Wednesday, 10 September 2014

Imam Malik


آٹھویں کہانی
امام مالکؒ 
یہ کہانی امام مالکؒ کی ہے جو فقہ مالکی کے بانی اور دوسری صدی ہجری میں مدینہ منورہ میں حدیث اور فقہ کے سب سے بڑے عالم تھے۔ آپ کا نام مالک‘ کنیت ابو عبداللہ اور لقب امام دارالہجرہ تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب یہ ہے۔ مالک بن انس بن مالک الاصبحی بن ابی عامر۔ صحیح روایات کے مطابق آپ ۹۳ہجری میں مدینہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام نبی کریم ﷺ کے ساتھ وفا کا عہد نبھانے والوں کی فہرست میں اس لیے شامل کیا ہے کیونکہ آپ نے نبی کریم ﷺکی طرح حق بیان کرنے کے حوالے سے کبھی بھی مداہنت سے کام نہیں لیا۔ نبی کریمﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ اگر جبراً کسی سے طلاق دلائی جائے تو واقع نہ ہو گی۔ اس کے برخلاف عباسی خلیفہ منصور نے لوگوں سے جبراً بیعت لی تو امام مالک ؒ نے اعلان فرمایا جو کام جبراً کرایا جائے‘ شرع میں اس کا اعتبار نہیں ۔ جس طرح جبراً کسی کو طلاق دلائی جائے تو واقع نہیں ہوتی ۔ 
خلیفہ منصور نے اپنے چچا زاد بھائی جعفر کو مدینہ کا والی مقرر کیا اور اس نے نئے سرے سے لوگوں سے منصور کے لیے جبراً بیعت لی اور امام مالکؒ کو کہلا بھیجا کہ آئندہ طلاق جبری کے خلاف فتویٰ نہ دیں ورنہ لوگ جبری بیعت کو بھی بے اعتبار ٹھہرائیں گے ۔ امامؒ صاحب بھلا حق بات کہنے سے کب رکنے والے تھے۔ آپ ؒ نے حق کا اعلان جاری رکھا ۔چنانچہ آپ ؒ کے لیے ستر(۷۰) کوڑوں کی سزا کا فیصلہ سنایا گیا۔
امامؒ صاحب مجرموں کی طرح لائے گئے ۔ قمیص اتار کر ستر کوڑے آپ ؒ کی پیٹھ پر برسائے گئے ۔ کمر خون آلود ہو گئی۔ کاندھوں کے جوڑ تک ہل گئے۔ پھر اونٹ پر بٹھا کر سارے شہر میں اس حال میں پھرایا گیا کہ امام ؒ رِستی ہوئی پیٹھ کے ساتھ نڈھال اونٹ پر بیٹھے تھے اور زبان نعرہ حق بلند کرنے میں مصروف تھی۔ مدینہ کی گلیوں سے گزرتے ہوئے کہتے جاتے تھے۔ ’’جو مجھ کو جانتا ہے‘وہ جانتا ہے جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ میں مالک بن انس ہوں‘ فتویٰ دیتا ہوں کہ جبری طلاق درست نہیں‘‘۔
پھر آپؒ مسجد نبوی میں تشریف لائے ۔ خون صاف کیا اور دوگانہ نماز پڑھ کر فرمایا ۔ سعیدؒ بن مسیب (مشہور تابعی )کو بھی کوڑے مارے گئے تو انہوں نے بھی مسجد میں آ کر نماز پڑھی تھی۔ بعد میں خلیفہ منصور کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو اسے بہت افسوس ہوا۔ آپؒ کی خدمت میں معذرت کی اور اپنے چچا زاد بھائی کے خلاف کارروائی کی ۔ یہ واقعہ آپ ؒ کے خلاف حجّت بننے کی بجائے آپؒ کے حق میں حجت بن گیا اور رہتی دنیا تک کلمہ حق بلند کرنے والوں میں آپؒ کا نام شامل ہو گیا۔َآپ ؒ کا نام اس کتاب میں شامل کرنے کے لیے یہی ایک واقعہ کافی تھا مگرآپؒ کی تو زندگی نبی کریمﷺ سے گہرے عشق کے واقعات سے بھری پڑی ہے‘ جس کا ایک ایک واقعہ حیران کن ہے۔
امامؒ صاحب کا تعلق ایک علمی خانوادے سے تھا۔ آپؒ کے پردادا عہد نبویﷺ میں مسلمان ہوئے ۔ روایات سے ان کے صحابی رسول ﷺہونے کی دلیل بھی ملتی ہے۔ آپ ؒ کے خاندان میں سب سے پہلے ابو عامر نے مدینہ منورہ تشریف لا کر سکونت اختیار کر لی تھی۔ آپ ؒ کے دادا بلند پایہ تابعی تھے۔ حضرت عثمانؓ کے ساتھ ان کاتعلق خصوصی تھا۔ انہوں نے طلحہؓ ‘ عقیلؓ بن ابی طالب ابو ہریرہؓ اور عائشہؓ اُم المومنین کی شاگردی اختیار کی۔ سلیمان بن یسار نے جو مدینہ کے فقہائے سبعہ میں سے تھے‘ ان سے حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ 
آپؒ کے چچا ابو سہیل نافعؒ بھی بلند پایہ محدث تھے۔ ان کے شاگردوں میں امام زہریؒ اور امام اسماعیلؒ بن جعفر بہت مشہور ہوئے۔ خود امام مالک ؒ مدینتہ الرسولﷺ جیسے علمی مرکز میں پرورش پا رہے تھے۔ جہاں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ ‘ عبداللہ بن عمرؓ ‘ ابو ہریرہؓ ‘ عبداللہ بن عباسؓ ‘ زیدؓ بن ثابت کی مبارک درسگاہیں تھیں۔ جن سے قاسم بن محمد بن ابی بکر‘ عروہ بن زبیرؓ جیسی شخصیتوں نے استفادہ کیا۔ عبداللہ بن عمرؓ سے نافع اور عبداللہ بن دینار نے ‘ زیدؓ بن ثابت سے ان کے بیٹے خارجہ بن زید اور عبداللہ بن عباسؓ نے اور ابو ہریرہؓ سے سعید بن مُسیّب(مشہورتابعی) نے تعلیم پائی۔ اس کے علاوہ امام زہری ؒ ‘ امام جعفرصادقؒ اور ربیعہ رائی ؒ نے مدینہ کے علماء میں بہت شہرت پائی۔ یہ ایسا علمی ماحول اور پاکیزہ فضا تھی جس میں امام مالک کی تربیت ہوئی۔ اس وقت تعلیم کا نصاب نہایت سادہ اور مختصر تھا۔ یعنی قرآن مجید‘ حدیث اور فقہ۔ امامؒ صاحب نے بھی ان کے حصول کے لیے کوشش کی ۔ چناچہ قرآن کی قرأت اور سند امام القراء ابو دریم نافع بن عبدالرحمان سے حاصل کی‘جن کی قرأت پر آج تمام دنیائے اسلام کی قرأت کی بنیاد ہے ۔ علم الحدیث کی تعلیم آپ نے شیخ الحدیث نافع ؒ سے حاصل کی‘ خود جنہوں نے تیس۳۰برس عبداللہ بن عمرؓ کی خدمت کر کے علم کا خزانہ سمیٹا اور پھر عمر بھر اسے آگے بانٹتے رہے۔ بڑے بڑے ائمہ حدیث ان کے شاگرد تھے۔ امام مالکؒ نے بھی ابتدائی زمانے میں ان سے تعلیم حاصل کی ۔ خود آپؒ کا بیان ہے ۔ میں نافع ؒ کے پاس آتا تھا تو ایک کمسن لڑکا تھا۔ میرے ساتھ ا یک خادم ہوتا تھا۔ نافعؒ اترکرآتے تھے تو مجھ سے حدیث بیان کرتے تھے۔ 
امامؒ صاحب کو اپنے استاد ؒ کے علم پر اتنا بھروسا تھا کہ فرماتے ہیں جب میں ابن عمرؓ کی حدیث نافع ؒ کی زبان سے سن لیتا ہوں تو پھر اس کی پروا نہیں کرتا کہ کسی اور سے بھی اس کی تائید سنوں۔ بعد میں ان روایات کو جو امام مالکؒ نے نافعؒ سے اور نافعؒ نے ابن عمرؓ سے روایت کی ہیں‘ ان کے مصدقہ ہونے کے باعث انہیں طلائی زنجیر کہا جانے لگا۔ 
اس کے علاوہ آپ ؒ نے محمدؒ بن شہاب الزہری کی شاگردی اختیار کی ۔ ان کا رتبہ روایت حدیث میں بہت بلند ہے۔کتبِ ستہ کی احادیث میں ان سے روایت شدہ احادیث کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ابو بکرؒ بن حزم کے بعد علم حدیث کے یہ دوسرے مدوّن ہیں۔ ناقد ینِ حدیث امام زہریؒ سے بڑھ کر متن و سند کا حافظ کسی کو نہ سمجھتے تھے۔ ان سے یہ علم امام مالکؒ کو منتقل ہوا۔ زہری ؒ کے بے شمار شاگردوں میں امام مالکؒ سب سے بلند مرتبہ سمجھے جاتے ہیں۔ علم حدیث کے لیے نافعؒ اور زہریؒ کے علاوہ امام جعفر صادقؒ ‘ محمدؒ بن المنکد ر‘ محمدؒ بن یحییٰ ‘ ابو حازم اور ابو سعیدؒ یحییٰ کی بھی امام مالکؒ نے شاگردی اختیار کی۔ امام مالک ؒ کے اساتذہ کی فہرست کو دیکھا جائے تو تقریباً ۹۳ شیوخ سے آپؒ کے استفادے کی تفصیل ملتی ہے۔ علم الفقہ کی تعلیم خاص طور سے الرّبیعہؒ سے حاصل کی۔ اجتہاد میں ان کا درجہ اتنا بلند تھا کہ رائی ان کا لقب ہو گیا ۔ ربیعہؒ خاص مسجدِ نبویﷺ میں درس دیتے تھے۔ یوں تو ان کے لائق فائق شاگردوں کی فہرست بہت طویل ہے لیکن امام مالک ؒ کے ساتھ ربیعہؒ کو ایسا تعلق تھا کہ اسماء الرجال میں شیخ مالک ان کے نام کا جزو بن گیا۔ یہ وہی ربیعہ ہیں جن کی تعلیم و تربیت میں ان کی والدہ کا بے مثال تذکرہ کتابوں میں یوں آتا ہے کہ ربیعہؒ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے کہ ان کے والد جنگِ خراسان میں شرکت کی غرض سے چلے گئے اور بیوی کو ۳۰ ہزار دینار دے گئے۔ ۲۷ سال بعد واپس آئے تو ان کے بیٹے ربیعہ جو ان ہو کر صاحب کمال ہو چکے تھے اور مسجد نبوی ﷺمیں درس دیا کرتے تھے۔ ان کے والد نے ان کی یہ شان دیکھی تو بہت مسرور ہوئے ۔ کچھ دن بعد بیوی سے روپیہ کا حساب پوچھا تو بیوی نے پوچھا کہ بیٹے کی یہ شان عزیز ہے یا وہ روپیہ۔ کہنے لگے کہ بیٹے کایہ مرتبہ عزیز ہے‘ بیوی کہنے لگی بس وہ روپیہ سب اس کی تعلیم و تربیت میں خرچ ہو گیا۔
امام مالکؒ نے صرف انہی اساتذہ سے علم سیکھا جو صدق و سچائی اور حفظ و فقہ میں ممتاز تھے۔ خود فرماتے ہیں کہ مدینہ میں بیسیوں اشخاص تھے‘ جن سے لوگ حدیث سیکھتے تھے لیکن میں نے کبھی ان سے اخذِ علم نہیں کیا۔ ان میں سے بعض مغزِ سخن سے ناواقف اور بعض جاہل تھے۔ امام مالکؒ کی اسی احتیاط کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کے شاگرد کسی بھی شیخ کی روایت کو قبول کرتے ہوئے دیکھتے کہ امامؒ صاحب نے بھی ان کا نام لیا ہے یا نہیں۔ اگر امامؒ صاحب کے تذکروں میں ان کا نام پاتے تو قبول کرتے ‘ ورنہ چھوڑ دیتے۔ طلب علم کے لیے آپ سے سفر ثابت نہیں ہے۔ شایداس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو خود مدینہ ہی دینی علوم کا مرجع بنا ہوا تھا‘ پھر تمام دنیائے اسلام کے طالبین علم خود ہی مدینہ حاضر ہوتے تھے اور بڑے بڑے شیوخ بھی زمانہ حج میں خود یہاں تشریف لا کر علم کے موتی بکھیرتے ۔ امامؒ صاحب کے شیوخ میں ان حضرات کے نام بھی ملتے ہیں جو مدینہ میں سکونت نہیں رکھتے تھے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ نے ان سے اخذ و استفادہ مدینہ ہی میں کیا ہو گا۔
امام مالک ؒ قوی الحافظہ تھے ۔ فرمایا کرتے تھے کہ کوئی چیز میرے خزانہ دماغ میں آکر پھر نہیں نکلتی ۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ حصول علم امام مالکؒ کے لیے کوئی سہل چیز تھی۔ آپ ؒ کا بیان ہے کہ حضرت نافع ؒ سے حدیث سیکھنے کا وقت ٹھیک دوپہر تھا۔ دوپہر کی دھوپ میں بلا سایہ شہر سے باہر بقیع میں جاتا تھا جہاں ان کا مسکن تھا۔ ایک اور شیخ ابن ہر مزؒ کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان کے گھر صبح کو جاتا تو رات کو ہی آتا تھا۔ اس خلوص اور محنت شاقہّ نے جلد ہی آپؒ کو صاحب علم و فضل بنا دیا اور آپؒ کے ہم عصر آپؒ پر رشک کرنے لگے۔ 
مجلسِ درس
امام مالکؒ کم عمری میں ہی درسِ حدیث و فقہ کی مسند پر جا بیٹھے۔ شعبہ ؒ جو کوفہ کے سب سے بلند پایہ محدث سمجھے جاتے تھے۔بیان کرتے ہیں کہ نافع کی وفات کے ایک سال بعد مدینہ آیا تو دیکھا کہ مالکؒ ایک حلقہ کے صدر نشین ہیں۔ اس وقت آپ کی عمر اندازاً ۲۴ برس تھی۔ مستقلاً درس کا حلقہ قائم کرنے سے پہلے خود فرماتے ہیں کہ جب تک ۷۰ مشاہیر علماء نے اس بات کی گواہی نہ دی کہ میں فتویٰ کا اہل ہوں‘ اس وقت تک اس منصب کو اختیار نہ کیا۔ ابھی آپؒ کے استاد ربیعہ رائی زندہ تھے کہ آپؒ حدیث و فقہ میں ماہر سمجھے جانے لگے اور ربیعہؒ کی وفات ۳۶اہجری کے بعد فقہ و اجتہاد کے اما م تسلیم کر لیے گئے۔ 
رسول اللہ ﷺ کی پیشینگوئی آپؒ کی خدمت میں لوگ حصولِ علم کے لیے دور دور سے اونٹنیوں پہ سوار ہو کر آتے تھے۔ اکثر لوگوں کا گمان ہے کہ نبی کریم ﷺ کی پیشنگوئی کہ مدینہ کے امام سے علم حاصل کرنے کے لیے ایک زمانے میں دور دور سے لوگ آئیں گے‘ وہ اسی امام مدینہ کی طرف اشارہ تھا‘ جس سے طالبین استفادہ کرتے تھے۔امام مالکؒ کی مجلسِ درس ہمیشہ پرتکلف اور شاندار ہوتی تھی۔ بیش قیمت قالین بچھائے جاتے‘خوشبو مہکائی جاتی‘صفائی کا یہ عالم تھا کہ فرش پر ایک تنکا بھی پڑا دکھائی نہ دیتا تھا۔ امام مالکؒ مجلس کے وسط میں اس جگہ اونچی نشست پر بیٹھتے جہاں امیر المومنین عمر فاروقؓ بیٹھا کرتے تھے۔ پھر حدیث کی سماعت فرماتے تھے۔ مجلس میں ایسی خاموشی ہوتی کہ امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ کتاب کے ورق بھی اس ڈر سے نہیں الٹتے تھے کہ کھڑکھڑاہٹ کی آواز نہ ہو۔ اتنی خاموشی اور اتنا سکوت اس پر تھا کہ آپ ؒ کی مجلس میں سینکڑوں طلباء‘ علماء‘ امراء اور سیاح حاضر ہوا کرتے تھے۔ شورو شغب تو دور کی بات ‘ آپؒ کی مجلس میں تو کسی شخص کو بلند آواز سے بولنے کی مجال نہ تھی۔دورانِ درس امام صاحب کا ایسا رعب طاری ہوتا کہ ایک شاعر کے اس بارے میں شعر کا ترجمہ یہ ہے: ’’ اگر امامؒ صاحب جواب دینا چھوڑ دیں تو سب سرنیچا کیے بیٹھے رہیں اور آپؒ کی ہیبت سے دوبارہ پوچھنے کی جرأت نہ کر سکیں۔ وقار آپ ؒ کا ادب کرتا تھا اور آپؒ پرہیزگاری کی بادشاہت پر عزت کے ساتھ متمکن تھے۔‘‘ عجیب بات یہ تھی کہ آپؒ کی ہیبت لوگوں پر پڑتی‘ حالانکہ آپ بادشاہ نہ تھے۔ مجلس میں امیر و غریب اور خاص و عام کی کوئی تمیز نہ تھی۔ البتہ اپنے قریب سمجھدار اور لائق طلبہ کو جگہ دیتے۔ درس شروع کرنے سے قبل فرماتے صاحب فہم لوگ قریب آ کر بیٹھیں۔ آپ ؒ کا طریقہ تدریس یہ تھا کہ شاگرد پڑھتا اور آپؒ سنتے اور بوقتِ ضرورت اصلاح کر دیتے۔ محدثین کی اصطلاح میں اسے قرأۃ التلمیذ علی الشیخ کہا جاتا ہے۔ ایک اور طریقہ جو رائج تھا ‘اس میں استاد پڑھتا اور شاگرد سنتے تھے۔ اس طریقے کو قرأۃ الشّیخ علی التلمیذ کہا جاتا تھا۔ اول الذکر طریقہ امام مالک ؒ کا تھا جو ہر لحاظ سے بہتر اور محفوظ تھا۔ محدث خود قر ات نہ کرتا تھا۔ اس لیے دوبارہ سننے میں اپنے مسودے کی غلطی کی اصلاح کر لیتا۔ پھر شاگردوں کو بھی پتہ چل جاتا کہ حدیث کا اصل متن کیا ہے اور شیخ نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے ۔ ورنہ دوسری صورت میں اصل متن حدیث اور شیخ کا کلام خلط ملط ہونے کا خدشہ رہتا۔ آپؒ کے درس میں حدیث کی املاء آہستہ اور سکون سے کی جاتی ۔ ایک حدیث ختم ہوجاتی تو پھر دوسری حدیث شروع کرتے۔ 
احترامِ حدیث اور حبِ رسول ﷺ 
عموماً دیکھا گیا ہے کہ جن علماء کا اوڑھنا بچھونا درس وتدریس ہو‘ وہ قرآن و حدیث کے بیان میں ضروری احتیاط اور خصوصی اہتمام نہیں کر تے۔ امامؒ صاحب کا معاملہ مختلف تھا۔ آپؒ کے ہاں نبی کریمﷺ کی ذات اور آپ ﷺ کے اقوال کا اتنا ادب کیاجاتا کہ مناسب ہوگا کہ اس پر ایک الگ عنوان کے تحت روشنی ڈالی جائے۔ امام صاحب درس حدیث سے قبل غسل کرتے ‘ خوشبو لگاتے‘ صاف ستھرے اور عمدہ کپڑے زیب تن کرتے۔ پھر حدیث بیان کرتے تو کمالِ ادب کی وجہ سے کبھی پہلو نہ بدلتے ۔ مصعب بن عبداللہ کہتے ہیں کہ جب آپ نبی کریم ﷺ کا تذکرہ فرماتے تو آپؒ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا اورحد ادب سے سر جھک جاتا۔ اس ضمن میں ایک مشہور واقعہ آپ ؒ کے شاگرد عبداللہ بن مبارک نے روایت کیا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ ایک روز جب امام مالک ؒ حدیث روایت فرما رہے تھے‘ ایک بچھو نے آپ ؒ کو کاٹا اور غالباً دس بار ڈنگ مارا ہو گا۔ اس تکلیف کی وجہ سے امامؒ طاحب کا چہرہ زردی مائل ہو گیا۔ مگر انہوں نے سلسلہ حدیث کو منقطع نہ ہونے دیا۔ جب مجلس حدیث ختم ہو گئی اور سب لوگ چلے گئے تو میں نے آپؒ سے عرض کیا کہ آج آپؒ کے چہرے پر کچھ تغیر محسوس ہو رہا تھا۔ اس پر آپؒ نے صورتِ واقعہ بیان کی اور کہا کہ اس قدر صبر کرنا قدرتِ برداشت کی بناء پر نہ تھا بلکہ نبی کریم ﷺ کی حدیث کی تعظیم کی وجہ سے تھا۔ یہ خصوصی اہتمام درس حدیث کے لیے ہی کیا کرتے اور جب فقہ کے لیے تشریف لاتے تو جس حال میں ہوتے‘ بیٹھ جاتے۔ آپؒ کی تمام عمر مدینہ منورہ میں گزری لیکن حرم نبویﷺ کا احترام اس قدر تھا کہ قضائے حاجت کے لیے حدود حرم سے باہر تشریف لے جاتے۔ عمر بھر مدینہ میں سوار ہو کر نہیں پھرے‘ حتیٰ کہ ضعف اور کمزوری کی حالت میں بھی فرماتے کہ مجھ کو شرم آتی ہے کہ میں اپنی سواری کے کھروں سے اس جگہ کو روندوں جس مبارک سر زمین پر حضور ﷺ آرام فرما رہے ہوں۔ اگر کوئی شخص اپنی آواز مسجد نبویﷺ میں بوقت درس حدیث بلند کرتا تو اس کو آواز پست کرنے کو کہتے ‘ اس لیے کہ اللہ کا حکم ہے کہ اے ایمان والو اپنی آواز کو نبیﷺ کی آواز سے بلند نہ کرو۔ امام مالک ؒ کا خیال تھا کہ حدیث بیان کرتے وقت زور سے بولنا ایسا ہی ہے جیسا حضورﷺ کی آواز پر اپنی آواز بلند کرنا۔ایک بار خلیفہ منصور کو مسجد نبوی ﷺ میں زور سے بولنے پر تنبیہ کی۔ مسجد نبویﷺ سے آپؒ کوبہت محبت تھی۔ ایک بار خلیفہ ہارون نے چاہا کہ منبر نبوی ﷺ کو جس پر صرف تین زینے تھے (اضافہ بعد میں کیا گیا تھا ) واپس اس حالت میں لوٹا دیا جائے جیسا وہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں تھا۔ امامؒ صاحب کو معلوم ہوا تو اس کو منع کیا کہ منبر کی لکڑی پرانی اور کمزور ہے۔ ایسا نہ ہو کہ تختوں کے ادھر ادھر کرنے سے ٹوٹ جائے اور یہ یادگار نبیﷺ ضائع ہو جائے۔ آپ ؒ کی یہ بات سن کر ہارون باز آ گیا۔ عمر کے آخری حصے میں آپؒ مدینہ سے باہر کا سفر اختیار نہ کرتے۔ اس کے پیچھے یہ تمنا تھی کہ میں یہیں پر مروں اور یہیں پر دفن ہوں۔ زندگی میں بھی جب کبھی مدینہ سے باہر جانے کی بات سامنے آتی تو انکار کر دیتے۔ ایک بار خلیفہ مہدی نے دو ہزار اشرفیاں روانہ کیں اور اپنے ساتھ بغداد لے جانے کے لیے اصرار کرنے لگا ۔ آپ ؒ نے انکار کر دیا تو کسی کے ہاتھ دوبارہ کہلا بھیجا ۔ آپ نے المدینۃ خیرلھم (مدینہ ان کے حق میں بہتر ہے ) والی حدیث نقل فرمائی اور قاصد کو کہا کہ مال کی تھیلی موجود ہے ‘ چاہو تو اٹھا کر لے جاؤ مگر مدینہ سے دور جانا گوارا نہیں ہے۔ اللہ کے نبی کی ذات، آپ ﷺ کے ارشادات اور آپ ﷺ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز سے شدید محبت تھی۔ مختلف روایات میں آتا ہے کہ خواب میں کئی بار آپ کو نبی اکرمﷺ کا دیدار مبارک بھی نصیب ہوا۔ 
سیاسی حالات
امام مالکؒ صاحبِ علم تو تھے ہی‘ صاحبِ بصیرت اور صاحبِ حق بھی تھے۔ اللہ نے آپ ؒ کی زبان پر حق کو جاری کر دیا تھا اور آپؒ کے دل کو حق بات کا محافظ بنایا تھا۔ ایسے مواقع آئے کہ آپؒ نے اپنی جان اور آبرو کی پروا کئے بغیر کلمہ حق بلند کیا۔ قبل اس کے کہ امامؒ صاحب کے اس تاریخی کردار پر روشنی ڈالی جائے‘ اس زمانے کے سیاسی حالات مختصر بیان کرنا مناسب ہو گا۔ چوتھے خلیفہ راشد حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد خلافت بنو امیہ کے پاس چلی گئی لیکن ہاشمیوں نے جن میں سیدہ فاطمہؓ کی اولاد‘ عباسؓ کی اولاد اور عام علوی شامل تھے ‘وہ دل سے ان کی حکومت کو قبول نہ کرتے تھے اور خلافت ہاشمیہ کے قیام کی خفیہ کوششیں جاری رہیں۔ یہ لوگ اپنے سیاسی و دینی مقاصد کے حصول کے لیے امام نامزد کر تے۔ ابتداء میں کسی علوی کو امام نامزد کر دیتے۔ بعد ازاں ابو ہشام کا جب شا م میں انتقال ہوا تو وہاں سوائے عباسؓ کے پڑپوتے محمد کے اور کوئی بھی ہاشمی موجود نہ تھا۔ ابو ہشام نے موت سے قبل اپنی جانشینی کی وصیت محمد کے حق میں کی۔ یہ پہلا دن تھا جب علوی خاندان سے خلافت کا دعویٰ خاندان عباس میں منتقل ہوگیا۔ محمد کے بعد ان کے بیٹے ابراہیم امام بنے اور ان کے بعد ابو العباس سفاح بنو ہاشم کا سرخیل ہوا۔۳۲ا ہجری میں سفاح بنو امیہ سے حکومت چھیننے میں کامیاب ہو گیا۔ مروان جو بنو امیہ کا حاکم تھا ‘ بنو عباس سے شکست کھا کر بھاگا اور بالآخر مارا گیا۔ مروان کے قتل اور اموی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی بنو عباس کے جذبہ انتقام کو تسکین نہ ملی اور انہوں نے عوام کے دلوں پر اپنا رعب بٹھانے کے لیے نہایت بیدردی سے اموی خاندان کا نام و نشان مٹانے کی کوشش کی۔یہاں تک کہ اموی خلفاء کی قبریں کھدوا کر ان کی خاک برباد کی۔ حکومت ملنے کے بعد ابوالعباس سفاح نے حقِ خلافت کو بنو ہاشم میں سے صرف بنو عباس کے لیے مخصوص کر دیا۔ 
ایک طرف بنو امیہ کی بیخ کنی میں ظلم و ستم کی تمام حدیں توڑ دی گئیں تو دوسری طرف فاطمی اور علوی بھی خلافت کو بنو عباس تک محدود کرنے پر سخت ناراض تھے۔ سفاح کی خلافت کا ساڑھے چار سالہ دور خانہ جنگیوں کی نذر ہو گیا۔ ابو مسلم خراسانی جو عباسی تحریک کا روحِ رواں تھا ، دراصل پارسی نژاد نو مسلم تھا اور انتہائی تیز طرار اور زبردست ذہن کا مالک تھا۔ اس نے اپنی کارگزاریوں اور حسن خدمت سے ایک طرف تو عباسیوں میں رسوخ حاصل کر لیا تھا تو دوسری طرف عربوں سے شدید نفرت کے باعث ان کو لڑانے کے درپے رہتا۔ اس کو اپنی کوششوں میں کامیابی حاصل ہوئی اور عرب قبیلے آپس میں الجھ پڑے جس سے ان کی طاقت پارہ پارہ ہو گئی۔ 
امام مالک ؒ کی بے نفسی اور علمی انکساری 
ابو العباس سفاح کی موت کے بعد اس کابھائی ابو جعفر منصور خلیفہ ہوا تو وہ ۴۰اہجری میں حج و زیارت کے لیے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ آیا۔ منصور امام مالک کا زبردست معتقد تھا۔ وہ اس انقلاب سے پہلے مدینہ کی درسگاہ کا ایک طالب علم اورا مام مالکؒ کے حلقے کا ایک شریک صحبت تھا۔ آپ ؒ کی قدرومنزلت سے واقف تھا ۔ اس نے علماء کی محفل میں خاص طو ر سے آپ ؒ کو مخاطب کر کے کہا اے ابو عبداللہ میں اختلافات فقہی سے گھبراگیا ہوں ۔ عراق میں تو کچھ نہیں ہے ۔ شام میں صرف شوقِ جہاد ہے‘ وہاں کوئی بڑا عالم نہیں ہے۔ جو کچھ ہے وہ حجاز میں ہے اور حجاز کے علماء کے سرخیل آپؒ ہیں ۔ میں چاہتا ہوں کہ آپؒ کی تصنیف’’ موطاء‘‘ کو خانہ کعبہ میں آویزاں کر دوں تاکہ لوگ اسی کی طرف رجوع کریں اور تمام اطرافِ مملکت میں اس کی نقلیں بھیجوں تاکہ اسی کے مطابق لوگ فتویٰ دیں۔ اس پر امامؒ صاحب نے فرمایا صحابہ تمام اطراف مملکت میں پھیل گئے تھے ۔ ان کے فتاویٰ اور احکام اپنے اپنے مقام میں وراثتاً ان کے فقہا اور علماء تک پہنچے ہیں اور ہر جگہ وہی مقبول ہیں۔ ایسی حالت میں ایک شخص کی رائے و عقل پر جو صحت اور غلطی دونوں کر سکتا ہے ‘ تمام ملک کو مجبور کرنا مناسب نہیں۔ منصور نے کہا اگر آپ ؒ مجھ سے متفق ہوتے تو میںآپ ؒ کی کتاب ’’موطاء ‘‘کے مطابق ہی لوگوں کو فتویٰ دینے کی تاکید کرتا۔ امام مالک ؒ کے اس علمی انکسار کا موازنہ ہمارے یہاں کے طرزِ عمل سے کرنا چاہیے ‘جہاں کیا علماء اور کیا عوام سبھی اپنی فقہ کے بزور نفاذ کے لیے حکام وقت کو دہائیاں دیتے رہتے ہیں بلکہ اس کے لیے تحریک چلانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ منصور امام مالکؒ کی کس قدر عزت کرتا تھا‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بار سفیان ؒ ثوری منصور سے ملاقات کو گئے اور دیر تک اسے سخت الفاظ میں نصیحت کرتے رہے۔ ایک درباری نے کہا آپؒ ایسے زبان دراز شخص کے قتل کا حکم کیوں نہیں دیتے؟ منصور نے کہا خاموش‘ سفیان ثوریؒ اور مالکؒ بن انسؒ کے سوا کوئی نہیں جس کا ادب کیاجائے۔ 
صاحب عزیمت 
خلیفہ ء وقت کی یہ قدر شناسی آپؒ کو اپنی طرف مائل کر سکتی تھی مگر حق شناسی اور حق گوئی کی راہ میں نہ ظالم کا ظلم حائل ہوا اور نہ قدر شناس حاکم کی نظرِکرم۔ خلیفہ منصور نے جب دیکھا کہ فاطمی و علوی خلافت کو بنو عباس کے لیے مخصوص کرنے پر خوش نہیں ہیں تو ان کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک اختیار کیا گیا۔ یہاں تک کہ جب ظلم و تعدّی حد سے بڑھ گیا تو سادات میں سے نفس زکیہ نے مدینہ میں خروج کیا۔ امامؒ صاحب نے فتویٰ دیا کہ خلافت نفس زکیہ کاحق ہے ۔ لوگوں نے پوچھا ہم منصور کی بیعت پر حلف اٹھا چکے ہیں۔ امامؒ صاحب نے فرمایا ‘ منصور نے جبراً بیعت لی ہے اور جو کام جبراً کرایاجائے شرع میں اس کا اعتبار نہیں ۔ حدیث ہے کہ اگر جبراً کسی سے طلاق دلائی جائے تو واقع نہ ہو گی۔ مدینہ کے اکثر لوگوں نے نفس زکیہ کا ساتھ دیا مگر ان کو کامیابی حاصل نہ ہوئی اور وہ بڑی بہادری سے میدان جنگ میں لڑتے ہوئے شہیدہوئے۔ ان کے بھائی ابراہیم بھی میدان میں آئے مگر وہ بھی شہید ہوئے ۔ منصور نے اپنے چچا زاد بھائی جعفر کو مدینہ کا والی مقرر کیا ۔ جعفر نے مدینہ پہنچ کر نئے سرے سے لوگوں سے بیعت لی اور امام مالکؒ کو کہلا بھیجا کہ آئندہ طلاق جبری کے خلاف فتویٰ نہ دیں ورنہ لوگ جبری بیعت کو بھی بے اعتبار ٹھہرائیں گے۔ امامؒ صاحب بھلا حق بات کہنے سے کب رکنے والے تھے ۔ستر کوڑوں کی سزا جس کا ذکر شروع میں آیا ‘اس کا پس منظریہ واقعہ تھا۔
منصور کو ایک بار معلوم ہوا کہ علماء اس کی حکومت سے ناراض ہیں ۔ مشورے کے لیے اس نے رات کے وقت ہی آپ ؒ کو اور چند دیگر علماء کو بلا بھیجا ۔ امامؒ صاحب غسل کر کے اور حنوط مل کر حاضر ہوئے ۔ منصور نے کہا اے گروہ فقہاء تم کو فرض تھا کہ میری اطاعت کرتے مگر تم تو مجھ کو برا بھلا کہتے ہو ۔ اگر مجھ میں کچھ برائی ہے تو تم نصیحت کرتے ۔ پھر امامؒ صاحب سے پوچھا کہ میں تمہارے نزدیک کیسا ہوں۔امامؒ صاحب نے کہا کہ اللہ کے لیے مجھے اس کے جواب سے معاف رکھیے۔ آپؒ کی یہ خاموشی خود آپ ؒ کی رائے کی مظہر تھی۔ پھر دوسرے علماء سے بھی یہ سوال کرتا رہا ۔ جب سب اٹھ کر چلے گئے تو امامؒ صاحب سے پوچھنے لگا کہ کیا وجہ ہے کہ آپؒ کے کپڑوں سے حنوط کی بو آتی ہے۔ امام مالکؒ نے فرمایا میں اس بے وقت حاضر ی کا سن کر اپنی زندگی سے مایوس ہو کر آیا تھا۔منصور نے کہا سبحان اللہ، ابو عبداللہ !کیا میں خود اپنے ہاتھ سے اسلام کا ستون گرا ؤں گا۔ خلفائے وقت میں منصور کے بعد مہدی‘ ہادی اور پھر خود ہارون رشید آپؒ کی مجلس میں شریک ہوئے مگر رواج کے برخلاف امام مالکؒ نے نہ کسی کے ہاتھ چومے اور نہ ہی آپؒ کی جلالت اور رعب کے سامنے کسی کو ہمت ہوئی کہ اس پر اصرار کر سکے۔ 
فتاویٰ میں احتیاط اور تحقیق 
ایک فقیہ کا رتبہ یقیناًایک محدث سے زیادہ ہوتا ہے ۔ محدث علم حدیث پر عبور رکھتا ہے جبکہ ایک فقیہ علم حدیث پر قدرت رکھنے کے ساتھ اجتہاد اور قوانین کی تشریح و تدوین میں بھی کما ل رکھتا ہے۔ اس لیے فقیہ میں اصابتِ رائے اور بصیرت کا ہونا ضروری ہے۔ ہر شخص اس رتبے پر فائز ہونے کا اہل نہیں۔ امام مالکؒ کے نزدیک یہ ایک ایسا اہم منصب تھا کہ خود بتا تے ہیں کہ جب تک ستر فقہا نے اس بات کی گواہی نہ دی کہ میں فتویٰ دینے کے لائق ہوں‘ اس وقت تک فتویٰ دینے کی جرأت نہ کی۔ پھر احتیاط کا یہ عالم تھا کہ محض ظن و گمان پر کبھی فیصلہ نہ دیتے۔ آپؒ کے ایک شاگرد نے کہا کہ اگر میں امامؒ صاحب کے’’ نہیں معلوم ‘‘والے فیصلوں کو لکھتا تو تختیاں بھر جاتیں۔ ابن عبداللہ کی روایت ہے کہ ایک شخص نہایت دور دراز کی مسافت طے کر کے امامؒ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اس نے ایک مسئلہ پوچھا امامؒ صاحب نے کہا میں اس کو نہیں جانتا سائل نے کہا کہ میں چھ ماہ کی مسافت طے کر کے اس مسئلے کی خاطر حاضرہوا ہوں ۔ آخر میں واپس جا کر کیا جواب دوں گا۔ امام ؒ صاحب نے اطمینان سے جواب دیا ۔ کہہ دینا مالکؒ نے کہا ہے کہ میں اسے نہیں جانتا ۔لوگوں کا آپؒ کی طرف رجوع عام تھا ۔ خود حکومت وقت کی طرف سے خاص اعلان کیا گیا تھا کہ ابن ابی ذئب اور مالکؒ بن انس کے سواء کوئی حج کے موقع پر فتویٰ نہ دے۔ تاہم اس قبول عام کے باوجود آپؒ تلاشِ حق کے لیے علمی جستجو اور محنت میں کمی کرنے کے روادار نہ تھے۔ایک بار کسی نے آپؒ سے کہا کہ فتویٰ دینے کے لیے آپ بہت مشقت برداشت کرتے ہیں‘ یہاں تک کہ خود بتاتے ہیں کہ آپ کی نیند بعض اوقات پریشانی کے باعث غائب ہو جاتی ہے حالانکہ لوگ توآپؒ کی بات کو پتھر پر لکیر سمجھتے ہیں۔ خدا ترس امامؒ نے جواب میں دلسوزی سے کہا اس صورت میں تو مجھے اور بھی محنت کرنی چاہیے۔ امامؒ صاحب اپنی غلطی معلوم ہونے کی صورت میں اس کی اصلاح کرنے میں اپنی علمی وجاہت کو حائل نہ ہونے دیتے ۔ ایک با رآپؒ کے شاگرد ابن وہب نے آپؒ کی تصحیح کی اور آپؒ کو صحیح حدیث پیش کی تو آپ ؒ نے اس کو تسلیم کیا اور پھر آئندہ اس کے مطابق فتویٰ دیا۔
آپ ؒ اپنی رائے لوگوں پر زبردستی ٹھونسنے کے حق میں نہ تھے۔ ہارون الرشید نے بھی خلیفہ منصور کی طرح چاہا تھا کہ تمام مسلمانوں کو فقہی احکا م میں آپؒ کی آراء کا پابند کیاجائے مگر آپؒ نے انکار کر دیا۔ 
فقہ مالکی کی بنیادی خصوصیات
امام صاحب ۶۲برس تک دین کی خدمت‘حدیث نبویﷺ کے درس اور فقہ و فتاویٰ میں مصروف رہے۔ آپ ؒ کی زندگی میں ہی آپ ؒ کی فقہ کو قبو ل عام حاصل ہو رہا تھا ۔ اب ہم مالکی فقہ کی بنیادی خصوصیات کا تذکرہ کریں گے:
ا۔ مالکی فقہ میں اجتہاد کی نوبت کم آتی ہے۔ زیادہ ترانحصار کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ و تابعین پر کیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات جو وقوع پذیر ہی نہ ہوئے ہوں‘ امام صاحب ان کا جواب دینے سے احتراز کرتے۔ فرماتے جو ہوتا ہے وہ پوچھو جو نہیں ہوتا اسے چھوڑ دو۔ 
۲۔ کتاب و سنّت اور اجماع و قیاس کے علاوہ اس فقہ میں اہلِ مدینہ کے عمل کو بھی ایک دلیل کا درجہ دیاجاتا ہے۔ کیونکہ مدینہ دارالاسلام اور شریعت و قانون کا منبع تھا ۔ اس لیے مالکی فقہ میں مدنی فتاویٰ کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے۔ 
۳۔ اس فقہ میں مصالحِ مرسلہ (مصلحت عامہ یا PUblic good) کو بھی اصول فقہ میں داخل کیا گیا۔ کسی مسئلے میں امام مالک کواگر کوئی نص نہیں ملتی تھی تو مصلحتِ عامہ کے پیش نظر اجتہاد کرتے۔یہ ایسے اصول ہوتے جن کے ذریعے ان مقاصد کی تکمیل ہوتی جن کے لیے شریعت اسلامی وجود میں لائی گئی ہے۔ اس کے دلیلِ شرعی ہونے کے لیے کم از کم دو شرائط ہیں: 
* مسئلے کا تعلق عبادت سے نہ ہو بلکہ امورِ دنیا سے ہ�ؤ * مصلحتِ عامہ کا تعلق ضروریات زندگی سے ہو نہ کہ تعیشات سے اور ضروریات میں مذہب ‘ جان‘مال‘ نسل اور عقل شامل ہیں۔ 
مصلحت میں فوجی اخراجات اور ملک کے تحفظ کے لیے مالداروں پر ٹیکس لگاناجائز ہے‘چوری کے مال کی برآمدگی نہ ہو تو اس کے بدلے دوسرا مال لینا مصلحت عامہ میں شامل ہے کیونکہ ہوسکتاہے کہ چوری کا مال چور نے کچھ استعمال کر کے اور کچھ کسی کو بخش کر ختم کر دیا ہو۔ مالکی فقہ کے پیرو بعد میں اہلِ حدیث کہلائے۔ اس مذہب میں تصنیف و تالیف کا وہ چرچا نہیں رہا جو حنفی اور شافعی مکاتب میں رہا ہے۔ مالکی فقہ حجاز‘ بصرہ‘ اندلس‘ سوڈان‘ طرابلس‘ مصر‘قطر‘ بحرین اور کویت میں زیادہ پھیلا ۔ افریقہ میں اب تک مالکی مذہب غالب ہے۔ اندلس میں اموی خلافت کا سرکاری مذہب بھی مالکی تھا۔ اہل مغرب جو کہ حجاز والوں کی سادگی سے متاثر تھے ‘ان کا رجحان بھی فقہ مالکی کی طرف ہی زیادہ رہا۔ 
موطا ء امام مالکؒ 
’’موطاء ‘‘امام مالکؒ کی سب سے مشہور تصنیف ہے۔ ایک روایت کے مطابق امام مالکؒ نے منصور ہی کی تجویز پر’’موطاء‘‘کی تالیف کا کام شروع کیا۔ اس نے فرمائش کی تھی کہ ایک ایسا مجموعہ احکام سامنے آنا چاہیے جس میں ابن عمرؓ کی سختی‘ ابن عباسؓ کی رخصت اور ابن مسعودؓ کے شواذ کے بیچ کی کوئی راہ ہو۔ موطاء کی تالیف ۳۰اہجری سے ۴۰اہجری کے درمیا ن ہوئی۔ موطاء کے اندر احادیث کے علاوہ آثارِ صحابہ و تابعین‘ اقوالِ فقہاء‘ فتاویٰ اور امام مالکؒ کے اجتہاد شامل ہیں۔ ابتداء میں اس میں کم و بیش دس ہزار احادیث شامل کی گئیں۔ تنقید و بحث کے بعد آٹھ ہزارسے زائد خارج کر دی گئیں اور سترہ سو بیس روایات کو برقرار رکھا گیا ۔’’موطاء‘‘ کے معنی روندنے کے ہیں۔’’ موطاء‘‘ اس راستے کو کہتے ہیں جس پر بکثرت لوگ گزرتے ہوں۔سنت کے معنی بھی راستے کے ہیں۔ یہ وہ راستہ ہے جس پر حضورﷺ گزرے اور ’’موطا ء‘‘وہ پامال راستہ ہے جس پر حضورﷺ کے بعد صحابہ گزرے۔ غرض ’’موطاء‘‘ کا لفظ اپنی حقیقت کا آپ مفسر ہے۔’’ موطا ء‘‘کا موضوع احکامِ فقہ ہیں‘ اس لیے اس کو کتاب السنن کہا جاتا ہے ۔’ موطا ء‘‘کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہ کلام اللہ کے بعد مسلمانوں کے لیے دوسری صحیح کتا ب تھی جواحادیث رسول ﷺ پر مشتمل تھی۔ اس کو ایک فضیلت یہ بھی حاصل ہے کہ بخاری کی بیشتر روایات پانچ یا چھ واسطوں کی ہیں جبکہ موطاء میں نہ صرف ثلا ثیات ہیں بلکہ ثنائیات بھی موجود ہیں۔ ثلاثیات وہ روایات ہیں جن میں حضور ﷺتک صرف تین واسطے ہوں اور ثنائیات وہ روایات ہیں جن میں حضور ﷺ تک صرف دو واسطے ہوں۔ اس کے بارے میں امام شافعی کی یہ گواہی کافی ہے کہ روئے زمین پر کتاب اللہ کے بعد کوئی کتاب ’’موطاء ‘‘امام مالک ؒ سے زیادہ صحیح نہیں ہے۔ اس موقع پر مناسب ہو گا کہ وہ واقعہ بھی بیان کر دیاجائے جو کتاب کی تالیف میں امامؒ صاحب کے خلوص کو ظاہر کرتا ہے۔ امامؒ صاحب جب موطا ء کی تالیف میں مشغول تھے تو مدینہ کے دیگر علماء نے بھی اپنے اپنے احادیث کے مجموعے تیار کر نا شروع کر دیئے۔ لوگوں نے امامؒ صاحب کو اطلاع دی تو آپ ؒ نے فرمایا:’’صرف حسنِ نیت کو بقاہے۔‘‘ آپ کے اس تاریخی جملے کی سچائی کو وقت نے ثابت کر دیا اور امامؒ صاحب کی پیشنگوئی درست ثابت ہوئی۔ امام ؒ صاحب کی ’’موطا ء‘‘آج تک موجود ہے جبکہ دیگر لوگوں کی کوششوں کا نام و نشان بھی مٹ گیا۔’’موطاء‘‘ کو ایک امتیاز یہ بھی حاصل ہے کہ مہدی‘ہادی‘ ہارون رشید‘ مامون اور امین جیسے حکمرانوں نے اس کو سننے کی خواہش ظاہر کی اور اس کے لیے سفر کیا۔ یہاں تک کہ چھٹی صدی ہجری میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے قاہرہ سے اسکندریہ تک صرف اسی کی خاطر اتنا لمبا سفر گوارا کیا۔ ’’موطاء‘‘ کے علاوہ کافی ساری کتابیں امامؒ صاحب سے منسوب کی جاتی ہیں لیکن علماء کا خیال ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کتب آپؒ کے شاگردوں کی تالیف کردہ ہیں۔ آپؒ کے شاگردوں میں امام شافعیؒ اور محمدؒ بن الحسن کے علاوہ یحییٰ بن یحییٰ لیثی‘ سلیمان بن داؤد طیالسی‘ محمد بن مبار ک اور لیث بن سعد بہت مشہور ہیں۔
وفات
۷۹ا ہجری میں ۸۶برس کی عمر میں آپؒ بیمار ہوئے اور تقریبا تین ہفتے بیمار رہے۔ لوگوں کو اندازہ ہوا کہ اب آپؒ کا آخری وقت آگیا ہے تو مدینہ کے علماء اور فقہاء آپؒ کے گرد جمع ہوئے ۔ آپؒ کی آنکھوں سے آنسو جا ری تھے۔ لوگوں نے رونے کا سبب دریافت کیاتو فرمایا کہ میں نہ روؤں تو کون روئے ۔ اے کاش مجھ کو میرے ہر فتویٰ کے بدلے ایک کوڑا مارا جاتا اور میں فتویٰ نہ دیتا۔ یہاں امامؒ صاحب کی مراد شاید قیاسی فتوے سے تھی۔ تھوڑی دیر بعد آپؒ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ جنازے میں خلقت کا ہجوم تھا ۔ والیء مدینہ خود پاپیادہ شریک تھا بلکہ جنازے کو کاندھا دینے والوں میں شامل تھا۔ امامؒ صاحب کی آخری آرام گاہ جنت البقیع میں تیار کی گئی۔ پورے عالم اسلام میں آپ ؒ کی وفات کی خبر کے ساتھ ہی صفِ ماتم بچھ گئی۔ سفیانؒ بن عینیہ نے سنا تو سکتے میں آ گئے اور پھر کہا مالک ؒ نے اپنی کوئی مثال روئے زمین پر نہیں چھوڑی۔
سیرتِ مالکؒ 
امام مالک کا تذکرہ ادھورا رہ جائے گا اگر آپؒ کے ذاتی حالات اور سیرت کو بیان نہ کیاجائے۔ یہاں مختصر اً آپؒ کے اخلاق و عادات اور طرز زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ امام صاحب دراز قد‘ موٹے بدن‘ کشادہ پیشانی والے خوش رنگ آدمی تھے۔ آپؒ بیش قیمت پوشاک استعمال کرتے اور عدن کے بنے ہوئے کپڑے زیب تن کرتے ۔ (عدن جو یمن کا شہر تھا عمدہ اور بیش قیمت لباس کے لیے مشہور تھا) ۔ عطرکا استعمال کرتے۔ آپؒ اس بات کے قائل تھے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اظہار انسان کے ظاہری حلیے سے ہونا چاہیے۔ آپؒ جس مکا ن میں رہتے وہ کرائے کا تھا ۔یہ وہ بابرکت گھر تھا جس میں صحابی رسولﷺ عبداللہؓ بن مسعود رہا کرتے تھے۔ آپؒ خاموش طبع تھے۔ سوالوں کا مختصر اور جامع جواب دیا کرتے۔ ایک بار کسی نے سوال کیا’’ جناب نے صبح کس حال میں کی؟ آپ ؒ نے فرمایا ’’عمر میں کمی ہو گئی اور گناہوں میں زیادتی‘‘ ۔ 
عبادت کی کیفیت یہ تھی کہ درس و تدریس سے فراغت کے بعد جو وقت ہاتھ آتا اس میں تلاوتِ قرآن میں مشغول رہتے۔ شبِ جمعہ اور ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو تمام رات عبادت میں مصروف رہتے۔طبیعت میں رعب کا غلبہ تھا لیکن فخر و کبر کا نام و نشان نہ تھا۔ امام شافعیؒ جو طلبِ علم کے لیے امامؒ صاحب کے گھر اترے تھے‘ بتاتے ہیں کہ کھانے کے بعد امامؒ مالک مکہ والوں کے حالات پوچھتے رہے۔ جب رات زیادہ ہو گئی تو مجھے آرام کرنے کا کہہ کر چلے گئے۔ میں تھکا ہوا تھا لیٹتے ہی بے خبر سوگیا۔ رات کے آخری حصے میں میری کوٹھڑی پر دستک ہوئی اور آواز آئی کہا ا للہ کی رحمت ہو تم پر نماز کے لیے اٹھ جاؤ۔ میں اٹھ بیٹھا ۔کیا دیکھتا ہوں کہ خو د امام صاحب لوٹا لیے کھڑے ہیں۔ مجھے بڑی شرمندگی ہوئی مگر وہ کہنے لگے کچھ خیال نہ کرو‘ مہمان کی خدمت فرض ہے۔ آپ کے مزاج میں انتقام اور نفرت کے بجائے رحم اور درگزر موجود تھا۔ منصور کے گورنر نے آپ کو کوڑے مارے اور پورے شہر کے سامنے بے آبرو کیا۔ منصور کو جب اس واقعے کی اطلاع ہوئی تو معافی کا خواستگار ہوا اور اپنے گورنر کی نسبت حکم دیا کہ اس کو ذلت و ایذا کے ساتھ گدھے پر بٹھا کر بغداد لے جایا جائے۔ امام ؒ صاحب نے جواباً صرف اتنا کہا کہ اس انتقام کی حاجت نہیں۔رسول اللہﷺ کی قرابت کی خاطر میں اس کو معاف کرتا ہوں۔ 
اپنی رائے منوانے کا آپؒ کو کوئی شوق نہ تھا۔ مختلف روایات کے مطابق دو خلفائے وقت منصوراور ہارون الرشید نے آپ کی تالیف ’’موطاء‘‘ کو حرفِ آخر قرار دینے کی تجویز دی تھی۔ آپؒ نے جواباً کہا ‘ ایسا نہ کرو‘ خود صحابہ کرام فروع میں مختلف ہیں۔ وہ مختلف ممالک میں پھیل چکے ہیں۔ ان میں ہر شخص راہِ صواب پر تھا۔ اپنے فیصلے اور نقطہ نظر سے اختلاف کو برحق سمجھناجماعت علماء میں آج مفقود ہے۔ اس حوالے سے علماء کے لیے امامؒ صاحب کے طرزِ عمل میں بڑا سبق ہے۔ مام مالکؒ علم کے سچے قدر دان تھے۔ علمِ حدیث کی شان کو بلند کرنے کے لیے جو خصوصی اہتمام آپؒ کی مجلس میں ہوتا‘ اس کا تذکرہ گزر چکا ہے ۔ خلیفہ مہدی حج سے واپسی پر مدینہ آیا تو اپنے دونوں بیٹوں موسیٰ اور ہارون کو حکم دیا کہ امامؒ سے’’ موطاء ‘‘سنیں۔ شہزادوں نے امامؒ صاحب کو بلا بھیجا ۔ آپؒ نے فرمایا علم بیش قیمت شئے ہے‘ اس کے پاس خود شائقین آتے ہیں۔آخر کار دونوں شہزادے خود حاضر ہوئے ۔ شہزادوں کے اتالیق نے کہا پڑھ کر سنائیے۔ امام ؒ صاحب نے فرمایا ہمارے علماء کا دستور یہ ہے کہ طلباء پڑھیں اور شیوخ سنیں۔ مہدی کو خبر کی گئی تو اس نے کہا علماء کی اقتداء کرو۔ آخر کارشہزادوں نے پڑھا اور امامؒ صاحب نے سماعت کی۔ 
مہدی کے بعد ہارون رشید بھی حج سے واپسی پر مدینہ پہنچا تو امامؒ صاحب کو’’ موطاء‘‘ کی املاء کے لیے طلب کیا۔ آپ ؒ نے انکار کر دیا اور خود بغیر ’’موطاء ‘‘کے تشریف لائے۔ خلیفہ نے آپؒ سے شکایت کی تو کہنے لگے ہارون!علم تیرے گھر سے نکلا ہے ‘خواہ اس کو ذلیل کر‘ خواہ اس کو عزت دے۔ ہارون لاجواب ہو گیا۔ پھر اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ مجلسِ درس میں حاضر ہوا ۔ طلبا کی بھیڑ دیکھ کر کہنے لگا ‘ان کو الگ کر دیجیے۔ آپؒ نے فرمایا شخصی فائدے کے لیے عوام کے فائدے کو قربان نہیں کیاجاسکتا۔ہارون اس کے بعد مسند پر جا بیٹھا ۔اب پھر امامؒ صاحب سے رہا نہ گیا فرمایا ’’امیر المومنین حلم اور تواضع پسندیدہ عمل ہے۔ آخر کا ر ہارون نے عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر حدیث کی سماعت کی۔ایک طرف بادشاہِ وقت کے لیے آپؒ نے کوئی تخصیص نہ کی اور دوسری طرف جب امام ابوحنیفہ ؒ آپؒ سے ملنے کے لیے تشریف لائے تو آپؒ نے ان کے لیے اپنی چادر بچھا دی۔ اسی طرح اپنے شاگردوں کے استقبال کے لیے آپؒ شہر سے با ہر تشریف لے جاتے۔عباسی خلفاء کی کمزوریاں اپنی جگہ لیکن اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ وہ انتہائی علم دوست اور علماء و فضلا ء کی قدر کرنے والے تھے۔ امام مالک ؒ نے اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بارہا خلفاء سے مدینہ کے ناداروں کا حال بیان کیا۔ خلیفہ امامؒ صاحب کی بات کو رد نہ کر تے اور فقرائے مدینہ کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھو ل دیتے۔ 
یوں آپؒ نے اپنی ذات کے لیے فائدہ سمیٹنے کے بجائے امت کے ان خستہ حال لوگوں کے بارے میں فکر کی جونہ ذاتی حیثیت میں ممتاز تھے اور نہ ہی علمی حیثیت کی بناء پر کوئی ان کی حاجت پوری کرنے والا تھا۔ آج ہم میں سے ہر صاحبِ حیثیت اور صاحب رسوخ شخص کے لیے امامؒ صاحب کے اس طرز عمل میں بھی بڑا سبق ہے‘ جو دولت‘ عزت یا شہرت اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے کسی کو نصیب ہوئی ہو اسے مخلوق کی بھلائی اور فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ اجتماعی فائدے کاکام دیر پا اور آخر ت میں اجرکا باعث ہے۔ جبکہ شخصی فائدے کے کام وقتی اور ختم ہو جانے والے ہیں۔ امام مالک ؒ کی زندگی کو چند لفظوں میں سمیٹنا چاہیں تو ذہانت‘ اخلاص‘ علم‘ حق شناسی و حق گوئی اور نبی کریمﷺ سے محبت‘ یہ چند خصوصیات آپ ؒ کا طرہء امتیاز نظر آتی ہیں۔ امام مالکؒ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں زندگی ہی میں قبولِ عام نصیب ہوا اور آپ ؒ الا مام الکبیر‘ امام دارالہجرہ اور امام مدینہ کے القاب سے مخاطب کیے جانے لگے۔ آپؒ کی فقہ تیرہ سو سال سے کروڑوں مسلمانوں کی رہنمائی کر رہی ہے۔دعا ہے اللہ پاک امامؒ صاحب کو جنّت الفردوس میں نہایت بلند مرتبہ مرحمت فرمائیں۔ آمین۔

No comments:

Post a Comment