ہوئی کہ اس کے مقابلے میں عرش سے لے کر مرکز زمین تک تمام عالم کی حیثیت رائی کے ایک دانے کے برابر بھی نہ تھی۔ اس قلیل عرصے میں اللہ تعالیٰ کی خاص امداد سے آپ نے سلوک کے وہ مراحل طے کئے جو برسوں کی کوشش کے بعد بھی لوگوں کو نصیب نہیں ہوتے۔ اس موقع پر حضرت خواجہ نے نسبت نقشبندی کے حاصل ہونے کی خوشخبری سنائی۔دوسری بار جب آپ دہلی حاضر ہوئے تو خواجہ صاحب نے خلعتِ خلافت بھی عطا کی اور طالبان خدا کو تعلیم طریقت اور ارشاد و ہدایت کی اجازت دی۔ تیسری اور آخری ملاقات میں خواجہ صاحب نے بہت آگے تک آ کرآپ کا استقبال کیا۔ آپ کو بہت سی بشارتیں دیں اور اپنے دو چھوٹے بچوں کو بھی آپ کی خدمت میں پیش کیاتاکہ وہ آپ کی توجہ سے فائدہ اٹھائیں۔ آپ کے شیخ حضرت خواجہ باقی باللہ خود آپ کی کس قدر عزت کرتے تھے ‘اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ ایک روز آپ اپنے تخت پر آرام فرما رہے تھے کہ اتفاقاََ حضرت خواجہ تنہا آپ سے ملاقات کے لیے تشریف لائے ۔ خادم نے آپ کو بیدار کرنا چاہا لیکن حضرت خواجہ نے نہایت اصرار کے ساتھ اس کو منع کر دیا اور خود حجرے کے باہر آپ کے بیدار ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ شیخ احمد اگرچہ گہری نیند سو رہے تھے لیکن فورا اٹھ بیٹھے اور پوچھا کہ باہر کون ہے؟ حضرت خواجہ نے فرمایا، ’’ فقیر محمد باقی‘‘ آپ فورا تخت سے اٹھے اور نہایت عزت و احترام سے ان کو اندر لا کر بٹھایا۔ آپ اپنے شیخ کا حد درجہ احترام کرتے‘ ان کے طلب کرنے پر آپ کے چہرے کا رنگ بدل جاتا۔ کچھ عرصہ بعد شیخ نے آپ کو رخصت کیا اور رخصت کرتے وقت اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا کہ اب زندگی کی امید کم ہے۔ یہ بات درست ثابت ہوئی اور تیسری حاضری کے بعد آپ کو حضرت خواجہ کی صحبت میسر نہ آ سکی۔
اس کے بعد آپ سر ہند تشریف لائے اور خواجہ صاحب کے ارشاد کے مطابق تربیت و ہدایت کے کام میں مشغول ہو گئے۔ کچھ ہی عرصہ میں محسوس کرنے لگے کہ ابھی بہتری کی بہت گنجائش ہے اور اپنی ذات میں کمی کا احساس ہونے لگا۔ وہ طالب علم جو آپ کے پاس تزکیے اور تربیت کے لیے جمع تھے‘ ان کو رخصت کیا‘ خود گوشہ نشینی اختیار کی اور اپنے باطنی احوال کی طرف توجہ کی۔ جب کچھ اطمینان نصیب ہوا تو دوبارہ طالبینِ حق آپ سے استفادہ کرنے لگے۔ اس تمام عرصے میں شیخ باقی باللہ سے خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا۔ انہی کے حکم پر لاہور کا سفر اختیار کیا۔ لاہور بھی ہندوستان کے علمی و دینی مراکز میں سے تھا۔ وہاں کے علماء نے آپ کا پرجوش استقبال کیا۔ بہت سے حضرات آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے۔ ذکر اذکار اور درس کی محفلیں سجائی جاتیں۔ اسی اثنا میں آپ کو شیخ و مرشد کی وفات کا علم ہوا۔ اسی وقت پریشانی کی حالت میں دہلی روانہ ہوئے۔ سوگواران سے تعزیت کی اور شیخ کے مریدوں کی خواہش پر چند روز دہلی میں قیا م کیا۔ تربیت و ارشاد کی وہ محفلیں جن کا سلسلہ شیخ کے انتقال کے سبب رک گیا تھا ‘انہیں جاری کیا۔ کچھ روز کے قیام کے بعد واپس سرہند تشریف لے آئے۔
تجدید دین
شیخ کے دور کا سب سے بڑا فتنہ دین الٰہی تھا جو شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کی اپنی اختراع تھی۔ قبل اس کے کہ اس پر روشنی ڈالی جائے‘ یہ بتانا ضروری ہے کہ ابتداء میں اکبر بادشاہ بھی عام مسلمانوں کی طرح اور اپنے ماحول کے زیر اثر ایک سیدھا سادہ خوش اعتقاد مسلمان تھاجو بزرگوں سے عقیدت رکھتا تھا اور ان کے مزارات کی زیارت کے لیے طویل سفر کرتا ‘ علماء و صلحاء کی صحبت اختیار کرتا اور خود بھی ذکر و اذکار کا اہتمام کرتا۔ ہر سال سرکاری خرچ پر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو حج پر بھیجتا۔ خود بھی دین کی خدمت کے لیے کوشاں رہتا۔ یہاں تک کہ بعض اوقات مسجد میں جھاڑو بھی دیتا۔
اکبر ان پڑھ ہونے کے باوجود متجسس طبیعت کا مالک تھا۔ گزرتے ہوئے ماہ و سال نے اس کی دینی سوجھ بوجھ میں اضافہ تو نہ کیا البتہ مناظروں کی مجلسوں نے اسے الحاد اور تشکیک کی وادی میں لاڈالا۔ شاہی دربار میں صرف ہند و ازم اور اسلام ہی پر گفتگو نہ ہوتی بلکہ توراۃ اورانجیل کے تراجم بھی منگوائے گئے اور ان مذاہب کے پیشواؤں نے بھی دربار میں حاضر ہو کر اپنے اپنے مذاہب کی حقانیت ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ان حالات میں اہل بدعت اور ہوا پرست اپنی غلط آراء اور باطل شبہات کے ساتھ میدان میں نکل آئے اور باطل کو حق کی صورت میں اور خطا کو صواب کے لباس میں پیش کرنے لگے۔ بادشاہ جو طالبِ حق مگر ان پڑھ تھا اور کافروں سے مانوس تھا‘ شک میں مبتلا ہو گیا۔ ان شکوک و شبہات نے اسے شریعت سے دور کر دیا اور پانچ چھ سال کے بعد اسلام کا کوئی اثراس میں باقی نہ رہا۔دربار میں تفسیر قرآن غیر سنجیدہ اور بے باکانہ انداز میں بیان کی جانے لگی۔علمائے دربار آپس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی سعی میں حد سے گزرنے لگے۔ یہاں تک کہ اکبر علماء سلف کو بھی انہی پرقیاس کر کے سرے سے ہی علماء کا منکر ہو گیا۔مزید یہ کہ اکبر کو درباری بھی ایسے ہی ملے جنہوں نے بجائے دین کا دفاع کرنے اور بادشاہ کو راہِ حق پر لگانے کے ‘زمانے کی رو دیکھ کر اس کو دین سے متنفر کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ ہر وہ شخص جو معجزات اور عقائد پر زبان درازی کرتا اور ا پنی چرب زبانی کی بناء پر ا پنی بات کو وزنی بنا کر پیش کرتا‘ وہ بادشاہ کے دربار میں بلند مقام پاتا۔ اس کی سب سے کھلی مثال ملا مبارک اور اس کے دوبیٹے ابو الفضل اور فیضی تھے۔ یہ لوگ زبانِ ادب کے عالم تھے مگر دینی حوالے سے پیشوائی کے اہل نہ تھے۔ روحانیت انہیں چھو کر بھی نہیں گزری تھی۔یہ اپنے عہد کے ایسے اہم دانشور تھے جن کی ذہانت اور تبحر علمی کا ایک زمانہ معترف تھا۔ بادشاہ ان کے زیرِ اثر تھا اور پورے ملک میں ان کا طوطی بول رہا تھا۔ ان دونوں بھائیوں کی آزاد خیالی نے اکبر پر گہرا اثر کیا۔ کچھ ا پنی آزاد خیالی اور کچھ جاہ پسندی کی وجہ دونوں بھائی بادشاہ کے ہر غلط اقدام کی حمایت کرتے۔ اکبر کے لیے یہی کافی تھا کہ یہ دونوں بھائی اس کو یقین دلاتے کہ مذہب سے متعلق اس کے نظریات معاصر علماء سے کہیں افضل و بہتر ہیں۔اکبر کو دین سے متنفر کرنے اور اسلام اور دیگر مذاہب کے ملغوبے سے ایک نیا مذہب ایجاد کرنے میں بڑا ہاتھ ان ہندو راجپوت رانیوں کا بھی ہے جن سے اکبر نے استحکام سلطنت کے لیے شادیاں کی تھیں۔ پھر ان کے عزیز ہندو راجاؤں کو اعلی مناصب پر تقرر کیا۔ ساتھ ہی دربار میں ہندو رسموں اور طور طریقوں کا اثر نظر آنے لگا۔ حالات یہاں تک جا پہنچے کہ شرعی عدالت کی طرف سے جاری کردہ سزاؤں پر بھی ہند و رانیاں اثر انداز ہونے لگیں اور جب قاضی ء وقت نے اس دباؤ کو قبول کرنے سے انکار کیا تو انہوں نے بادشاہ سے شکایت کی کہ اس نے ملاؤں کو بہت سر چڑھا رکھا ہے۔ یہی وہ موقع تھا جب ملا مبارک کی مدد سے بادشاہ نے وہ محضر نامہ تیار کیا جس میں صاف طور پر اس بات کا اعلان کیا گیا کہ بادشاہ کا رتبہ مجتہد سے زیادہ ہے۔ ایسے دینی معاملات میں جن میں علماء کا آپس میں اختلاف ہے‘ بادشاہ کی رائے حتمی ہو گی اور ہر ایک کو اس کی پابندی کرنا ہو گی۔اس محضر نامے پر تمام علماء سے دستخط کروائے گئے۔ اب بادشاہ کے دل میں یہ بات پختہ ہو گئی کہ دین اسلام کو آئے ایک ہزار برس پورے ہونے کو ہیں۔ یہی اس دین کی طبعی عمر ہے ۔ اب کسی ایسی ہستی کی آمد کی ضرورت ہے جو نئے سرے سے دین کا اجر اء کرے اور وہ بادشاہ ہی کی ذاتِ قدسی صفات ہو سکتی ہے۔اب دین الٰہی کاایک مذہب کے طور پر آغاز ہوا جس کا بانی خود اکبر بادشاہ تھا۔ اس میں کواکب پرستی اور عقیدہ تناسخ کے علاوہ ہر اس چیز کو شامل کیا گیا جو آسان او رسادہ ہو‘انسانی نفس کے لیے باعث تسکین ہو یا اکبر کی سیاسی زندگی کے لیے مفید ہو۔ محل کے خدام غروب آفتاب کے بعد شمعیں روشن کر کے بادشاہ کے حضور آتے اور اللہ تعالیٰ کی حمد اور بادشاہ کی درازی عمر کے لیے دعا کرتے۔ بادشاہ صرف گنگا کا پانی نوش کرتا۔سود‘ شراب‘ جوئے اور خنزیر کے گوشت کو حلال کر لیا گیا۔ ایک طرف سؤر کے گوشت کو حلال کیا گیا تو دوسری طرف ہندو عقائد کے زیر اثر گوشت خوری کو ناپسند ٹھہرایا گیا۔ بادشاہ کو سجدہ تعظیمی کیاجانے لگا۔ دین الٰہی کے ماننے والے آپس میں ملاقات کے وقت السلام علیکم کی جگہ اللہ اکبر (بمعنی اکبر اللہ ہے) کہتے جبکہ وعلیکم السلام کی جگہ جل جلالہ کہا جاتا۔حکومتی سطح پر غیر اسلامی تہوار منائے جانے لگے۔ اسلامی شعائر اور ارکان کی توہین کی گئی ۔ غرض اسلامی تاریخ کے ہزارئیے کے پورے ہونے کے ساتھ ہی ہندوستان میں دین اسلام کو داخلی طور پر عظیم خطرہ درپیش ہو گیا۔
دیگر فرقوں کی فتنہ انگیزیاں
سلسلہ عشقیہ شطاریہ (جس کے بانی عبداللہ شطار خراسانی ہیں) کی ایک شاخ نے پہلی مرتبہ جوگ کو تصوف کے ساتھ ملایا۔ اس سلسلے کے سب سے نامور شیخ محمد غوث گوالیاری تھے جو امیر انہ ٹھاٹھ باٹھ سے رہتے ۔ ان کی جاگیر کی آمدنی نو لاکھ سکہ نقرئی تھی۔ ان کے پاس ۴۰ ہاتھی اور خادموں کی ایک فوج ظفر موج تھی۔ بازار میں نکلتے تو لوگ جھک جھک کر سلام کرتے۔ غرض سلف کے طریقے اور انداز چھٹ گئے تھے۔
ایک طرف صوفیاء کی وہ شاخیں تھیں جو نئے نئے نظریات کے ذریعے فکری مغالطے پیدا کررہی تھیں تو دوسری جانب اہل تشیع حضرات کی ایک شدت پسند جماعت نے کشمیر اور جنوبی ہند میں اپنا اثر پھیلانا شروع کیا۔ ان کی مبالغہ آمیز تعلیمات اور تشدد پر مبنی کاروائیوں نے اہل سنت حضرات کا جینا دو بھر کر دیا۔ مسجدوں‘ خانقاہوں اور بازاروں میں خلفائے ثلاثہ (حضرات ابوبکرؓ ، عمرؓ ، عثمانؓ) پر علی الاعلان تبرا کیاجانے لگا اور اس ساری کارروائی کی سرپرستی والی ء سلطنت برہان نظام شاہ خود کر رہا تھا۔
تیسری طرف ذکری فرقہ نے دعویٰ کیا کہ نبوت محمد یﷺ کا پہلا ہزار ختم ہونے پر اب ایک نئے پیغمبر کی ضرورت ہے اور دوسرے ہزار سال کے لیے خدا نے ملا محمد کو منتخب کیا ہے۔ ( جو اس فرقے کا بانی تھا)۔ پھر قادیانی جماعت کی طرح اپنے عقائد میں اتنا غلو کیا کہ ملا محمد کی فضیلت حضور ﷺ سے بھی بڑھا کر بتانے لگے اور ارکان اسلام کے منکر ہو گئے۔
ایک اور فرقہ روشنائیہ تھا ۔ اس کا بانی بازید انصاری تھا ۔ وہ وحدت الوجود کے نظریے کا قائل تھا اور دعویٰ کرتا تھا کہ اس کو الہام ہوتا ہے اور اس پر جبرائیل نزول کرتے ہیں۔ وہ خود اپنے آپ کو نبی سمجھتا۔ نماز پڑھتے وقت قبلے کے تعین کو غیر ضروری گردانتا۔ طہارت و پاکی کے بارے میں احتیاط نہیں برتتا تھا۔ اس نے پشاور کے علاقے اور آس پاس کے افغان قبائل کو اپنا معتقد اور مرید بنا لیا تھا اور اسے زبردست کامیابیاں حاصل ہوئی تھیں۔ سب سے طاقتور تحریک جس کے اثر ات دسویں صدی کے آخر تک باقی رہے وہ مہدویت کی تھی جس کے بانی سید محمد جو نپوری تھے۔ ظاہری طور پر وہ بڑے بہادر اور جری آدمی تھے۔ سلوک کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مجاہدہ اور ریاضت کرنے پہاڑوں میں نکل گئے۔ وہاں مراقبوں کے دوران انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں غیبی اشارے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مہدی مو عود ہونے کا اعلان کیا اور اس پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ وہ صاحب تاثیر آدمی تھے۔ بڑے بڑے مناصب پر فائز لوگوں نے ان کی دعوت پر لبیک کہا اور سب کچھ ترک کر کے ان کے ساتھ ہو گئے ۔ ایک بڑا علاقہ ان کے اثرات کے تحت آگیا۔ ان کی زندگی ترک دنیا اور زہد و ایثار کا نمونہ تھی۔ ان کے ہاں ہر چیز بغیر کسی لحاظ اور خصوصیت کے برابر تقسیم ہوتی۔ چونکہ وہ صاحب حال آدمی تھے ٰلہٰذا اس حالت میں ان کی زبان سے کچھ ایسے الفاظ و اقوال کا بھی پتہ چلتا ہے جن کی تشریح راسخ العقیدہ اہل سنت کے لیے مشکل ہے۔ پھر غالی معتقدین نے ان کی عقید ت میں اس قدر مبالغہ کیا کہ اس نے باقاعدہ ایک فرقے کی شکل اختیار کر لی۔ جس نے مسلم معاشرے میں انتشار و اضطراب پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔
تین محاذ
مجموعی طور پر صورت حال کا جائزہ لیاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی صحیح اور خاص تعلیمات کو عام کرنے کے لیے تین محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت تھی:۔
(ا)۔ انبیاء کی ضرورت اور مقام‘ نبی کریمﷺ کے خاتم النبین ہونے اور قیامت تک آپﷺ کی تعلیمات کے مؤثرہونے پر زور‘ سنت کی ترویج اور بدعات کا رد۔
(۲)۔ اہل تصوف کی اصلاح اور ان کے شرعی حد سے بڑھے ہوئے نظریات کی درستگی
(۳)۔ بادشاہ ‘ سلطنت اور حکومتی ارکان کو راہ راست پر لانے کی ضرورت۔
ان تمام مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک ا یسی شخصیت کی ضرورت تھی جو ایک طرف سلوک کے سارے مراحل طے کر کے اس کی پرخار وادیوں سے نکل کر حقیقت کی تہہ تک پہنچ چکی ہو تو دوسری طرف نبی کریم ﷺ کے خاتم النبیین ہونے پر نہ صرف پورا یقین رکھتی ہو بلکہ آپ ﷺ کے طریقے‘ سنت کے اتباع اور شریعت کے احترام کا بہترین نمونہ ہو۔ اس کے ساتھ ہی اس کے کردار‘ عمل اور بیان میں اس قدر خلوص‘ پختگی اور بے لوثی ہو کہ بادشاہ اور ارکان سلطنت بھی اس کو نظر انداز نہ کر سکیں۔ اس عہد آفریں اور تاریخ ساز کام کے لیے قدرت نے شیخ احمد سرہندی ؒ کو چنا‘ جنہوں نے دین کی تجدید کا بیڑا اٹھایا۔ وہ سنگین خطرات جن کی زد میں پورا عالم اسلام اور خاص طور پر ہندوستان تھا‘ ان کے خلاف آپ نے کمر ہمت باندھی اور ایک بہترین حکمت عملی تیار کی۔ آپ نے اپنے پاس آنے والے طالبین حق کو نہ صرف عقائد کے میدان میں اسلام کی سادہ اور خالص تعلیمات کی طرف متوجہ کیا بلکہ اس کے ساتھ ہی ان کی تربیت کا پورا بندوبست کیا اور انہیں بلاد اسلامیہ کے طول و عرض میں پھیلا دیا۔ چنانچہ۰۲۶ا ہجری میں آپ نے اپنے بہت سے خلفاء تبلیغ و ہدایت کے لیے مختلف مقامات پر روانہ کیے ۔یہ حضرات ترکستان‘ عرب‘ شام‘ یمن‘ روم‘کا شغر‘ توران‘ بدخشاں اور خراساں کی طرف روانہ ہوئے۔ اندرون ملک سے بھی نامی گرامی علماء اور مشائخ آپ کی شہرت کا سن کر استفادے کی غرض سے سرہند آنے لگے۔ آپ کچھ عرصہ ان کو اپنے ساتھ رکھتے‘ ان کی باطنی اصلاح اور عقائد کی درستی کے ساتھ ان کو دعوت و تبلیغ کے کام کے لیے تیار کر کے واپس ان کے علاقوں کی طرف روانہ کر دیتے۔ یہ حضرات اپنے اپنے علاقوں میں عقائد کی اصلاح و بہتری کا باعث بنتے ۔دکن‘ آگرہ‘ سہارنپور‘ لاہور‘ پٹنہ‘ جونپور‘ بنگال‘ مانک پور ہرجگہ آپ کے خلفاء نے اپنا کام پورے زورو شور سے شروع کر دیا۔ غرض پورا ہندوستان آپ کی تعلیمات کی صداؤں سے گونجنے لگا۔ دوسرا کام یہ کیا کہ اپنی بات پہنچانے‘ اللہ تعالیٰ کے دین کو اس کی صحیح شکل میں پھیلانے اور امت کی اصلاح کے لیے آپ نے خطوط اور مکتوبات کو ذریعہ بنایا ۔ سینکڑوں کی تعداد میں خطوط پورے ملک میں روانہ کئے‘ جن میںآپ نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا اور ضرورت کے تحت افراد کے مزاجوں اور ان کے عقائد کی بے اعتدالیوں کو دیکھتے ہوئے انہیں نصیحت کی۔
مقام نبوت کی وضاحت اور سنت کی اہمیت
آپ نے نبوت محمد یﷺ پر ایمان و اعتقاد کی تجدید کے لیے رسائل تحریر کئے۔ نیزاپنے مکتوبات میں انبیاء کی بعثت کی ضرورت پر بحث کی۔ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ مختلف تحریکوں کے زیرِاثر عقل یا پھر کشف کو معرفت حق کے لیے کافی سمجھنے لگا تھا۔ آپ نے ثابت کیا کہ ان دونوں کے ذریعے حاصل کئے گئے نتائج لغزش اور غلط فہمی سے مبرا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صحیح معرفت انبیاء ہی کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے۔ جس طرح عقل کا مرتبہ حواس سے ماورا ہے۔ اسی طرح نبوّت کا مرتبہ عقل سے ماورا ہے۔ میر محمد نعمان کے نام اپنے خط میں آپ لکھتے ہیں:
’’ نبوّت کا طریق عقل و فکر سے ماورا ہے۔ جن امور کے ادراک میں عقل قاصر ہے ‘ان کا ثبوت نبوت کے طریق سے ہوتا ہے۔ اگر عقل کافی ہوتی تو انبیاء کس لیے مبعوث ہوئے اور آخرت کے عذاب کو کیوں ان کی بعثت کے ساتھ وابستہ کیاجاتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وما کنا معذبین حتیٰ نبعث رسولا ’’ہم اس وقت تک عذاب کرنے والے نہیں ہیں جب تک کسی پیغمبر کو نہ بھیجیں‘‘۔
عقل اگرچہ حجت ہے لیکن حجت بالغہ نہیں ہے اور اپنی حجت ہونے میں کامل نہیں ہے۔ حجت بالغہ انبیاء کی بعثت سے ثابت ہوئی ہے اور اس نے مکلفین کی زبان عذر بند کر دی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔’’ پیغمبر بشارت دینے والے اور ڈرانے والے ہیں تاکہ انبیاء کی بعثت کے بعدلوگوں کے لیے اللہ کے اوپر کوئی حجت باقی نہ رہے اور اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے۔ ‘‘ جب بعض مسائل میں عقل کے ادراک کا عجزاور کوتاہی ثابت ہو گئی توتمام احکام شرعیہ کو عقل کی ترازو میں تولنا مستحسن نہیں۔ ہمیشہ ان مسائل و احکام کو عقل ہی کے مطابق کرنے کی کوشش اور اس کی پابندی نبوت کے طریق کاانکار ہو گی‘ اللہ تعالیٰ ہم کو اس سے پنا ہ میں رکھے۔‘‘
اپنے ایک اور خط میں خواجہ عبداللہ کو لکھتے ہیں:
’’یہ نہ سمجھیں کہ نبوت کا طریقہ کچھ عقل کے طریقے کے خلاف ہے بلکہ بات یہ ہے کہ عقل کا طریق انبیاء کی تقلید کے بغیر اس مقصد عالی تک پہنچ نہیں سکتا۔ مخالفت دوسری چیز ہے اور نارسائی دوسری چیز۔ اس لیے کہ مخالفت پہنچنے کے بعد متصو ر ہو سکتی ہے۔انبیاء کے طریقے کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے بیسیوں مقامات پر آپ نے ٹھوس دلائل اور بلند پایہ علمی نکات بیان کئے۔ تصوف کے میدان میں اولیاء اور صوفیاء کو ان کے معتقدین نے نبیوں سے بھی زیادہ مرتبہ اور عزت دینا شروع کر دی تھی۔ اس کے رد کے لیے آپ نے اپنے بے شمار مکتوبات میں انبیاء و اولیاء کے مقام اور مرتبے کے فرق کو واضح کیا۔ ’’اس فقیر پر اللہ نے واضح کر دیا کہ کمالاتِ ولایت کا کمالات نبوت کے مقابلے میں کوئی شمار نہیں۔ وہ نسبت بھی نہیں جو کہ قطرہ کو سمندر سے ہوتی ہے۔ پس جو خصوصیت اور فضیلت نبوت کی راہ سے حاصل ہوتی ہے‘ وہ اس فضیلت سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے جو ولایت کی راہ سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘
کرامات کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کی دلیل سمجھا جانے لگا تھا۔ جس بزرگ سے جتنے کمالات صادر ہوتے ‘ فضیلت کے اعتبار سے وہ اتنے ہی بلند درجے پر فائز سمجھا جاتا۔ آپ نے متعدد بار اس موضوع پر قلم اٹھایا ۔ اپنے ایک مکتوب میں جسے مولانامحمود اشرف عثمانی صاحب نے اپنی کتاب ’’ارشادات مجدد الف ثانی‘‘ میں شائع کیا ہے ، فرماتے ہیں:
’’ وہ خوارق جو امت کے بعض اولیاء سے ظاہر ہوئے ہیں‘اصحاب کرام سے ان کا سوواں حصہ بھی ظہور میں نہیں آیا۔ حالانکہ اولیاء میں سے افضل ولی ایک ادنیٰ صحابی کے درجے کو نہیں پہنچتا۔ خوارق کے ظہور پر نظر رکھنا کوتاہ نظری ہے اور تقلیدی استعداد کے کم ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔ نبوت و ولایت کے فیض قبول کرنے کے لائق وہ لوگ ہیں جن میں تقلیدی استعداد ان کی قوت نظری پر غالب ہو‘‘
اہل تصوف کی اصلاح
مجدد صاحب ؒ کا دور چونکہ تصوف اور اہل تصوف کے غلبے کا تھا اور اس راہ میں بھٹکنے اور منزل گم کرنے کا خدشہ بہت زیادہ ہوتا ہے لہذا ہر ہر قدم پر آپ نے درست بات کی طرف راہنمائی کرنے کا فریضہ انجام دیا ۔ بعض اونچے پائے کے بزرگوں سے جو باتیں منسوب کی جاتی تھیں وہ سر ا سر شریعت اسلامی کے خلاف تھیں۔ اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں:
’’بعض مشائخ قدس سے جو غلبہ حال اور سکر کے وقت اہل حق کو صحیح روایتوں کے برخلاف علوم و معارف ظاہر ہوئے ہیں چونکہ ان کا باعث کشف ہے ‘اس لیے معذور ہیں۔ امید ہے کہ قیامت میں ان کا مؤاخذہ نہیں کیاجائے گا۔ وہ خطا کار مجتہد کا حکم رکھتے ہیں کہ اس کو خطا پر بھی ایک اجر ملے گا اور حق علمائے اہل حق کی طرف ہے۔ اللہ تعالی ان کی کوششوں کو مشکور کرے گا۔ کیونکہ علماء کے علوم چراغ نبوت سے لئے ہوئے ہیں ۔جن کی وحیِ قطعی سے تائید کی گئی ہے اور ان صوفیاء کے معارف کا اقتداء کشف اور الہام ہے کہ خطا کو اس میں دخل ہے اور کشف و الہام کی صحت کا مصداق علمائے اہلِ سنت کے علوم کے ساتھ ان کا مطابق ہونا ہے۔ اگر سرِ موبھی مخالفت ہے تو دائرہ صواب سے باہر ہیں۔ یہی علم صحیح اور حق صریح ہے اور اس کے سوا گمراہی ہے۔‘‘
اس دور کا سب سے بڑا فکری مغالطہ جسے اہل تصوف کے یہاں بڑی قدر و منزلت سے دیکھا جاتا تھا وہ مسئلہ ’’ وحدت الوجود‘‘ تھا۔ یہ نظریہ اس قدر پیچیدہ ہے اور اس کے ضمن میں استعمال کی جانے والی اصطلاحات اتنی باریک ہیں کہ قارئین کے لیے ان کو سمجھنا اور آسان الفاظ میں اس کو سمجھایا جانا بہت مشکل ہے ۔ مختصر یہ کہ اس نظریئے کے تحت جو دو وجود کا قائل ہوا کہ ایک اللہ کا وجود ہے اور ایک ممکن کا تو وہ شرک کر رہا ہے اور اس کا یہ شرک‘ شرک خفی ہے اور جو شخص صرف ایک وجود کا قائل ہو اور اس نے کہا کہ وجود صرف اللہ کا ہی ہے اس کے سواء جو کچھ ہے وہ اس کے مظاہر ہیں اور مظاہر کی کثرت اس کی وحدت کے منافی نہیں تو یہ شخص مو حّد ہے۔ نیز اس بات کا یقین رکھنا ضروری ہے کہ لا موجود ولا الہ الا اللہ (اللہ کے سوا نہ کوئی موجود ہے اور نہ کوئی معبود ہے)۔ دیکھنے میں یہ نظریہ توحید پرستی کی انتہا ہے مگر حقیقت میں یہ ہوا کہ اس کے باریک بین فلسفیوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ اللہ کے سوا کوئی موجود نہیں ہے تو پھر جو جو بھی موجود ہے اس کی ذات میں اللہ ہو گا۔ ورنہ وہ موجود کیسے ہے ؟ نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کا ہر جاندار اور بے جان جس کا وجود ہے ایسے صوفیاء نے اسے اللہ سے جدا نہ جانا تو یوں سب نعوذ بااللہ‘اللہ ہو گئے۔ اس نظریئے کے کچھ ماننے والے تو انتہاتک چلے گئے اور کہنے لگے کہ فرعون نے جو انار بُّکم الاَ علٰی کا دعویٰ کیا تھا تو وہ بالکل درست تھا۔ کیونکہ اسے منصب حکومت حاصل تھا۔ اس لیے جب سب کسی نہ کسی نسبت میں رب ہیں تو اس کا یہ کہنا کہ ’’ میں تمہارا سب سے اعلیٰ رب ہوں ‘‘(نعوذ بااللہ) درست تھا کیونکہ اسے حکومت اور فیصلے کا اختیار تھا۔ اس قسم کے بہت سے لغوعقائد نے جڑ پکڑ لی تھی۔ خصوصاً ہندوستان تو اسلام سے قبل بھی ’’ ہمہ اوست ‘‘ کے نظرئیے کا قائل تھا۔ شیخ ابن عربی کے اس نظریئے کو یہاں بہت شہرت حاصل ہوئی اور اس نے مقامی مزاج سے ہم آہنگ ہو کر ایک نیا مکتبِ خیال پیدا کر لیا۔ وحدت الوجود کے نظریئے کے رد کے لیے علمائے حق اورجماعت اہل سنت کی طرف سے جو کوشش کی گئی’ اس کو وحدت الوجود کے حامی حضرات نے اس لیے رد کر دیا کہ یہ علمائے ظاہر جنہوں نے کبھی تصوف کے میدان میں قدم ہی نہ رکھا‘ جن پر روحانی مقامات اور کشف و الہامات کے مدارج کھلے ہی نہیں وہ اس بات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے کیونکہ وہ اس دریا کے غواص ہی نہیں ہیں۔ لیکن جب مجدد صاحب نے اس پر قلم اٹھایا تو کوئی معترض آپ کی معرفت حقائق اور عملی تجربات سے ناآشنائی کا اعتراض نہ کر سکا۔وحدت الوجود کی بابت تین طرح کے تصورات کے حامل زیادہ مشہور تھے جو حضرت مجدّد کے سامنے آئے یعنی :۔
ا۔ وہ لوگ جو وحدت الوجود پر مکمل یقین رکھتے تھے اور اس کو معرفت کی آخری منزل گردانتے تھے۔
۲۔ وہ لوگ جو اس کا انکا ر کرتے تھے اور اس کو وہم اور خیالِ باطل سے زیادہ اہمیت نہ دیتے تھے۔
۳۔ وحدت الوجود کے متوازی وحدت الشہود کا نظریہ رکھنے والے یہ سمجھتے تھے کہ سالک کو جو کچھ نظر آتا ہے وہ معدوم نظر آتا ہے ،جس طرح ستارے طلوع آفتاب کے بعد اس کے نور کے سامنے ایسے بے حقیقت نظر آتے ہیں جیسے ان کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔مجدد صاحب نے ان تمام آراء اور نظریات کے مقابل یہ مسلک اختیار کیا کہ وحدت الوجود سالک کے مقامات میں سے ایک مقام ہے۔ اس مقام پر پہنچنے کے بعد واقعی یہ محسوس ہوتا ہے کہ وجود حقیقی (باری تعالیٰ) کے سوا کسی چیز کا وجود نہیں ہے۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی توفیق شامل حال ہو اور شریعت پر مضبوطی سے عمل ہو تو منزل حقیقی بھی آجاتی ہے اور وہ وحدت الشہود کی منزل ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے اپنے تجربات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ پھر وحدت الوجود اور توحید وجود پر اعتقاد رکھنے والوں پر اعتراضات بھی کئے۔انہوں نے سمجھایا کہ اگر ہر چیز حق ہے توپھر کفر و ایمان کے امتیاز اور فرق کو بے اصل سمجھ کر شریعت اور سنت پر عمل کو معمولی درجے کا کام سمجھا جانے لگے گا۔ اس کا تقدس اور احترام زمانے کی نظروں میں کم ہونے لگے گا۔ آپ نے سنت رسول ﷺ کی پیروی پر بار بار زور دیا۔ ایک مکتوب میں لکھا ’’ فضیلت تمام تر سنت کی پیروی سے وابستہ اور شریعت پر عمل کرنے سے مربوط ہے ۔ مثلا دوپہر کا سونا جو اتباع سنت کی نیت سے ہو‘ کروڑوں شب بیداریوں سے افضل اور زکوۃ کا ایک پیسہ ادا کرنا افضل ہے‘ سونے کے پہاڑ خرچ کردینے سے جو اپنی طرف سے خرچ کیے جائیں۔آپ نے اپنے مکتوبات میں واضح کیا کہ فرائض جو کہ شریعت کی طرف سے مقرر کردہ ہیں‘ ان کا درجہ اور ان کی ادائیگی کا اجر سب سے زیادہ ہے اور نبی اکرم ﷺ کی سنتیں اور آپ ﷺ کا طریقہ سب سے زیادہ اللہ سے قریب کرنے والا ہے۔
صوفی قربان کے نام اپنے خط میں فرماتے ہیں:۔
’’ صوفیائے خام ذکر و فکر کو اہم کام سمجھ کر فرائض و سنن کی ادائیگی میں تساہل برتتے ہیں۔ چلّوں اور ریاضتوں کو اختیار کر کے جمعہ و جماعت ترک کر دیتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ جماعت کے ساتھ ایک فرض نماز کی ادائیگی ان کے ہزاروں چلوں سے بہتر ہے ۔ ہاں ذکر و فکر جو آداب شرعی کے ساتھ ہو ‘بہت بہتر اور ضروری ہے۔ ناقص علماء بھی نوافل کی ترویج میں کوشاں رہتے ہیں اور فرائض کو خراب و ابتر رکھتے ہیں۔‘‘
آپ نے بدعات کے رد اور ازالے کے لیے علم جہاد بلند کیا ‘ عوام اور خواص کو اس مغالطے سے نکالا کہ بدعات کی دو قسمیں ہیں۔ ایک بدعت سیّۂ اور دوسری بدعت حسنہ۔ بدعت سئیہ اس کو قرار دیا گیا ہے کہ جو کسی سنت کی جگہ لے لے جبکہ بدعت حسنہ وہ ہے جس سے کسی مسنون طریقے پر کوئی زد نہ پڑتی ہو ۔ آپ نے واضح کیا کہ جب ہر نو ایجاد کردہ چیز بدعت ہے اور ہربدعت ضلالت ہے تو کسی بدعت میں حسن پائے جانے کا کوئی سوال نہیں ہے۔ اپنے ایک مکتوب میں میر محب اللہ کو لکھتے ہیں:۔
’’ سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگوں نے کہاں سے کسی ایسے کام میں حسن ہونے کا فیصلہ کیا جو اسلام کے دین کامل اوراللہ کے پسندیدہ مقبول مذہب میں اتمام نعمت کے بعد ایجاد کیا گیا ہو۔ کیا ان کو یہ موٹی بات معلوم نہیں کہ اتمام و اکمال اور قبولیت کے بعد کسی دین میں کوئی نئی بات ایجاد کی جائے تو اس میں حسن نہیں ہو سکتا۔ حق کے بعد صرف گمراہی کا درجہ رہ جاتا ہے۔‘‘
مجدّد صاحب نے متعدد بار اس بات کا اعادہ کیا کہ ہر قسم کی بدعات کے دروازے کو مطلقاََ بند کر دینے میں ہی خیر ہے۔ اس کے جواز کا فتویٰ دے دیاجائے تو ہر کوئی غلط رسومات کے لیے راستہ نکال لے گا۔
اہل اقتدار کی اصلاح
اہل بدعت و شرک اور صوفیوں کے عقائد و اعمال کی درستگی کے ساتھ ساتھ آپ کے پیش نظر بادشاہ اور اس کے درباریوں کی اصلاح کا عظیم کام بھی تھا۔ اکبر کے انتقال کے بعد جہانگیر تخت نشین ہوا جسے اسلام سے کوئی عناد نہیں تھا اوراکبر کی طرح دین کے بارے میں نئی نئی موشگافیاں کرنے سے بھی کوئی دلچسپی نہ تھی۔ لیکن جن نقصانات کا دورِ اکبر میں اسلام کو سامنا کرنا پڑا‘ ان کے اثرات کو مٹانے کے لیے آپ نے بادشاہ کے مقرب امراء کے ذریعے بادشاہ کو نصیحت آمیز پیغامات بھیجے۔ اس موقع پر سمجھ لینا چاہیے کہ مجدّد صاحب کو اس بات کا پورا احسا س تھا کہ اللہ تعالیٰ کو آپ سے شریعت کی ترویج و تبلیغ کا کام لینا ہے جو صرف خانقاہ میں پیری مریدی کر کے انجام نہیں دیاجا سکتا۔ اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ ایک طرف عوام کے عقائد کی درستگی اور اعمال کی اصلاح پر توجہ دی جائے تو دوسری طرف حکومت کی بھی اصلاح کی جائے جو اتنے بڑے ملک کا انتظام و انصرام چلانے پرمقرر ہے۔ آپ نے خاص طور پر ان درباریوں کا انتخاب کیاجن کی دینی حمیت کچھ نہ کچھ لائق بھروسہ تھی۔ آپ نے انتہائی دردمندی سے خطوط تحریر کئے جن میں اسلام کی غریب الوطنی کا تذکرہ بڑے پر اثر انداز میں کرنے کے بعد اسلام کی تقویت کے لیے کام کرنے والوں کے اجر و اعزاز کا بار بار ذکر کیا ہے۔ ان خطوط میں مسلمانوں اور اسلام کی خیر خواہی کا جذبہ اور حکومتی کارندوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ کی طرف دعوت دینے کا شوق ایک عجیب تاثیر پیدا کرتا ہے ۔ یہ طویل مکتوبات نقل کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ سید فرید کے نام آپ کے مکتوب کا ایک مختصر اقتباس یہاں درج کیاجاتا ہے:۔
’’ آج اسلام بڑا بے کس اور غریب الوطن ہے۔ ایک پیسہ بھی جو اس وقت تقویت اسلام میں خرچ کیاجائے وہ کروڑوں میں خریدا جائے گا۔ دیکھنا چاہیے کہ کون شاہباز ہے جس کو اس دولت سے مشرف کیاجائے گا۔ ‘‘
ایک اور جگہ تحریر کرتے ہیں:۔
’’بادشاہ کو عالم سے وہی نسبت ہے جو دل کو بدن سے ہے۔اگر دل صحیح و صالح ہو تو بدن بھی صحیح و صالح ہو گا۔ اور اگر وہ فاسد ہے تو بدن بھی فاسد ہو گا۔ بادشاہ کا صلاح عالم کا صلاح ہے اور اس کا فساد عالم کا فساد ہے۔‘‘
بادشاہ کے درباریوں کے ذریعے آپ نے سلطنت کے ارکان اور خود بادشاہ کی تربیت و اصلاح کا کام شروع کیا لیکن یہ اثر چونکہ بالواسطہ تھا لہٰذا اس کے لیے ایک مدت درکار تھی۔ اسی اثنا میں قدرت نے آپ کے لیے وہ موقع پیدا کیا کہ آپ براہ راست بادشاہ اور اس کی سلطنت کے ارکان پر اپنا اثر ڈال سکیں۔ جہانگیر کے کچھ درباریوں نے آپ کے خلاف اس کے کان بھرنے شروع کئے۔ آپ کے کچھ خطوط پیش کئے گئے جو تصوف کے دقیق مضامین پر مبنی تھے۔ دوسری جانب آپ کے وہ خطوط جو درباریوں تک پہنچ رہے تھے ‘ان کی سن گن بھی بادشاہ کو مل رہی تھی۔ ایک اور چیز جس نے بادشاہ کو متوجہ کیا وہ عوام میں آپ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت تھی جسے دیکھ کر بادشاہ کو آپ کی طرف سے کسی سیاسی انقلاب کا خطرہ بھی محسوس ہوا ۔ اس نے آپ کو دربار میں طلب کیا۔ آپ صاحبِ عزیمت تو تھے ہی تاہم آپ اپنے پانچ مریدوں کے ہمراہ بادشاہ کے دربار میں تشریف لے گئے۔ملاقات کے وقت آپ نے خلاف شرع شاہی آداب ادانہ کئے۔ بادشاہ نے وجہ پوچھی تو فرمایا۔ میں نے تو آج تک اللہ تعالیٰ اور رسولﷺ کے بتائے ہوئے آداب و احکام کی پابندی کی ہے۔ اس کے علاوہ مجھے کوئی آداب نہیں آتے۔ بادشاہ نے ناراض ہو کر کہا مجھے سجدہ کرو۔ آپ نے کہا میں نے اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کسی کو سجدہ کیا ہے نہ کروں گا۔ اس پر بادشاہ آپ سے ناراض ہو گیا اور ۰۲۸ا ھ میں گوالیار کے قلعے میں آپ کو نظر بند کر دیا گیا ۔ قید کرنے کے بعد آپ کی حویلی‘ سرائے ‘ کنواں ‘ باغ اور کتابیں ضبط کر لی گئیں۔
آپ نے اسیری میں بھی دعوت وتبلیغ کا کام زور و شور سے جاری رکھا اور سینکڑوں بت پرستوں کو مسلمان کیا۔ آپ اپنے کا م میں پور ی طرح مصروف تھے کہ بادشاہ کو اپنے اقدام پر ندامت ہوئی اور ہر طرف سے لوگوں نے اس کے عمل کو ناپسندیدگی سے دیکھا۔ اگلے سال آپ کی رہائی عمل میں آئی۔ اب بادشاہ نے درخواست کی کہ چند روز آپ بادشاہ اور لشکر کے ساتھ وقت گزار یں۔ آپ نے موقع غنیمت جان کر اس درخواست کو منظور کر لیا اور اپنے صاحبزادوں کو اس بارے میں تحریر کیا:۔
’’لشکر میں اس طرح بے اختیار وبے رغبت رہنا بہت ہی غنیمت جانتا ہوں اور اس عرصے کی ایک ساعت کو دوسری جگہوں کی بہت سی ساعتوں سے بہتر تصور کرتا ہوں۔‘‘
اب لشکریوں ‘ درباریوں اور خود بادشاہ کے سامنے آپ کے کردار کی بے لوثی اور خلوص خوب کھل کر نمایاں ہو گیا۔ دن رات بادشاہ اور اس کے درباریوں سے صحبت رہتی جس میں دینی امور بھی زیر بحث آتے۔ بادشاہ کو آپ کی رفاقت سے فائدہ ہوا۔ اس نے آپ کے معمولات ‘ طبیعت کے استغنا ء اور اصلاح عام کے لیے آپ کی کوششوں کو محسوس کیا۔ اگرچہ وہ خود تو آپ کے حلقہ ارادت میں شامل نہ ہوا لیکن ہندوستان کے سیاسی حالات جو اسلام مخالف ہو چکے تھے‘ اب اسلا م کے احترام میں بدل گئے اور شعائر اسلام سے متصادم نہ رہے۔ جہانگیر نے دہلی ‘ بنارس اور پھر اجمیر میں بھی آپ کو اپنے ساتھ رکھا۔ لشکر شاہی کے ساتھ آپ کا قیام ساڑھے تین سال رہا۔ اس عرصے میں آپ کو اصلاح احوال کا جو موقع ملا اس سے آپ نے بھر پور فائدہ اٹھایا اور جو مرید آپ کے ساتھ تھے‘ ان کو بھی اس کار خیر میں شامل کیا۔
اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں:۔
’’ برخورداران اور رفقاء میں سے جو بھی ساتھ ہے‘ ان سب کو وابستگی حاصل ہے اور ان کے احوال میں ترقی ہے۔ ان کے واسطے یہ چھاؤنی گویا کہ خانقاہ بن گئی۔ یوں دین اسلام میں جو اکبر کے دین الٰہی کے نفاذ کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوا تھا‘جہانگیر کے عہد کے اولین حصے تک کسی حد تک جاری رہا وہ جہانگیر کے آخریں عہد میں مندرجہ بالا تبدیل شدہ حالات میں شیخ احمد کی سعی بلیغ کے سبب اصلاح میں بدل گیا۔ شیخ صاحب کو مجد د الف ثانی کا جو لقب تاریخ نے دیا‘ وہ کس قدر صحیح ہے۔
سفر آخرت۔
لشکر کے قیام سے واپسی پر آپ نے خلوت اختیار کی ۔ اندازہ ہو گیا کہ اب واپسی کا وقت قریب ہے۔ صرف نماز پنجگانہ اور نماز جمعہ کے لیے باہر تشریف لاتے۔ سارا وقت ذکر و فکر میں صرف ہوتا۔ اپنے بیٹوں کو بتا دیاتھا کہ اب اس دنیا کی طرف رغبت معلوم نہیں ہوتی‘ سفر کے دن قریب معلوم ہوتے ہیں۔ پھر گریے کا غلبہ ہو جاتا۔ بخار مستقل رہنے لگا۔ اس حالت میں بکثرت صدقہ و خیرات کیا۔ ایک رات ثلث اخیر میں اٹھ کر وضو کیا اور تہجد کھڑے ہو کر پڑھی‘ پھر کہا ۔ یہ ہماری آخری تہجد کی نمازہے‘ اس حالت ضعف میں بھی برابر سنت کی پابندی‘ بدعت سے اجتناب اور دوام ذکر کی وصیت فرماتے رہے۔ پھر فرمایا کہ میری تجہیز و تکفین میں سنت پر پورا عمل کیاجائے۔ چاشت کے وقت پیشاب کے لیے طشت منگوایا جس میں ریت نہیں تھی۔ چھینٹے پڑنے کے خیال سے اس کو واپس کر دیا۔ مسنون طریقہ کے مطابق دایاں ہاتھ رخسار کے نیچے رکھ کر ذکر میں مشغول ہو گئے ۔ تھوڑی ہی دیر میں سانس تیز چلنے لگی اور پیر کے روز چاشت کے وقت۰۳۴ا ہجری میں اس عالم فانی سے کوچ کر گئے۔ وفات کے وقت عمر مبارک تریسٹھ برس تھی۔
معمولات زندگی
آپ کی ساری زندگی شریعت کی متابعت میں بسر ہوئی۔ سنت کی پیروی میں باریک باتوں کا بھی اس قدر اہتمام فرماتے کہ اس کی مثال مشکل ہے۔ اس تمام کوشش کو ہمیں اس تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ آپ صاحب تصوف تھے۔ اولیائے کبار کے سوا کسی صوفی میں شریعت کی اس قدر پابندی کی مثال تاریخ میں مشکل ہی سے ملے گی۔ کثرت عبادت سے آپ کے پاؤں متورم ہو جاتے۔ تہجد تک نوافل کی ادائیگی میں مصروف رہتے ۔ فجر کی نماز سے اشراق کے وقت تک حلقہ فرماتے۔ پھر اشراق کی طویل نماز ادا کر کے طالبین حق کی تربیت پر ذاتی توجہ دیتے اور ان کے سامنے مضامین خاص و عام بیان فرماتے۔ نماز چاشت کے بعد گھر تشریف لے جاتے اور گھر والوں کے ساتھ کھانا نوش فرماتے۔ خادموں کا اس موقع پر خصوصی خیال رکھتے۔ دن بھر تلاوت ‘ ذکر اذکار‘ دعوت و تبلیغ اور اصحاب کی باطنی کیفیات میں بہتری کی کوششوں میں وقت گزرتا۔مریضوں کی عیادت کے لیے جاتے۔ غیبت سے بہت بچتے ۔ جس کسی سے بھی تکلیف پہنچتی اس کی شکایت زبان پر کبھی نہ لاتے۔ سلام میں پہل کرتے۔ لباس سادہ اور سنت کے مطابق پہنتے۔ عید پر عمدہ لباس کا خصوصی اہتمام کرتے۔ اپنی باطنی کیفیات اور تقوے کا اظہار کبھی نہ کرتے۔ جو لوگ آپ کی صحبت میں رہتے انہوں نے بھی چند ایک بار ہی آپ کو بہ چشم نم دیکھا۔ ان تمام کوششوں کے باوجود اپنے عمل کو بہت قلیل جانتے۔ آپ باربار یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ ہمارا عمل اور کوشش بھی کیا چیز ہے جو کچھ ہے وہ سب فضل خداوندی ہے۔
آپ کی پوری زندگی پر جو چیز سب سے زیادہ حاوی نظر آتی ہے وہ سنت رسولﷺ کی سختی سے پابندی ہے جو اس زمانے کے ماحول میں اپنا اثر کم کر چکی تھی اور جس کو نئے سرے سے رائج کرنے کا کام اللہ تعالیٰ نے آپ سے لیا۔ ایک مرتبہ کسی خادم سے کہا کہ فلاں مقام پر لونگیں رکھی ہیں۔ کچھ دانے لے آؤ۔ وہ چھ دانے لے آیا۔ یہ دیکھ کر ناگواری سے فرمایا ہمارے صوفی کو اب تک یہ بھی معلوم نہیں کہ عدد طاق کی رعایت سنت ہے۔ پھر کہا میں تو وضو میں منہ دھوتے وقت یہ خیال رکھتا ہوں کہ پہلے داہنے رخسار پر پانی پڑے کیونکہ داہنے طرف سے کام کی ابتداء کرنا بھی سنت ہے۔ آپ کے یہاں سنت کا اہتمام اس حدتک ہوتا کہ ایک روز فرمایا’’ ایک دن سہواً جائے ضروریہ (بیت الخلاء) میں داخل ہوتے وقت دایاں پاؤں پہلے رکھ دیاتھاسو اس دن بہت سے احوال سے محرومی رہی۔ ‘‘
آپ کے اثرات و تصنیفات
آپ کے انتقال کے بعد آپ کے شاگردوں کے ذریعے آپ کی تعلیمات ہندوستان کے گوشے گوشے میں پھیل گئیں۔ جہانگیر کے بعد اس کا بیٹا شاہجہان اور بعد میں پوتا اورنگزیب عالمگیر تخت نشین ہوا تو اس کے اندر صحیح اسلامی روح موجود تھی۔ مجدّد صاحب نے اپنی کوششوں سے وہ سب جھوٹے لبادے اتا ر پھینکے تھے جو مختلف طبقہ فکر کے لوگوں نے اسلام کو پہنار رکھے تھے اور اسلام کی سادہ اور روشن تعلیمات نکھر کر سامنے آ گئی تھیں۔ اسی روشنی میں اگلے پچاس سال عالمگیر نے حکومت کی ۔ نصف صدی پر محیط یہ عرصہ ہندوستان میں اسلام کے حق میں بہترین ثابت ہوا اور اسلام پسند قوتوں کو کام کرنے کا کھلا موقع ہاتھ آیا۔ مختصر یہ کہ مجدد صاحب کے اثر کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ پچھلے پانچ سو سال کی ہندوستان کی تاریخ میں اسلام کو قائم و نافذ کرنے کی کوششوں کا تفصیلی مطالعہ کیاجائے تو ان سب کا بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق آپ سے نکل آتا ہے۔اقبال نے کہا تھا۔
حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیرِ فلک مطلعِ انوار
اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمئیِ احرار
وہ ہند میں سرمایہ ملّت کا نگہبان
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبر دار
مجدد صاحب کی آٹھ تصنیفات دستیاب ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ شہرت ’’ مکتوبات امام ربانی‘‘ کے نام سے چھپنے والے آپ کے تحریرکردہ خطوط کو حاصل ہے ۔ اس کتاب کے تراجم مختلف زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ ان مکتوبات کی تعداد ۵۳۶ہے۔
شیخ احمد سرہندیؒ مجدّد الف ثانی کے درجات کی بلندی کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں ۔ اللھم اغفرلہ وسَکِنّہ فی الجنّت الفردوس فی الرّفیقِ الاعلیٰ ۔ ایں دعا از من وازجملہ جہاں آمیں باد۔
No comments:
Post a Comment