Monday, 25 August 2014

Hazrat Muaz Bin Jabal (R.A.)


پانچویں کہانی

حضرت معاذؓ بن جبل 

یہ کہانی حضرت معاذؓ بن جبل کی ہے جو حلال اور حرام کے متعلق سب سے زیادہ علم رکھنے والے تھے۔ کہانی کی ابتدااس وقت سے کرتے ہیں جب اللہ پاک نے عرب کے ان پڑھ لوگوں میں سے ایک اُمّیﷺ کو جسے لوگ صادق اور امین کی حیثیت سے جانتے تھے اپنا رسولﷺ بنا کر بھیجا۔ اس رسولﷺ کے ذمہ صرف یہ تھاکہ اپنی قوم کو اپنے مالک اللہ کا کلام پڑھ کر سنائے‘ان کا تزکیہ نفس کرے‘ کلام کی تشریح کرے اور انہیں حکمت کی باتیں ا سکھائے ۔ یہ اللہ کی اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس نے اس نعمت کا خاص طور پر بندوں پر اپنا احسان جتلایا۔ پس جب نبی کریم ﷺ کی تعلیم سے جزیرہ عرب رشد و ہدایت اور حق و صداقت کے نور سے چمک اٹھا تو ایک ابھرتے ہوئے یثربی جوان معاذ بن جبل کے خیالات میں طوفان سا برپا ہو گیا۔ وہ اپنے ہم عمر ساتھیوں میں سب سے زیادہ ذہین‘ فطین‘ باہمت اور فصیح البیان تھا۔ فی الواقع وہ شرمیلی آنکھوں، گھنگریالے بالوں‘ چمکیلے دانتوں والا ایک ایسا حسین و جمیل نوجوان تھا کہ اسے دیکھنے والی آنکھیں ٹک ٹک دیکھتی ہی رہ جاتیں اور دیکھنے والے کا دل اس خوبصور ت و دلکش چہرے کو دیکھ کر حیران و ششد ر رہ جاتا۔ حضرت معاذ بن جبل نے رسول اللہ ﷺ کے مقرر کردہ مکی مبلغ حضرت مصعبؓ بن عمیر کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور عقبہ کی رات نبی کریم ﷺ کے دست حق پرست پر بیعت کرنے کا شرف حاصل کیا۔ حضرت معاذؓ بن جبل ان بہتر(۷۲) خوش نصیب اشخاص کے قافلے میں شامل تھے‘ جنہوں نے رسول اللہﷺکی زیارت کی سعادت حاصل کرنے کے لیے مکہ مکرمہ کا قصد کیا تاکہ آپ کی بیعت کا شرف حاصل کر سکیں اور تاریخِ اسلام کے سنہری باب میں اپنا نام درج کرانے کا اعزاز حاصل کر سکیں۔ اس نوجوان نے مکہ مکرمہ سے واپس مدینہ منورہ پہنچتے ہی بتوں کو توڑنے کے لیے اپنے ہم خیال ساتھیوں کا ایک گروپ ترتیب دیا۔ انہوں نے خفیہ اور اعلانیہ کارروائی شروع کر دی۔ ان نوخیز جوانوں کی تحریک سے متاثر ہو کر یثرب کی ایک اہم شخصیت جناب عمروؓ بن جموح نے اسلام قبول کر لیا۔ 
عمروؓ بن جموح بنو سلمہ کا ہر دلعزیز سردار تھا اور اس نے اپنے لیے نہایت عمدہ لکڑی کا ایک بت تیار کروایا ہوا تھا، اور وہ اس کی بڑی دیکھ بھال اور تعظیم کیا کرتا تھا‘ اسے ریشمی کپڑے پہناتا اور قیمتی عطریات ملتا۔ ایک رات اندھیرے میں نوجوان چپکے سے اس کے گھر میں داخل ہوئے اور اس کے بت کو اٹھا کر دبے پاؤں باہر نکلے اور بنو سلمہ کے گھروں کے پیچھے ایک ایسے گڑھے میں پھینک دیا جس میں گندگی تھی۔ 
جب صبح کے وقت سردار عبادت کی غرض سے اپنے بت کے پاس گیا تو اسے غائب پایا‘ ہر جگہ اس کی تلاش کی بالآخر اپنے بت کوایک گڑھے میں گندگی میں لت پت اوندھے منہ پڑا ہوا دیکھا۔ اسے وہاں سے اٹھایا غسل دیا‘ گندگی سے پا ک کیا اور دوبارہ اس کی جگہ پر لا کر رکھ دیا اور عرض کیا اے منات!بخدا ! اگر مجھے پتہ چل جائے کہ تیرے ساتھ یہ بدسلوکی کرنے والا کون ناہنجار ہے تومیں سرعام اسے ایسا رسوا کروں کہ وہ زندگی بھر یاد رکھے گا۔ مگرجب اگلی رات آئی اور سردار نیند میں خراٹے لینے لگا تو ان نوجوانوں نے پھر وہی کام کیا جو پہلی رات سرانجام دیا تھا۔ تلاش بسیار کے بعد سردار عمرو بن جموع کو وہ اسی جیسے ایک دوسرے گڑھے میں اوندھے منہ پڑا ہوا ملا۔ اس نے اسے وہاں سے اٹھایا ‘ غسل دیا‘ صاف ستھرا کیا ‘ عطر لگایا اور ایسا سلوک کرنے والوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی اور سرعام انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کی دھمکی دی ۔ بار بار اس عمل کو دہرایا گیا‘ نوجوان بت کو کنویں میں پھینک آتے اوراس کا پجاری وہاں سے نکال کراُسے غسل دے کر اس کی جگہ پر لا کر رکھ دیتا اور پوجا پاٹ کرتا۔ 
بالآخر تنگ آ کر اس نے اس بت کے گلے میں تلوار لٹکا دی اور اس سے مخاطب ہوا۔ ’’اللہ کی قسم!تیرے ساتھ بدسلوکی کرنے والے کا مجھے علم نہیں‘ اے منات! اگر تم میں طاقت اور ہمت ہے تو ضرور اپنا دفاع کرنا‘یہ تلوار تیرے پاس ہے۔‘‘ جب رات ہوئی‘ سردار نیند کی آغوش میں محو استراحت ہوا‘ نوجوان بت پر ٹوٹ پڑے ۔اس کی گردن میں لٹکتی ہوئی تلوار لی اور ایک مردہ کتے کی گردن کے ساتھ باندھ دی اور دونوں کو ایک ہی گڑھے میں پھینک آئے‘ جب صبح ہوئی سردار نے اپنا بت غائب پایا‘ تلاش شروع کی تو اسے انتہائی بدتر حالت میں ایک گڑھے میں اوندھے منہ پڑا ہوا پایا‘ گندگی سے وہ لت پت تھا اور ساتھ مردہ کتا بندھا ہوا تھا اور اس کی گردن میں تلوار لٹک رہی تھی۔ سردار نے یہ قبیح منظر دیکھا تو ایک شعر پڑھا جس کا مطلب تھا‘:’’اللہ کی قسم! اگر تو الہٰ ہوتا تو توُ اور کتا ایک ساتھ کنوئیں میں نہ ہوتے۔‘‘ بنو سلمہ کے اس سردار نے یہ شعر پڑھنے کے بعد اسلام قبول کر لیا۔ جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو حضرت معاذؓ بن جبل آپﷺ کے ساتھ سائے کی طرح چمٹ گئے۔ آپﷺ سے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی اور شرعی احکامات کا علم حاصل کرنے میں منہمک ہو گئے‘یہاں تک کہ آپؓ صحابہ کرامؓ میں سب سے زیادہ کتاب الٰہی اور شریعت اسلامیہ کا علم رکھنے والے بن گئے اور اپنے علاقہ میں احکام الٰہیہ کی تعلیم دینا شروع کی۔
بہت عرصہ بعد کی بات ہے‘ یزید بن قطیب بیان کرتے ہیں۔ میں ایک روز حمص کی مسجد میں داخل ہوا تو وہاں ایک گھنگریالے بالوں والا وجیہ شخص بیٹھا ہوا تھا اور لوگ اس کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے۔ جب وہ گفتگو کرتا تو یوں معلوم ہوتا جیسے اس کے منہ سے نور کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں اور چار سو موتی بکھر رہے ہیں۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ لوگوں نے بتایا یہ معاذؓ بن جبل ہیں۔ اسی طرح ابو مسلم خولانی بیان کرتے ہیں کہ میں ایک روز دمشق کی مسجد میں گیا۔ وہاں عمر رسیدہ صحابہ کرامؓ کو ایک حلقے میں بیٹھے ہوئے دیکھا اور ان کے درمیان شرمیلی آنکھو ں اور چمکیلے دانتو ں والا ایک نہایت وجیہ شخص جلوہ افروز تھا۔ جب کبھی کسی مسئلہ میں اختلاف پیدا ہوجاتا تو وہ اس کی طرف رجوع کرتے ۔میں نے ایک ہم نشین سے پوچھا یہ کون ہے۔ اس نے بتایا یہ حضرت معاذؓ بن جبل ہیں۔ 
اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں‘ حضرت معاذؓ بن جبل کی بچپن سے ہی مدرستہ الرسولﷺ میں تربیت ہوئی تھی اور رسول اقدسﷺ کے چشمہ علم سے خوب اچھی طرح سیراب ہوئے تھے اور انہوں نے اسی چشمہ صافی سے علم و عرفان کے جام پیئے تھے۔ یہ ایک بہترین معلم کے بہترین شاگرد تھے۔ حضرت معاذؓ بن جبل کے لیے یہ سند کافی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ان کے متعلق یہ ارشاد فرمایا میری امت میں حلال و حرام کے متعلق سب سے زیادہ علم رکھنے والا معاذؓبن جبل ہے۔ ان کے شرف و فضل کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ان چھ خوش نصیب افراد میں سے ہیں جنہوں نے رسولﷺ کے عہد مبارک میں قرآن جمع کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ اسی لیے صحابہ کرامؓ کی کسی مسئلہ پر باہمی گفتگو کے دوران اگر وہاں حضرت معاذؓ بن جبل ان میں موجود ہوتے تو ان کی طرف بڑے احترام سے دیکھتے اور ان سے رائے لیتے۔
رسول اکرم ﷺ کے بعد سید نا صدیق اکبرؓ اور سید نا عمر فاروقؓ نے اپنے عہد خلافت میں اس نابغہ عصر علمی شخصیت سے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا کا م لیا۔ نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے بعدجب دیکھا کہ قریش گروہ در گروہ دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں تو ان نئے مسلمانوں کے لیے ایک تجربہ کار معلّم کی ضرورت محسوس ہوئی جو انہیں اسلام کی تعلیم دے اور شرعی احکام سمجھائے۔ آپﷺ نے سید عتاب بن اسید کو مکہ کا گورنر مقرر کیا اور ان کے ساتھ حضرت معاذؓ بن جبل کو وہیں رہنے دیا تاکہ وہ لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیم اور دینی احکامات سکھائیں۔ جب شاہان یمن کے ایلچی رسول اقدسﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ انہوں نے آپﷺ کے روبرو اپنے مسلمان ہونے اور ماتحت دیگر یمنیوں کے مسلمان ہونے کا اعلان کیا اور یہ درخواست کی کہ ان کے ہمراہ کچھ ایسے حضرات بھیجے جائیں جو نئے مسلمانوں کو اسلام کی تعلیم دیں‘ آپﷺ نے اس مشن پر بھیجنے کے لیے چند ایک مبلغین کو منتخب کیا اور ان کا امیر حضرت معاذؓ بن جبل کو مقرر کیا، نبی اکرم ﷺ اس رشد و ہدایت پر مشتمل مبلغین کی جماعت کو الوداع کرنے کے لیے خود مدینہ کے باہر تک تشریف لے گئے۔ نبی اکرم ﷺ پیدل چل رہے تھے اور حضرت معاذؓ بن جبل اونٹنی پر سوار تھے ۔ آپﷺ دیر تک ان کے ساتھ ساتھ چلتے رہے کیوں کہ آپ ﷺحضرت معاذؓ سے بہت ساری باتیں کرنا چاہتے تھے۔ معاذؓ نے عرض کیا:’’ میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان ہوں‘ میں بھی اونٹنی سے اتر کر آپ ﷺکے ساتھ پیدل چلتا ہوں یا آپﷺ بھی سوار ہو جائیں۔‘‘ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ تم بیٹھے رہو بس میری باتیں توجہ سے سن کر پلے باندھ لو۔‘‘ دوسری مرتبہ نبی کریم ﷺ نے یمن جیسے ترقی یافتہ علاقہ کا حضرت معاذؓ کو گورنر اور قاضی مقرر کیا تو ان سے پوچھا کہ اگر تمہارے پاس کوئی مسئلہ آئے یا مشکل درپیش ہو تو کیسے فیصلہ کرو گے ؟ تو انہوں نے عرض کیا اللہ کی کتاب سے‘ آپ ﷺنے فرمایااگر قرآن سے فیصلہ نہ کر سکو تو معاذؓ نے عرض کیا کہ آپ ﷺکی سنت سے‘ پھر پوچھا کہ اگر سنت سے بھی نہ ملے تو ‘ عرض کیا اپنی رائے سے اجتہاد کروں گااور کوئی کسر نہ ا ٹھارکھوں گا۔ آپﷺ نے ان کے سینہ پر اپنا دست مبارک پھیرا اور فرمایا اللہ کا شکر ہے کہ جس نے اپنے رسول کے قاصد کو اس چیز کی توفیق فرمائی جو اللہ کے رسول کو پسند ہے۔ اصل میں حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ میری نظر میں کوئی ایک شخص ایسا نہیں جو حضورﷺ سے زیادہ اپنے رفقاء سے مشورہ کرنے والاہو۔ اسی روحِ مشاورت نے صحابہؓ میں قیاس اور اجتہاد کا جوہر پیدا کیا اور معاذؓ بن جبل اسی مبارک مجلس سے فیضاب ہوتے تھے۔ 
رسول اللہ ﷺ نے انہیں وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ اے معاذؓ ہوسکتا ہے کہ تم مجھے پھر نہ مل سکو۔ حضرت معاذؓ بن جبل اپنے محبوب نبی حضرت محمد ﷺ کے فراق سے غمزدہ ہو کر زار و قطار رونے لگے اور آپﷺ کے ساتھ دیگر ساتھی بھی سسکیاں لینے لگے۔ رسول اکرم ﷺ کی یہ خبر مبنی بر صداقت تھی۔ اس کے بعد حضرت معاذؓ کو رسول اقدس ﷺ کی زیارت کی دولت پھر نصیب نہ ہو سکی‘حضرت معاذؓ کے یمن سے واپس لوٹنے سے پہلے ہی رسول اکرم ﷺ اپنے اللہ کو پیارے ہو گئے۔ جب حضرت معاذؓ مدینہ منورہ واپس لوٹے تو رسول اللہ ﷺ کے فراق میں دھاڑیں مار کر رونے لگے۔ جب حضرت عمرؓ بن خطاب خلیفہ بنے تو آپؓ نے حضرت معاذؓ کوبنو کلاب کی طرف بھیجا تاکہ وہ اغنیاء سے صدقات وصول کر کے ان کے فقراء و مساکین میں تقسیم کریں۔ آپؓ نے اس ذمہ داری کواچھی طرح نبھایا۔ آپؓ جب اپنی بیوی کے پاس آئے تو انہو ں نے مفلر کے طورپر اپنی گردن پر وہ ٹاٹ لپیٹ رکھا تھا جسے عام طو ر پر گھوڑے کی زین کے نیچے بچھایا جاتا ہے۔ بیوی نے کہا وہ تحائف کہاں ہیں جو منصب دار اپنے گھر والوں کے لئے لاتے ہیں؟آپؓ نے فرمایا: میرے ساتھ ایک بیدار مغز چوکس نگہبان تھا جو میری ہر ایک حرکت کو نوٹ کرتا تھا۔ بیوی نے حیران ہو کر کہا : رسول اللہﷺ اور حضرت ابو بکر صدیقؓ کے نزدیک تو آپؓ امین تھے‘ پھر حضرت عمرؓ خلیفہ بنے تو انہوں نے آپؓ پر ایک نگہبان کیوں مقرر کر دیا۔ یہ خبر حضرت عمرؓ کی بیویوں میں پھیل گئی‘اس لیے کہ ان سے حضرت معاذ بنؓ جبل کی بیوی نے دکھ بھرے انداز میں شکوہ کیا تھا۔ جب یہ بات حضرت عمرؓ تک پہنچی تو انہوں نے حضرت معاذؓ بن جبل کو بلایا اور پوچھا ۔ اے معاذؓ! کیا میں نے تمہاری نگرانی کے لیے کوئی نگہبان مقرر کیا تھا۔ عرض کیا نہیں یا امیر المومنین ۔دراصل مجھے اپنی بیوی کے سامنے پیش کرنے کے لیے اس کے علاوہ کوئی عذر نہیں ملا تھا۔ حضرت عمرؓ یہ با ت سن کر ہنس پڑے اور اپنے پاس سے کچھ تحائف دیئے اور فرمایا ‘ جاؤ یہ تحائف دے کر بیوی کو راضی کر لو۔ 
فاروق اعظمؓ کے دور خلافت میں شام کے گورنر یزید بن ابی سفیان نے درخواست کی’’ امیر المومنین شام میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھ چکی ہے‘ اب ان کے لیے ایسے افراد کی ضرورت ہے جو انہیں قرآن مجید کی تعلیم دیں اور دینی احکام سکھائیں ۔امیر المومنین آپ اس سلسلے میں میری مدد فرمائیں۔حضرت عمرؓ نے ان پانچ صحابہ کرامؓ کو بلایا جنہوں نے عہد نبوت میں قرآن مجید جمع کیا تھا‘ اور وہ تھے حضرت معاذؓ بن جبل‘ حضرت عبادہؓ بن صامت ‘ حضرت ابو ایوب انصاریؓ ،حضرت ابیؓ ؓ بن کعب اور حضرت ابو درداؓ ۔ آپؓ نے ان سے کہاکہ شام میں رہائش پذیر آپؓ کے مسلمان بھائیوں نے مجھ سے یہ مدد طلب کی ہے کہ ایسے افراد ان کے پاس بھیجے جائیں جو ان کو قرآن مجید کی تعلیم دیں اور دینی احکامات سکھائیں‘اس سلسلے میں آپؓ مجھ سے تعاون کریں۔ اللہ آپؓ پر اپنی رحمت کی بارش برسائے۔ میں تم میں سے تین اشخاص کو اس مشن پر بھیجنا چاہتا ہوں اگر چاہو تو قرعہ ڈال لو یا میں تم میں سے تین احباب کو خود نامزد کر دیتا ہوں۔ 
انہو ں نے کہا: 
قرعہ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟ 
حضرت ابو ایوبؓ بوڑھے ہو چکے ہیں۔
حضرت ابیّ بن کعبؓ بیمار ہیں۔ 
باقی ہم تین رہ گئے ہیں۔
امیر الموئمنین نے فرمایا‘حمص سے تعلیم کا آغاز کرنا ۔جب تم باشندگان حمص کی حالت سے مطمئن ہو جاؤ تو اپنے میں سے ایک کو یہیں چھوڑ دینا۔ تم میں سے ایک دمشق چلا جائے اور تیسرا فلسطین روانہ ہو جائے ۔ یہ تینوں صحابہؓ اتنی دیر حمص میں رہے‘ جتنی دیر رہنے کے لیے انہیں حضرت عمرؓ نے حکم دیا تھا۔ پھر وہاں حضرت عبادہؓ بن صامت کو چھوڑا ۔ حضرت ابو دردا ءؓ دمشق روانہ ہو گئے اور حضرت معاذؓ بن جبل فلسطین چلے گئے۔وہاں پہنچ کرحضرت معاذؓ بن جبل ایک وبائی مرض میں مبتلا ہو ئے ۔ جب موت کا وقت قریب آیا تو قبلہ رخ ہو کر بار بار یہ ترانہ الاپنے لگے۔ 
مرحبا بالموت مرحبا زائر جاء بعد غیاب وحبیب وفد علی شوق
(خوش آمدیدموت کو خوش آمدید‘ بڑی غیر حاضری کے بعد ملاقاتی آیا ہے اور محبوب شوق کی سواری پر آیا ہے۔) پھر آسمان کی طرف دیکھ کرکہنے لگے‘ الٰہی تو جانتا ہے کہ میں نے کبھی دنیا سے محبت نہیں کی اور نہ ہی یہاں درخت لگانے اور نہریں چلانے کے لیے زیادہ دیر رہنے کو پسند کیا۔ الٰہی ٰ ! میری طرف سے اس نیکی کو قبول فرما جو تو کسی مؤمن کی جانب ے قبول کرتا ہے اور پھر اپنے وطن اہل خانہ سے دور دعوت الی اللہ اور ہجرت فی سبیل اللہ کی حالت میں ان کی پاکیزہ روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ اللہ ان سے راضی اور وہ اپنے اللہ سے راضی ہوں۔ یوں حضرت معاذؓ بن جبل نے آخردم تک اپنے محبوب محمد مصطفیٰ ﷺسے وفا کا عہد نبھایا۔یہ وہ مبارک ہستی تھی جس نے رسولِ اللہ ﷺکی زبان مبارک سے اپنے حق میں توصیفی کلمات سنے۔ آپ ﷺکی وصیت پر عمل کیا اور حضور ﷺ کی ان کے حق میں یہ سند کافی ہے کہ میری امت میں معاذؓ بن جبل حلال و حرام کے متعلق سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہے۔ نیز آپﷺ نے حضرت معاذؓ کو یہ دعا دی، اللھم اغفرلہ وارفع درجاتہ ۔ اور معاذؓ بن جبل سے روایت ہے کہ ان رسول اللّٰہ علیہ وسلم اخذ بیدی وقال ۔یا معاذ واللّٰہ انی لأ حِبّکَ و اَوصِیک یا معاذ لا تدعن فی دبر کل صلاۃ تقول اللھم اعنّی علیٰ ذکرک وشکرک وحسن عباد تک (سنن ابو داؤد، سنن نسائی)۔
نبی ﷺ کے ایسے محبوب جن کے حوالے سے مسلمان وصیتِ رسول ﷺکے مطابق ہر نماز کے بعد اللھم اعنّی علیٰ ذکرک وشکرک وحسن عبادتک ۔ یہ دعا پڑھتے ہیں ان کا درجہ کتنا بلند ہو گا‘کوئی اندازہ کر سکتا ہے؟ دعا ہے اللہ ان کو اپنے خاص مقربین کے ساتھ اپنے نزدیک بلند ترین مقام مرحمت فرمائے آمین!ایں دعا از من وازجملہ جہاں آمیں باد

No comments:

Post a Comment