Tuesday, 26 August 2014

Hazrat Asma bint e Abubakr


چھٹی کہانی 


حضرت اسمآءؓ بنت ابی بکرؓ

یہ کہانی حضرت اسماءؓ بنت ابی بکرؓ کی ہے جنہوں نے سو سال کی عمر پائی ‘ ان میں سے ہر سال ان کے لیے نئے سے نئے تحارب اور نئے سے نئے امتحان لئے آیا۔ ثابت قدمی ایسی کہ ہر منزل سے سرخرو گزریں ۔ ان محترم صحابیہؓ نے تمام اطراف سے شان اور فضیلت حاصل کی ۔وہ اس طرح کہ خود صحابیہ ‘والد ابو بکرؓ صدیق صحابی‘ دادا صحابی‘ بہن صحابیہ‘ ان کا خاوند صحابی اورپھر بیٹا صحابی۔ بلاشبہ یہ مجدو شرف ان کے لیے باعثِ فخر ہے۔ ان کے والد صدیق اکبرؓ تھے جنہیں زندگی میں رسول اللہﷺ کا خلیل اور وصال کے بعد ان کا خلیفہ بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ دادا ابو قحافہؓ صدیق اکبرؓ کے گرامی قدر والد تھے۔ ان کی بہن ام الموئمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ تھیں۔ ان کے خاوند حواریِ رسول اللہ ﷺ حضرت زبیرؓ بن عوام تھے اور ان کے بیٹے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ تھے جو سب کے سب اللہ اور رسول اللہ ﷺکی پسندیدہ ہستیاں تھیں۔ قصہ مختصر یہ حضرت اسماؓ بنت ابی بکرؓ اونچے حسب و نسب اور نہایت بلند شرف والی خاتون تھیں۔ 
ایسی مبارک ہستی کے لیے اللہ پاک نے بچپن ہی میں چند سعادتیں مقدر فرما دی تھیں۔ پہلی یہ کہ جس رات مشرکین کا حضور ﷺ کے(نعو ذبااللہ) قتل کا منصوبہ ناکام ہوا اور حضورﷺ اپنے بستر پر علیؓ کو سلا کر قاتلوں کے درمیان سے نکل کر حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ساتھ غارِ ثور میں جا تشریف فرما ہوئے تو ابو جہل نے ابو بکر صدیقؓ کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اور جواب میں باہر نکلنے والی لڑکی اسماؓء سے کڑک کر پوچھا ۔ لڑکی! تمہارا باپ کدھر ہے؟ اس نے کہا’’میں کیا بتا سکتی ہوں ‘‘یہ سن کر ابو جہل نے اس کے چہرے پر اس زور سے تھپڑ مارا کہ ان کے کان کی بالی ٹوٹ کر دور جا پڑی۔ مظلوم لڑکی بڑے صبر اور خاموشی سے گھر کے اندر چلی گئی۔ اس نے ابو جہل کے قہر و غضب کی مطلق پروا نہ کی اور ہجرت کے پرخطر راز کو چھپائے رکھا۔ دوسری سعادت یہ کہ وہ روزانہ رات کو اپنے بھائی عبداللہؓ بن ابی بکرؓ کے ساتھ خفیہ طور پر غار ثور میں جا کر حضورﷺ اور اپنے والد کو تازہ کھانا کھلا کر واپس آتیں۔ تیسری سعادت یہ کہ اس لڑکی نے دوتین دن کا کھانا دورانِ سفر کے لیے تیار کر کے ایک تھیلے میں ڈالا اور ایک مشکیزے میں پانی ڈالا اور انہیں جب زادِ راہ اور مشکیزے کو باندھنے کے لیے کوئی رسی نہ ملی تو انہوں نے ازار بند کے دو حصے کئے ایک کے ساتھ زادِ راہ کا تھیلا باندھ دیا اور دوسرے کے ساتھ مشکیزے کا منہ کس دیا، نبی اکرم ﷺ نے ان کے لیے برکت کی دعا کی اور فرمایا تجھے اللہ تعالی اس کے بدلے جنت میں دو نطاق عطا فرمائے ‘ اس سے ان کا لقب ذات النطاقین پڑ گیا اور یہ خاص طور پر آپؓ کے جنت میں داخلے کی بشارت بھی تھی۔حضرت اسماءؓ ان خوش نصیب خواتین میں سے ہیں جنہیں اسلام قبول کرنے میں سبقت لے جانے کا شرف حاصل ہوا ۔ان سے پہلے صرف سترہ مرد اور عورتیں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے۔
حضرت زبیرؓ بن عوام نے جب ان سے شادی کی‘ اس وقت ان کی حالت بہت کمزور تھی‘ نہ تو ان کے پاس کوئی خادم تھا اور نہ ہی کوئی مال۔ ملکیت میں صرف ایک گھوڑا تھا اور ایک اونٹ ۔ حضرت اسماءؓ ان کے لیے بڑی نیک اور خدمت گزار بیوی ثابت ہوئیں ‘ ان کا بھی خیال رکھتیں اور ان کے گھوڑے کے لیے چارے کا بھی بندو بست کرتیں‘ یہاں تک کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان کے لیے رزق کے دروازے کھول دیئے اور زبیرؓ بھی صحابہ میں بہت مالدار بن گئے۔ جب حضرت اسماءؓ کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کی فرصت ملی اس وقت یہ حاملہ تھیں اور وضع حمل کے دن بالکل قریب تھے لیکن یہ کیفیت دشوار گزار اور طویل سفر اختیار کرنے میں رکاوٹ ثابت نہ ہوئی ۔ جب یہ وادی قباء میں پہنچیں تو انہوں نے اپنے بچے عبداللہ بن زبیر کو جنم دیا۔ مسلمانوں نے عبداللہ بن زبیرؓ کی ولادت پر بہت خوشی کا ا ظہار کیا ‘اس لیے کہ مدینہ منورہ میں مہاجرین کے ہاں یہ پہلا بچہ ہے‘ جس نے جنم لیا۔ والدہ اس نومولود کو گود میں اٹھا کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ ﷺنے اسے اپنی گود میں لیا ‘ اپنے مبارک لعابِ دہن کی بچے کو گھٹی دی اور اس کے لیے خیر و برکت کی دعا کی۔ اس طرح سب سے پہلے جو چیز اس کے پیٹ میں گئی وہ رسول اللہﷺ کا لعابِ دہن تھا۔ اس بچے کا نام عبداللہ رکھا گیا اور حضرت عائشہؓ نے اسی بچے کے نام سے جو ان کا بھانجا تھا ‘اپنی کنیت امّ عبداللہ اختیار کی۔ اسماء بنت ابی بکرؓ میں جو بے شمار خوبیاں بیک وقت جمع ہو گئیں تھیں‘ وہ شاذو نادر ہی کسی اور خاتون کی ذات میں جمع ہوئیں آپؓ سخی اتنی بڑی تھیں کہ ان کی سخاوت کی مثال دی جاتی تھی۔ ان کے بیٹے حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ عائشہؓ اور اپنی امی اسماءؓ سے بڑھ کر کسی عورت کو سخاوت کرتے نہیں دیکھا۔ لیکن ان دونوں کی سخاوت کا انداز مختلف تھا۔ خالہ عائشہ ؓ تو اشیاء جمع کرتی رہتیں اور جب بہت سی اشیاء جمع ہو جاتیں تو انہیں غرباء و مساکین میں تقسیم کر دیتیں‘ لیکن میری امی کے ہاتھ میں جب بھی کوئی چیز آتی وہ کسی نہ کسی مستحق کو فوراً دے دیتیں۔ کل کے لیے کسی چیز کو اپنے پاس باقی نہ رکھتیں۔ 
حضرت اسماءؓ بڑی زیرک اور دانشمند خاتون تھیں‘ تنگ و ترش حالات میں نہایت عقلمندی سے تصرف کیا کرتی تھیں۔ جب صدیق اکبرؓ رسول اللہﷺ کے ہمراہ ہجرت کے لیے نکلے تو اپنے ساتھ اپنا سارا مال لے لیا‘وہ تقریباً چھ ہزار درہم تھے۔ اپنے اہل و عیال کے لیے کچھ نہ چھوڑا۔ جب ان کے بوڑھے باپ ابو قحافہ (جو نابینا تھے اور ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے) کوبیٹے کے کوچ کر جانے کا علم ہواتووہ بیٹے کے گھر آئے اور پوتی حضرت اسماؓء سے کہا بخدا میرے بیٹے نے تمہارا مالی نقصان بھی اسی طرح کیا ہے جس طرح اس نے اپنا جانی نقصان کیا ہے۔ حضرت اسماءؓ فوراً بولیں نہیں دادا جان ! وہ تو ہمارے لیے بہت سا مال چھوڑ کر گئے ہیں۔ پھر کچھ کنکریاں اس طاقچے میں رکھیں جس میں صدیق اکبرؓ مال رکھا کرتے تھے۔ اس پر ایک کپڑا ڈال دیا اور پھر اپنے نابینا دادا کا ہاتھ پکڑا اور وہاں لے گئیں اور کہا دادا جان !دیکھیں ‘ہاتھ لگائیے‘ ابا جان ہمارے لیے کتنا مال چھوڑ کر گئے ہیں۔ انہوں نے اپنا ہاتھ لگایا اور فرمایا : ۔خوب اگر اتنا مال چھوڑ گئے ہیں تو پھر کوئی پروا نہیں ۔ اس نے بہت اچھا کیا۔ حضرت اسماءؓ نے چاہا کہ دادا جان کو تسلی ہو جائے اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ کہیں دادا جان ترس کھا کر اپنے پاس سے مجھے مال عطا نہ کردیں۔ وہ ان کا مال لینا نہیں چاہتی تھی کیونکہ ابھی تک وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ پوتی اسماءؓ کسی غیر مسلم کا مال استعمال نہ کرنا چاہتی تھی‘ اگرچہ وہ اس کے حقیقی دادا ہی کا کیوں نہ ہو۔ ہجرت کے بعد رحمت عالم ﷺ نے چند دن قباء میں قیام فرمایا اور پھر مدینہ منورہ کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے مشرف فرمایا۔ چند ماہ بعد حضورﷺنے حضرت زیدؓ بن حارث اور حضرت ابورافعؓ کو مکہ بھیجا کہ وہ آپ کے اہل خانہ اور متعلقین کو مدینہ لے آئیں۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ان دونوں کے ساتھ عبداللہ بن اریقط کو اپنے صاحبزادے عبداللہ کے نام خط دے کر بھیجا تھاکہ وہ بھی اپنی والدہ ام رومانؓ اور بہنوں کو مدینہ لے آئیں۔ چنانچہ حضرت زیدؓ اور حضرت ابو رافعؓ ام المومنین حضرت سودہؓ ‘ حضرت فاطمہؓ ‘ حضرت ام کلثومؓ ‘ حضرت ام ایمنؓ زوجہ حضرت زیدؓ کو لے آئے اور حضرت عبداللہ بن ابی بکرؓ حضرت ام رومانؓ حضرت اسماءؓ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ پہنچے۔ صحیح بخاری میں حضرت عروہؓ بن زبیر سے روایت ہے کہ ہجرت نبوی سے کچھ عرصہ پہلے حضرت زبیرؓ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ شام گئے ہوئے تھے۔ حضورﷺ کے سفر ہجرت کے دوران وہ شام سے پلٹ رہے تھے ۔ راستے میں کسی جگہ رسو ل اکرمﷺ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ سے ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے حضور ﷺ اور حضرت ابو بکرؓ اپنے خسر کی خدمت میں کچھ سفید کپڑے بطورتحفہ پیش کئے اور آپ یہی کپڑے زیب تن فرما کر مدینہ منورہ میں داخل ہوئے ۔ مکہ واپس پہنچ کر حضرت زبیرؓ نے بھی ہجرت کی تیاری کی اور اپنی والدہ حضرت صفیہ کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ آ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے قباء میں مستقل اقامت اختیار کر لی اور حضرت اسماءؓ کو بھی مدینہ منورہ سے وہیں بلا لیا۔ مدینہ منورہ (قباء )میں اقامت گزین ہونے کے بعد حضرت اسماءؓ نے پہلے چند سال بڑی تنگی ترشی میں بسر کئے ۔ اس زمانے میں ان کے شوہر حضرت زبیرؓ بہت مفلس اور تنگ دست تھے ۔ ان کی ساری متاع اب تک صرف ایک گھوڑے اور ایک اونٹ پر مشتمل تھی۔ حضور ﷺنے انہیں نخلستان بنو نضیر میں کچھ زمین بطور جاگیر عطا فرمائی تھی۔ چنانچہ شروع شروع میں وہ اس میں کاشت کر کے اپنی معاش کا سامان پیدا کرتے تھے۔ یہ زمین مدینہ منورہ سے تین فرسخ دور تھی۔ حضرت اسماءؓ روزانہ وہاں سے کھجور کی گٹھلیاں جمع کر کے لاتیں ‘ انہیں کوٹ کر اونٹ کو کھلاتیں‘ گھوڑے کے لیے گھاس مہیا کرتیں‘ پانی بھرتیں‘ مشک پھٹ جاتی تو اس کو سیتیں ۔ ان کاموں کے علاوہ گھر کا دوسرا سب کام بھی خود ہی انجام دیتی تھیں۔ روٹی اچھی طرح نہ پکا سکتی تھیں۔ پڑوس میں چند انصاری خواتین تھیں وہ ازرا ہِ محبت و اخلاص ان کی روٹیاں پکا دیتی تھیں۔ صحیح بخاری میں خود حضرت اسماءؓ سے روایت ہے ۔ زبیرؓ نے مجھ سے نکاح کیا ‘ اس وقت نہ تو ان کے پاس زمین تھی نہ غلام اور نہ کچھ اور سوائے ایک اونٹ اور ایک گھوڑے کے ۔ میں ان کے گھوڑے کو دانہ کھلاتی تھی‘ پانی بھرتی تھی‘ ڈول سیتی تھی‘ آٹا گوندھتی تھی۔ انصار کی چند عورتیں جو میری ہمسایہ تھیں‘ روٹی پکا دیتی تھیں۔ وہ عورتیں مخلص تھیں۔ میں زبیرؓ کی زمین سے جو انھیں رسول اللہ ﷺنے عطا فرمائی تھی‘ سرپر گٹھلیاں رکھ کر لاتی تھی۔ یہ زمین میرے گھر سے تین فرسخ کی مسافت پر تھی۔ 
حافظ ابن حجر عسقلانیؒ اور طبرانیؒ نے حضرت اسماءؓ کی تنگدستی کے زمانے کا ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے جو خود حضرت اسماءؓ کی زبانی مذکور ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں اس زمین میں تھی جو رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو سلمہؓ اور حضرت زبیرؓ کو عطا فرمائی تھی ۔یہ بنو نضیر والی زمین کہلاتی تھی۔ ایک دن زبیرؓ رسول اکرمﷺ کے ساتھ کہیں باہر گئے ۔ ہمارا ایک یہودی پڑوسی تھا‘ اس نے ایک بکری ذبح کی اور بھونی ۔ اس کی خوشبو جب میری ناک میں پہنچی تو مجھے ایسی سخت اشتہا پیدا ہوئی کہ اس سے پہلے کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ ان دنوں میری بیٹی خدیجہ پیدا ہونے والی تھی‘ مجھ سے صبر نہ ہو سکا‘ میں یہودی عورت کے پاس آگ لینے کے لیے گئی اس ارادہ سے کہ شاید وہ مجھ سے کھانے کی بات پوچھے ورنہ مجھے آگ کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ وہاں پہنچ کر خوشبو سے میری اشتہا میں اور اضافہ ہو گیا لیکن یہودیہ نے کھانے کی بات ہی نہ کی۔ میں آگ لے کر اپنے گھر آ گئی اور کچھ دیر بعد پھر یہودیہ کے گھر گئی پھر بھی اس نے کھانے کی بات نہ کی۔ تیسری مرتبہ میں نے پھر اس کے گھر پھیرا ڈالا لیکن کسی نے بات نہ پوچھی ۔ اب میں اپنے گھر میں بیٹھ کر رونے لگی۔ اور اللہ سے دعا کی کہ الٰہی میری اشتہا کا سامان مہیا کر دے۔ اتنے میں اس یہودیہ کا شوہر اپنے گھر آیا اور آتے ہی پوچھا ، کیا تمہارے پاس کوئی آیا تھا؟ یہودیہ نے کہا ، ہاں پڑوس کی عرب عورت آئی تھی۔ یہودی نے کہا جب تک اس گوشت میں سے تو اس کے پاس کچھ نہ بھیجے گی میں ہر گز اس کو نہ کھاؤں گا۔ کیونکہ اس کو ڈر تھا کہ کہیں کھانے کو نظر نہ لگ گئی ہو۔ چنانچہ اس نے میرے پاس گوشت کا ایک پیالہ بھیج دیا۔ اس زمانے میں میرے لیے اس جگہ اس سے زیادہ پسندیدہ اور عجیب کوئی کھانا نہ تھا۔ یہ روایت حضرت اسماءؓ کی صاف گوئی پر دلالت کرتی ہے۔ اس میں انہوں نے اپنی عسرت اور ایک بشری کمزوری کا حال صاف صاف بیان کر دیا۔ 
اسی زمانے میں ایک دن حضرت اسماءؓ کھجور کی گٹھلیوں کا گٹھا سر پر لادے چلی آ رہی تھیں کہ راستے میں رسول اللہ ﷺ کچھ اصحاب کے ہمراہ مل گئے۔ حضورﷺ نے اپنے اونٹ کو بٹھایا اور چاہا کہ اسماءؓ اس پر سوار ہو جائیں ۔لیکن حضرت اسماءؓ شرم کی وجہ سے اونٹ پر نہ بیٹھیں اور گھر پہنچ کر حضرت زبیرؓ سے سارا واقعہ بیان کیا۔ انہوں نے کہا۔ سبحان اللہ! سر پر بوجھ لادنے سے شرم نہ آئی لیکن رسول اللہ ﷺ کے اونٹ پر بیٹھنے میں شرم و حیا مانع ہوئی۔ کچھ عرصہ بعد حضرت ابو بکر صدیقؓ نے حضرت زبیرؓ اور اسماءؓ کو ایک غلام عطا کیا جس نے گھوڑے اور اونٹ کی نگہداشت سنبھال لی اور حضرت اسماءؓ کی مصیبت کم ہوئی۔ 
شروع شروع میں حضرت اسماء !ؓ افلاس کی وجہ سے ہر چیز ناپ تول کر خرچ کر تی تھیں ۔ سرکار دوعالمﷺ کو معلوم ہوا تو آپ نے حضرت اسماءؓ سے فرمایا۔ ’’اسماءؓ ناپ تول کر مت خرچ کیا کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی نپی تلی روزی دے گا‘‘۔ حضرت اسماءؓ نے حضورﷺ کے ارشاد کو حرزِ جان بنا لیا اور کھلے دل سے خرچ کرنے لگیں۔اللہ کی قدرت‘ اسی وقت سے حضرت زبیرؓ کی آمدنی بڑھنے لگی اور تھوڑی ہی مدت میں ان کے گھر میں دولت کی ریل پیل ہو گئی۔ آسودہ حالی کے بعد بھی حضرت اسماءؓ نے اپنی سادہ وضع ترک نہ کی۔ ہمیشہ روکھی سوکھی روٹی سے شکم پری کرتیں اور موٹا جھوٹا کپڑا پہنتیں ‘ البتہ اپنی دولت کو خیرات کے کاموں میں بے دریغ صرف کرتی تھیں۔ جب کبھی بیمار ہوتیں تو تمام غلامو ں کو آزاد کر دیتیں۔ اپنے بچوں کو ہمیشہ ہدایت کیا کرتی تھیں کہ مال جمع کرنے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ حاجت مندوں کی امداد کے لیے ہوتا ہے۔ اگر تم بخل کرو گے تو اللہ بھی تمہیں اپنے فضل و کرم سے محروم رکھے گا ۔ہاں جو صدقہ کرو گے اور اللہ کی را ہ میں خرچ کرو گے وہ تمہارے کام آئے گا کہ اس ذخیرہ کے ضائع ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں۔حضرت اسماءؓ نے اپنی سادہ اور درویشانہ وضع آخر دم تک برقرار رکھی ۔ علامہ ابن سعدؒ نے طبقات میں لکھا ہے کہ ان کی زندگی کے آخری دور میں ان کے صاحبزادے منذر بن زبیر عراق کی فتح کے بعد لڑائی کے میدان سے واپس آئے تو ان کے مال غنیمت کے حصے میں کچھ قیمتی زنانہ کپڑے بھی تھے ۔ انہیں لے کر اپنی والدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت اسماءؓ نے یہ کپڑے قبول کرنے سے انکا ر کر دیا اور فرمایا بیٹا مجھے تو موٹا کپڑا پسند ہے۔ چنانچہ منذر ان کے لیے موٹے کپڑے لائے جو انہوں نے خوشی سے قبول کر لئے اور فرمایا بیٹا مجھے ایسے ہی کپڑے پہنایا کرو۔ حضرت اسماءؓ نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کے ترکے سے ایک جائیداد پائی تھی۔ اس کو انہوں نے ایک لاکھ درہم میں فروخت کر دیا اور ساری رقم قاسم بن محمد ا ور ا بن ابی عتیق ؒ کو جو ان کے قرابت دار تھے دے دی کیونکہ وہ حاجت مند تھے۔ 
حضرت اسماءؓ کا دست سخاوت بے حد کشا دہ تھا لیکن حضرت زبیرؓ کے مزاج میں ذرا سختی تھی ۔ حضرت اسماءؓ نے ایک دن سرور کائنات محمد ﷺ سے پوچھا۔ یا رسول اللہ ﷺ! کیا میں شوہر کے مال میں سے ان کی اجازت کے بغیر یتیموں مسکینوں کو کچھ دے سکتی ہوں۔ حضور ﷺنے فرمایا ہاں دے سکتی ہو۔ ایک بار رسول اللہﷺنے مسلمانوں کو اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ مال صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ تمام صحابہ کرامؓ نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ارشاد نبویﷺکی تعمیل کی۔ صحابیاتؓ نے اپنے زیور تک اتار کر دے دیئے۔ حضرت اسماءؓ کے پاس ایک لونڈی تھی ۔ انہوں نے اسے فروخت کر دیا اور روپیہ لے کر بیٹھ گئیں۔ جب حضرت زبیرؓ گھر تشریف لائے تو انہوں نے حضرت اسماءؓ سے وہ روپیہ مانگا ۔ انہوں نے فرمایا میں نے صدقہ کر دیا ہے۔ حضرت زبیرؓ خاموش ہو گئے کیونکہ اللہ اور
رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی کے وہ بھی طالب تھے۔ حضرت اسماءؓ نہایت راسخ العقیدہ مسلمان تھیں لیکن ان کی والدہ قتیلہ بنت عبدالعزّٰی شرف اسلام سے بہر ہ یاب نہ ہوئیں۔ اسی لیے حضرت ابو بکرصدیقؓ نے ان کو ہجرت سے پہلے طلاق دے دی تھی۔ ایک روایت کے مطابق طلاق کے بعد انہوں نے کسی دوسرے شخص سے شادی کر لی تھی۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک دفعہ قتیلہ مدینہ منورہ میں آئیں اور حضرت اسماءؓسے کچھ روپے مانگے۔ حضرت اسماءؓ ان کی مدد کرنا چاہتی تھیں۔ لیکن ان کے شرک کی وجہ سے روپے دینے میں متامل ہوئیں اور رسول اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺمیری والدہ مشرک ہیں اور وہ مجھ سے روپے مانگتی ہیں۔کیا میں ان کی امداد کر سکتی ہوں اور ان کے سوال کو پورا کر سکتی ہوں؟ حضور ﷺ نے فرمایا، ہاں (یعنی اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔) ایک اور روایت کے مطابق آپ ﷺنے فرمایا اللہ تعالی صلہ رحمی سے نہیں روکتا ۔ طبقات ابن سعد اور مسند احمد بن جنبل میں روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت اسماءؓ کی والدہ قتیلہ ان کے لیے کچھ تحائف لے کر ملنے آئیں، حضرت اسماءؓ کی غیرت دینی نے گوارہ نہ کیا کہ اپنی مشرکہ ماں کے تحائف قبول کریں یا انہیں اپنے مکان میں ٹھہرائیں ۔ چنانچہ ا نہوں نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کی معرفت رسول اکرمﷺ سے دریافت کیا کہ اس موقع پر میرے لیے کیا حکم ہے ؟ حضور ﷺنے فرمایا کہ ان کے تحائف قبول کر لو اور ان کو اپنے گھر میں مہمان رکھو۔ حضورﷺ سے اجازت ملنے پر انہوں نے والدہ کو اپنے مکان میں ٹھہرنے کی اجازت دے دی اور ان کے تحفے قبول کر لئے۔ حضرت اسماءؓ کمال درجے کی عابدہ اور زاہدہ تھیں۔ کثرت عبادت کی وجہ سے ان کے تقدس کا عام شہرہ تھا اور طرح طرح کے مریض ان کے پاس دعائے خیر کے لیے آتے تھے۔ اگر کوئی بخا ر کامریض ان کے پاس آیا تو اس کے لیے دعا کرتیں اور پھر اس کے سینے پر پانی چھڑکتیں‘ اللہ تعالیٰ اسے شفا دے دیتا۔ فرمایا کرتی تھیں۔ میں نے رسول اکرم ﷺ سے سنا ہے کہ بخار نار جہنم کی گرمی ہے اسے پانی سے ٹھنڈا کرو۔ حضور ﷺکا ایک جبہ ام الموئمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی تحویل میں تھا‘ جب ان کی وفات کا وقت قریب آیاتو انہوں نے یہ جبہ مبارک حضرت اسماءؓ کے سپرد کر دیا ۔ انہوں نے اسے سر آنکھوں پر رکھا اور جب تک زندہ رہیں اسے اپنی جان سے عزیز جانا۔ اگر کبھی گھر میں کوئی علیل ہو جاتا تو اس جبہ مبارک کو دھوکر اس کا پانی مریض کو پلا دیتی تھیں۔ اس کی برکت سے بیمار کو شفا ہو جاتی ۔ خود حضرت اسماءؓ کو کبھی درد سر ہوتا تو اپنے سر کو ہاتھ میں پکڑ کر کہتیں \"الٰہی! اگرچہ میں بہت خطا کار ہوں لیکن تیری رحمت اور فضل بے پایاں ہے‘‘۔اس پر اللہ تعالی انہیں آرام دے دیتا۔حضرت اسماءؓ بہت نڈر اور شجاع تھیں۔ ایک روایت میں ہے کہ حضورﷺ کے وصال کے بعد وہ اپنے شوہر اور فرزند کے ساتھ شام کے میدان جہاد میں تشریف لے گئیں اور کئی دوسری خواتین کی طرح یرموک کی ہولناک لڑائی میں جنگی خدمات انجام دیں۔ 
حضرت سعیدؓ بن عاص کے دور امارت میں مدینہ منورہ میں بہت بدامنی پھیل گئی اور کثرت سے چوریاں ہونے لگیں۔ اس زمانے میں حضرت اسماءؓ اپنے سرہانے خنجر رکھ کر سویا کرتی تھیں ۔ لوگوں نے پوچھا آپ ایسا کیوں کرتی ہیں تو جواب دیا اگر کوئی چور یا ڈاکو میرے گھر آئے گا تو اس خنجر سے اس کا پیٹ چا ک کر دوں گی۔
طویل عرصہ کی ازدواجی زندگی کے بعد حضرت اسماءؓ کی زندگی میں ایک افسوسناک واقعہ رونما ہوا یعنی حضرت زبیر بن العوام نے انہیں طلاق دے دی۔ مؤرخین نے طلاق کی مختلف وجوہ بیان کی ہیں لیکن اصل سبب اللہ ہی کو معلوم ہے ۔ قیاس غالب یہ ہے کہ حضرت زبیرؓ اور حضرت اسماءؓ کے درمیان بعض خانگی معاملات میں ا ختلاف کی وجہ سے کشیدگی پیدا ہو گئی۔ حضرت زبیرؓ کے مزاج میں کچھ درشتی تھی۔ ایک دن کسی بات پر غصہ میں آ گئے اور حضرت اسماءؓ کو زدو کوب کرنا چاہا۔ ان کے بڑے فرزند عبداللہؓ اتفاق سے گھر میں موجود تھے۔ حضرت اسماءؓ نے ان سے مدد چاہی ۔ حضرت زبیرؓ نے عبداللہ کو دخل اندازی سے منع کیا اور کہا کہ اگر تم نے اپنی ماں کی حمایت کی تو اسے طلاق ہے۔ حضرت عبداللہؓ کو گوارا نہ ہوا کہ اپنی آنکھوں کے سامنے والدہ کو تشدد کا شکار ہوتا دیکھیں‘ آگے بڑھے اور ان کا بازو حضرت زبیرؓ کے ہاتھ سے چھڑالیا۔ اس کے بعد حضرت زبیرؓ اور حضرت اسماءؓ کے درمیان ہمیشہ کے لیے علیحدگی ہو گئی اور حضرت اسماءؓ مستقل طور پر فرزند اکبر حضرت عبداللہؓ کے ساتھ رہنے لگیں۔وہ اپنی والدہ کے بے حد خدمت گزار تھے اور زندگی کے آخری سانس تک ان کے کفیل رہے۔ حضرت اسماءؓ بڑی فراخ حوصلہ اور نیک دل خاتون تھیں ۔ حضرت زبیرؓ سے علیحدگی کے بعد بھی وہ انہیں ہمیشہ عزت و احترام سے یاد کرتی تھیں اور ان کی خوبیوں کی مدح و توصیف کیا کرتی تھیں۔
۳۶ہجری میں حضرت عائشہ صدیقہؓ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان جنگ جمل کا افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ حضرت زبیرؓ اس جنگ میں حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پرجوش حامیوں میں تھے لیکن جب لڑائی شروع ہونے سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں رسولﷺ کا ایک ارشاد یاد دلایا تو وہ میدان جنگ سے کنارہ کش ہو کر پلٹ آئے ۔واپسی کے سفر میں وادی سباع میں پہنچے اور نماز پڑھتے ہوئے بارگاہ الٰہی میں سجدہ ریز ہوئے تو ایک شخص عمرو بن جر موز نے انہیں شہید کر دیا۔ حضرت اسماءؓ کو ان کی شہادت کی خبر سن کر سخت صدمہ پہنچا۔آپؓ شاعرہ تھیں ۔ بر وایت درِ منشور انہوں نے اس موقع پر اشعار کہے جن کا ترجمہ یہ ہے : 
\"ابن جر موز نے لڑائی کے دن ایک بلند ہمت شہسوار سے دغا کی
جب کہ وہ نہتا اور بے سرو سامان تھا
اے عمرو اگر تو اپنے ارادے سے زبیرؓ کو پہلے مطلع کر دیتا تو تو 
ان کو ایک نڈر اور بے خوف شخص پاتا۔
خدا تجھے غارت کرے تو نے ایک مسلمان کو ناحق قتل کیا اللہ کا عذاب تجھ پر ضرور نازل ہو گا۔
حضرت اسماءؓ کے فرزند حضرت عبداللہ بن زبیرؓ تاریخ اسلام میں بڑی اہم شخصیت کے مالک ہیں۔ امام حسینؓ کی المناک شہادت کے بعد انہوں نے بنی امیہ کی قاہر طاقت کا جس استقامت اور شجاعت کے ساتھ مقابلہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کو امام حسینؓ کے رفقاء جیسے چند ساتھی مل جاتے تو وہ بنی امیہ کی سلطنت کا تختہ الٹ کر رکھ دیتے اور خلافت راشدہ کا نقشہ قائم کر دیتے۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کی شہادت تاریخ کا ا یک دردناک باب ہے۔ اس موقع پر حضرت اسماءؓ نے جس حق پر ستی ‘ بے خوفی‘صبر و رضا اور جرات ایمانی کا ثبوت دیا وہ ان کی کتاب زندگی کا ایک تابناک ورق ہے۔ ۳۰یا ا۳ھ سے حضرت اسماءؓ شوہر سے علیحدگی کے بعد مستقل طور پر حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے پاس رہتی تھیں۔ حضرت عبداللہؓ ان کی بے حد تعظیم اور خدمت کرتے تھے اور اپنی شہادت ۷۳ ہجری تک انہو ں نے مسلسل اپنی ضعیف العمر ماں کی اطاعت اور رضا جوئی کو اپنی زندگی کا شعار بنائے رکھا۔ حضرت اسماءؓ بھی اپنے سعادت مند فرزند کے لیے ہر وقت دعا گو رہتی تھیں۔ یہ انہی کی تربیت کا اثر تھا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر علم و فضل‘ زہد و اتقا‘ حق گوئی‘ شجاعت اور بے خوفی کا ایک مثالی پیکر تھے ۔ امام حسینؓ کی طرح انہوں نے بھی مرتے دم تک یزید کی بیعت نہ کی اور پھراس کی موت کے بعد بھی اس کے جانشینوں کے مقابلے میں ڈٹے رہے۔ ۶۶ہجری میں عراق اور حجاز وغیرہ کے لوگوں نے انہیں متفقہ طور پر اپنا خلیفہ منتخب کیا۔ ۷۳ ہجری تک انہوں نے مکہ معظمہ میں اپنا علم خلافت بلند رکھا۔ان چھ سالوں میں انھیں بیک وقت دو محاذوں پر لڑنا پڑا۔ ایک طرف مختار بن ابی عبید ثقفی کی زبردست جماعت تھی اور دوسری طرف بنو امیہ کی قاہرہ قوت ۔ وہ بڑے عزم اور حوصلہ کے ساتھ ان دونوں محاذوں پر لڑتے رہے۔ جب عبدالملک بن مروان مسند حکومت پر بیٹھا تو اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ عبداللہ بن زبیرؓ کی خلافت کو ختم کر کے رہے گا۔ اس مقصد کے لیے اس نے اپنے ایک آزمودہ کار جرنیل حجاج بن یوسف ثقفی کو مقرر کیا۔ حجاج بن یوسف نے ایک زبردست فوج کے ساتھ یکم ذی الحجہ ۷۲ھ کو مکہ معظمہ کا محاصرہ کر لیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے بے مثال استقامت دکھائی اور چھ ماہ تک اموی فوج کو مکہ معظمہ پر قابض نہ ہونے دیا ۔ حجاج نے محاصرے میں اتنی سختی برتی کہ مکہ میں اناج کا ایک دانہ بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اس نے بیت اللہ کی عزت و حرمت کو بھی بالائے طاق رکھ دیا اور جبل بوقبیس پر منجنیقیں نصب کر کے ان سے کعبتہ اللہ پر لگاتا ر پتھر برسائے۔حضرت عبداللہ بن زبیرؓ پتھروں کی بارش میں بھی اس انہماک سے نمازپڑھتے تھے کہ کبوتر ان کے کندھوں اور سرپر آکر بیٹھ جاتے تھے۔ محاصرے کی شدت اور خوراک کی قلت سے تنگ آ کر حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے اکثر ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ کر حجاج بن یوسف سے جا ملے حتیٰ کہ ان کے فرزندوں نے بھی بے وفائی کی اور حجاج بن یوسف کے پاس جا کر امان کے طالب ہوئے لیکن اس بہتر (۷۲)سال کے بوڑھے شیر نے بنو امیہ کے اقتدار کو تسلیم نہ کرنے کا حلف اٹھا رکھا تھا۔ اثنائے محاصرہ میں ایک دن حضرت اسماءؓ کی مزاج پرسی کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے وہ کچھ علیل تھیں۔ گفتگو کے دوران حضرت عبداللہؓ کے منہ سے نکل گیا۔ اماں جان موت میں بڑی راحت ہے۔ بولیں شاید تم کو میرے مرنے کی آرزو ہے کہ ضیعف العمری کے دکھوں سے نجات پا جاؤں۔ لیکن بیٹے میں تمہارا انجام دیکھ کر مرنا چاہتی ہوں تاکہ اگر تمہیں شہادت نصیب ہو تو اپنے ہاتھوں سے تمہارا کفن دفن کروں اور اگر تم فتح پاؤ تو میرا دل ٹھنڈا ہو۔ اس واقعہ کے دس دن بعد جب گنتی کے صرف چند ساتھی رہ گئے تو وہ آخری بار حضرت اسماءؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عر ض کیا :
اماں جان! میرے ساتھیوں نے بے وفائی کی ہے۔ اب سوائے چند جاں نثاروں کے کوئی بھی میرا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں ۔ آپ کی کیا رائے ہے، اگر ہتھیار ڈال دوں تو ہو سکتا ہے کہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو امان مل جائے۔ 
حضرت اسماءؓ نے جواب دیا۔ 
اے میرے فرزند! اگر تم حق پرہو تو مردوں کی طرح لڑ کر رتبہ شہادت پر فائز ہو جاؤ اور کسی قسم کی ذلت برداشت نہ کرو۔ اور اگر یہ تمہارا کھکھیڑ دنیا طلبی کے لیے تھا تو تم سے برا کوئی شخص نہیں جس نے اپنی عاقبت بھی خراب کی اور دوسروں کو بھی ہلاکت میں ڈالا۔
ایک اور روایت میں حضرت اسماءؓ سے یہ الفاظ منسوب ہیں: 
\"بیٹا قتل کے خوف سے ہر گز کوئی ایسی شرط قبول نہ کرنا جس میں تم کو ذلت برداشت کرنی پڑے ۔اللہ کی قسم‘ عزت کے ساتھ تلوار کھا کر مرجانا اس سے بہتر ہے کہ ذلّت کے ساتھ کوڑے کی مار برداشت کی جائے\" ۔
عبداللہ بن زبیرؓ نے جواب دیا ۔اماں جان میں حق و صداقت کے لیے لڑا اور حق و صداقت کے لیے ساتھیوں کو لڑایا۔ اب آپؓ سے رخصت ہونے آیا ہوں۔ حضرت اسماءؓ نے فرمایا۔بیٹا اگر تم حق پر ہو تو حالات کی ناموافقت اور ساتھیوں کی بیوفائی کے سبب دشمنوں سے دب جانا شریفوں اور دینداروں کا شیوہ نہیں۔ ابن زبیرؓ نے عرض کیا ۔ اما ں جان میں موت سے نہیں ڈرتا‘ صرف یہ خیال ہے کہ میری موت کے بعد میری لاش کامثلہ کریں گے اور صلیب پر لٹکائیں گے جس سے آپؓ کو رنج ہو گا۔ صدیق اکبرؓ کی جلیل القدر بیٹی نے فرمایا۔ بیٹے جب بکری ذبح کر ڈالی جائے تو پھر اس کی کھال کھینچی جائے یا اس کے جسم کے ٹکڑے کئے جائیں اسے کیا پروا؟ تم اللہ پر بھروسہ کرکے اپنا کام کئے جاؤ ۔ راہ حق میں تلواروں سے قیمہ ہونا گمراہوں کی غلامی سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ موت کے خوف سے غلامی کی ذلت کبھی قبول نہ کرنا۔
اپنی عظیم ماں کے حوصلہ افزاکلمات سن کر ابن زبیرؓ پر رقت طاری ہو گئی اور فرط محبت و عقیدت سے انہوں نے اپنی والدہ کا سر چوم لیا۔ پھر عرض کیا۔ اماں جان !میرا بھی یہی ارادہ تھا کہ راہ حق میں مردانہ وار لڑ کر جان دے دوں لیکن آپ سے مشورہ کرنا ضروری سمجھا تاکہ میرے مرنے کے بعد آپ رنج و غم نہ کریں۔ 
الحمد اللہ کہ میں نے آپ کو اپنے سے بڑھ کر ثابت قدم اور راضی پایا۔ آپ کی با توں نے میرا ایمان تازہ کر دیا ہے۔ آج میں ضرور قتل ہو جاؤں گا۔ مجھے یقین ہے کہ میرے قتل کے بعد بھی آپ صبر و شکر سے کام لیں گی۔ اللہ کی قسم میں سچ عرض کرتا ہوں کہ آج تک میں نے جو کچھ کیا وہ سب حق کو سربلند کرنے کے لیے تھا۔ میں نے کبھی برائی کو پسند نہیں کیا۔ کسی مسلمان پر ظلم نہیں کیا۔ کبھی بدعہدی نہیں کی۔ کبھی امانت میں خیانت نہیں کی۔ اپنے عمال کا کڑا محاسبہ کیا اور اپنی حدود خلافت میں جہاں تک ممکن تھا عدل و انصاف سے کام لیا ۔لوگوں سے اللہ اور رسول اللہﷺکے احکام کی تعمیل کروائی اور اعمال بد سے انہیں روکا۔ بخدا میں دین کے آگے دنیا کو ہیچ سمجھتا ہوں ‘اللہ کی رضا کے سوا مجھے کوئی شے مطلوب نہیں۔ پھر آسمان کی طرف نظر اٹھائی اور کہا۔الٰہی میں نے یہ باتیں فخر کے طور پر نہیں کہیں بلکہ صرف اپنی والدہ محترمہ کی تسکین اور اطمینان کے لیے کی ہیں۔ حضرت اسماءؓ نے انھیں دعا دی اور فرمایا۔ بیٹے تم اللہ کی راہ میں جان دو ‘ میں ان شاّء اللہ صابر و شاکر رہوں گی۔ اب آگے آؤ تاکہ آخری بار تمہیں پیار کر لوں۔ عبداللہؓ آگے بڑھے‘ ضعیف العمر ماں نے اپنے لخت جگر کو گلے لگایا اور ان کا منہ سرچوما ۔ اس وقت حضرت عبداللہؓ نے زرہ پہن رکھی تھی۔ حضرت اسماءؓ کا ہاتھ ان کی زرہ پر پڑا تو پوچھا۔ بیٹے یہ تمہارے جسم پر کیا ہے؟ عرض کیا زرہ ہے تاکہ دشمن کی ضربوں سے بچاؤ ہو۔ حضرت اسماءؓ نے فرمایا بیٹے اللہ کی راہ میں شہید ہونے کے لیے نکلتے ہو اور ان عارضی چیزوں کا سہارا لیتے ہو۔ حضرت عبداللہؓ نے اسی وقت زرہ اتار پھینکی ‘ سر پر سفید رومال باندھ لیا اور ماں سے کہااماں جان اب میرے جسم پر معمولی لباس ہے۔ حضرت اسماءؓ نے فرمایا بیٹا اب میں خوش ہوں‘جاؤ اللہ کے راستے میں لڑو اور اس کے ہاں اسی لباس میں جاؤ۔ 
حضرت عبداللہ نے تلوار سونت لی اور رجز پڑھتے ہوئے دشمن کی صفوں میں گھس گئے۔ کافی دیر تک داد شجاعت دیتے رہے آخر زخموں سے چور چور ہو کر صدیق اکبرؓ کا یہ اولو العزم نواسہ اور حضرت اسماءؓ کا لخت جگر اپنے مولائے حقیقی سے جا ملا۔ 
ابن زبیرؓ کی شہادت کی خبر سن کر حجاج بن یوسف کو بڑی مسرت ہوئی اور اس نے حکم دیا کہ ابن زبیرؓ کی لاش کو مقام حجون میں سولی پر الٹا لٹکا دیاجائے ۔حضرت اسماءؓ کو حجاج کی اس حرکت کا علم ہوا تو انہوں نے پیغام بھیجا کہ اللہ تجھے غارت کرے تو نے میرے لخت جگر کی لاش کو دار پر کیوں لٹکایا۔ حجاج نے جواب میں کہلا بھیجا میں لوگوں کو ابن زبیرؓ کے انجام سے عبرت دلانا چاہتا ہوں۔ حضرت اسماءؓ نے اسے پھر پیغام بھیجا کہ میرے بچے کی لاش میرے حوالے کر دو تاکہ میں اس کی تجہیز و تکفین کر سکوں۔ سنگ دل حجاج نے صاف انکار کر دیا۔ ابن زبیرؓ کی شہادت کے ایک دو دن بعد حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا مقام حجون سے گزر ہوا ۔ان کی لاش سولی پر لٹکتے دیکھ کر سخت رنجیدہ ہوئے اور اس کے نیچے کھڑے ہو کر فرمایا۔\"اے ابو خبیب! السلام علیک‘ میں نے تم کو اس سیاست میں پڑنے سے منع کیا تھا‘ تم نمازیں پڑھتے تھے‘ روزے رکھتے تھے اور صلہ رحمی کرتے تھے۔ شہادت کے تیسرے دن حضرت اسماءؓ ایک کنیز کے سہارے مقام حجون تشریف لے گئیں۔ اتفاق سے اس وقت حجاج بھی وہاں گشت کر رہا تھا۔ حضرت اسماءؓ کو لوگوں نے حجاج کی موجود گی کی اطلاع دی تو انہوں نے فرمایا’’ کیا اس سوار کے اترنے کا وقت ابھی نہیں آیا‘‘۔ حجاج نے کہا وہ ملحد تھا اس کی یہی سزا تھی۔ حضرت اسماءؓ تڑپ اٹھیں ‘ فرمایا اللہ کی قسم وہ ملحد نہ تھا بلکہ نمازی‘روزہ دار اور متقی تھا۔ حجاج نے جھلا کر کہا بڑھیا یہاں سے چلی جاؤ۔ تمہاری عقل سٹھیا گئی ہے حضرت اسماءؓ نے بڑی بے باکی سے جواب دیا۔ میری عقل نہیں سٹھیا گئی، اللہ کی قسم میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ بنو ثقیف میں ایک کذّاب اور ایک ظالم سفاّک پیداہو گا ۔ سو کذّاب یعنی مختار بن ابو عبید ثقفی کو تو ہم نے دیکھ لیا اور ظالم سفاّک تو ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جب حجاج نے سنا کہ ابن عمرؓ نے ابن زبیرؓ کی لاش کے نیچے کھڑے ہو کر ان کی تعریف کی ہے تو اس نے لاش کو اتروا کر یہودیوں کے قبرستان میں پھنکوا دیا اور حضرت اسماءؓ کو بلا بھیجا۔ انہوں نے اس کے پاس جانے سے انکار کر دیا۔ حجاج نے کہلا بھیجا کہ میرے حکم کی تعمیل کرو‘ورنہ چوٹی سے پکڑ کر گھسیٹوں گا۔ حضرت اسماءؓ نے جواب میں کہلا بھیجا ’’اللہ کی قسم اس وقت تک نہ آؤ ں گی جب تک تو چوٹی پکڑ کر نہ گھسیٹے گا‘‘۔حجاج اب مجبورہو کر خود حضرت اسماءؓ کے پاس پہنچا اور دلآزارانہ لہجے میں کہنے لگاکہ ۔ اے ذات النطاقین !سچ کہنا‘ اللہ کے دشمن کا انجام کیسا ہوا؟ حضرت اسماءؓ نے فرمایا۔ ہاں تو نے میرے فرزند کی دنیا خراب کی لیکن اس نے تیری آخرت کو برباد کر دیا ہے۔ میں نے سنا ہے کہ تو میرے بیٹے کو طنزاََ ابنِ ذات النطاقین کہتا تھا تو اللہ کی قسم میں ذات النطاقین ہوں‘ میں نے ہی رسول اللہﷺ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کا توشہ دان اپنے نطاق سے باندھا تھا لیکن میں نے خود حضور ﷺ سے سنا ہے کہ بنی ثقیف میں ایک کذّاب اور ایک سفاّک ہو گا۔ کذّاب کوہم نے دیکھ لیا۔ سفاّک کا دیکھنا باقی تھا‘سو وہ تو ہے۔ حجاّج حضرت اسماءؓ کی بے باکانہ گفتگو سن کر سکتے میں آ گیا اور کان دبا کر وہاں سے چل دیا۔ حضرت اسماءؓ جب حجاج بن یوسف کی طرف سے مایوس ہو گئیں اور انہیں یقین ہو گیا کہ وہ ان کے لخت جگر کی لاش ان کے حوالے نہیں کرے گا تو انہوں نے کسی ذریعہ سے عبدالملک کو دمشق پیغام بھیجوایا ۔ ایک روایت میں ہے کہ ابن زبیرؓ کے بھائی عروہ بن زبیرؓ محاصرہ مکہ کے دوران آخروقت تک ان کے ساتھ تھے ۔ جب عبداللہ بن زبیر ؓ شہید ہو گئے اور حجاج نے ان کی لاش سولی پر لٹکا دی تو وہ مکہ سے پوشیدہ طور پر عبدالملک کے پاس دمشق پہنچے۔ وہ عروہؓ سے بڑی محبت اور تکریم سے پیش آیا اور تخت پر اپنے پاس جگہ دی۔ عروہؓ نے اسے مکہ کے سارے حالات بتائے اور اس سے درخواست کی کہ حجاج کو ابن زبیرؓ کی لاش حضرت اسماءؓ کے حوالے کرنے کا حکم بھیجے۔ عبدالملک نے اسی وقت حجاج کو ایک غضب آلود خط لکھا ‘جس میں اس کی حرکت پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور حضرت ابن زبیرؓ کی لاش فورا حضرت اسماءؓ کے حوالے کرنے کاحکم دیا۔ عبدالملک کا خط پہنچنے پر حجاج نے ابن زبیرؓ کی لاش حضرت اسماءؓ کے حوالے کر دی۔ 
ابن ابی ملیکہ ایک عینی شاہد کا بیان ہے کہ میں سب سے پہلا شخص تھا جس نے حضرت اسماءؓ کو ابن زبیرؓ کی لاش ان کے حوالے کئے جانے کی بشارت دی۔ انہوں نے مجھے حکم دیا کہ اسے غسل دو۔ لاش کا جوڑ جوڑ الگ ہو چکا تھا ہم ایک ایک حصہّ بدن کو غسل دے کر کفن میں لپیٹتے جاتے تھے ۔ جب سارے اعضاء کا غسل ہو چکا تو حضرت اسماءؓ نے اپنے لخت جگر کے لیے دعائے مغفرت کی ۔ پھر ہم نے جنازہ پڑھ کر ابن زبیرؓ کو مقام حجون میں سپرد خاک کر دیا۔ اس سے پہلے حضرت اسماءؓ فرمایا کرتی تھیں ٰکہ الٰہی مجھے اس وقت تک نہ مارنا جب تک میں اپنے فرزند کا جُثہ کفناد فنا کر مطمئن نہ ہو جاؤں۔ اس واقعہ کے سات دن یا بعض روایتوں کے مطابق بیس دن یا سو دن کے بعد حضرت اسماءؓ نے بھی داعی ء اجل کو لبیک کہا۔ وفات کے وقت ان کی عمر سو برس کے لگ بھگ تھی لیکن سارے دانت سلامت تھے اور ہوش و حواس بالکل درست تھے۔ قد دراز تھاجسم فربہ تھا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ اخیر عمر میں بصارت جاتی رہی تھی اس لیے عبداللہ بن زبیرؓ کا واقعہ شہادت بچشم خود نہیں دیکھا بلکہ ٹٹول ٹٹول کر یا پوچھ پوچھ کر ہر کیفیت سے آگاہ ہوتی تھیں۔ حضرت زبیرؓ سے حضرت اسماءؓ کو اللہ تعالی نے پانچ صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں عطا کی تھیں۔ ان کے نام یہ ہیں ۔ عبداللہؓ ، عروہؓ ، منذرؓ، مہاجرؓ، عاصمؓ، خدیجہ الکبریٰ ، ام الحسن اور عائشہ۔ 
ان میں سے حضرت عبداللہؓ اور عروہؓ نے خاص شہرت حاصل کی ۔ حضرت اسماءؓ علم و فضل کے اعتبار سے بھی بڑا اونچا درجہ رکھتی تھیں۔ ان سے چھپن (۵۶)احادیث مروی ہیں۔راویوں میں حضرت عبداللہ بن زبیرؓ ‘ عروہؓ ‘ ابو بکر عباد و عامر پسران عبداللہ بن زبیر ؓ ‘ عبداللہ بن عروہؓ ‘ عبداللہ بن کیسان ؒ ‘ فاطمہ بنت منذربن زبیر ؒ ‘ محمد بن منکدر‘ ابن ابی ملیکہ‘ وہب بن کیسانؓ مطلب بن حنطب‘ ابو نوفل ابن ابو عقرب مسلم معریؓ صفیہ بنت شیبہ اور عبادہ بن حمزہ بن عبداللہ بن زبیرؓ شامل ہیں۔ حضرت اسماءؓ نے اپنی طویل زندگی میں زمانے کے بے شمار نشیب و فراز دیکھے ۔وہ تاریخ اسلام کی ان معدود ے چند ہستیوں میں سے ہیں جنھوں نے جاہلیت کازمانہ بھی دیکھا اور پورا دور رسالت اور خلفائے راشدین کا عہد باسعادت بھی دیکھا ۔اپنے عظیم المرتبت فرزند کا دور عروج بھی دیکھا اور ان کی المناک شہادت کا منظر بھی دیکھا ۔ ان پر بارہا مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے لیکن انہوں نے ہر موقع پر بے پناہ عزم و استقلال اور جرأت ایمانی کا مظاہر ہ کیا ۔ بلاشبہ وہ تاریخ اسلام کی ایک مہتم بالشان شخصیت ہیں اور ان کا درخشندہ و تابندہ کردار مسلمانوں کے لیے تاابد مشعل راہ بنا رہے گا۔ دعا ہے اللہ پاک انہیں جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے۔ آمین۔ ایں دعا ازمن و از جملہ جہاں آمیں باد۔

No comments:

Post a Comment