Saturday, 13 September 2014

Imam Ibn Taymiyyah


نویں کہانی

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ 
یہ کہانی اسلامی تاریخ کے نہایت نمایاں صاحبِ سیف و قلم‘ ساتویں صدی ہجری میں تجدید دین کی علمدار شخصیت کی ہے جن کا نام احمد‘ کنیت ابو العباس اور لقب تقی الدین ہے۔جن معاشروں میں علم و فضل کی قدر کی جاتی ہے انہی معاشروں میں اہل علم پیدا ہوئے اور ابھرے ہیں۔ ان مایہ نازامام اور بے مثال فقیہ احمد بن عبدالحلیم جن کی نویں پشت میں ایک نادرِ روزگار عالمہ تیمیہ نام کی گزری تھیں،پس ان امام صاحب نے بھی اپنے اکابر کی طرح اپنی پہچان اور نسبت میں ان خاتون محترم سے تعلق کو سلامت رکھا۔ اپنے اصل نام کی بجائے ابن تیمیہ ہی کہلائے۔ بلا شبہ آپ صحابی تو نہ تھے کہ آپ کا زمانہ ہی کم از کم ساڑھے چھ صدی بعد کا ہے، مگر دینِ رسولِ عربیﷺ کے اندر جو بدعات جڑ پکڑ چکی تھیں‘ ان کو ختم کر کے اسلام کو اپنی فطری سادگی اور توحید کی لا شریک بنیادوں پر پھر سے محکم کرنے کا حق جس طرح آپ نے ادا کیا‘آپ کا وہ مجد د انہ کام ہمیشہ کے لیے بے مثال اور یادگار نام بن گیا۔ جب اس دینِ اسلام کو بے حد گدلا کر کے اس کی اصل یعنی توحید باری تعالیٰ ہی کو لوگوں نے اپنی زندگیوں سے نکال کر شرک اور بت پرستی ہی کو دین سمجھ لیا‘ مساجد کی اہمیت کم ہو چکی تھی‘ سارے ملک میں جعلی قبروں اور مزارات کا جال بچھ گیاتھا، اس کے ساتھ ساتھ یونانی فلسفیانہ روایات کا دین میں اس حد تک نفوذ ہوا کہ ارسطو کی عظمت اور اس کا تقدس مسلمانوں کے دلوں میں گھر کر گیا۔ مزید براں علم کلام‘ غیر اسلامی تصوف اور فرقہ باطنیہ اورعیسائی مشنری کی یلغار کے نتیجہ میں دین اسلام کا اصل چہرہ ہی بگڑ چکا تھا‘اس وقت امام ابن تیمیہ کو اللہ پاک نے اس بگاڑ کی اصلاح کے لیے گویا چن لیا تھا۔
ع۔ ہر کسے را بہرِ کارے ساختند
اس ساتویں آٹھویں صدی ھجری میں ا مام ابن تیمیہ نے تجدید دین کا وہ شہرہ آفاق کا رنامہ سرانجام دیا جس کابعد میں آنے والے علمائے حق نے کھلے دل سے اعتراف کیا۔ دین اسلام کی تجدید کا یہ مقدس کارنامہ جو امام صاحب نے سرانجام دیا‘ وہی آپ کے نام اور کام کو بزرگوں کے ساتھ جوڑ دینے کو کافی ہے۔ تجدید دین کے حوالے سے امام صاحب کی سعی مسلسل کا بیان آگے وقت کی ترتیب کے ساتھ آئے گا۔ مگر قبل اس کے کہ امام صاحب کے تجدیدی کام پر نگاہ ڈالی جائے‘یہ جاننا ضروری ہو گا کہ اس وقت مسلمانوں کی فکری و اخلاقی حالت کیسی تھی اور آپ کو احیائے دین کے کام کی ضرورت کیوں پڑی۔ آٹھویں صدی ہجری کے حالات کا بغور جائزہ لیاجائے تو اندازہ ہو تا ہے کہ اسلام کی سادہ اور عام فہم تعلیمات کی جگہ مختلف پیچیدہ نظریات نے لے لی تھی۔ ان باطل نظریات کو اپنانے والوں کے اپنے اپنے گروہ تھے اور انہوں نے امتِ مسلمہ کو یر غمال بنا رکھا تھا۔ دین کا اصل چہرہ بگڑ چکا تھا اور آئے دن نئے نئے فتنے سر اٹھاتے رہتے تھے۔اس وقت کا حال یہ تھا کہ قبروں سے مرادیں مانگی جاتیں‘ فلسفیانہ سوچ یونانی فلسفوں کے تابع کی جاچکی تھی۔ تصوف میں ایسی ایسی لغویات شامل ہو چکی تھیں کہ تصوف شریعت کا دشمن بن چکا تھا۔صوفیاء کے اندر نئے نئے فرقے مشرکانہ عقائد کی علمبرداری کرنے لگے تھے۔ان سب کے ساتھ عیسائی مشنریوں کی روز افزوں پیش قدمی تھی جو مسلمانوں کو ارتداد یا تشکیک کی طرف برابر لے جا رہی تھی۔ اب امام صاحب کی خدمات پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
شرک اور قبر پرستی 
عالمِ اسلام میں غیر مسلم اقوام کے اختلاط کی وجہ سے نقلی پیروں‘ فقیروں کے مشرکانہ عقائد و رسوم کا رواج عام ہو چلا تھا ۔ بہت سے لوگوں نے فوت شدہ پیروں کو خدا کا درجہ اور اس زندہ پیر کو جو اس قبر کا مجاور ہوتا‘ پیغمبر کا مرتبہ دے رکھا تھا۔یہ لوگ صاحب قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور مغفرت طلب کرتے۔ اپنے ائمہ اور شیوخ کی زیارت کو حج بیت اللہ سے افضل سمجھتے ۔ ان کی بیباکی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ اپنے جانوروں کو بسم اللہ کے بجائے ذبح کرتے وقت کہتے، ’’میرے آقا کے نام سے‘‘ ۔ اس قبر پرستی کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ مساجد کی اہمیت کم ہو گئی اور پورے ملک میں جعلی قبروں اور مزارات کا جال بچھ گیا۔ امام صاحب نے تحریر و تقریر کے ذریعے ان مشرکانہ عقائد کی تردید کی ۔ اپنے رسائل‘ الرّدعلی البکری اور التوسل والوسیلۃ میں علی الا علان اس بات کا اظہار کیا کہ غیر اللہ سے دعا مانگنا حرام ہے اور شریعت محمد یﷺ میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ اور انسان میں واسطے کی حقیقت پر ایک کتاب ’’الواسطۃ بین الخلق والحق ‘‘کے نام سے لکھی ۔ آپ نے عقیدہ توحید کو انبیاء کی بعثت کا بنیادی مقصد قرار دے کر سادہ دل مسلمانوں کی توجہ اسلام کی دعوت کے اس مرکزی نقطے کی طرف مبذول کروائی ، آپ کی یہ کوشش ضائع نہیں ہوئی اور توحید کی صدائیں ایک بار پھر گونجنے لگیں۔ 
فلسفیانہ روایت 
قبر پرستی تو عام جاہل آدمی کی گمراہی تھی ۔اہلِ علم کی گمراہی فلسفہ اور علم الکلام تھے ۔ علم کلام اگرچہ فلسفے کے مقابلے کے لیے وجود میں آیا تھا مگر رفتہ رفتہ خود اس میں فلسفے کی روح گھس گئی۔یونانی اصطلاحات کا استعمال تو ہوتا ہی تھا مگر سیدھی بات کے بجائے بات کو طویل و پیچیدہ بنا کر پیش کرنا‘ عقائد کے ثبوت کے لیے عقل کے استعمال پر اصرار اور پھر سب سے بڑھ کرقبل ازسلام کے فلسفی ارسطو کی عظمت و تقدیس کا ایسا قائل ہونا کہ اس کی فکر کے خلاف بات کرنے کی ہمت نہ کر سکنا‘ ان سب باتوں نے مل کر علمِ کلام کو عجیب و غریب نظریات کا معجون مرکب بنا دیا تھا ۔ امام ابن تیمیہ کے زمانے میں نصیر الدین طوسی کا طوطی بول رہا تھا جو یونانی فلسفہ اور منطق کو معیار فضیلت گردانتا تھا۔ محدثین و فقہاء چونکہ اس علم کی باریکیوں سے ناآشنا تھے لہٰذا مقابلے کی سکت نہ رکھتے تھے جبکہ عوام مرعوبیت کا شکار تھے۔ ایسے میں امام صاحب نے علمِ کلام کو مستقل موضوع بنا کر یونانی فلسفہ کی تنقید اور علمی محاسبے کاکام انجام دیا۔ بغیر کسی تعصب کے انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ علمی دنیا بالخصوص طبیعات و ریاضیات کے میدان میں علمائے یونان کی کاوشیں مفید ہیں لیکن الٰہیات میں انہوں نے فلسفیوں کو ناکام اور جامل قرار دیا۔ اپنی کتابوں ، ’’الرد علی المنطقین‘‘ ’’ نقض المنطق ،’’الرد علی البکری‘‘ اور’’ النبوات ‘‘میں گن گن کر ان غلطیوں کی نشاندہی کی جو اہلِ فلاسفہ سے سرزد ہوئیں۔آپ عقلی و استدلالی طریقے سے فلسفے کے پیچیدہ مضامین کا رد کرتے۔ اس طرح عالمِ اسلام جو گزشتہ چند صدیوں سے فلسفہ اور منطق جیسے علوم سے مسحور تھا‘ اس سحر سے باہر آ گیا اور دین کی اصل اور سادہ تعلیمات ایک بار پھر نکھر کر سامنے آ گئیں۔ آپ نے لوگوں کو یہ باور کرایا کہ اگر یہ علوم عقلی ہیں تو ان کی بنیادغو رو فکر پر ہے ،ان کو فکر کی پیروی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے ہر زمانے کے اہل عقل کو یہ حق ہے کہ وہ ان پر ناقد انہ نظر ڈالیں اور خلافِ عقل بات کو رد کر دیں۔ چنانچہ آپ نے عقلی جمود کے اس دور میں یونانی فلسفے پر تنقید کرکے فکر و اجتہاد کا نیا دروازہ کھولا‘جیسا کہ حضرت علامہ ؒ نے بعد کے زمانے میں کہا کہ 
؂ تمدن‘ تصوف‘ شریعت‘ کلام بتانِ عجم کے پجاری تمام 
علامہ اقبال ؔ سے سات صدی قبل بھی ایک بار ایسا ہی حال عالمِ اسلام کا ہو چکا تھا۔ 
غیر اسلامی تصوف
طبقہ اہلِ علم کے علاوہ اہلِ تصوف بھی غیر اسلامی افکار کا نشانہ بن چکے تھے۔ ہر زمانے کی طرح اس زمانے میں بھی اہلِ تصوف ایک بڑے حلقے میں انتہائی مقبول تھے۔ مختلف مذاہب خصوصاً ہند و مذہب کے عقائد و افکار کو اسلام کا لبادہ پہنایا جا رہا تھا۔ حلول کا عقیدہ‘ وحدۃ الوجود کا فلسفہ نیز صوفیوں کے لیے احکام شریعت کا ساقط ہو جانا‘ صوفیانہ عقائد میں شامل ہو چکا تھا۔پھر تصوف کی چند شاخیں شعبدہ بازی اور نظر بندی کی نچلی سطح تک اتر آئی تھیں ۔ عوام اور خواص دونوں ان سے متاثر تھے۔ وحدت الوجود کے عقیدہ میں اس قدر غلو پیدا ہو گیا تھا کہ ابن عربی کے بعد تلمسانی یہاں تک کہہ بیٹھے کہ
قرآن تو سارا کا سارا شرک سے بھرا ہوا ہے۔ اس لیے کہ وہ رب اور عبد میں فرق کرتا ہے۔ توحید تو ہمارے کلام میں ہے۔ (معاذاللہ)۔فرقہ جہنیہ کے شائقین مخلوقات کی پرستش کرنے لگے ۔ یہاں تک کہ ارذل ترین مخلوقات میں بھی خدا دیکھا جانے لگا‘ سو خداہونے کی بنا ء پر لائقِ عبادت ٹھہریں ۔ اس پر مزید یہ کہ اس عقیدے کے مدعی قبیح گناہوں کے مرتکب ہوتے اور اسے اپنے عقائد سے درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے۔ بعض لوگ لڑکیوں کے عشق میں مبتلا ہو تے اور کہتے کہ ان میں بھی اللہ کی تجلی ہے۔ بعض بوسہ دیتے ہوئے اپنے محبوب سے کہتے کہ تو خدا ہے۔ (معاذ اللہ) اس سلسلے میں امام صاحب نے ایک خط شیخ نصربن سلیمان کو لکھا اور اس کو دعوت دی کہ وہ ابن عربی کے غیر اسلامی نظریات‘ خصوصاً وحدت الوجود سے توبہ کرے۔ شیخ نصر کے حلقہ اثر میں حکمران طبقہ بھی تھا۔ وہ آپ کے مد لل خط کا جواب تو نہ دے سکا البتہ یہ پورا گروہ آپ کاشدید مخالف ہو گیا۔ 
فرقہ باطنیہ
چوتھا گروہ جس سے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچا تھا ‘وہ فرقہ باطنیہ تھا۔ ان کی تعلیمات مجوسی عقائد‘ افلاطونی تصورات اور خطر ناک سیاسی اغراض کا مجموعہ تھیں۔ یہ مسلمانوں کے خلاف غیر مسلم طاقتوں اور بیرونی حملہ آوروں کی ہمیشہ مدد کرتے۔ شام و فلسطین پر صلیبی حملوں کے موقع پر انہوں نے صلیبیوں کا ساتھ دیا۔ اس کے بعد بھی سازشوں اور بغاوتوں میں مصروف رہے۔ یہاں تک کہ تاتاریوں نے جب شام پر حملہ کیا تو انہوں نے کھل کر تاتاریوں کا ساتھ دیا۔ جب حالات ناقابل برداشت ہو گئے تو حکومت وقت نے ان کے خلاف جہاد کرنے کے لیے علماء سے فتویٰ دریافت کیا۔ امام صاحب نے نہ صرف ان کے خلاف جہاد کرنے کو فرض قرار دیا بلکہ دوسرے شہروں کے مسلمانوں کے نام بھی خطوط لکھے اور انہیں جہاد میں حصہ لینے کی ترغیب دی۔ آخر کار زبردست لشکر کے ساتھ‘ جس میں امام صاحب دیگر مجاہدین کے ساتھ شامل ہوئے‘ان کی جمعیت کو منتشر کر دیاگیا۔
عیسائی مشنری یلغار 
ایک بیرونی محاذ عیسائیوں نے اپنے مذہب کی حقاّنیت کو ثابت کرنے کے لیے کھول رکھا تھا۔ مسلمانوں کی سیاسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اپنے مذہب کی برتری ثابت کرنے کے لیے میدان میں آ چکے تھے ۔ محمد رسول ا للہ ﷺ پر اعتراضات اور اپنے مذہب کی ترجیح پر کتابیں تصنیف کرنے لگے۔ قبرص کے عیسائیوں کی جانب سے ایک مناظرانہ تصنیف شام پہنچی ‘جس میں مسیحیت کو دینِ حق ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور نبی کریمﷺ کی بعثت کوساری دنیا کے بجائے صرف عرب اقوام کی رہنمائی کے لیے مخصوص بتایا گیا تھا۔ جب اس کتاب نے شام کے دینی و علمی حلقوں میں شہرت حاصل کی تو امام صاحب نے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور’’ الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح‘‘ کے نام سے چار جلدوں میں ایک کتاب جس میں نہ صرف عمومی نبوت محمدﷺ کے ثبوت میں دلائل پیش کئے بلکہ مسیحیت کی تثلیث کی بنیادوں پر حملہ کیاگیا۔ ان کے عقائد کی غلطیاں ‘ مسیحیت کی تاریخ‘ ان کی کتابوں میں تحریفات اور رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی عالمگیریت کے حوالے سے دلائل دئیے گئے اور مسیحی علم الکلام پر اس قدر سیر حاصل بحث کی کہ یہ عظیم کاوش کسی ایک شخص کی معلوم ہی نہیں ہوتی۔ شیخ الحدیث اپنی کتاب میں ان کی بابت لکھتے ہیں کہ ’’تنہایہ کتاب ہی آپکو غیر فانی مفکر کا مرتبہ دلانے کے لیے کافی ہے۔‘‘ 
روحِ اجتہاد کی بیداری
ایک اور چیز جس نے امام صاحب کو بے چین کر رکھا تھا‘وہ مسلمان دنیا پر چھایا ہوا علمی جمود تھا۔ ہر گروہ اپنے دائرے سے باہر قدم نکالنا جرم سمجھتا تھا ۔ جس کی وجہ سے کوئی عالم نئے مسائل کے استنباط کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ اسلامی فقہء اپنے نمو اور ار تقاء کی صلاحیت کھو چکی تھی۔ ایسے میں امام صاحب نے اس ناممکن کو ممکن بنایا ۔آپ کا تعلق حنبلی فقہ سے تھا لیکن آپ نے چاروں اماموں کی آراء کے علاوہ متقدمین اورمتاخرین کے اقوال سے بھی استنباط کیا۔ اگرچہ بہت سے امور میں خالصتاً اپنی رائے کو بھی اختیار کیا۔ 
امام صاحب نے توحید گریزاور مرکز گریز فرقوں کے عقائد پر علی الاعلان تنقید کر کے گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا۔ ہر طرف سے شدت سے آپ کی مخالفت شروع ہو گئی۔ آپ چومکھی لڑائی لڑتے رہے لیکن اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹے ۔ دن بدن آپ کے حریفوں کی تعداد بڑھنے لگی ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آپ کی ذہنی و علمی سطح اپنے زمانے کے لوگوں سے بہت بلند تھی۔جب وہ آپ کے مقابلے میں آتے تو ان کی علمی کم مائیگی کا احساس ان کے اندر جذبہ حسد کو جنم دیتا۔ آپ جہاں جاتے‘ دلائل کے زورسے سب پر چھا جاتے۔ درس دیتے تو درس کی دیگر محفلیں بے رونق ہو جاتیں۔ پھر آپ کو اپنے راہِ حق پر ہونے کا اس قدر یقین تھا کہ بدعتیوں اور دیگر فاسد خیال لوگوں کے بارے میں سخت الفاظ کا استعمال کرتے۔ نہ صرف یہ کہ آپ زبان اور قلم سے جہاد کرتے بلکہ جہاں موقع ملتا‘ وہاں بزو ر برائی کا قلع قمع کرنا ضروری سمجھتے۔ ایک بار آپ کے پاس ایک پیر لایا گیا جو لمبی چوڑی گدڑی پہنے تھا۔ بال اور ناخن بڑھے ہوئے تھے ۔ گالی اور فحش کثرت سے بکتا تھا اور نشہ آور چیزوں کا استعمال کرتا تھا۔ آپ نے اس کی گدڑی کو تار تار کرنے کا حکم دیا‘ اس کے بال اور ناخن کٹوائے اور فحش گوئی اور نشے سے توبہ کروائی۔ دمشق کی جامع مسجد میں ایک چٹان سے لوگوں کو عقیدت ہو گئی تھی اور وہاں مشرکانہ رسمیں ادا کی جانے لگی تھیں۔ امام صاحب نے اس کے ذرے ذرے کروا کر بکھیر دئیے۔
رفاعی فرقے کے فقراء نے اپنی مقبولیت ثابت کرنے کے لیے کرتب دکھانے چاہے اور دعویٰ کیا کہ ہم پر آگ اثر نہیں کرتی۔ اگر ہم اپنے دعوے کو سچا ثابت کر دیں تو ہم برسر حق ہیں۔ امام صاحب نے اس کو جعل سازی قرار دیا اور کہا جو شخص آگ میں کودے‘ اس کے جسم کو پہلے سر کے اور گھاس سے صاف کر کے نہلایا جائے ۔ اگر پھر بھی وہ اپنا کمال دکھائے تو اس کو دجال سمجھا جائے ۔ اس موقع پر ایک رفاعی صوفی نے اعتراف کیا کہ ہمارے کرتب شریعت کے مقابلے میں نہیں چلتے بلکہ تاتاریوں کے ہاں مقبول ہیں۔ یہ سب باتیں تھیں جنہوں نے آپ کو علم شناسوں میں مقبول اور توحید گریز فرقوں میں انتہائی غیر مقبول بنا دیا تھا۔سو آنے والے وقت میں مصائب کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ آپ کا منتظر تھا۔ 
مصائب وابتلاء کا طوفان اور ابن تیمیہ ؒ کی ثابت قدمی
امام صاحب پر سب سے پہلے علی الاعلان تنقید ۶۹۰ہجری میں ہوئی جب صفات باری تعالیٰ کے مسئلے پر تقریر کرتے ہوئے آپ نے اشاعرہ پر سخت تنقید کی ۔ اس پر شافعی حضرات آپ کی مخالفت میں کھڑے ہو گئے مگر قاضی القضاۃ کی حمایت کی وجہ سے ان کو خاموش ہونا پڑا۔اشاعرہ کا مخالف علمی گروہ جو معتزلہ کہلاتا تھا وہ اس سے قبل امام صاحب کی حق گوئی کے باعث ناراض ہو چکا تھا۔ 
َ ۶۹۸ہجری میں حماۃ کے علاقے سے صفات باری تعالیٰ پر ایک سوال آیا جس کے جواب میں امام صاحب نے ’’العقیدۃ الحموی‘‘تحریر کی‘ جس میں آپ نے سلف کے مذہب کو سراہا اور اشاعرہ متاخرین پر سخت تنقید کی۔ اس پر حاسدین نے اس مسئلے کو خوب اچھالا یہاں تک کہ ایک مجلس کا اہتمام کیا گیا جس میں آپ کو اعتراضات کا جواب دینے کے لیے طلب کیا گیا ۔ آپ نے تمام اعتراضات کا مدلل جواب دیا تب کسی کو زبان کھولنے کی جرأت نہ ہوئی۔ 
اسی اثناء میں شیخ نصر جسے امام صاحب نے ابن عربی کے نظریات سے توبہ کرنے کے لیے خط تحریر کیا تھا‘ آپ کا شدید مخالف ہو گیا۔ نائب سلطنت اس کا معتقد تھا۔ شیخ نصر نے اس کو یقین دلایا کہ امام صاحب کا رسوخ شام میں سلطان کے لیے بڑا خطرہ بن سکتا ہے‘ چنانچہ ملک ناصر کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔ ملک ناصر نے نائب شام کو امام صاحب کے عقیدے کی جانچ کے لیے کہا۔ اس سلسلے میں نائب سلطنت شام کے زیر اہتمام تین مجلسیں منعقد ہوئیں‘ جن میں علماء‘ فقہاء نے آپ کے عقائد کے بارے میں پوری تحقیق کی لیکن کوئی بات بھی خلاف سنت ثابت نہ کر سکے۔ یہ روداد ملک ناصر کو لکھ کر بھیج دی گئی۔ جس کو پڑھ کر وہ مطمئن ہو گیا۔
مخالفین سے یہ شکست برداشت نہ ہوئی اور ا نہوں نے سلطان ناصر کو یہ باور کروایا کہ نائب سلطنت خود امام صاحب کا طرفدار ہے‘ اس لیے ان کے عقائد کی صحیح جانچ نہ ہو سکی۔ لہٰذا انہیں مصر طلب کیاجائے۔ سلطان نے حکمنامہ صادر کیا اور امام صاحب مصر کے لیے روانہ ہوئے۔ جس روز آپ دمشق سے روانہ ہوئے ‘اس دن سارا شہر آپ کی زیارت کے لیے ٹوٹ پڑا۔ شہر کے باہر راستوں پر لوگ کھڑے رو رہے تھے‘انہیں اس بات کا اندیشہ تھا کہ آپ کے خلاف کوئی زبردست سازش ہونے والی ہے۔
مصر پہنچ کر آپ کے اوپر حکومت کی جانب سے مقدمہ قائم کیا گیا اور آپ کو سخت ترین سزا کا مستحق قرار دیا گیا۔ جوابِ دعویٰ کے لیے آپ تشریف لائے تو قاضی القضاۃ کے متعصبانہ روئیے کو دیکھتے ہوئے آپ نے بیان دینے سے انکار کر دیا۔ قاضی القضاۃ نے آپ کو اور آپ کے بھائیو ں کو قید کرنے کا حکم دیا۔ قید میں امام صاحب کے وعظ و ارشادات نے بہت سے قیدیوں کی زندگی بدل ڈالی۔
آپ کی عدم موجودگی کے دوران آپ کے حامی اس بات کی کوشش میں لگے رہے کہ کسی طرح امام صاحب اور آپ کے مخالفین متنازع امور پر گفتگو کے لیے راضی ہو جائیں تاکہ حق سچ ثابت ہو سکے۔ آخر کار وہ اس کوشش میں کامیاب ہو گئے۔ پہلے روز کی گفتگو کے بعد مخالفین میں اتنی ہمت نہ رہی کہ امام صاحب کو قید خانے بھیجنے پر ا صرار کریں۔ بالآخر اٹھارہ ما ہ کی اسیری کے بعد رہائی نصیب ہوئی۔
قاہرہ کے شہریوں کے اصرار پر آپ نے وہاں کچھ عرصے قیام کا فیصلہ کیا اور جامع حاکمی میں وعظ کا سلسلہ شروع کیا۔ ابھی قید سے رہائی کو پانچ ماہ ہی گزرے تھے کہ ایک جمعے کی تقریر میں آپ نے صوفیوں کے عقائد پر زبردست گرفت کی۔صوفی اس تنقید کو برداشت نہ کر سکے۔ سلطان سے شکایت کی اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ امام صاحب نے جوابِ دعویٰ کے طور پر ایسی زبردست تقریر کی کہ مدعی خاموش ہو گئے اور عدالت کوئی فیصلہ نہ کرسکی۔ آخر کار مخالفین کے اصرار پر حکومت کی طرف سے آپ کے سامنے تین تجویزیں پیش کی گئیں‘ اول یہ کہ دمشق چلے جائیں‘ دوسری صورت یہ کہ اسکندریہ میں چند شرائط کے ساتھ قیام پذیر ہوں اور تیسری صورت یہ کہ قید کی زندگی کو پسند کریں۔
امام صاحب اپنے عقیدت مندوں کے پرزور اصرار پر دمشق جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ ابھی آپ راستے میں ہی تھے کہ آپ کی قید کا فرمان جاری کر دیا گیا۔ دراصل جب آپ نے دمشق جانے کا فیصلہ کیا تو نائب سلطنت ( جو آپ کا مخالف تھا) کو احساس ہو ا کہ دمشق پہنچ کر ایک بار پھر آپ آزادانہ طور پر اپنے کام میں مصروف ہو جائیں گے۔ لہٰذا بغیر وجہ بتائے دوبارہ گرفتار کر لئے گئے۔ قید کا بیشتر وقت ذکر الٰہی اور تلاوتِ قرآن میں بسر ہوتا۔ باقی وقت تصنیف و تالیف اور قیدیوں کو وعظ و نصیحت کرتے گزرتا۔ کچھ عرصے بعد آپ کے بھائی صاحب کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ شوال۷۰۸ہجری میں نائب سلطنت امیر بیبرس نے سلطان ناصر کا تخت الٹ دیا۔ اس کو معلوم تھا کہ سلطان امام صاحب کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہے۔ لہٰذا اس خدشے سے کہ کہیں امام صاحب کا اثر و رسوخ اس کے خلاف کوئی شورش نہ بر پا کر دے ‘ آپ کو اسکندریہ بھیج دیا گیا جو صوفیاء کا گڑھ تھا۔ آپ کے مخالفین اس توقع میں تھے کہ کوئی متعصب صوفی آپ کا کام تمام کر دے گااور ہمیشہ کے لیے آپ سے جان چھوٹ جائے گی۔ اگلے سال سلطان ناصر دوبارہ اقتدار حاصل کر نے میں کامیاب ہو گیا۔ امیر بیبر بس گرفتار ہو کر قتل ہوا۔ سلطان ناصر نے امام ابن تیمیہ کی رہائی کا حکم صادر کیا اور آپ کی آمد پر دربار میں گرمجوشی سے آپ کا استقبال کیا ۔ کچھ عرصہ سلطان اور قاہرہ کے شہریوں کے اصرار پر آپ نے قاہرہ میں قیام کیا۔ پھر بیت المقدس کی زیارت کے بعد واپس دمشق آ گئے اور ایک بار پھر وعظ و نصیحت اور تصنیف و تالیف میں مصروف ہو گئے۔ صوفیاء ‘ فقراء‘ بدعتیوں اور فقیہ حضرات سے اختلافات ایک بار پھر سامنے آنے لگے۔ آپ کی تصنیفات اور فتوے ان پر سخت گراں گزرے۔ حلف بالطلاق کے مسئلے پر بات بڑھ گئی۔ امام صاحب کی رائے تھی کہ حلف بالطلاق سے طلاق واقع نہ ہو گی بلکہ فسخ حلف کا کفارہ لاز م آئے گا۔ اسی طرح چند اور مسائل پر امام صاحب کی رائے حکومت کے زیر سایہ رہنے والے عالموں سے بالکل مختلف تھی۔ قاضی القضاۃ کی جانب سے حکم دیا گیا کہ اس معاملے پر آئندہ فتویٰ جاری نہ کیا جائے۔ آپ کو چونکہ اس معاملے میں شرح صدر حاصل تھا‘اس لیے آپ نے اپنے موقف سے ہٹنے اور اپنے عقیدے کو چھپانے سے انکار کر دیا۔ ۲۲ رجب۷۲۰کو دوبارہ قید کر دیئے گئے ۔ جب علماء کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوگیا تو پانچ ماہ بعد آپ کی رہائی کے ا حکام آ گئے۔ 
اگلے پانچ سال تک پوری آزادی اور توجہ کے ساتھ درس و تدریس میں مصروف رہے۔ کچھ نئی کتابیں تصنیف کیں اور کچھ پرانی کتابوں پر نظر ثانی کی۔ علمائے وقت چونکہ ذاتی مفاد کی بناء پر امام صاحب سے دِلی پرخاش رکھتے تھے ‘ لہٰذا ایک بار پھر قبروں کی زیارت سے متعلق اس فتوے کی تشہیر کی جانے لگی جو سترہ سال پہلے آپ نے دیا تھا۔ جس کے مطابق قبر کی زیارت کی نیت سے سفر کرنے کو ناجائز کہا گیا تھا۔ تصریح کی گئی تھی کہ نبی کریمﷺ کی قبر کی زیارت کے لیے سفر کے اہتمام کے بجائے مسجد نبوی ﷺ میں نماز پڑھنے کی نیت سے آنا چاہیے اور قبرانور کی زیارت کے وقت اس طرح صلوٰۃ و سلام بھیجنا چاہیے جیسا کہ صحابہ و تابعین کا دستور تھا۔ اس بات کا خوب چرچا کیا گیا اور مخالفین نے شور مچادیا۔ بالآخر حکومت نے آپ کی اسیری کا فرمان جاری کر دیا۔ یہ اطلاع پاتے ہی آپ نے فرمایا۔ میں تو اس کا منتظر ہی تھا۔ اس میں خیر اور مصلحت پوشیدہ ہے۔ امام صاحب کی اسیری کی خبر نے اہل حق کو ایک بار پھر پژمردہ کر دیا۔ بے حساب خط سلطان کو لکھے گئے‘ جن میں آپ کی رہائی کے لیے سفارش کی گئی۔ جیل میں آپ کا سب سے بڑا مشغلہ تلاوت و تدبر قرآن تھا۔ باقی وقت علمی و فقہی سوالات کے جوابات تحریر کرتے گزرتا ۔ امام صاحب کی ہر تحریر جیل سے نکلتے ہی ہاتھوں ہاتھ لے لی جاتی۔ مسئلہ زیارت کے متعلق ایک تحریر میں قاضی عبداللہ بن الاخنائی کی تردید کی اور ان کو قلیل العلم کہا تو قاضی صاحب نے سلطان سے شکایت کر دی۔ حکومت کی طرف سے آپ کے پاس سے لکھنے پڑھنے کا سامان ضبط کر لیا گیا ۔ آپ کے لیے یہ سزا سب سے سخت تھی۔ پھر بھی صبر اور شکر بجا لائے اورجیل کی دیواروں پر کوئلے سے لکھنا شروع کر دیا۔ اسیری کے دوران قرآن کے اَسی(۸۰) دور کئے۔ 
وفات
زمانہ اسیری میں ہی طبعیت خراب رہنے لگی تھی۔ بائیس روز تک علیل رہے۔ آخر کار ۲۲ ذیقعدہ ۷۲۸ہجری کو ۶۷سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ آپ کی وفات کی اطلاع قید خانے کے مؤذّن نے مینار پر چڑھ کر دی۔ تمام شہر سکتے میں آ گیا ۔ جب جنازہ جامع اموی میں لایا گیا تو ہجوم کا یہ حال تھا کہ میدان‘ گلیاں‘ بازار سب بھر گئے‘ دکانیں بند ہو گئیں۔ لوگوں کو کھانے پینے کا ہوش نہ رہا۔ اس ہجوم میں کسی نے بلند آواز سے پکارا‘ سنت کے پیشواؤں کا جنازہ اسی شان کا ہوتا ہے۔ اس پکارنے کہرام مچادیا۔ نمازِ جنازہ کے بعد جنازے کو کندھا دینے کا موقع ملنا مشکل تھا اور جنازہ سروں پر سے گزر رہا تھا۔ ہجوم کی وجہ سے لوگوں کی پگڑیاں‘ رومال اور جوتے گر گئے اور کسی کو ان کا ہوش نہ رہا۔ جنازہ صبح کے وقت نکلا تھا اور عصر کے وقت تدفین کی نوبت آئی۔ تمام عالمِ اسلام میں غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ یہاں تک کہ حمص کے ایک بعید ترین شہر میں نمازِ جنازہ کا اعلان ان الفاظ میں ہوا، ’’ترجمان قرآنِ شیخ ابنِ تیمیہ کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی۔‘‘
امام صاحب کی شخصیت اور اوصافِ حمیدہ:
آپ کے ہم عصر جو آپ کے حریف بھی تھے‘ آپ کے علمی کمال کے معترف تھے۔ امام صاحب کے حریف کمال الدین الزملکانی کہتے ہیں ‘ان جیسا جامعیت رکھنے والا شخص دیکھنے میں نہیں آیا۔ ابن تیمیہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے علوم اس طرح موم کر دیئے تھے جس طرح داؤد علیہ السلام کے لیے لوہا نرم کر دیا تھا۔ جس علم کے بار ے میں ان سے سوال کیاجاتا وہ اس طرح جواب دیتے کہ دیکھنے یا سننے والا یہ سمجھتا کہ وہ اسی علم میں پاک ہیں اور اس کے سواء کچھ نہیں جانتے اور یہ فیصلہ کرتا کہ ان کی طرح کا اور کوئی شخص اس علم کا عالم نہیں ہے۔
آپ جس درجے کے عالم تھے‘ اسی درجے کے عابد بھی تھے۔ نمازِفجر کے بعد اپنی جگہ بیٹھے رہتے‘ یہاں تک کہ دن اچھی طرح نکل آتا۔ اس عرصے میں ذکر اذکار اور توبہ استغفار میں مصروف رہتے۔ کوئی پوچھتا تو کہتے یہ میرا ناشتہ ہے۔ اگر میں ناشتہ نہ کروں تو میری قوت زائل ہونے لگتی ہے۔ پھر تلاوتِ قرآن کے بعد فقہی سوالوں کے جواب دیتے۔ اس کے بعد دارالحدیث السکریہ اور دارالحدیث حنبلیہ کے طلبہ کو درس دیتے۔ یہ سلسلہ نماز ظہر تک جاری رہتا۔ نمازِ عصر کے بعد عام مجلس ہوتی ‘جس میں ہرکوئی شرکت کرسکتا تھا اور علمی اور غیر علمی ہر طرح کی گفتگو ہوتی۔ نمازِ مغرب کے بعد دوبارہ طلباء کو پڑھاتے ۔ عشاء کے بعد رات گئے تک کتابوں کی تصنیف و تالیف کے کاموں میں مصروف رہتے۔ رات کو تمام لوگوں سے علیحدہ رہتے تھے۔ (آپ نے ساری زندگی شادی نہ کی)۔ اس وقت آپ ہوتے اور قرآن مجید ہوتا جس کی برابر تلاوت کرتے رہتے اور آنکھوں سے آنسو جاری رہتے۔ نوافل‘ عبادت اور ذکر میں دیر تک مشغول رہتے۔ جب نماز شروع کرتے تو آپ کے شانے اور اعضاء کانپنے لگتے‘ یہاں تک کہ ان کو دائیں بائیں لرزش ہوتی۔ 
غنائے قلب کی جس نعمت سے اللہ نے آپ کو نوازا تھا‘اس کے بعد دنیا کی کوئی دولت آپ کے لیے اہم نہ تھی۔ ایک بار چند افواہوں سے متاثر ہو کر سلطان نے پوچھا‘کہیں آپ میری سلطنت پر قبضے کے خواب تو نہیں دیکھ رہے؟ آپ نے جواب دیا۔ میں ایسا کس لیے کروں گا؟اللہ کی قسم تمہاری اور تاتاریوں کی سلطنت مل کر بھی میری نگاہ میں ایک پیسے کے برابر بھی نہیں ہے۔ 
آپ کے حریف عمر بھر اپنے طور پر آپ کو ستاتے رہے ۔مگرجتنا وہ آپ کو ستاتے‘ اتنا آپ صبر کرتے اور عزیمت کے درجات طے کرتے جاتے ۔ خود فرماتے ’’میرے دشمن میرا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ میری جنت میرے دل میں ہے اور میرا باغ میرے سینے میں ہے۔ میں جہاں بھی جاؤں گا وہ میرے ساتھ رہیں گے۔ میری قید میرے لیے گوشہ تنہائی ہے‘ میرا قتل میری شہادت ہے اور میری جلاوطنی میری سیاحت ہے‘‘۔ 
اپنے خون کے پیاسے دشمنوں کو فراخ دلی سے معاف کر دیتے۔ سلطان ناصر جب دوبارہ برسر اقتدار آ یا تو جن جن لوگوں نے آپ کو تکلیف پہنچائی تھی‘ ان کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ آپ کو معلوم ہوا تو سلطان سے صاف کہہ دیا کہ میں اپنی ذات کے لیے کوئی انتقام نہیں لوں گا اور اس بات پر اتنا اصرار کیا کہ سلطان کو قائل کر لیا۔ 
امام صاحب کے اوصاف ‘ کمالات اور اخلاقی محاسن اس قدر ہیں کہ اس مختصر مضمون میں ان کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ اپنے مضمون کا اختتام ہم حافظ ذہبی کے الفاظ پر کرتے ہیں ۔حافظ ذہبی اپنی کتاب میں جب آپ کی مدح لکھتے لکھتے تھک گئے تو کہا ’’ان کا مقام اس سے کہیں ارفع و اعلیٰ ہے کہ مجھ جیسا شخص ان کی سیرت و فضیلت بیان کرے۔ قسم اللہ کی اگر میں خانہ کعبہ میں عین رکن یمانی و مقام ابراہیم ؑ کے درمیان کھڑے ہو کر قسم کھاؤں کہ نہ تو میری آنکھوں نے ان کا مثل دیکھا‘ نہ خود انہوں نے اپنا ثانی چھوڑا‘تو میری قسم سچی ہو گی اور مجھے کفارہ ادا نہیں کرنا پڑے گا ۔‘‘مولانا عطا ء اللہ حنیفؒ نے آپ کی ۵۸۲تصنیفات کے نام گنوائے ہیں۔ تفسیر کے ضمن میں۰۲ا‘ کتبِ حدیث کی ا۴‘فقہ و فتاویٰ کی۳۸ا‘ اصول فقہ کی۲۸‘عقائد و کلام کی۲۶ا اور اخلاق و تصوف میں۷۸چھوٹی بڑی کتابیں اور رسالے آپ نے لکھے۔آپ سے لوگوں نے بے حد احسانات وفیض اٹھایا۔ آپ کے شاگردوں میں حافظ ابنِ قیم‘ حافظ ابنِ کثیر‘ حافظ ابنِ عبدالہادی اور حافظ ذہبی نے بہت شہرت پائی۔ 
اللھم اغفرلہ وادخلہ الجنۃ الفردوس وارفع مقامہ۔ آمین! 

No comments:

Post a Comment