تیسری کہانی
اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہؓ
یہ کہانی اُمّ المومنین اُمِّ سلمہؓ کی ہے۔اُمِّ سلمہ اُم المؤمنین کے درجہ بلندپر کیسے پہنچیں؟‘ اس کاحال آگے بیان کیاجائے گا۔ پہلے آپ کے تعارف کے حوالے سے بتایاجاتا ہے کہ آپ کے والد ابو امیہّ قبیلہ مخزوم کے ایک قابلِ رشک سردار تھے اور وہ دنیائے عرب کے ایک معروف سخی تھے۔ لوگ انہیں مسافروں کا زادِ راہ سمجھا کرتے تھے‘ کیونکہ قافلے جب ان کے گھر کی طرف روانہ ہوتے یا ان کی رفاقت میں سفر کرتے تو قافلے والے اپنے ساتھ زادِ راہ لے کر نہ جاتے کیونکہ سارے قافلے کے اخراجات یہ خود برداشت کر لیا کرتے تھے۔ حضرت اُم سلمہؓ کے خاوند عبداللہؓ بن عبدالاسد کا شمار ان دس صحابہ کرامؓ میں ہوتا ہے جو سب سے پہلے مسلمان ہوئے۔ ان سے پہلے صرف حضرت ابو بکر صدیقؓ اور چند دیگر صحابہ کرامؓ مسلمان ہوئے تھے۔
حضرت امِ سلمہؓ کا اپنا نام ہند تھا۔ آپ اپنے شوہر کے ساتھ ہی مسلمان ہو گئی تھیں اور ان کا شمار ان صحابیات میں ہوتا ہے جنہیں ا سلام قبول کرنے میں سبقت حاصل ہے۔ حضرت اُمِ سلمہؓ اور ان کے شوہر کے اسلام قبول کرنے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح چہار سو پھیل گئی توقریش غصے میں آ کر ان دونوں کو ایسی دردناک سزائیں دینے لگے جن سے مضبوط چٹانیں بھی لرز جائیں لیکن ان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش پیدا ہوئی نہ ان کی طبیعت میں کوئی اضمحلال پیدا ہوا اور نہ ہی وہ کسی تردّد کا شکار ہوئے ۔جب صحابہ ء کرامؓ مصائب کی چکی میں بری طرح پسنے لگے تو رسول اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ کرامؓ کو حبشہ کی طرف ہجرت کرجانے کی اجازت دے دی۔ ان مہاجرین میں یہ دونوں میاں بیوی بھی تھے۔حضرت اُمِ سلمہؓ اور آپؓ کاخاوند اپنا معزز گھرانہ اور عالیشان گھر چھوڑ کر اللہ سبحانہ و تعالی ٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایک ان دیکھی منزل کی طر ف روانہ ہوگئے۔ باوجود یکہ حضرت اُمِ سلمہؓ اور آپ کے شوہر کو حبشہ کے حکمران نجاشی کی مکمل حمایت حاصل تھی‘ پھر بھی انہیں انتظار رہتا کہ وہ مبارک گھڑی آئے جب وہ مرکزِ نزول وحی (مکہ معظمہ )کوبچشم خود پھردیکھ سکیں اور منبعِ ہدایت حضرت محمد ﷺ کی زیارت کریں۔ یہ تمناّ ان کے دل میں سمائی ہوئی تھی۔ سر زمین حبشہ میں مقیم مہاجرین کے پاس اس قسم کی خبریں مسلسل آنے لگیں کہ مکہ معظمہ میں مسلمانوں کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ حضرت حمزہؓ بن عبدالمطّلب اور حضرت عمرؓ بن خطاب کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کی قوت میں بے حد اضافہ ہو چکا ہے۔یہ سن کر کہ قریش کی جانب سے ایذا رسانی ختم ہو چکی ہے‘ مہاجرین نے اطمینان کی سانس لی اور ان میں چند ایک نے مکہ معظمہ واپس جانے کا عز م کر لیا اور کشاں کشاں مکہ معظمہ روانہ ہو گئے۔ ان واپس آنے والوں میں اُمِ سلمہؓ اور آپ کے شوہر بھی تھے۔لیکن ان واپس آنے والے مسلمانوں کو جلد ہی اس بات کا احساس ہوگیا کہ انہوں نے واپس آنے میں جلد بازی سے کام لیاہے۔ جو خبریں ان کے پاس پہنچ رہی تھیں ‘ ان میں بہت زیادہ مبالغہ تھا۔ صحیح صورتِ حال یہ تھی کہ جب حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ مسلمان ہوئے تو قریش اور زیادہ بھڑک اٹھے اور انہوں نے مسلمانوں پر مزید ظلم ڈھانا شروع کر دیا۔ جس سے مسلمانوں کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ مشرکین نے مکہّ مکرّمہ میں آباد مسلمانوں کو ایسی دردناک سزائیں دیں جن کی مثال نہیں ملتی۔ اس اندوہناک صورتِ حال کو دیکھ کر رسول اکرم ﷺ نے اپنے جاں نثار صحابہ کرامؓ کو مدینہ منورہ ہجرت کر جانے کا حکم دیا تو مہاجرین کے پہلے قافلے میں حضرت اُم سلمہّؓ اور آپ کے شوہر نے شمولیت کا ارادہ کیا، لیکن اس دفعہ حضرت ام سلمہؓ اور آپ کے شوہر کا مکہ سے ہجرت کرنا اتنا آسان نہ تھا ۔ اس دفعہ انہیں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ہم یہاں مشکلات کی یہ کہانی حضرت امِ سلمہؓ کی زبانی آپ کو سناتے ہیں اس لیے کہ جس طرح اپنی آپ بیتی وہ خود عمدہ پیرائے میں بیان کر سکتی ہیں کوئی دوسرا اتنے اچھے اسلوب میں اسے بیان نہیں کر سکتا۔حضرت امِ سلمہؓ فرماتی ہیں جب حضرت ابو سلمہؓ نے مدینہ ہجرت کر جانے کا عزم کر لیا تو انہوں نے مجھے ایک اونٹ پر سوار کیا۔ میرا ننھا بیٹا سلمہ میری گود میں تھا۔ انہوں نے اونٹ کی نکیل پکڑ کر سیدھا چلنا شروع کر دیا۔ ابھی ہم مکہ معظمہ کی حدود سے نکلنے نہ پائے تھے کہ میری قوم بنو مخزوم کے چند افراد نے ہمیں دیکھ لیا اور انہوں نے ہمارا راستہ روک لیا۔ انہوں نے ابو سلمہؓ سے کہا : اگر تم نے اپنی مرضی کو ہم پر ترجیح دینے کی ٹھان لی ہے تو اس عورت کو اپنے ہمرا ہ کیوں لے جا رہے ہویہ ہماری بیٹی ہے۔ ہم اسے تمہارے ساتھ کسی دوسرے ملک جانے کی قطعاً اجازت نہیں دیں گے۔ پھر انہوں نے آگے بڑھ کر مجھے ان کے ہاتھ سے چھین لیا۔ جب میرے سرتاج شوہر کی قوم بنو اسد نے یہ منظر دیکھا کہ مجھے اور میرے بیٹے کو بنو مخروم چھین کر لے جا رہے ہیں تو وہ غضبناک ہو گئے۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم ! ہم تمہارے قبیلہ کی اس عورت کے پاس یہ بچہ نہیں رہنے دیں گے ۔ تم اسے ہمارے قبیلہ کے مرد سے زبردستی چھین کر لے جا رہے ہو‘ یہ ہمارا بیٹا ہے اس پر ہمارا ہی حق ہے‘ پھر وہ میرے بیٹے کو مجھ سے چھین کر اپنے ساتھ لے گئے ۔ یہ صورتِ حال میرے لیے ناقابلِ برداشت تھی‘ ہمارا شیرازہ بکھر گیا۔ شوہر مدینہ روانہ ہو گیا ۔ بیٹے کو بنوعبدالاسد اپنے ساتھ لے گئے اور مجھے میری قوم بنو مخزوم نے زبردستی اپنے پاس رکھ لیا ۔ ہمارے درمیان پل بھر میں جدائی ڈال دی گئی۔میں ان روح فرساصدمات کو برداشت کرنے کے لیے تنہا رہ گئی۔ میں غم دور کرنے کے لیے ہر صبح اس مقام پر جاتی جہاں جدائی کا یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ میں وہاں بیٹھ کر دن بھر روتی رہتی اور شام کے وقت گھر واپس آ جاتی۔تقریباً ایک سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ میں ایک دن وہاں بیٹھی رو رہی تھی کہ میرا ایک چچا زاد بھائی میرے پاس سے گزرا ۔ میرا یہ حال دیکھ کر اسے مجھ پر رحم آ گیا اور اس نے اسی وقت جا کر میری قوم کے بڑوں سے کہا کہ تم اس مسکین عورت کو کیوں تڑپا رہے ہو؟ کیا تم اس کی حالت نہیں دیکھ رہے کہ یہ اپنے شوہر اور بیٹے کے غم میں کس قدر بے چین ہے۔ آخر اسے ستانے سے تمہیں کیا ملے گا۔ انہوں نے مجھ سے کہا ہماری طرف سے اجازت ہے اگر تم چاہو تو اپنے خاوند کے پاس جا سکتی ہو۔ میں نے کہا ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں تو مدینہ چلی جاؤں اور میرا لختِ جگر بنو اسد کے پاس ہی رہے؟ تم ہی بتاؤ کہ میرے غم کی آگ کیسے بجھے گی ؟ میرے آنسو کیسے خشک ہوں گے؟ میں ایسا ہر گز نہیں کر سکتی کہ اپنے شوہر کے پاس مدینہ چلی جاؤں اور اپنے ننھے بیٹے کو مکہّ ہی رہنے دوں اور اس کے متعلق مجھے کبھی معلوم ہی نہ ہو۔مجھے اس غم میں مبتلا دیکھ کر کچھ لوگوں کے دل میں نرمی پیدا ہو گئی اور انہوں نے بنو اسد سے اس سلسلے میں بات کی تو وہ بھی راضی ہو گئے اور انہوں نے میرا بیٹا مجھے واپس دے دیا۔
میں نے سوچا کہ اب مجھے فوراً یہاں سے نکل جانا چاہیے کہ کہیں کوئی اور رکاوٹ پیدا نہ ہوجائے۔ میں نے جلدی سے تیاری کی‘ بیٹا گود میں لیا‘ اونٹ پر سوار ہوئی اور سوئے مدینہ اکیلی چل پڑی۔مخلوقِ خدا میں سے بیٹے کے علاوہ کوئی بھی میرے ساتھ نہ تھا ۔ جب میں مقام تنعیم پر پہنچی تو وہاں عثمان بن طلحہ ملے۔ انہوں نے کہا:’’ اے زادِ مسافر کی بیٹی !کہاں جا رہی ہو‘‘؟ میں نے کہا مدینہ اپنے خاوند کے پاس جا رہی ہوں۔ انہوں نے کہا ’’کیا اس سفر میں تمہارے ساتھ کوئی نہیں‘‘؟ میں نے کہا’’ بخدا میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں‘‘۔ اس نے کہا اللہ کی قسم، اب میں تمہیں مدینہ پہنچا کر واپس آؤں گا۔ پھر اس نے اونٹ کی نکیل پکڑی اورہم آگے چل دیئے۔ اللہ کی قسم ! میں نے عرب میں اس سے زیادہ نیک دل اور شریف انسان نہیں دیکھا۔ جب ہم ایک منزل طے کر لیتے تو وہ میرے اونٹ کو بیٹھا دیتا اور خود دور ہٹ جاتا۔ جب میں نیچے اتر جاتی تو وہ اونٹ پر سے ہووج اتار دیتا اور اسے کسی درخت کے ساتھ باندھ دیتا اور خود کسی دوسرے درخت کے سائے میں جا کر لیٹ جاتا۔۔ جب روانگی کا وقت ہوتا تووہ میرے اونٹ کو تیار کر کے میرے پاس لے آتا۔ جب میں اونٹ پر سوار ہو جاتی تو وہ اس کی نکیل پکڑ کر چل دیتا۔وہ ہر روز اسی طرح میرے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتایہاں تک کہ ہم مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ جب بنو عمروبن عوف کی بستی نظر آئی تو اس نے مجھے کہا آپ کا خاوند اس بستی میں رہائش پذیر ہے‘ اللہ تعالی کی برکت سے اس میں چلی جاؤ۔ یہ کہا اور ہمیں وہاں چھوڑ کر خودمکہ معظمہ لوٹ گیا۔
یہ منتشر گھرانہ بڑی طویل جدائی کے بعد پھر اللہ تعالی کے فضل و کرم سے اکٹھا ہو گیا۔ اپنے خاوند کو دیکھ کر حضرت ام سلمہؓ کی آنکھیں ٹھنڈی ہو گئیں۔ حضرت ابو سلمہؓ نے اپنی بیوی اور بیٹے کو صحیح سلامت دیکھ کر سکھ کا سانس لیا اور انتہائی مسرت کا اظہار فرمایا۔
پھر بے شمار واقعات پلک جھپکنے میں گزرنے لگے۔ غزوہ بدر میں حضرت ابو سلمہؓ شریک ہوئے اور دیگر مسلمانوں کے ساتھ بڑی واضح کامیابی حاصل کر کے لوٹے۔ غزوہ بدر کے بعد غزوہ احد میں شرکت کی اور اس میں پیش آنے والے مشکل حالات و مصائب کا سامنا کیا۔ اس آزمائش میں بھی توفیق الٰہی سے پورے اترے لیکن اس معرکہ میں انہیں ایک گہرا زخم لگا۔ علاج کرنے سے بظاہر تو وہ مندمل ہو گیا لیکن اندر سے زخم کچا رہ گیا تھا۔ تھوڑے عرصہ بعد وہ زخم دوبارہ تازہ ہو گیا اور حضرت ابو سلمہؓ شدید تکلیف میں مبتلا ہو کر صاحب فراش ہو گئے۔ حضرت ابو سلمہؓ نے علاج کے دوران اپنی بیوی سے کہا اُم سلمہؓ میں نے رسولﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر کوئی شخص مصیبت کے وقت صبر کرے اور ساتھ ساتھ یہ کلمات بھی کہے الٰہی میں اپنی اس مصیبت میں تیری ذات اقدس سے اجر وثواب کی تمنا رکھتا ہوں۔ الٰہی مجھے نعم البدل عطا کر۔ تو اللہ سبحانہ تعالیٰ دعا کو قبول کرتے ہوئے اسے نعم البدل عطاکر دیتے ہیں۔ حضرت ابو سلمہؓ کافی عرصہ تک اسی بیماری میں مبتلا رہے ۔ ایک دن رسولﷺ صبح کے وقت آپؓ کی تیمار داری کے لیے تشریف لائے آپ تیمار داری کر کے ابھی واپس گھر کے دروازے تک پہنچے ہی تھے کہ حضرت ابو سلمہؓ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ رسول اکرم ﷺ نے واپس آ کراپنے مبارک ہاتھ سے آپ کی آنکھیں بند کیں اور آپ ﷺنے دعا کی۔’’ الٰہی ابو سلمہ ؓ کو بخش دے اور اسے اپنے مقرب بندوں میں اعلیٰ مقام عطا کر اور اس کے لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق دے اور انہیں اس کا نعم البدل عطا کر۔ اے پروردِگار عالم اسے اور ہمیں بخش دے اور اس کی قبر کو فراخ اور منور فرما\" ۔ کئی دفعہ پر حضرت اُمِ سلمہؓ کو وہ بات یاد آئی جو حضرت ابو سلمہؓ نے رسول اکرم ﷺ کے حوالے سے بیان کی تھی ایک دفعہ تو انہوں نے اپنے رب سے التجا کی۔ ’’الٰہی میں اپنی اس مصیبت میں تیری ذات اقدس سے اجر و ثواب کی نیت کرتی ہوں لیکن ان کا دل یہ بات کہنے کے لیے آمادہ نہیں ہو رہاتھا کہ الٰہی مجھے ان کا نعم البدل عطا فرما۔ وہ دل میں یہ سوچ رہی تھیں کہ ان کا نعم البدل کو ن ہو سکتا ہے ۔ بہر حال انہوں نے دعائیہ کلمات مکمل کر لئے۔ حضرت اُمِ سلمہؓ کو پیش آنے والے اس حادثہ فاجعہ پر مسلمانوں میں غم کی لہر دوڑ گئی اور ہمدردی کے طور پر آپ کو بیوہ عرب کے نام سے یاد کرنے لگے۔ حضرت ابو سلمہؓ کی وفات کے بعد چھوٹی عمر کی کثیر اولاد کے علاوہ اعزہ و اقارب میں سے کوئی بھی بڑی عمر کا فرد موجود نہ تھا۔
اس صورتِ حال کے پیش نظر مہاجرین و انصار نے سوچا کہ حضرت ام سلمہؓ کی نصرت ہمارا دینی فرض ہے ‘ اس لیے ایامِ عدّت گزر جانے کے بعد سب سے پہلے حضرت صدیقِّ اکبرؓ نے نکاح کا پیغام بھیجا تاکہ انہیں مکمل تحفظ مل سکے، لیکن انہوں نے انکار کر دیا پھر حضرت عمرؓ بن خطاب نے پیشکش کی، وہ بھی آپ نے قبول نہ کی۔ پھر چند دن گزرجانے کے بعد رسول اللہﷺ نے پیش کش کی تاکہ ناتواں اولاد کو مکمل تحفظ مل سکے۔ حضرت ام سلمہؓ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میری تین معروضات ہیں ۔ایک تو میں انتہائی غصیل عورت ہوں‘ مجھے اندیشہ ہے کہ آپ کو میری کوئی بات ناگوار گزرے اور آپ مجھ سے ناراض ہو جائیں اور میں اللہ تعالی کی طرف سے کسی عذاب میں مبتلا ہو جاؤں۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں ایک عمر رسیدہ عورت ہوں اور تیسری بات یہ ہے کہ میں عیالدار ہوں اور چھوٹے چھوٹے میرے بچے ہیں۔ یہ سن کر رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ جہاں تک تیرے غصیل ہونے کا تعلق ہے میں اللہ تعالی سے دعا کروں گا اِن شاء اللہ تیری یہ عادت کا فور ہو جائے گی۔ جہاں تک عمر رسیدہ ہونے کی بات ہے ‘میں بھی اب تیری طرح عمر رسیدہ ہی ہوں اور یہ جو عیالداری کا تذکرہ کیا ہے تو تمہارے بچے میرے بچے ہیں۔‘‘یہ سن کر امِ سلمہؓ نے سر جھکا دیا اور آپ ﷺ ان سے نکاح کر کے ان کے لیے ہر پریشانی سے نجات کا وسیلہ بن گئے۔ اس طرح اللہ رب العزت نے حضرت اُم سلمہؓ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور انہیں حضرت ابو سلمہؓ کا نعم البدل عطا کر دیا۔ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد بنو مخزوم قبیلہ کی یہ خاتون صرف ام سلمہؓ ہی نہ کہلائیں بلکہ انہیں اُمِ المومنین بننے کا عظیم شرف بھی حاصل ہو گیا۔
نکاح کے بعد آپ ﷺاپنی دلہن اُمِ سلمہ کو منتقل کر کے زینب بنت خزیمہ ام المساکین کے گھر میں ان کی وفات کے بعد لے گئے۔ ام سلمہؓ نے اس گھر میں ایک گھڑا دیکھا ۔اس میں جھانک کر دیکھا تو اس میں کچھ جوَتھے اور گھر میں ایک چکی ، دیگچی اور ہانڈی بھی تھی۔ ہانڈی میں کچھ چربی جمی ہوئی تھی۔ آپ نے گھڑے میں سے جَو لے کر پیس لئے اور دیگچی میں دلیا پکایا اور چربی سے اسے مرغن کر لیا۔ شادی والی شب رسول اللہﷺ کے لیے اور آپﷺ کی دلہن کے لیے یہی کھانا تھا۔ رسول اللہﷺ نے شبِ عروسی کی اس صبح کو دلہن سے کہا۔تم اپنے شوہر کی نگاہ میں بہت معزز ہو۔ اگر چاہو تو میں تمہارے پاس پورا ایک ہفتہ ٹھہر جاؤں مگر پھر مجھے ہر ایک بیوی کے پاس ایک ایک ہفتہ ٹھہرنا ہو گا آپ بولیں کہ تین دن ہی ٹھیک ہیں ۔ سات دن تو کنواری دلہن کے لیے مناسب ہوں گے۔
امھات المومنین کے پاکیزہ سلسلہ میں شامل ہو جانے پر امِ سلمہؓ کو بے حد خوشی ہوئی مگر ماضی پر نگاہ ڈالتیں تو یقین نہیں آتاتھا کہ سب کچھ کیسے ہو گیا۔ پھر انہیں یاد آیا کہ میں نے خود ہی ایک بار ابو سلمہؓ سے کہا تھا کہ میں نے سنا ہے کہ کسی عورت کا شوہر اس کی زندگی میں فوت ہو جائے اور وہ عورت اس کے بعد دوسرا نکاح نہ کرے تو اللہ اسے جنت میں داخل کرتا ہے ۔ اسی طرح کسی مرد کی زندگی میں اس کی بیوی فوت ہو جائے اور وہ مرد دوسرا نکاح نہ کرے تو اللہ اس مرد کو بھی فردوس بریں میں جگہ دیتا ہے۔ آؤ ہم دونوں عہد کر لیں کہ ہم میں سے جو پہلے مرے تو دوسرا اس کے بعد مجرد زندگی بسرکرے‘ نکاح نہ کرے۔ اس پرحضرت ابو سلمہؓ نے فرمایا کیا میرا کہنا مانو گی؟ میں نے کہا کیوں نہیں۔ اس سے بڑھ کر میرے لیے کیاسعادت ہو گی‘ تو حضرت ابو سلمہؓ نے فرمایا۔ تو سنو! اگر میں پہلے مر جاؤں تو میرے بعد تم ضرور نکاح کر لینا اور پھر دعا مانگی۔ اے مولائے کریم!میں اگر ام سلمہؓ کی زندگی میں مرجاؤں تو اسے مجھ سے بہتر زوج عطا کرنا۔ اب میں سوچتی ہوں کہ اگرچہ میں ابو سلمہ سے بہتر فرد کی رفاقت کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی مگر اس سچے ابو سلمہؓ کی دعا سچے اللہ نے قبول کر کے میرا نکاح سب سے سچے اور امین رسول الاوّلین والآخرِینﷺ سے مقدر کر دیا اورسچ کی لاج رکھ لی۔
آپ کے حسن و جمال کا لوگوں سے جب حضرت بی بی عائشہؓ نے سنا اورانہوں نے ام سلمہؓ کو دیکھا تو واقعی یہ دیکھ کر دنگ ر ہ گئیں کہ اس عمر میں بھی جبکہ وہ پانچ بچوں کی ماں تھیں وہ اتنی خوبصورت تھیں کہ دیکھ کر اللہ کی تخلیق اور شان مصوری کی داد دینا پڑے ۔ پھر وہ اپنے باپ ابو امیہ کی طرح انتہائی درجے کی سخی بھی تھیں۔ دوسروں کو بھی سخاوت کی ترغیت دیتی تھیں ۔ ناممکن تھا کہ کوئی سوالی ان کے گھر سے خالی ہاتھ چلاجائے۔ آپؓ نے اپنے غلام سفینہؓ کو اس شرط پر آزاد کر دیا کہ وہ زندگی بھر نبی کریم ﷺ کی خدمت کرے گا۔ پھر آپؓ کوحدیث سننے کا شوق بھی بہت تھا۔ ایک دن بال گندھوا رہی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ ممبر پر تشریف لائے اور خطبہ دینا شروع کیا۔ ابھی زبان مبارک سے یا ایھا الناس ہی نکلا تھا کہ مشاطہ کو حکم دیا کہ بال باندھ دو۔ اس نے کہا اتنی بھی کیا جلدی ہے ابھی تو حضور ﷺ نے یا ایھاالناس ہی فرمایاہے۔ حضرت اُمّ سلمہؓ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ اپنے بال خود باندھے اور برہمی سے بولیں’’رسول اللہ ﷺنے انسانوں سے خطاب کیا‘ کیا ہم آدمیوں میں شامل نہیں ہیں؟‘‘۔ اس کے بعد بڑے انہماک سے خطبہ سنا۔ یہی وجہ ہے کہ ام سلمہؓ سے ۳۷۴ احادیث مروی ہیں۔ فضل و کمال میں حضرت عائشہؓ کے بعد امّھات المومنین میں انہی کا درجہ مانا جاتا ہے۔ قرآن کی قراء ت نہایت عمدہ طریقے سے کرتی تھیں جو حضورﷺ کی قراء ت سے مشابہت رکھتی تھی۔ اللہ تعالی نے انہیں خوبروئی‘ علم‘ذہانت اور اصابت رائے کی نعمتوں سے کافی حصہ دیاتھا۔ علامہ ابن قیم کا بیان ہے کہ حضرت ام سلمہؓ کے فتاویٰ سے ایک چھوٹا سا رسالہ تیار ہو سکتا ہے۔ ان کے فتاویٰ بالعموم متفق علیہ ہیں۔۔۔ الغرض باقی ازواجِ مطہرات میں صرف امّ سلمہؓ ہی حضرت عائشہؓ کے قریب پہنچتی تھیں۔ حدیث کی کتب میں ایک روایت ہے ‘ طبقات ابن سعد حصہ ہشتم میں محمد بن عمر‘ بتحدیث معمر‘ازذہری‘ از ہند بنت حارث فراستیہ کی روایت ہے کہ :’’ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ میرے دل میں عائشہؓ کے لیے ایک گوشہ ہے جس میں کوئی نہیں اترا ۔‘‘ پھر اُمّ سلمہؓ سے نکاح کے بعد آپ ﷺسے پوچھا گیا۔ یا رسول اللہ ﷺ!وہ گوشہ کیا ہوا؟ آپ ﷺخاموش ہو گئے۔‘‘ معلوم ہوا کہ ام سلمہؓ اوپر بیان کی گئی خوبیوں کی بنا پر اس گوشہ میں اتر گئی تھیں۔
حضور ﷺ سے نکاح کے بعد بھی انہوں نے اپنے پہلے شوہر کی اولاد کی نہایت شفقت اور توجہ سے پروش کی ۔ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺسے پوچھا یا رسول اللہﷺ !کیا مجھے ان بچوں کی پرورش کااجر ملے گا۔آپﷺ نے فرمایا: ہاں ملے گا۔
حضرت ابو لبابہ انصاریؓ ایک سادہ دل صحابی تھے۔ غزوہ احزاب کے بعد حضور ﷺ نے بنو قریظہ کے شریر اور بد عہد یہودیوں کے علاقہ کا محاصرہ کیا تو آپ ﷺنے حضرت ابو لبابہ کو یہودیوں سے گفتگو کے لیے بھیجا۔ دوران گفتگو ان سے ایک ایسا اشارہ ہو گیا کہ جس سے متر شح ہوتا تھا کہ یہودیوں کو قتل کیا جا سکتا ہے۔ حضرت ابولبابہ کو بعد میں احساس ہوا کہ انہوں نے مسلمانوں کا یہ راز فاش کر دیا ۔یہ سوچ کر بے حد پریشان ہوئے۔ اپنی غلطی کی تلافی کے لیے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھ دیا اور توبہ استغفار میں مشغول ہو گئے۔
چند دن بعد سرور کائنات محمد ﷺ کا قیام حضرت امّ سلمہؓ کے ہاں تھا۔ صبح اٹھے تو چہرہ اقدس متبسم تھا۔ فرمایا آج ابو لبابہؓ کی توبہ قبول ہو گئی ہے۔
حضرت امّ سلمہ کو بھی بے حد مسرت ہوئی عرض کیا۔ یا رسول اللہﷺ اگر اجازت ہو تو ابولبابہؓ کو خوشخبری سنا دوں۔ فرمایا ہاں اگر چاہوتو سنا دو۔ حضرت ام سلمہؓ اپنے حجرہ کے دروازے پر کھڑی ہو کر پکاریں۔ ابو لبابہؓ مبارک ہو تمہاری توبہ قبول ہو گئی ہے۔ حضرت ابو لبابہؓ سجدہ شکر بجالائے دوسرے صحابہ کرامؓ میں بھی یہ خبر آناً فاناً پھیل گئی اور وہ سب ابو لبابہ کو مبارکباد دینے کے لئے مسجدِ نبوی میں اکٹھے ہو گئے۔
ایک دن نبی کریم ﷺ حضرت امّ سلمہؓ کے گھر تھے کہ آیہ تطہیر انما یرید اللّٰہ لِیذھب عنکم الرجس اھل البیت کا نزول ہوا۔ حضورﷺ نے حضرت فاطمتہ الزہراؓ ‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ‘ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کو بلایا ۔ ان پر اپنا کمبل ڈال دیا اور فرمایا ، بار الٰہا! یہ میرے اہل بیت ہیں۔ حضرت ام سلمہؓ نے پوچھا یا رسول اللہﷺ کیا میں بھی اہل بیت میں سے ہوں۔ فرمایا تم اپنی جگہ پر ہو اور اچھی ہو۔
ایک اور روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا بلٰیان شاء اللہ ہاں‘ اگراللہ نے چاہا۔
۶ ہجری میں رسول ﷺ نے چودہ سو صحابہ کرام کے ہمراہ مکہ کا عزم فرمایا۔قریش نے سنا تو انہوں نے مسلمانوں کی مزاحمت کا ارادہ کر لیا۔ حضورﷺ کو قریش کے عزائم کا علم ہوا تو آپﷺ نے مکہ سے چند میل کے فاصلہ پر حدیبیہ کے مقام پر قیام فرمایا اور حضرت عثمانؓ ذوالنورینؓ کے ذریعے قریش کو پیغام بھیجا کہ ہمارا لڑنے کا ارادہ نہیں ہے صرف عمرہ کرنا مقصود ہے۔ حضرت عثمانؓ کے جانے کے بعد افواہ پھیل گئی کہ قریش نے انہیں شہید کر دیا ہے۔ اس وقت نبی کریمﷺ نے تمام صحابہؓ سے بیعت لی کہ اگر قریش مکہ سے ان کے ظلم کا انتقام لینے کے لیے لڑنا بھی پڑا تو آخری دم تک لڑیں گے ۔ یہ بیعت تاریخ میں بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے۔ اس بیعت کا حال سن کر قریش مرعوب ہو گئے اور انہوں نے درج ذیل شرائط پر مسلمانوں سے صلح کر لی:
ا۔ دس سال تک باہمی صلح رہے گی۔ دونوں طرف سے کسی کی آمد و رفت میں روک ٹوک نہ کی جائے گی۔
۲۔ اگلے سال مسلمانوں کو طواف بیت اللہ کی اجازت ہو گی‘ لیکن طواف کے وقت ان کے پاس کوئی ہتھیار نہ ہو گا۔
۳۔ تمام قبائل مختار ہیں خواہ قریش سے مل جائیں یا مسلمانوں کا ساتھ دیں۔ حلیف قبائل کے بھی یہی حقوق ہوں گے۔
۴۔ اگر قریش کاکوئی شخص مسلمان ہو کر رسولﷺ کے پاس چلا جائے تو قریش کے طلب کرنے پر اسے واپس کر دیاجائے گا لیکن اگر کوئی شحص مرتد ہو کر قریش کے پاس چلا جائے تو قریش اسے واپس نہیں کریں گے۔
رسول اکرم ﷺ نے حکم الٰہی کے تحت یہ شرائط منظور کر لیں‘ لیکن عام مسلمان جو مصلحتِ خداوندی کو نہ سمجھ سکے ‘ان شرائط سے ملولِ خاطر تھے کیونکہ انہیں وہ مسلمانوں کے مفاد کے خلاف معلوم ہوتی تھیں۔ حضورﷺ نے صلح کے بعد مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ یہیں حدیبیہ کے مقام پر اپنے جانوروں کی قربانی کر دیں۔ شکستہ دل صحابہؓ نے قربانیاں دینے میں کچھ تامّل کیا۔ حضور ﷺ اس سے ملول ہوئے۔ حضرت ام سلمہؓ آپﷺ کے ہمراہ تھیں‘ آپ ﷺنے ان سے ذکر کیا تو انہوں نے مشورہ دیا۔’’ یا رسول اللہ ﷺ !مسلمانوں نے آپ ﷺکا فرمان اچھی طرح نہیں سمجھا‘آپﷺ خود باہر نکل کر قربانی کریں‘ بال منڈوائیں اور احرام کھول دیں۔‘‘ حضورﷺ نے حضرت ام سلمہؓ کا مشورہ قبول کر لیا اور کسی سے کچھ کہے بغیر خود ہی قربانی کی اور احرام اتارا۔یہ مشورہ بڑی ذہانت پر مبنی تھا‘واقعی جب صحابہ نے آنحضور ﷺ کو احرام کھولتے دیکھ لیا تو سب نے قربانیاں کیں اوراحرام کھول دیئے۔حضرت امّ سلمہؓ کو سرور کائنات محمد ﷺ سے نہایت عقیدت تھی‘ حضورﷺ کے موئے مبارک تبرکاً چاندی کی ایک ڈبیہ میں محفوظ رکھے تھے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ صحابہ کرامؓ میں سے کسی کو کوئی تکلیف پہنچتی تو وہ ایک پیالہ پانی سے بھر کر ان کے پاس لاتے ‘وہ موئے مبارک نکال کر اس پانی میں حرکت دے دیتیں۔ اس پانی کی برکت سے تکلیف دور ہو جاتی۔مسند احمد میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت ام سلمہؓ نے حضو رﷺ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہﷺ اس کی کیا وجہ ہے کہ ہمارا قرآن میں ذکر نہیں ہے۔ حضورﷺان کی بات سن کر منبر پرتشریف لے گئے اور سورۃ الاحزاب کی آیت ۔\" ان المسلمین والمسلمات والمومنین والمومنات\"۔تلاوت فرمائی اور تقریر کی۔ اس آیت میں عورتوں کا ذکر تمام اعمال صالحہ اور صفات حسنہ کے حوالے سے مردوں کے ساتھ مذکور ہے۔ علامہ ابن سعد کا بیان ہے کہ اا ھ میں حضور ﷺ علیل ہو گئے تو ام سلمہؓ حضورﷺ کی خبر گیری کے لیے اکثر حضرت عائشہؓ کے حجر ے میں جاتی تھیں۔ ایک دن حضور ﷺ کو بہت علیل دیکھا تو ان کی چیخ نکل گئی۔ حضور ﷺ نے منع فرمایا کہ مصیبت میں چیخنا مسلمانوں کے لیے مناسب نہیں ۔ حضرت ام سلمہؓ کی زندگی نہایت زاہدانہ تھی ، عبادت الٰہی سے بڑا شغف تھا۔(رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ) ہر مہینہ میں تین روزے بالالتزام رکھتی تھیں‘ او امرو نواہی کی بے حد پابند تھیں۔ ایک مرتبہ ایک ہار پہن لیاجس میں کچھ سونا بھی شامل تھا۔ حضور ﷺ نے اس کو ناپسند فرمایا تو اس کو اتار ڈالا۔ (یا توڑ دیا )مسند احمد بن جنبل ؒ میں روایت ہے کہ ا۶ھ میں جس دن امام حسینؓ نے اپنے عظیم المرتبت رفقاء کے ساتھ دشتِ کر بلا میں جامِ شہادت نوش کیا‘ حضرت امِ سلمہؓ نے خواب میں دیکھا کہ رحمتِ دو عالمﷺ تشریف لائے ہیں‘ سر اور ریش مبارک غبار آلود ہے اور بہت غمزدہ ہیں۔ حضرت امّ سلمہؓ نے پوچھا ، یا رسول اللہ ﷺکیا حال ہے؟ فرمایا: حسینؓ کے مقتل سے آرہا ہوں۔ حضرت امِ سلمہؓ کی آنکھ کھل گئی۔ بے اختیار رونے لگیں اور بلند آواز سے فرمایا عراقیوں نے حسینؓ کو قتل کردیا ‘ خدا انہیں قتل کرے‘ انہوں نے حسینؓ سے دغا کی‘ خدا ان پر لعنت کرے۔ حضورﷺ کے صلب مبارک سے ان کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ پانچ بچے (دو لڑکے اور تین لڑکیاں ) ا بو سلمہؓ سے تھیں۔ ان کے نام یہ ہیں۔سلمہؓ جو حبشہ میں پیداہوئے ۔ رسول اکرمﷺ نے حضرت حمزہؓ کی دختر امامہ کا نکاح انہی سے کیا تھا۔دوسرا بیٹا عمرؓ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بحرین اور فارس کے عامل ہوئے۔زینبؓ، درہؓ اور رقیہؓ صاحبزادیاں تھیں۔ حضرت امِ سلمہؓ نے ۶۳ھ میں ۸۴سال کی عمر میں وفات پائی ۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔ اللھم اغفرلھا واسکنھافی الجنۃ الفردوس۔ اٰمین۔ ایں دعا ازمن و از جملہ جہاں اٰمیں باد۔
No comments:
Post a Comment