پہلی کہانی
حضرت عمّارؓ ، ان کے والد یاسرؓ اور والدہ سمیہؓ
یہ کہانی ان تین مسکین غلاموں کی ہے جنہوں نے حضور ﷺ کے ساتھ وفاداری کا جو عہد باندھا تھا، اسے جان کا نذرانہ دے کر نبھایا اور اسلام کی خاطر اوّلین شہداء کا مرتبہ بلند پایا۔
مشرکینِ مکہ جن کے پیش پیش ابو جہل ہوتا‘ ان تینوں (حضرت عماّرؓ ‘ ان کے والد حضرت یاسرؓ اور والدہ سمیہؓ ) کو چلچلاتی دھوپ میں جبکہ شدتِ تپش سے زمین خوب گرم ہو جاتی‘ انہیں گرم زمین پر لٹا کرسخت سزائیں دیا کرتے تھے۔ جب رسول ﷺ کا گزر ان کے پاس سے ہوتا اور آپﷺ انہیں اسلام کی خاطر سخت ایذائیں برداشت کرتے ہوئے دیکھتے تو فرماتے :
’’ اصبر والِ یاسر فاِنِّ مؤعدکم الجنّۃ‘‘(آل یاسر!صبر سے کام لو۔ بیشک تمہارے وعدے کی جگہ جنّت ہے۔)
اس دردناک عذاب کی تاب نہ لا کر حضرت یاسرؓ دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے اور ابوجہل نے ان کی اہلیہ حضرت سمیہ ؓ کو نیزہ مار کر شہید کر ڈالا۔ اسلام میں خلعت شہادت سے سرفراز ہونے کی سعادت سب سے پہلے اسی خاتون کے نصیب میں آئی۔ پھر اس کے بعد کفاّر مکہّ نے حضرت عمارؓ کو طرح طرح کے عذاب دینا شروع کئے‘ کبھی تو ان کو گرم پتھریلی زمین پر لٹا کر ‘ کبھی ان کے سینے پر گرم چٹان رکھ کر اور کبھی پانی میں ڈبکیاں دے کر انہیں اذیت سے دو چار کر تے اور کہتے۔
\"جب تک توُ محمد ﷺ کے لیے نامناسب الفاظ نہیں کہے گا اور ہمارے معبودوں کو اچھے الفاظ سے یاد نہیں کرے گا ہم تجھے نہیں چھوڑیں گے۔\"
حافظ ابنِ کثیر ؒ نے ابن جریرؒ سے نقل کیا ہے کہ مشرکین مکہّ حضرت عماّر بن یاسر ؓ کو جب سخت سے سخت سزائیں دینے لگے تو انہوں نے مشرکوں کے مطالبے پر چند نامناسب باتیں رسول اللہ ﷺ کی شان میں کہہ دیں۔ پھر انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس بات کا رو کر اعتراف کیا کہ مشرکین جب مجھے مارتے اور سخت ترین عذاب میں مبتلا کرتے ہیں تو اس وقت میں ان کے مطالبے پر آپﷺ کی شانِ اقدس میں چند گستاخانہ کلمات کہہ دیتا ہوں۔
آپ ﷺ نے دریافت فرمایاکیفَ تجدُ قلبک یعنی اس وقت تم اپنے دل کو کیسے پاتے ہو۔
حضرت عماربن یاسرؓ نے عرض کیا۔
’’مطمئناً بالایمان‘‘ ۔ یعنی میرا دل ایمان سے سرشار ہوتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا فاِ ن عادُوا فعدیعنی اگر وہ پھر اسی طرح اذیت دے کر مطالبہ کریں تو تم بھی اسی طرح ان کا مطالبہ مان کر گستاخانہ کلمات کہہ کر جان چھڑا لینا۔ (تفسیر طبری ۔۷۲ا ص ۳۰۴ ، مستدرک حاکم ۲۲ ص ۹۵۷)
اس وقت اللہ تعالی نے رسول ﷺ پر یہ آیت نازل فرمائی’’من کفر باللہ من بعد ایمانہ ا لا من اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان ولکن من شرح بالکفر صدراً فعلیھم غضب من اللہ ولھم عذاب عظیم۔ (النحل ، آیت۰۶ا)
ترجمہ ۔ جو شخص ایمان لانے کے بعد جان بوجھ کر اللہ سے کفر کرے اس پر تو اللہ کا غضب ہے اور وہ عذاب عظیم کا مستحق ہے مگر جسے مجبور کیاجا ئے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو اس پر کوئی گناہ نہیں۔
بلا ذری نے محمد بن کعب سے بیان کیا ہے۔
کان عما ر یعذب حتٰی لا یدری ما یقُول
(عمارؓ کو اتنا سخت عذاب دیاجاتا کہ وہ حواس کھو بیٹھتے اور انہیں معلوم نہ ہوتا کہ ان کی زبان سے کیا کچھ نکل رہا ہے)۔
ابن سعد نے محمد بن کعب کے حوالے سے لکھا ہے۔ مجھے اس آدمی نے بتایا ہے جس نے عماّرؓ کو صرف پاجامہ پہنے ہوئے دیکھا ۔ اس آدمی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عمارؓ کی پشت پر زخموں کے آثار دیکھے اور پوچھا یہ کیا ہے تو انہوں نے فرمایا ۔
’’مکہ کی گرم ریت پر لٹا کر قریش مجھے جو سزائیں دیتے تھے یہ اسی کے آثار ہیں‘‘۔
قریش کے سربر آوردہ اشخاص میں عمرو بن ہشام المعروف ابو جہل اورعمر ابن الخطاب اسلام اور نبی کریم ﷺ کی دشمنی میں سب سے زیادہ سرگرم تھے ،اس لیے نبی کریم ﷺ نے خصوصیت کے ساتھ ان ہی دونوں کے لیے اسلام کی دعا فرمائی اللّھم اعزا لا سلام با حد الرجلین اما عمرو بن ہشام واما عمربن خطاب ۔ ابن ہشام کو اللہ نے رد کیا اور عمرؓ بن خطاب کو اسلام کی خدمت کے لیے چن لیا۔نتیجہ یہ ہو ا کہ عمرو بن ہشام جو مردانگی‘ بہادری‘ خود داری‘ جوانمردی اور دیگر خوبیوں میں بنو عدی کے عمرؓ بن خطاب کے ہم پلہ سمجھا جاتا تھا اور جسے لوگ اس کی دانائی کی وجہ سے ابو الحکم کہتے تھے وہ اللہ کے رسول ﷺ اور دین اسلام کی دشمنی کی وجہ سے مردود ٹھہرا اور ’’ابو جہل‘‘ کے لقب سے تاریخ میں مشہور ہوا اور نبی کریم ﷺ نے اس کو اپنی امت کے فرعون کا نام دیا۔ ۔۔۔۔۔اسی ابو جہل جو امّت کا فرعون تھا‘اسی بدبخت کے متعلق جب سنتے ہیں کہ اس نے مظلوم و مسکین ،غریب و نادار اور لا چار لونڈی حضرت سمیہّ زوجہِ حضرتِ یاسر اور والدہِ حضرتِ عمارؓ کو زیر ناف نیزہ مار کر صرف اس لیے موت کے گھاٹ اتار دیاکہ وہ کہتی تھیں کہ میرا رب اللہ ہے ‘تو انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ اگر اس امّت کے فرعون نے یہ حرکت پس پردہ بھی کی ہوتی تب بھی وہ قابلِ سرزنش اور قابل ملامت ہوتا اور انسانیت اسے بخشنے کو کبھی تیار نہ ہوتی!پھر ایسی صورت میں اس کا جرم کس قدر قابل ِ نفرت اور گھناؤنا ہو جاتا ہے جبکہ اس نے یہ سب کچھ قریش کی آنکھوں کے سامنے کیا؟ ساتھ ہی اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ مکہّ کی اشرافیہ میں کسی ایک شخص نے بھی ابو جہل سے بازپرس نہ کی‘ نہ اسے شرمندہ کیا نہ اس گھناؤنے جرم کو جرم ہی سمجھا ۔پس ایسے معاشرے میں جب اسلام دینِ رحمت بن کر آیاتو کیوں نہ کروڑوں درود و سلام ہوں نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس پر اور کیوں نہ سب تعریف ہو واسطے اللہ تعالیٰ کے جس نے نسلِ انسانی کی ہدایت کے لیے اپنے محبوب ترین رسول ﷺ کو مبعوث فرماکر اس دینِ اسلام کو ہمارے لیے پسند فرمایا ‘ فالحمد اللہ رب العالمین ۔
ایسے ظالم اور بے حس معاشرے میں جب مسکین اور لاچار غلام حضرت یاسرؓ اور ان کی غریب نادار اور لاچار بیوی حضرت سمیہّؓ نے نبی کریم ﷺسے وفاداری کا باندھا ہوا عہد جس جراء ت وجسارت کے ساتھ اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر نبھایا، ان کے لیے اللہ تعالی کے ہاں کتنا بڑا اجر ہو گا کروڑوں رحمتیں ہوں آلِ یاسر پر جنہوں نے اسلام میں سب سے پہلے شہادت کی خلعت پائی۔
حضرت عمار بن یاسرؓ نبی کریم ﷺکی نگاہ میں کتنا بلند مقام رکھتے تھے‘ اس حوالے سے چند ایک مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
ا۔ ایک مرتبہ حضور ﷺ نے حضرت خالدؓ بن ولید کو امیر بنا کر کسی مہم پہ بھیجا ۔ حضرت عماّر بن یاسرؓ بھی اس میں شریک تھے۔ انہوں نے حضرت خالدؓ بن ولید سے پوچھے بغیر ایک شخص کو اسلام کا اقرار کرنے پر پناہ دے دی‘ اس پر حضرت خالدؓ سے ان کی تکرار ہو گئی اور نوبت سخت کلامی تک پہنچ گئی۔ حضرت عمارؓ نے مدینہ منورہ پہنچ کر بارگاہِ رسالت ﷺمیں حضرت خالدؓ کی شکایت کی۔ اسی اثنا میں حضرت خالدؓ بھی پہنچ گئے اور اپنے خلاف شکایت سن کر حضرت عمارؓ کو سخت سست کہنے لگے۔ حضور ﷺ نے اس پر ان الفاظ سے ناراضی کا اظہار فرمایا کہ جو شخص عمارؓ سے بغض رکھتا ہے وہ مجھ سے بغض رکھتا ہے اور اللہ سے بغض رکھتا ہے ۔ حضرت خالدؓ ارشاد نبوی سن کر کانپ اٹھے۔ اسی وقت حضرت عمارؓ سے بار بار معافی مانگنے لگے ۔لیکن وہ اس قدر رنجیدہ تھے کہ مجلسِ نبوی سے اٹھ کر چل دیئے۔ حضرت خالدؓ بھی ان کے پیچھے پیچھے چلے گئے اور اس قدر منت سماجت کی کہ بالآخر وہ راضی ہو گئے۔ خود ان کا بیان ہے کہ جب میں رسول ﷺ کے پاس سے اٹھا تو عماّرؓ کو راضی کرنے سے بڑھ کر کوئی چیز مجھ کو محبوب نہ تھی۔
۲۔ دوسرا واقعہ حضرت عماّرؓ کے رتبہ بلند کے حوالے سے یہ ہے کہ جب جنگ صفیّن کا سلسلہ شروع ہوا تو امیر معاویہؓ نے حضرت عمروؓ بن العاص کو اپنی فوج کا سپہ سالار بنایا۔ اثنائے جنگ میں حضرت عماّرؓ بن یاسرؓ جو حضرت علیؓ کے پر جوش حامی تھے‘ شہید ہوگئے تو دو شخص جھگڑتے ہوئے امیرمعاویہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہر ایک کا دعویٰ تھا کہ اس نے عماّر بن یاسرؓ کو شہید کیا ہے۔ اس لئے وہی انعام کا حقدار ہے ۔ حضرت عمرؓو بن العاص بھی اس موقعہ پر موجود تھے ۔ ابنِ سعد ؒ کا بیان ہے کہ حضرت عمارؓ کی شہادت کی خبر سن کر وہ سخت دل گرفتہ ہوئے اور فرمایا:۔ ’’اللہ کی قسم! یہ دونوں جہنم کے لیے جھگڑرہے ہیں‘‘۔ امیرمعاویہؓ کو یہ بات ناگوار گزری اور انہوں نے فرمایا عمروؓ! تم ان لوگوں کے لیے ایسا کہتے ہو جو ہماری خاطر اپنی جانیں لڑا رہے ہیں۔
حضرت عمروؓ بن العاص نے ایک آہ بھری اور کہا کاش آج سے بیس برس پہلے مجھے موت آگئی ہوتی۔ امیر معاویہؓ نے کہا عماّرؓ کے قتل کے ہم ذمہ دار نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو ان کو میدانِ کار زار میں لائے۔ اس طرح بات رفت گزشت ہو گئی۔ تاہم حضرت عمارؓ بن یاسرؓ کا مقام جس طرح اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اورنبی کریم ﷺ کی نگاہ میں بلند تھا اسی طرح اکابر اصحاب کی نگاہ میں بھی نہایت بلند تھا۔ پس اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ حضرت عمارؓ بن یاسرؓ کو جنّت الفردوس میں بلند ترین مقام عطا فرمائیں اور سا تھ ہی ان کے تمام قدر دان ساتھیوں کو بھی ۔
آخر میں ایک اور واقعہ کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے سورۃ الکھف میں نبی کریم ﷺ کو حکم دیا ۔ اے حبیب !مکہ کے مشرک رئیس تو چاہتے ہیں کہ آپ کی مجلس میں کم تر درجہ کے غلام عبداللہؓ بن مسعود‘ عمارؓ بن یاسر‘ بلالؓ اور صہیبؓ جیسے لوگ جو بیٹھے ہوئے ہیں ان کو علیحدہ کر دیں تو ہم آپ ﷺکے پاس بیٹھ کر بات کرنے کو تیار ہیں۔ مگر حبیب !آپﷺ اپنے سے ان کو جدا نہ کریں‘انہی کے ساتھ رہیں‘ یہ وہ لوگ ہیں جو میرے دیدار اور خوشنودی حاصل کرنے کے شوق میں نہایت اخلاص کے ساتھ صبح و شام دائماََ مجھے پکارتے ہیں‘ محبت سے یاد کرتے ہیں‘ ذکر کرتے ہیں‘ قرآن پڑھتے ہیں‘ نمازوں پر مداومت رکھتے ہیں‘ حلال و حرام میں تمیز کرتے ہیں‘ خالق و مخلوق دونوں کے حقوق پہچانتے ہیں۔ ایسے مومنین مخلصین کو اپنی صحبت و مجالس سے مستفید کرتے رہییّ‘ کسی کے کہنے سننے پر ان کو اپنی مجلس سے علیحدہ نہ کیجئے اور ان غریب‘ شکستہ حال مخلصین کو چھوڑ کر موٹے موٹے متکبر دنیاداروں کی طرف اس غرض سے نظر نہ اٹھائیے کہ ان کے مسلمان ہو جانے سے اسلام کو بڑی قوت حاصل ہو گی۔اسلام کی اصل عزّت و رونق مادی خوشحالی اور چاندی سونے کے سکوں سے نہیں‘ مضبوط ایمان و تقویٰ اور اعلیٰ درجے کی خوش اخلاقی سے ہے۔ دنیا کی زینت محض فانی اور سایہ کی طرح ڈھلنے والی ہے۔ حقیقی دولت تقویٰ اور تعلق باللہ کی ہے جسے نہ شکست ہے نہ زوال۔
اسی بیان پر نبی کریم ﷺ کے ساتھ وفا کا عہد نبھانے والے ان تین مساکین حضرت یاسرؓ ‘ حضرت سمیہؓ اور حضرت عماّرؓ بن یاسرؓ کی کہانی اختتام پذیر ہوتی ہے۔ دعا ہے اللہ پاک انہیں جنت الفردوس میں بلند مقام نصیب فرمائیں۔ آمین!
No comments:
Post a Comment