Sunday, 21 September 2014

Sheikh Ahmed Sarhindi


دسویں کہانی 

شیخ احمد سرہندیؒ 

دسویں کہانی شیخ احمد سرہندی ؒ کی ہے جن کا لقب مجدّد الف ثانی ہے۔ آپ کی پوری زندگی میں جو چیز سب سے نمایاں نظر آتی ہے وہ سنت رسول اللہ ﷺ کی سختی سے پابندی ہے۔
آپ کے زمانے کی عالمی طاقت بنیادی طور پر مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھی۔ عالم اسلام کی متحدہ مرکزی طاقت ترکی والی خلافت عثمانیہ تھی جس کی اطاعت کا عہد ہر علاقہ کی مسلم حکومت کرتی تھی۔ عالمی تہذیب و تمدن کی مظہر دو اور بڑی سلطنتیں بھی تھیں۔ وہ دونوں بھی مسلمان طاقتیں تھیں ۔ ایک ایران و خراسان کی صفوی سلطنت‘ دوسری متحدہ برصغیر کی سلطنت ہند جو ابراہیم لودھی کی شکست کے بعد بابر اور ہمایوں سے ہوتی ہوئی اکبر اور جہانگیر تک آئی تھی۔ شیخ احمد سرہندی کو قدرت نے اکبر کے دین الٰہی کے خاتمے کے لیے چنا۔ دین الٰہی ہندومت‘ بدھ مت ‘ پارسی‘ جین مت کی من پسند آسان رسوم پر مشتمل ایک سرکاری مذہب تھا جو اس لیے بنایا گیاتھاکہ ہندو جو بہت بڑی تعداد میں تھے‘ کہیں مسلمان بادشاہ کے خلاف نفرت یا بغاوت نہ کر دیں۔ اس نئے سرکاری دین نے درحقیقت اسلام کی پوری عمارت کو منہدم کر دیا تھا حالانکہ لودھی حکمرانوں کے زمانے میں دین کے حامل کئی صاحب کمال بزرگ تھے۔ سلسلہ قادریہ اور چشتیہ کی شاخیں پھیلی ہوئی تھیں۔ مگر رفتہ رفتہ اکبر بادشاہ کے نافذ کردہ دین الٰہی کا فتنہ کبریٰ سرکاری سرپرستی اور شیطان کی اعانت سے مقبول ہوتا گیا۔ اس وقت دین اسلام کی صحیح بنیادوں پر تجدید کی ضرورت پیش آئی اور اللہ پاک نے اس کام کے لیے شیخ احمد سرہندیؒ کو چنا جنہوں نے اس فریضہ کو نہایت دشوار ماحول میں (جس کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی) حکومت وقت کی عقوبتیں سہہ سہہ کر بکمال عزیمت ادا کیا۔ اس سے نہ صرف ہند کے دین دار طبقے ممنون ہوئے بلکہ تمام دنیائے اسلام نے اس مشکل ہدف کے حاصل کرنے پر شیخ صاحب موصوف کی ہمت اور کاوش کی دل کھول کر تعریف کی۔ 
شیخ احمد سرہندیؒ کا دین اسلام کی تجدید کا کارنامہ ایسا عظیم کام ہے کہ ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ آپ نے حضور ﷺ سے غیب میں باندھا ہوا عہدِ وفا اپنے جد امجد امیر المومنین حضرت عمرؓ بن خطاب کی طرح ایسے نبھایا‘ جیسا کہ نبھانے کا حق تھا ۔ 
آپ کا نام احمد‘ لقب بدر الدین اور کنیت ابو البر کات تھی۔ شیخ احمد بن شیخ زین العابدین نسبًاً فاروقی تھے اوران کا سلسلہ نسب ۲۰ ویں پشت میں جا کر حضرت عمرؓ بن خطاب سے مل جاتا ہے۔ آپ کا خاندان ظاہری و باطنی علوم اور دینی فیوض و برکات کے لیے مشہور تھا۔ خود آپ کے والد اپنے وقت کے جید عالم تھے۔ انہوں نے علم دین کے حصول کے لیے مختلف مقامات کے سفر کیے اور اپنے وقت کے معروف بزرگ شیخ عبدالقدوس گنگوہی اور ان کے بیٹے رکن الدین سے استفادہ کیا اور منازل سلوک طے کیں۔ وہ چشتی اور قادری سلسلہ میں خرقہ خلافت سے سرفراز ہوئے۔ اس کے علاوہ مشہور بزرگ شاہ کمال کیتھلی سے بھی آپ کا خصوصی رابطہ تھا۔ آپ کے والد اکثر علوم میں مہارت رکھتے تھے۔ خصوصاََ فقہ اور اصول فقہ میں ان کی نظیر نہیں ملتی ۔ کتب تصوف کا بھی درس دیتے تھے۔ سنت کے سخت پابند اور شریعت کا احترام کرتے تھے۔ ان کواللہ تعالیٰ نے سات فرزند دیئے۔ سب نے دنیاوی علوم اور سلوک کی تعلیم اپنے والد سے لی لیکن دین کی تجدید اور ہندوستان میں سرمایہ ملت کی نگہبانی کی سعادت تقدیر نے احمد سرہندی ؒ کے نام لکھ دی تھی۔آپ کی ولادت ۴ا شوال ا۹۷ہجری بمطابق ۵۶۳اء کو ہندوستان کے شہر سر ہند میں ہوئی۔ 
ابتدائی حالات
شیخ احمد کا رجحان بچپن ہی سے دین کی جانب تھا۔ نماز بڑے شوق سے پڑھتے تھے۔نوافل تک کی ادائیگی کا خاص خیال رکھتے تھے۔ آپ کے والد کے شیخ شاہ کمال کیتھلی آپ پر خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ مشہور ہے کہ بچپن میں ایک بار شاہ کمال نے فرط محبت سے اپنی زبان آپ کے دہن میں دے دی۔ تو آپ نے شاہ صاحب کی زبان پکڑ لی اور منہ میں دبا لی۔ آخر شاہ صاحب کہنے لگے ۔ بابا بس کرو اتنا کافی ہے۔ کچھ ہماری اولاد کے لیے بھی چھوڑ دو۔ تم نے تو ہماری ساری نسبت ہی کھینچ لی۔ آپ کی عمر ابھی سات سال ہی تھی جب شیخ کمال نے رحلت فرمائی۔تاہم آپ کو ان کا حلیہ اور جس گھر میں ان سے ملاقات ہوئی تھی اس کا نقشہ تک یاد رہا۔ 
تعلیم و تربیت 
تعلیم کی ابتداء حفظ قرآن سے ہوئی۔ پھر والد سے مختلف مضامین کی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں سیالکوٹ جا کر مولانا کشمیری جن کی ذکاوت‘ حافظہ اور کثرت مطالعہ کا شہرہ تھا‘ ان سے اس وقت کے نصاب تعلیم کی بعض کتابیں پڑھیں۔ حدیث کی تعلیم شیخ یعقوب صرفی کشمیری سے حاصل کی‘ جن کی تصنیفات میں صحیح بخاری کی ایک شرح بھی ہے اور وہ خود اپنے زمانے کے مشہور اساتذۂ حدیث سے شرف تلمذ حاصل کر چکے تھے۔ یوں سترہ سال کی عمر میں آپ فارغ التحصیل ہوئے۔ آپ نے عربی فارسی میں چند رسالے لکھے۔ اس کے علاوہ درس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ بائیس برس کی عمر میں آپ آگرہ تشریف لے گئے۔ آگرہ میں طویل قیام کے بعد اپنے والد کی خواہش پر ان کے ساتھ واپس آئے۔ راستے میں شہر تھانیسرپرسے گزر ہوا۔وہاں کے حاکم کی خواہش پر ان کی بیٹی سے آپ کا نکاح ہوا اور آپ دلہن اور والد کے ساتھ سرہند تشریف لے آئے۔ سرہند پہنچ کر آپ والد ماجد کی حیات تک انہی کی خدمت میں رہے اور سلسلہ چشتیہ و قادریہ کا سلوک طے کیا۔ 
والد کے انتقال کے بعد ادائے حج کے لیے رختِ سفر باندھا اور سرہند سے کوچ کر کے دہلی پہنچے۔ وہاں کے علماء جن میں مولانا حسن کشمیری بھی تھے آپ سے ملاقات کے لیے آئے۔ دورانِ ملاقات حسن کشمیری نے برسر تذکرہ حضرت خواجہ باقی باللہ کے بلند مرتبے اور قوت باطنی کی بہت تعریف کی۔ آپ کو بھی ملاقات کا شوق ہوااور مولانا حسن کشمیری کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ 
خواجہ باقی باللہ سے تعلقِ معرفت
خواجہ باقی باللہ عجیب و غریب روحانی قوت رکھتے تھے۔ جس پر آپ کی نظرپڑ جاتی‘ اس کی قلبی کیفیات بدل جاتیں۔ دل اللہ کی معرفت کا مشتاق ہو جاتا اور اس پر محویت کا غلبہ ہو جاتا۔اہلِ سلوک آپ کے دروازے پرمست الست پڑے رہتے۔ خواجہ صاحب طبعاََ انتہائی منکسر المزاج تھے۔ لوگوں سے اپنی باطنی صلاحیتیں اورکیفیات چھپایا کرتے تھے۔ لوگ آپ کے پاس باطنی استفادے کے لیے آتے تو انہیں یہ کہہ کر واپس کر دیتے کہ میرے پاس تو کچھ نہیں ہے۔ اپنے احباب کو بھی اپنے لیے تعظیم بجا لانے اورکھڑا ہونے سے منع کرتے۔ اپنے مریدوں سے غلطی کا ارتکاب ہوجاتا تو ان کی غلطی اپنی غلطی بتاتے۔ انسانوں کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر اس قدر شفقت فرماتے کہ ایک بار سخت جاڑے کی ایک رات میں آپ کسی کام سے بستر سے اٹھ گئے۔ واپس آئے تو انپے لحاف میں ایک بلی کو سوتا دیکھ کر اسے جگانے کے بجائے صبح تک بیٹھے رہے۔ قیام لاہور کے زمانے میں جب قحط پڑا تو اس عرصے میں اپنی خوراک حاجت مندوں میں صدقہ کر دیاکرتے۔
شیخ احمد خواجہ باقی باللہ کے پاس پہنچے تو وہ بہت محبت سے پیش آئے اور انہوں نے خلافِ توقع آپ کو کچھ عرصہ اپنے ساتھ قیام کرنے کی دعوت دی‘آپ نے حامی بھر لی۔ چند ہی روزکی خواجہ صاحب کی صحبت کا ایسا اثرہوا کہ آپ نے بیعت کی درخواست کی۔ حضرت خواجہ نے قبول کر لیا اور ذکر قلبی کی تلقین کی۔ آپ کی باطنی کیفیات میں روز افزوں ترقی ہونے لگی اور محض دوماہ کے عرصے میں فنائے حقیقی کے وہ مدارج طے کر لیے کہ خود فرماتے ہیں کہ دل کو اس قدر وسعت حاصل ہوئی کہ اس کے مقابلے میں عرش سے لے کر مرکز زمین تک تمام عالم کی حیثیت رائی کے ایک دانے کے برابر بھی نہ تھی۔ اس قلیل عرصے میں اللہ تعالیٰ کی خاص امداد سے آپ نے سلوک کے وہ مراحل طے کئے جو برسوں کی کوشش کے بعد بھی لوگوں کو نصیب نہیں ہوتے۔ اس موقع پر حضرت خواجہ نے نسبت نقشبندی کے حاصل ہونے کی خوشخبری سنائی۔دوسری بار جب آپ دہلی حاضر ہوئے تو خواجہ صاحب نے خلعتِ خلافت بھی عطا کی اور طالبان خدا کو تعلیم طریقت اور ارشاد و ہدایت کی اجازت دی۔ تیسری اور آخری ملاقات میں خواجہ صاحب نے بہت آگے تک آ کرآپ کا استقبال کیا۔ آپ کو بہت سی بشارتیں دیں اور اپنے دو چھوٹے بچوں کو بھی آپ کی خدمت میں پیش کیاتاکہ وہ آپ کی توجہ سے فائدہ اٹھائیں۔ آپ کے شیخ حضرت خواجہ باقی باللہ خود آپ کی کس قدر عزت کرتے تھے ‘اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ ایک روز آپ اپنے تخت پر آرام فرما رہے تھے کہ اتفاقاََ حضرت خواجہ تنہا آپ سے ملاقات کے لیے تشریف لائے ۔ خادم نے آپ کو بیدار کرنا چاہا لیکن حضرت خواجہ نے نہایت اصرار کے ساتھ اس کو منع کر دیا اور خود حجرے کے باہر آپ کے بیدار ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ شیخ احمد اگرچہ گہری نیند سو رہے تھے لیکن فورا اٹھ بیٹھے اور پوچھا کہ باہر کون ہے؟ حضرت خواجہ نے فرمایا، ’’ فقیر محمد باقی‘‘ آپ فورا تخت سے اٹھے اور نہایت عزت و احترام سے ان کو اندر لا کر بٹھایا۔ آپ اپنے شیخ کا حد درجہ احترام کرتے‘ ان کے طلب کرنے پر آپ کے چہرے کا رنگ بدل جاتا۔ کچھ عرصہ بعد شیخ نے آپ کو رخصت کیا اور رخصت کرتے وقت اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا کہ اب زندگی کی امید کم ہے۔ یہ بات درست ثابت ہوئی اور تیسری حاضری کے بعد آپ کو حضرت خواجہ کی صحبت میسر نہ آ سکی۔ 
اس کے بعد آپ سر ہند تشریف لائے اور خواجہ صاحب کے ارشاد کے مطابق تربیت و ہدایت کے کام میں مشغول ہو گئے۔ کچھ ہی عرصہ میں محسوس کرنے لگے کہ ابھی بہتری کی بہت گنجائش ہے اور اپنی ذات میں کمی کا احساس ہونے لگا۔ وہ طالب علم جو آپ کے پاس تزکیے اور تربیت کے لیے جمع تھے‘ ان کو رخصت کیا‘ خود گوشہ نشینی اختیار کی اور اپنے باطنی احوال کی طرف توجہ کی۔ جب کچھ اطمینان نصیب ہوا تو دوبارہ طالبینِ حق آپ سے استفادہ کرنے لگے۔ اس تمام عرصے میں شیخ باقی باللہ سے خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا۔ انہی کے حکم پر لاہور کا سفر اختیار کیا۔ لاہور بھی ہندوستان کے علمی و دینی مراکز میں سے تھا۔ وہاں کے علماء نے آپ کا پرجوش استقبال کیا۔ بہت سے حضرات آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے۔ ذکر اذکار اور درس کی محفلیں سجائی جاتیں۔ اسی اثنا میں آپ کو شیخ و مرشد کی وفات کا علم ہوا۔ اسی وقت پریشانی کی حالت میں دہلی روانہ ہوئے۔ سوگواران سے تعزیت کی اور شیخ کے مریدوں کی خواہش پر چند روز دہلی میں قیا م کیا۔ تربیت و ارشاد کی وہ محفلیں جن کا سلسلہ شیخ کے انتقال کے سبب رک گیا تھا ‘انہیں جاری کیا۔ کچھ روز کے قیام کے بعد واپس سرہند تشریف لے آئے۔ 
تجدید دین
شیخ کے دور کا سب سے بڑا فتنہ دین الٰہی تھا جو شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کی اپنی اختراع تھی۔ قبل اس کے کہ اس پر روشنی ڈالی جائے‘ یہ بتانا ضروری ہے کہ ابتداء میں اکبر بادشاہ بھی عام مسلمانوں کی طرح اور اپنے ماحول کے زیر اثر ایک سیدھا سادہ خوش اعتقاد مسلمان تھاجو بزرگوں سے عقیدت رکھتا تھا اور ان کے مزارات کی زیارت کے لیے طویل سفر کرتا ‘ علماء و صلحاء کی صحبت اختیار کرتا اور خود بھی ذکر و اذکار کا اہتمام کرتا۔ ہر سال سرکاری خرچ پر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو حج پر بھیجتا۔ خود بھی دین کی خدمت کے لیے کوشاں رہتا۔ یہاں تک کہ بعض اوقات مسجد میں جھاڑو بھی دیتا۔
اکبر ان پڑھ ہونے کے باوجود متجسس طبیعت کا مالک تھا۔ گزرتے ہوئے ماہ و سال نے اس کی دینی سوجھ بوجھ میں اضافہ تو نہ کیا البتہ مناظروں کی مجلسوں نے اسے الحاد اور تشکیک کی وادی میں لاڈالا۔ شاہی دربار میں صرف ہند و ازم اور اسلام ہی پر گفتگو نہ ہوتی بلکہ توراۃ اورانجیل کے تراجم بھی منگوائے گئے اور ان مذاہب کے پیشواؤں نے بھی دربار میں حاضر ہو کر اپنے اپنے مذاہب کی حقانیت ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ان حالات میں اہل بدعت اور ہوا پرست اپنی غلط آراء اور باطل شبہات کے ساتھ میدان میں نکل آئے اور باطل کو حق کی صورت میں اور خطا کو صواب کے لباس میں پیش کرنے لگے۔ بادشاہ جو طالبِ حق مگر ان پڑھ تھا اور کافروں سے مانوس تھا‘ شک میں مبتلا ہو گیا۔ ان شکوک و شبہات نے اسے شریعت سے دور کر دیا اور پانچ چھ سال کے بعد اسلام کا کوئی اثراس میں باقی نہ رہا۔دربار میں تفسیر قرآن غیر سنجیدہ اور بے باکانہ انداز میں بیان کی جانے لگی۔علمائے دربار آپس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی سعی میں حد سے گزرنے لگے۔ یہاں تک کہ اکبر علماء سلف کو بھی انہی پرقیاس کر کے سرے سے ہی علماء کا منکر ہو گیا۔مزید یہ کہ اکبر کو درباری بھی ایسے ہی ملے جنہوں نے بجائے دین کا دفاع کرنے اور بادشاہ کو راہِ حق پر لگانے کے ‘زمانے کی رو دیکھ کر اس کو دین سے متنفر کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ ہر وہ شخص جو معجزات اور عقائد پر زبان درازی کرتا اور ا پنی چرب زبانی کی بناء پر ا پنی بات کو وزنی بنا کر پیش کرتا‘ وہ بادشاہ کے دربار میں بلند مقام پاتا۔ اس کی سب سے کھلی مثال ملا مبارک اور اس کے دوبیٹے ابو الفضل اور فیضی تھے۔ یہ لوگ زبانِ ادب کے عالم تھے مگر دینی حوالے سے پیشوائی کے اہل نہ تھے۔ روحانیت انہیں چھو کر بھی نہیں گزری تھی۔یہ اپنے عہد کے ایسے اہم دانشور تھے جن کی ذہانت اور تبحر علمی کا ایک زمانہ معترف تھا۔ بادشاہ ان کے زیرِ اثر تھا اور پورے ملک میں ان کا طوطی بول رہا تھا۔ ان دونوں بھائیوں کی آزاد خیالی نے اکبر پر گہرا اثر کیا۔ کچھ ا پنی آزاد خیالی اور کچھ جاہ پسندی کی وجہ دونوں بھائی بادشاہ کے ہر غلط اقدام کی حمایت کرتے۔ اکبر کے لیے یہی کافی تھا کہ یہ دونوں بھائی اس کو یقین دلاتے کہ مذہب سے متعلق اس کے نظریات معاصر علماء سے کہیں افضل و بہتر ہیں۔اکبر کو دین سے متنفر کرنے اور اسلام اور دیگر مذاہب کے ملغوبے سے ایک نیا مذہب ایجاد کرنے میں بڑا ہاتھ ان ہندو راجپوت رانیوں کا بھی ہے جن سے اکبر نے استحکام سلطنت کے لیے شادیاں کی تھیں۔ پھر ان کے عزیز ہندو راجاؤں کو اعلی مناصب پر تقرر کیا۔ ساتھ ہی دربار میں ہندو رسموں اور طور طریقوں کا اثر نظر آنے لگا۔ حالات یہاں تک جا پہنچے کہ شرعی عدالت کی طرف سے جاری کردہ سزاؤں پر بھی ہند و رانیاں اثر انداز ہونے لگیں اور جب قاضی ء وقت نے اس دباؤ کو قبول کرنے سے انکار کیا تو انہوں نے بادشاہ سے شکایت کی کہ اس نے ملاؤں کو بہت سر چڑھا رکھا ہے۔ یہی وہ موقع تھا جب ملا مبارک کی مدد سے بادشاہ نے وہ محضر نامہ تیار کیا جس میں صاف طور پر اس بات کا اعلان کیا گیا کہ بادشاہ کا رتبہ مجتہد سے زیادہ ہے۔ ایسے دینی معاملات میں جن میں علماء کا آپس میں اختلاف ہے‘ بادشاہ کی رائے حتمی ہو گی اور ہر ایک کو اس کی پابندی کرنا ہو گی۔اس محضر نامے پر تمام علماء سے دستخط کروائے گئے۔ اب بادشاہ کے دل میں یہ بات پختہ ہو گئی کہ دین اسلام کو آئے ایک ہزار برس پورے ہونے کو ہیں۔ یہی اس دین کی طبعی عمر ہے ۔ اب کسی ایسی ہستی کی آمد کی ضرورت ہے جو نئے سرے سے دین کا اجر اء کرے اور وہ بادشاہ ہی کی ذاتِ قدسی صفات ہو سکتی ہے۔اب دین الٰہی کاایک مذہب کے طور پر آغاز ہوا جس کا بانی خود اکبر بادشاہ تھا۔ اس میں کواکب پرستی اور عقیدہ تناسخ کے علاوہ ہر اس چیز کو شامل کیا گیا جو آسان او رسادہ ہو‘انسانی نفس کے لیے باعث تسکین ہو یا اکبر کی سیاسی زندگی کے لیے مفید ہو۔ محل کے خدام غروب آفتاب کے بعد شمعیں روشن کر کے بادشاہ کے حضور آتے اور اللہ تعالیٰ کی حمد اور بادشاہ کی درازی عمر کے لیے دعا کرتے۔ بادشاہ صرف گنگا کا پانی نوش کرتا۔سود‘ شراب‘ جوئے اور خنزیر کے گوشت کو حلال کر لیا گیا۔ ایک طرف سؤر کے گوشت کو حلال کیا گیا تو دوسری طرف ہندو عقائد کے زیر اثر گوشت خوری کو ناپسند ٹھہرایا گیا۔ بادشاہ کو سجدہ تعظیمی کیاجانے لگا۔ دین الٰہی کے ماننے والے آپس میں ملاقات کے وقت السلام علیکم کی جگہ اللہ اکبر (بمعنی اکبر اللہ ہے) کہتے جبکہ وعلیکم السلام کی جگہ جل جلالہ کہا جاتا۔حکومتی سطح پر غیر اسلامی تہوار منائے جانے لگے۔ اسلامی شعائر اور ارکان کی توہین کی گئی ۔ غرض اسلامی تاریخ کے ہزارئیے کے پورے ہونے کے ساتھ ہی ہندوستان میں دین اسلام کو داخلی طور پر عظیم خطرہ درپیش ہو گیا۔
دیگر فرقوں کی فتنہ انگیزیاں
سلسلہ عشقیہ شطاریہ (جس کے بانی عبداللہ شطار خراسانی ہیں) کی ایک شاخ نے پہلی مرتبہ جوگ کو تصوف کے ساتھ ملایا۔ اس سلسلے کے سب سے نامور شیخ محمد غوث گوالیاری تھے جو امیر انہ ٹھاٹھ باٹھ سے رہتے ۔ ان کی جاگیر کی آمدنی نو لاکھ سکہ نقرئی تھی۔ ان کے پاس ۴۰ ہاتھی اور خادموں کی ایک فوج ظفر موج تھی۔ بازار میں نکلتے تو لوگ جھک جھک کر سلام کرتے۔ غرض سلف کے طریقے اور انداز چھٹ گئے تھے۔ 
ایک طرف صوفیاء کی وہ شاخیں تھیں جو نئے نئے نظریات کے ذریعے فکری مغالطے پیدا کررہی تھیں تو دوسری جانب اہل تشیع حضرات کی ایک شدت پسند جماعت نے کشمیر اور جنوبی ہند میں اپنا اثر پھیلانا شروع کیا۔ ان کی مبالغہ آمیز تعلیمات اور تشدد پر مبنی کاروائیوں نے اہل سنت حضرات کا جینا دو بھر کر دیا۔ مسجدوں‘ خانقاہوں اور بازاروں میں خلفائے ثلاثہ (حضرات ابوبکرؓ ، عمرؓ ، عثمانؓ) پر علی الاعلان تبرا کیاجانے لگا اور اس ساری کارروائی کی سرپرستی والی ء سلطنت برہان نظام شاہ خود کر رہا تھا۔ 
تیسری طرف ذکری فرقہ نے دعویٰ کیا کہ نبوت محمد یﷺ کا پہلا ہزار ختم ہونے پر اب ایک نئے پیغمبر کی ضرورت ہے اور دوسرے ہزار سال کے لیے خدا نے ملا محمد کو منتخب کیا ہے۔ ( جو اس فرقے کا بانی تھا)۔ پھر قادیانی جماعت کی طرح اپنے عقائد میں اتنا غلو کیا کہ ملا محمد کی فضیلت حضور ﷺ سے بھی بڑھا کر بتانے لگے اور ارکان اسلام کے منکر ہو گئے۔ 
ایک اور فرقہ روشنائیہ تھا ۔ اس کا بانی بازید انصاری تھا ۔ وہ وحدت الوجود کے نظریے کا قائل تھا اور دعویٰ کرتا تھا کہ اس کو الہام ہوتا ہے اور اس پر جبرائیل نزول کرتے ہیں۔ وہ خود اپنے آپ کو نبی سمجھتا۔ نماز پڑھتے وقت قبلے کے تعین کو غیر ضروری گردانتا۔ طہارت و پاکی کے بارے میں احتیاط نہیں برتتا تھا۔ اس نے پشاور کے علاقے اور آس پاس کے افغان قبائل کو اپنا معتقد اور مرید بنا لیا تھا اور اسے زبردست کامیابیاں حاصل ہوئی تھیں۔ سب سے طاقتور تحریک جس کے اثر ات دسویں صدی کے آخر تک باقی رہے وہ مہدویت کی تھی جس کے بانی سید محمد جو نپوری تھے۔ ظاہری طور پر وہ بڑے بہادر اور جری آدمی تھے۔ سلوک کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مجاہدہ اور ریاضت کرنے پہاڑوں میں نکل گئے۔ وہاں مراقبوں کے دوران انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں غیبی اشارے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مہدی مو عود ہونے کا اعلان کیا اور اس پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ وہ صاحب تاثیر آدمی تھے۔ بڑے بڑے مناصب پر فائز لوگوں نے ان کی دعوت پر لبیک کہا اور سب کچھ ترک کر کے ان کے ساتھ ہو گئے ۔ ایک بڑا علاقہ ان کے اثرات کے تحت آگیا۔ ان کی زندگی ترک دنیا اور زہد و ایثار کا نمونہ تھی۔ ان کے ہاں ہر چیز بغیر کسی لحاظ اور خصوصیت کے برابر تقسیم ہوتی۔ چونکہ وہ صاحب حال آدمی تھے ٰلہٰذا اس حالت میں ان کی زبان سے کچھ ایسے الفاظ و اقوال کا بھی پتہ چلتا ہے جن کی تشریح راسخ العقیدہ اہل سنت کے لیے مشکل ہے۔ پھر غالی معتقدین نے ان کی عقید ت میں اس قدر مبالغہ کیا کہ اس نے باقاعدہ ایک فرقے کی شکل اختیار کر لی۔ جس نے مسلم معاشرے میں انتشار و اضطراب پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ 
تین محاذ
مجموعی طور پر صورت حال کا جائزہ لیاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی صحیح اور خاص تعلیمات کو عام کرنے کے لیے تین محاذوں پر کام کرنے کی ضرورت تھی:۔
(ا)۔ انبیاء کی ضرورت اور مقام‘ نبی کریمﷺ کے خاتم النبین ہونے اور قیامت تک آپﷺ کی تعلیمات کے مؤثرہونے پر زور‘ سنت کی ترویج اور بدعات کا رد۔
(۲)۔ اہل تصوف کی اصلاح اور ان کے شرعی حد سے بڑھے ہوئے نظریات کی درستگی
(۳)۔ بادشاہ ‘ سلطنت اور حکومتی ارکان کو راہ راست پر لانے کی ضرورت۔
ان تمام مسائل سے نمٹنے کے لیے ایک ا یسی شخصیت کی ضرورت تھی جو ایک طرف سلوک کے سارے مراحل طے کر کے اس کی پرخار وادیوں سے نکل کر حقیقت کی تہہ تک پہنچ چکی ہو تو دوسری طرف نبی کریم ﷺ کے خاتم النبیین ہونے پر نہ صرف پورا یقین رکھتی ہو بلکہ آپ ﷺ کے طریقے‘ سنت کے اتباع اور شریعت کے احترام کا بہترین نمونہ ہو۔ اس کے ساتھ ہی اس کے کردار‘ عمل اور بیان میں اس قدر خلوص‘ پختگی اور بے لوثی ہو کہ بادشاہ اور ارکان سلطنت بھی اس کو نظر انداز نہ کر سکیں۔ اس عہد آفریں اور تاریخ ساز کام کے لیے قدرت نے شیخ احمد سرہندی ؒ کو چنا‘ جنہوں نے دین کی تجدید کا بیڑا اٹھایا۔ وہ سنگین خطرات جن کی زد میں پورا عالم اسلام اور خاص طور پر ہندوستان تھا‘ ان کے خلاف آپ نے کمر ہمت باندھی اور ایک بہترین حکمت عملی تیار کی۔ آپ نے اپنے پاس آنے والے طالبین حق کو نہ صرف عقائد کے میدان میں اسلام کی سادہ اور خالص تعلیمات کی طرف متوجہ کیا بلکہ اس کے ساتھ ہی ان کی تربیت کا پورا بندوبست کیا اور انہیں بلاد اسلامیہ کے طول و عرض میں پھیلا دیا۔ چنانچہ۰۲۶ا ہجری میں آپ نے اپنے بہت سے خلفاء تبلیغ و ہدایت کے لیے مختلف مقامات پر روانہ کیے ۔یہ حضرات ترکستان‘ عرب‘ شام‘ یمن‘ روم‘کا شغر‘ توران‘ بدخشاں اور خراساں کی طرف روانہ ہوئے۔ اندرون ملک سے بھی نامی گرامی علماء اور مشائخ آپ کی شہرت کا سن کر استفادے کی غرض سے سرہند آنے لگے۔ آپ کچھ عرصہ ان کو اپنے ساتھ رکھتے‘ ان کی باطنی اصلاح اور عقائد کی درستی کے ساتھ ان کو دعوت و تبلیغ کے کام کے لیے تیار کر کے واپس ان کے علاقوں کی طرف روانہ کر دیتے۔ یہ حضرات اپنے اپنے علاقوں میں عقائد کی اصلاح و بہتری کا باعث بنتے ۔دکن‘ آگرہ‘ سہارنپور‘ لاہور‘ پٹنہ‘ جونپور‘ بنگال‘ مانک پور ہرجگہ آپ کے خلفاء نے اپنا کام پورے زورو شور سے شروع کر دیا۔ غرض پورا ہندوستان آپ کی تعلیمات کی صداؤں سے گونجنے لگا۔ دوسرا کام یہ کیا کہ اپنی بات پہنچانے‘ اللہ تعالیٰ کے دین کو اس کی صحیح شکل میں پھیلانے اور امت کی اصلاح کے لیے آپ نے خطوط اور مکتوبات کو ذریعہ بنایا ۔ سینکڑوں کی تعداد میں خطوط پورے ملک میں روانہ کئے‘ جن میںآپ نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا اور ضرورت کے تحت افراد کے مزاجوں اور ان کے عقائد کی بے اعتدالیوں کو دیکھتے ہوئے انہیں نصیحت کی۔ 
مقام نبوت کی وضاحت اور سنت کی اہمیت
آپ نے نبوت محمد یﷺ پر ایمان و اعتقاد کی تجدید کے لیے رسائل تحریر کئے۔ نیزاپنے مکتوبات میں انبیاء کی بعثت کی ضرورت پر بحث کی۔ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ مختلف تحریکوں کے زیرِاثر عقل یا پھر کشف کو معرفت حق کے لیے کافی سمجھنے لگا تھا۔ آپ نے ثابت کیا کہ ان دونوں کے ذریعے حاصل کئے گئے نتائج لغزش اور غلط فہمی سے مبرا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صحیح معرفت انبیاء ہی کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے۔ جس طرح عقل کا مرتبہ حواس سے ماورا ہے۔ اسی طرح نبوّت کا مرتبہ عقل سے ماورا ہے۔ میر محمد نعمان کے نام اپنے خط میں آپ لکھتے ہیں: 
’’ نبوّت کا طریق عقل و فکر سے ماورا ہے۔ جن امور کے ادراک میں عقل قاصر ہے ‘ان کا ثبوت نبوت کے طریق سے ہوتا ہے۔ اگر عقل کافی ہوتی تو انبیاء کس لیے مبعوث ہوئے اور آخرت کے عذاب کو کیوں ان کی بعثت کے ساتھ وابستہ کیاجاتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وما کنا معذبین حتیٰ نبعث رسولا ’’ہم اس وقت تک عذاب کرنے والے نہیں ہیں جب تک کسی پیغمبر کو نہ بھیجیں‘‘۔ 
عقل اگرچہ حجت ہے لیکن حجت بالغہ نہیں ہے اور اپنی حجت ہونے میں کامل نہیں ہے۔ حجت بالغہ انبیاء کی بعثت سے ثابت ہوئی ہے اور اس نے مکلفین کی زبان عذر بند کر دی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔’’ پیغمبر بشارت دینے والے اور ڈرانے والے ہیں تاکہ انبیاء کی بعثت کے بعدلوگوں کے لیے اللہ کے اوپر کوئی حجت باقی نہ رہے اور اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے۔ ‘‘ جب بعض مسائل میں عقل کے ادراک کا عجزاور کوتاہی ثابت ہو گئی توتمام احکام شرعیہ کو عقل کی ترازو میں تولنا مستحسن نہیں۔ ہمیشہ ان مسائل و احکام کو عقل ہی کے مطابق کرنے کی کوشش اور اس کی پابندی نبوت کے طریق کاانکار ہو گی‘ اللہ تعالیٰ ہم کو اس سے پنا ہ میں رکھے۔‘‘ 
اپنے ایک اور خط میں خواجہ عبداللہ کو لکھتے ہیں:
’’یہ نہ سمجھیں کہ نبوت کا طریقہ کچھ عقل کے طریقے کے خلاف ہے بلکہ بات یہ ہے کہ عقل کا طریق انبیاء کی تقلید کے بغیر اس مقصد عالی تک پہنچ نہیں سکتا۔ مخالفت دوسری چیز ہے اور نارسائی دوسری چیز۔ اس لیے کہ مخالفت پہنچنے کے بعد متصو ر ہو سکتی ہے۔انبیاء کے طریقے کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے بیسیوں مقامات پر آپ نے ٹھوس دلائل اور بلند پایہ علمی نکات بیان کئے۔ تصوف کے میدان میں اولیاء اور صوفیاء کو ان کے معتقدین نے نبیوں سے بھی زیادہ مرتبہ اور عزت دینا شروع کر دی تھی۔ اس کے رد کے لیے آپ نے اپنے بے شمار مکتوبات میں انبیاء و اولیاء کے مقام اور مرتبے کے فرق کو واضح کیا۔ ’’اس فقیر پر اللہ نے واضح کر دیا کہ کمالاتِ ولایت کا کمالات نبوت کے مقابلے میں کوئی شمار نہیں۔ وہ نسبت بھی نہیں جو کہ قطرہ کو سمندر سے ہوتی ہے۔ پس جو خصوصیت اور فضیلت نبوت کی راہ سے حاصل ہوتی ہے‘ وہ اس فضیلت سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے جو ولایت کی راہ سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘
کرامات کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کی دلیل سمجھا جانے لگا تھا۔ جس بزرگ سے جتنے کمالات صادر ہوتے ‘ فضیلت کے اعتبار سے وہ اتنے ہی بلند درجے پر فائز سمجھا جاتا۔ آپ نے متعدد بار اس موضوع پر قلم اٹھایا ۔ اپنے ایک مکتوب میں جسے مولانامحمود اشرف عثمانی صاحب نے اپنی کتاب ’’ارشادات مجدد الف ثانی‘‘ میں شائع کیا ہے ، فرماتے ہیں:
’’ وہ خوارق جو امت کے بعض اولیاء سے ظاہر ہوئے ہیں‘اصحاب کرام سے ان کا سوواں حصہ بھی ظہور میں نہیں آیا۔ حالانکہ اولیاء میں سے افضل ولی ایک ادنیٰ صحابی کے درجے کو نہیں پہنچتا۔ خوارق کے ظہور پر نظر رکھنا کوتاہ نظری ہے اور تقلیدی استعداد کے کم ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔ نبوت و ولایت کے فیض قبول کرنے کے لائق وہ لوگ ہیں جن میں تقلیدی استعداد ان کی قوت نظری پر غالب ہو‘‘
اہل تصوف کی اصلاح
مجدد صاحب ؒ کا دور چونکہ تصوف اور اہل تصوف کے غلبے کا تھا اور اس راہ میں بھٹکنے اور منزل گم کرنے کا خدشہ بہت زیادہ ہوتا ہے لہذا ہر ہر قدم پر آپ نے درست بات کی طرف راہنمائی کرنے کا فریضہ انجام دیا ۔ بعض اونچے پائے کے بزرگوں سے جو باتیں منسوب کی جاتی تھیں وہ سر ا سر شریعت اسلامی کے خلاف تھیں۔ اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں: 
’’بعض مشائخ قدس سے جو غلبہ حال اور سکر کے وقت اہل حق کو صحیح روایتوں کے برخلاف علوم و معارف ظاہر ہوئے ہیں چونکہ ان کا باعث کشف ہے ‘اس لیے معذور ہیں۔ امید ہے کہ قیامت میں ان کا مؤاخذہ نہیں کیاجائے گا۔ وہ خطا کار مجتہد کا حکم رکھتے ہیں کہ اس کو خطا پر بھی ایک اجر ملے گا اور حق علمائے اہل حق کی طرف ہے۔ اللہ تعالی ان کی کوششوں کو مشکور کرے گا۔ کیونکہ علماء کے علوم چراغ نبوت سے لئے ہوئے ہیں ۔جن کی وحیِ قطعی سے تائید کی گئی ہے اور ان صوفیاء کے معارف کا اقتداء کشف اور الہام ہے کہ خطا کو اس میں دخل ہے اور کشف و الہام کی صحت کا مصداق علمائے اہلِ سنت کے علوم کے ساتھ ان کا مطابق ہونا ہے۔ اگر سرِ موبھی مخالفت ہے تو دائرہ صواب سے باہر ہیں۔ یہی علم صحیح اور حق صریح ہے اور اس کے سوا گمراہی ہے۔‘‘
اس دور کا سب سے بڑا فکری مغالطہ جسے اہل تصوف کے یہاں بڑی قدر و منزلت سے دیکھا جاتا تھا وہ مسئلہ ’’ وحدت الوجود‘‘ تھا۔ یہ نظریہ اس قدر پیچیدہ ہے اور اس کے ضمن میں استعمال کی جانے والی اصطلاحات اتنی باریک ہیں کہ قارئین کے لیے ان کو سمجھنا اور آسان الفاظ میں اس کو سمجھایا جانا بہت مشکل ہے ۔ مختصر یہ کہ اس نظریئے کے تحت جو دو وجود کا قائل ہوا کہ ایک اللہ کا وجود ہے اور ایک ممکن کا تو وہ شرک کر رہا ہے اور اس کا یہ شرک‘ شرک خفی ہے اور جو شخص صرف ایک وجود کا قائل ہو اور اس نے کہا کہ وجود صرف اللہ کا ہی ہے اس کے سواء جو کچھ ہے وہ اس کے مظاہر ہیں اور مظاہر کی کثرت اس کی وحدت کے منافی نہیں تو یہ شخص مو حّد ہے۔ نیز اس بات کا یقین رکھنا ضروری ہے کہ لا موجود ولا الہ الا اللہ (اللہ کے سوا نہ کوئی موجود ہے اور نہ کوئی معبود ہے)۔ دیکھنے میں یہ نظریہ توحید پرستی کی انتہا ہے مگر حقیقت میں یہ ہوا کہ اس کے باریک بین فلسفیوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ اللہ کے سوا کوئی موجود نہیں ہے تو پھر جو جو بھی موجود ہے اس کی ذات میں اللہ ہو گا۔ ورنہ وہ موجود کیسے ہے ؟ نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کا ہر جاندار اور بے جان جس کا وجود ہے ایسے صوفیاء نے اسے اللہ سے جدا نہ جانا تو یوں سب نعوذ بااللہ‘اللہ ہو گئے۔ اس نظریئے کے کچھ ماننے والے تو انتہاتک چلے گئے اور کہنے لگے کہ فرعون نے جو انار بُّکم الاَ علٰی کا دعویٰ کیا تھا تو وہ بالکل درست تھا۔ کیونکہ اسے منصب حکومت حاصل تھا۔ اس لیے جب سب کسی نہ کسی نسبت میں رب ہیں تو اس کا یہ کہنا کہ ’’ میں تمہارا سب سے اعلیٰ رب ہوں ‘‘(نعوذ بااللہ) درست تھا کیونکہ اسے حکومت اور فیصلے کا اختیار تھا۔ اس قسم کے بہت سے لغوعقائد نے جڑ پکڑ لی تھی۔ خصوصاً ہندوستان تو اسلام سے قبل بھی ’’ ہمہ اوست ‘‘ کے نظرئیے کا قائل تھا۔ شیخ ابن عربی کے اس نظریئے کو یہاں بہت شہرت حاصل ہوئی اور اس نے مقامی مزاج سے ہم آہنگ ہو کر ایک نیا مکتبِ خیال پیدا کر لیا۔ وحدت الوجود کے نظریئے کے رد کے لیے علمائے حق اورجماعت اہل سنت کی طرف سے جو کوشش کی گئی’ اس کو وحدت الوجود کے حامی حضرات نے اس لیے رد کر دیا کہ یہ علمائے ظاہر جنہوں نے کبھی تصوف کے میدان میں قدم ہی نہ رکھا‘ جن پر روحانی مقامات اور کشف و الہامات کے مدارج کھلے ہی نہیں وہ اس بات کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتے کیونکہ وہ اس دریا کے غواص ہی نہیں ہیں۔ لیکن جب مجدد صاحب نے اس پر قلم اٹھایا تو کوئی معترض آپ کی معرفت حقائق اور عملی تجربات سے ناآشنائی کا اعتراض نہ کر سکا۔وحدت الوجود کی بابت تین طرح کے تصورات کے حامل زیادہ مشہور تھے جو حضرت مجدّد کے سامنے آئے یعنی :۔
ا۔ وہ لوگ جو وحدت الوجود پر مکمل یقین رکھتے تھے اور اس کو معرفت کی آخری منزل گردانتے تھے۔ 
۲۔ وہ لوگ جو اس کا انکا ر کرتے تھے اور اس کو وہم اور خیالِ باطل سے زیادہ اہمیت نہ دیتے تھے۔
۳۔ وحدت الوجود کے متوازی وحدت الشہود کا نظریہ رکھنے والے یہ سمجھتے تھے کہ سالک کو جو کچھ نظر آتا ہے وہ معدوم نظر آتا ہے ،جس طرح ستارے طلوع آفتاب کے بعد اس کے نور کے سامنے ایسے بے حقیقت نظر آتے ہیں جیسے ان کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔مجدد صاحب نے ان تمام آراء اور نظریات کے مقابل یہ مسلک اختیار کیا کہ وحدت الوجود سالک کے مقامات میں سے ایک مقام ہے۔ اس مقام پر پہنچنے کے بعد واقعی یہ محسوس ہوتا ہے کہ وجود حقیقی (باری تعالیٰ) کے سوا کسی چیز کا وجود نہیں ہے۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی توفیق شامل حال ہو اور شریعت پر مضبوطی سے عمل ہو تو منزل حقیقی بھی آجاتی ہے اور وہ وحدت الشہود کی منزل ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے اپنے تجربات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ پھر وحدت الوجود اور توحید وجود پر اعتقاد رکھنے والوں پر اعتراضات بھی کئے۔انہوں نے سمجھایا کہ اگر ہر چیز حق ہے توپھر کفر و ایمان کے امتیاز اور فرق کو بے اصل سمجھ کر شریعت اور سنت پر عمل کو معمولی درجے کا کام سمجھا جانے لگے گا۔ اس کا تقدس اور احترام زمانے کی نظروں میں کم ہونے لگے گا۔ آپ نے سنت رسول ﷺ کی پیروی پر بار بار زور دیا۔ ایک مکتوب میں لکھا ’’ فضیلت تمام تر سنت کی پیروی سے وابستہ اور شریعت پر عمل کرنے سے مربوط ہے ۔ مثلا دوپہر کا سونا جو اتباع سنت کی نیت سے ہو‘ کروڑوں شب بیداریوں سے افضل اور زکوۃ کا ایک پیسہ ادا کرنا افضل ہے‘ سونے کے پہاڑ خرچ کردینے سے جو اپنی طرف سے خرچ کیے جائیں۔آپ نے اپنے مکتوبات میں واضح کیا کہ فرائض جو کہ شریعت کی طرف سے مقرر کردہ ہیں‘ ان کا درجہ اور ان کی ادائیگی کا اجر سب سے زیادہ ہے اور نبی اکرم ﷺ کی سنتیں اور آپ ﷺ کا طریقہ سب سے زیادہ اللہ سے قریب کرنے والا ہے۔ 
صوفی قربان کے نام اپنے خط میں فرماتے ہیں:۔
’’ صوفیائے خام ذکر و فکر کو اہم کام سمجھ کر فرائض و سنن کی ادائیگی میں تساہل برتتے ہیں۔ چلّوں اور ریاضتوں کو اختیار کر کے جمعہ و جماعت ترک کر دیتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ جماعت کے ساتھ ایک فرض نماز کی ادائیگی ان کے ہزاروں چلوں سے بہتر ہے ۔ ہاں ذکر و فکر جو آداب شرعی کے ساتھ ہو ‘بہت بہتر اور ضروری ہے۔ ناقص علماء بھی نوافل کی ترویج میں کوشاں رہتے ہیں اور فرائض کو خراب و ابتر رکھتے ہیں۔‘‘
آپ نے بدعات کے رد اور ازالے کے لیے علم جہاد بلند کیا ‘ عوام اور خواص کو اس مغالطے سے نکالا کہ بدعات کی دو قسمیں ہیں۔ ایک بدعت سیّۂ اور دوسری بدعت حسنہ۔ بدعت سئیہ اس کو قرار دیا گیا ہے کہ جو کسی سنت کی جگہ لے لے جبکہ بدعت حسنہ وہ ہے جس سے کسی مسنون طریقے پر کوئی زد نہ پڑتی ہو ۔ آپ نے واضح کیا کہ جب ہر نو ایجاد کردہ چیز بدعت ہے اور ہربدعت ضلالت ہے تو کسی بدعت میں حسن پائے جانے کا کوئی سوال نہیں ہے۔ اپنے ایک مکتوب میں میر محب اللہ کو لکھتے ہیں:۔
’’ سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگوں نے کہاں سے کسی ایسے کام میں حسن ہونے کا فیصلہ کیا جو اسلام کے دین کامل اوراللہ کے پسندیدہ مقبول مذہب میں اتمام نعمت کے بعد ایجاد کیا گیا ہو۔ کیا ان کو یہ موٹی بات معلوم نہیں کہ اتمام و اکمال اور قبولیت کے بعد کسی دین میں کوئی نئی بات ایجاد کی جائے تو اس میں حسن نہیں ہو سکتا۔ حق کے بعد صرف گمراہی کا درجہ رہ جاتا ہے۔‘‘ 
مجدّد صاحب نے متعدد بار اس بات کا اعادہ کیا کہ ہر قسم کی بدعات کے دروازے کو مطلقاََ بند کر دینے میں ہی خیر ہے۔ اس کے جواز کا فتویٰ دے دیاجائے تو ہر کوئی غلط رسومات کے لیے راستہ نکال لے گا۔
اہل اقتدار کی اصلاح
اہل بدعت و شرک اور صوفیوں کے عقائد و اعمال کی درستگی کے ساتھ ساتھ آپ کے پیش نظر بادشاہ اور اس کے درباریوں کی اصلاح کا عظیم کام بھی تھا۔ اکبر کے انتقال کے بعد جہانگیر تخت نشین ہوا جسے اسلام سے کوئی عناد نہیں تھا اوراکبر کی طرح دین کے بارے میں نئی نئی موشگافیاں کرنے سے بھی کوئی دلچسپی نہ تھی۔ لیکن جن نقصانات کا دورِ اکبر میں اسلام کو سامنا کرنا پڑا‘ ان کے اثرات کو مٹانے کے لیے آپ نے بادشاہ کے مقرب امراء کے ذریعے بادشاہ کو نصیحت آمیز پیغامات بھیجے۔ اس موقع پر سمجھ لینا چاہیے کہ مجدّد صاحب کو اس بات کا پورا احسا س تھا کہ اللہ تعالیٰ کو آپ سے شریعت کی ترویج و تبلیغ کا کام لینا ہے جو صرف خانقاہ میں پیری مریدی کر کے انجام نہیں دیاجا سکتا۔ اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ ایک طرف عوام کے عقائد کی درستگی اور اعمال کی اصلاح پر توجہ دی جائے تو دوسری طرف حکومت کی بھی اصلاح کی جائے جو اتنے بڑے ملک کا انتظام و انصرام چلانے پرمقرر ہے۔ آپ نے خاص طور پر ان درباریوں کا انتخاب کیاجن کی دینی حمیت کچھ نہ کچھ لائق بھروسہ تھی۔ آپ نے انتہائی دردمندی سے خطوط تحریر کئے جن میں اسلام کی غریب الوطنی کا تذکرہ بڑے پر اثر انداز میں کرنے کے بعد اسلام کی تقویت کے لیے کام کرنے والوں کے اجر و اعزاز کا بار بار ذکر کیا ہے۔ ان خطوط میں مسلمانوں اور اسلام کی خیر خواہی کا جذبہ اور حکومتی کارندوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ کی طرف دعوت دینے کا شوق ایک عجیب تاثیر پیدا کرتا ہے ۔ یہ طویل مکتوبات نقل کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ سید فرید کے نام آپ کے مکتوب کا ایک مختصر اقتباس یہاں درج کیاجاتا ہے:۔
’’ آج اسلام بڑا بے کس اور غریب الوطن ہے۔ ایک پیسہ بھی جو اس وقت تقویت اسلام میں خرچ کیاجائے وہ کروڑوں میں خریدا جائے گا۔ دیکھنا چاہیے کہ کون شاہباز ہے جس کو اس دولت سے مشرف کیاجائے گا۔ ‘‘
ایک اور جگہ تحریر کرتے ہیں:۔
’’بادشاہ کو عالم سے وہی نسبت ہے جو دل کو بدن سے ہے۔اگر دل صحیح و صالح ہو تو بدن بھی صحیح و صالح ہو گا۔ اور اگر وہ فاسد ہے تو بدن بھی فاسد ہو گا۔ بادشاہ کا صلاح عالم کا صلاح ہے اور اس کا فساد عالم کا فساد ہے۔‘‘
بادشاہ کے درباریوں کے ذریعے آپ نے سلطنت کے ارکان اور خود بادشاہ کی تربیت و اصلاح کا کام شروع کیا لیکن یہ اثر چونکہ بالواسطہ تھا لہٰذا اس کے لیے ایک مدت درکار تھی۔ اسی اثنا میں قدرت نے آپ کے لیے وہ موقع پیدا کیا کہ آپ براہ راست بادشاہ اور اس کی سلطنت کے ارکان پر اپنا اثر ڈال سکیں۔ جہانگیر کے کچھ درباریوں نے آپ کے خلاف اس کے کان بھرنے شروع کئے۔ آپ کے کچھ خطوط پیش کئے گئے جو تصوف کے دقیق مضامین پر مبنی تھے۔ دوسری جانب آپ کے وہ خطوط جو درباریوں تک پہنچ رہے تھے ‘ان کی سن گن بھی بادشاہ کو مل رہی تھی۔ ایک اور چیز جس نے بادشاہ کو متوجہ کیا وہ عوام میں آپ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت تھی جسے دیکھ کر بادشاہ کو آپ کی طرف سے کسی سیاسی انقلاب کا خطرہ بھی محسوس ہوا ۔ اس نے آپ کو دربار میں طلب کیا۔ آپ صاحبِ عزیمت تو تھے ہی تاہم آپ اپنے پانچ مریدوں کے ہمراہ بادشاہ کے دربار میں تشریف لے گئے۔ملاقات کے وقت آپ نے خلاف شرع شاہی آداب ادانہ کئے۔ بادشاہ نے وجہ پوچھی تو فرمایا۔ میں نے تو آج تک اللہ تعالیٰ اور رسولﷺ کے بتائے ہوئے آداب و احکام کی پابندی کی ہے۔ اس کے علاوہ مجھے کوئی آداب نہیں آتے۔ بادشاہ نے ناراض ہو کر کہا مجھے سجدہ کرو۔ آپ نے کہا میں نے اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کسی کو سجدہ کیا ہے نہ کروں گا۔ اس پر بادشاہ آپ سے ناراض ہو گیا اور ۰۲۸ا ھ میں گوالیار کے قلعے میں آپ کو نظر بند کر دیا گیا ۔ قید کرنے کے بعد آپ کی حویلی‘ سرائے ‘ کنواں ‘ باغ اور کتابیں ضبط کر لی گئیں۔ 
آپ نے اسیری میں بھی دعوت وتبلیغ کا کام زور و شور سے جاری رکھا اور سینکڑوں بت پرستوں کو مسلمان کیا۔ آپ اپنے کا م میں پور ی طرح مصروف تھے کہ بادشاہ کو اپنے اقدام پر ندامت ہوئی اور ہر طرف سے لوگوں نے اس کے عمل کو ناپسندیدگی سے دیکھا۔ اگلے سال آپ کی رہائی عمل میں آئی۔ اب بادشاہ نے درخواست کی کہ چند روز آپ بادشاہ اور لشکر کے ساتھ وقت گزار یں۔ آپ نے موقع غنیمت جان کر اس درخواست کو منظور کر لیا اور اپنے صاحبزادوں کو اس بارے میں تحریر کیا:۔
’’لشکر میں اس طرح بے اختیار وبے رغبت رہنا بہت ہی غنیمت جانتا ہوں اور اس عرصے کی ایک ساعت کو دوسری جگہوں کی بہت سی ساعتوں سے بہتر تصور کرتا ہوں۔‘‘ 
اب لشکریوں ‘ درباریوں اور خود بادشاہ کے سامنے آپ کے کردار کی بے لوثی اور خلوص خوب کھل کر نمایاں ہو گیا۔ دن رات بادشاہ اور اس کے درباریوں سے صحبت رہتی جس میں دینی امور بھی زیر بحث آتے۔ بادشاہ کو آپ کی رفاقت سے فائدہ ہوا۔ اس نے آپ کے معمولات ‘ طبیعت کے استغنا ء اور اصلاح عام کے لیے آپ کی کوششوں کو محسوس کیا۔ اگرچہ وہ خود تو آپ کے حلقہ ارادت میں شامل نہ ہوا لیکن ہندوستان کے سیاسی حالات جو اسلام مخالف ہو چکے تھے‘ اب اسلا م کے احترام میں بدل گئے اور شعائر اسلام سے متصادم نہ رہے۔ جہانگیر نے دہلی ‘ بنارس اور پھر اجمیر میں بھی آپ کو اپنے ساتھ رکھا۔ لشکر شاہی کے ساتھ آپ کا قیام ساڑھے تین سال رہا۔ اس عرصے میں آپ کو اصلاح احوال کا جو موقع ملا اس سے آپ نے بھر پور فائدہ اٹھایا اور جو مرید آپ کے ساتھ تھے‘ ان کو بھی اس کار خیر میں شامل کیا۔ 
اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں:۔ 
’’ برخورداران اور رفقاء میں سے جو بھی ساتھ ہے‘ ان سب کو وابستگی حاصل ہے اور ان کے احوال میں ترقی ہے۔ ان کے واسطے یہ چھاؤنی گویا کہ خانقاہ بن گئی۔ یوں دین اسلام میں جو اکبر کے دین الٰہی کے نفاذ کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوا تھا‘جہانگیر کے عہد کے اولین حصے تک کسی حد تک جاری رہا وہ جہانگیر کے آخریں عہد میں مندرجہ بالا تبدیل شدہ حالات میں شیخ احمد کی سعی بلیغ کے سبب اصلاح میں بدل گیا۔ شیخ صاحب کو مجد د الف ثانی کا جو لقب تاریخ نے دیا‘ وہ کس قدر صحیح ہے۔ 

سفر آخرت۔
لشکر کے قیام سے واپسی پر آپ نے خلوت اختیار کی ۔ اندازہ ہو گیا کہ اب واپسی کا وقت قریب ہے۔ صرف نماز پنجگانہ اور نماز جمعہ کے لیے باہر تشریف لاتے۔ سارا وقت ذکر و فکر میں صرف ہوتا۔ اپنے بیٹوں کو بتا دیاتھا کہ اب اس دنیا کی طرف رغبت معلوم نہیں ہوتی‘ سفر کے دن قریب معلوم ہوتے ہیں۔ پھر گریے کا غلبہ ہو جاتا۔ بخار مستقل رہنے لگا۔ اس حالت میں بکثرت صدقہ و خیرات کیا۔ ایک رات ثلث اخیر میں اٹھ کر وضو کیا اور تہجد کھڑے ہو کر پڑھی‘ پھر کہا ۔ یہ ہماری آخری تہجد کی نمازہے‘ اس حالت ضعف میں بھی برابر سنت کی پابندی‘ بدعت سے اجتناب اور دوام ذکر کی وصیت فرماتے رہے۔ پھر فرمایا کہ میری تجہیز و تکفین میں سنت پر پورا عمل کیاجائے۔ چاشت کے وقت پیشاب کے لیے طشت منگوایا جس میں ریت نہیں تھی۔ چھینٹے پڑنے کے خیال سے اس کو واپس کر دیا۔ مسنون طریقہ کے مطابق دایاں ہاتھ رخسار کے نیچے رکھ کر ذکر میں مشغول ہو گئے ۔ تھوڑی ہی دیر میں سانس تیز چلنے لگی اور پیر کے روز چاشت کے وقت۰۳۴ا ہجری میں اس عالم فانی سے کوچ کر گئے۔ وفات کے وقت عمر مبارک تریسٹھ برس تھی۔ 
معمولات زندگی
آپ کی ساری زندگی شریعت کی متابعت میں بسر ہوئی۔ سنت کی پیروی میں باریک باتوں کا بھی اس قدر اہتمام فرماتے کہ اس کی مثال مشکل ہے۔ اس تمام کوشش کو ہمیں اس تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ آپ صاحب تصوف تھے۔ اولیائے کبار کے سوا کسی صوفی میں شریعت کی اس قدر پابندی کی مثال تاریخ میں مشکل ہی سے ملے گی۔ کثرت عبادت سے آپ کے پاؤں متورم ہو جاتے۔ تہجد تک نوافل کی ادائیگی میں مصروف رہتے ۔ فجر کی نماز سے اشراق کے وقت تک حلقہ فرماتے۔ پھر اشراق کی طویل نماز ادا کر کے طالبین حق کی تربیت پر ذاتی توجہ دیتے اور ان کے سامنے مضامین خاص و عام بیان فرماتے۔ نماز چاشت کے بعد گھر تشریف لے جاتے اور گھر والوں کے ساتھ کھانا نوش فرماتے۔ خادموں کا اس موقع پر خصوصی خیال رکھتے۔ دن بھر تلاوت ‘ ذکر اذکار‘ دعوت و تبلیغ اور اصحاب کی باطنی کیفیات میں بہتری کی کوششوں میں وقت گزرتا۔مریضوں کی عیادت کے لیے جاتے۔ غیبت سے بہت بچتے ۔ جس کسی سے بھی تکلیف پہنچتی اس کی شکایت زبان پر کبھی نہ لاتے۔ سلام میں پہل کرتے۔ لباس سادہ اور سنت کے مطابق پہنتے۔ عید پر عمدہ لباس کا خصوصی اہتمام کرتے۔ اپنی باطنی کیفیات اور تقوے کا اظہار کبھی نہ کرتے۔ جو لوگ آپ کی صحبت میں رہتے انہوں نے بھی چند ایک بار ہی آپ کو بہ چشم نم دیکھا۔ ان تمام کوششوں کے باوجود اپنے عمل کو بہت قلیل جانتے۔ آپ باربار یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ ہمارا عمل اور کوشش بھی کیا چیز ہے جو کچھ ہے وہ سب فضل خداوندی ہے۔ 
آپ کی پوری زندگی پر جو چیز سب سے زیادہ حاوی نظر آتی ہے وہ سنت رسولﷺ کی سختی سے پابندی ہے جو اس زمانے کے ماحول میں اپنا اثر کم کر چکی تھی اور جس کو نئے سرے سے رائج کرنے کا کام اللہ تعالیٰ نے آپ سے لیا۔ ایک مرتبہ کسی خادم سے کہا کہ فلاں مقام پر لونگیں رکھی ہیں۔ کچھ دانے لے آؤ۔ وہ چھ دانے لے آیا۔ یہ دیکھ کر ناگواری سے فرمایا ہمارے صوفی کو اب تک یہ بھی معلوم نہیں کہ عدد طاق کی رعایت سنت ہے۔ پھر کہا میں تو وضو میں منہ دھوتے وقت یہ خیال رکھتا ہوں کہ پہلے داہنے رخسار پر پانی پڑے کیونکہ داہنے طرف سے کام کی ابتداء کرنا بھی سنت ہے۔ آپ کے یہاں سنت کا اہتمام اس حدتک ہوتا کہ ایک روز فرمایا’’ ایک دن سہواً جائے ضروریہ (بیت الخلاء) میں داخل ہوتے وقت دایاں پاؤں پہلے رکھ دیاتھاسو اس دن بہت سے احوال سے محرومی رہی۔ ‘‘
آپ کے اثرات و تصنیفات 
آپ کے انتقال کے بعد آپ کے شاگردوں کے ذریعے آپ کی تعلیمات ہندوستان کے گوشے گوشے میں پھیل گئیں۔ جہانگیر کے بعد اس کا بیٹا شاہجہان اور بعد میں پوتا اورنگزیب عالمگیر تخت نشین ہوا تو اس کے اندر صحیح اسلامی روح موجود تھی۔ مجدّد صاحب نے اپنی کوششوں سے وہ سب جھوٹے لبادے اتا ر پھینکے تھے جو مختلف طبقہ فکر کے لوگوں نے اسلام کو پہنار رکھے تھے اور اسلام کی سادہ اور روشن تعلیمات نکھر کر سامنے آ گئی تھیں۔ اسی روشنی میں اگلے پچاس سال عالمگیر نے حکومت کی ۔ نصف صدی پر محیط یہ عرصہ ہندوستان میں اسلام کے حق میں بہترین ثابت ہوا اور اسلام پسند قوتوں کو کام کرنے کا کھلا موقع ہاتھ آیا۔ مختصر یہ کہ مجدد صاحب کے اثر کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ پچھلے پانچ سو سال کی ہندوستان کی تاریخ میں اسلام کو قائم و نافذ کرنے کی کوششوں کا تفصیلی مطالعہ کیاجائے تو ان سب کا بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق آپ سے نکل آتا ہے۔اقبال نے کہا تھا۔ ؂
حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیرِ فلک مطلعِ انوار

اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمئیِ احرار 

وہ ہند میں سرمایہ ملّت کا نگہبان 
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبر دار 

مجدد صاحب کی آٹھ تصنیفات دستیاب ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ شہرت ’’ مکتوبات امام ربانی‘‘ کے نام سے چھپنے والے آپ کے تحریرکردہ خطوط کو حاصل ہے ۔ اس کتاب کے تراجم مختلف زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ ان مکتوبات کی تعداد ۵۳۶ہے۔ 
شیخ احمد سرہندیؒ مجدّد الف ثانی کے درجات کی بلندی کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں ۔ اللھم اغفرلہ وسَکِنّہ فی الجنّت الفردوس فی الرّفیقِ الاعلیٰ ۔ ایں دعا از من وازجملہ جہاں آمیں باد۔

Saturday, 13 September 2014

Imam Ibn Taymiyyah


نویں کہانی

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ 
یہ کہانی اسلامی تاریخ کے نہایت نمایاں صاحبِ سیف و قلم‘ ساتویں صدی ہجری میں تجدید دین کی علمدار شخصیت کی ہے جن کا نام احمد‘ کنیت ابو العباس اور لقب تقی الدین ہے۔جن معاشروں میں علم و فضل کی قدر کی جاتی ہے انہی معاشروں میں اہل علم پیدا ہوئے اور ابھرے ہیں۔ ان مایہ نازامام اور بے مثال فقیہ احمد بن عبدالحلیم جن کی نویں پشت میں ایک نادرِ روزگار عالمہ تیمیہ نام کی گزری تھیں،پس ان امام صاحب نے بھی اپنے اکابر کی طرح اپنی پہچان اور نسبت میں ان خاتون محترم سے تعلق کو سلامت رکھا۔ اپنے اصل نام کی بجائے ابن تیمیہ ہی کہلائے۔ بلا شبہ آپ صحابی تو نہ تھے کہ آپ کا زمانہ ہی کم از کم ساڑھے چھ صدی بعد کا ہے، مگر دینِ رسولِ عربیﷺ کے اندر جو بدعات جڑ پکڑ چکی تھیں‘ ان کو ختم کر کے اسلام کو اپنی فطری سادگی اور توحید کی لا شریک بنیادوں پر پھر سے محکم کرنے کا حق جس طرح آپ نے ادا کیا‘آپ کا وہ مجد د انہ کام ہمیشہ کے لیے بے مثال اور یادگار نام بن گیا۔ جب اس دینِ اسلام کو بے حد گدلا کر کے اس کی اصل یعنی توحید باری تعالیٰ ہی کو لوگوں نے اپنی زندگیوں سے نکال کر شرک اور بت پرستی ہی کو دین سمجھ لیا‘ مساجد کی اہمیت کم ہو چکی تھی‘ سارے ملک میں جعلی قبروں اور مزارات کا جال بچھ گیاتھا، اس کے ساتھ ساتھ یونانی فلسفیانہ روایات کا دین میں اس حد تک نفوذ ہوا کہ ارسطو کی عظمت اور اس کا تقدس مسلمانوں کے دلوں میں گھر کر گیا۔ مزید براں علم کلام‘ غیر اسلامی تصوف اور فرقہ باطنیہ اورعیسائی مشنری کی یلغار کے نتیجہ میں دین اسلام کا اصل چہرہ ہی بگڑ چکا تھا‘اس وقت امام ابن تیمیہ کو اللہ پاک نے اس بگاڑ کی اصلاح کے لیے گویا چن لیا تھا۔
ع۔ ہر کسے را بہرِ کارے ساختند
اس ساتویں آٹھویں صدی ھجری میں ا مام ابن تیمیہ نے تجدید دین کا وہ شہرہ آفاق کا رنامہ سرانجام دیا جس کابعد میں آنے والے علمائے حق نے کھلے دل سے اعتراف کیا۔ دین اسلام کی تجدید کا یہ مقدس کارنامہ جو امام صاحب نے سرانجام دیا‘ وہی آپ کے نام اور کام کو بزرگوں کے ساتھ جوڑ دینے کو کافی ہے۔ تجدید دین کے حوالے سے امام صاحب کی سعی مسلسل کا بیان آگے وقت کی ترتیب کے ساتھ آئے گا۔ مگر قبل اس کے کہ امام صاحب کے تجدیدی کام پر نگاہ ڈالی جائے‘یہ جاننا ضروری ہو گا کہ اس وقت مسلمانوں کی فکری و اخلاقی حالت کیسی تھی اور آپ کو احیائے دین کے کام کی ضرورت کیوں پڑی۔ آٹھویں صدی ہجری کے حالات کا بغور جائزہ لیاجائے تو اندازہ ہو تا ہے کہ اسلام کی سادہ اور عام فہم تعلیمات کی جگہ مختلف پیچیدہ نظریات نے لے لی تھی۔ ان باطل نظریات کو اپنانے والوں کے اپنے اپنے گروہ تھے اور انہوں نے امتِ مسلمہ کو یر غمال بنا رکھا تھا۔ دین کا اصل چہرہ بگڑ چکا تھا اور آئے دن نئے نئے فتنے سر اٹھاتے رہتے تھے۔اس وقت کا حال یہ تھا کہ قبروں سے مرادیں مانگی جاتیں‘ فلسفیانہ سوچ یونانی فلسفوں کے تابع کی جاچکی تھی۔ تصوف میں ایسی ایسی لغویات شامل ہو چکی تھیں کہ تصوف شریعت کا دشمن بن چکا تھا۔صوفیاء کے اندر نئے نئے فرقے مشرکانہ عقائد کی علمبرداری کرنے لگے تھے۔ان سب کے ساتھ عیسائی مشنریوں کی روز افزوں پیش قدمی تھی جو مسلمانوں کو ارتداد یا تشکیک کی طرف برابر لے جا رہی تھی۔ اب امام صاحب کی خدمات پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
شرک اور قبر پرستی 
عالمِ اسلام میں غیر مسلم اقوام کے اختلاط کی وجہ سے نقلی پیروں‘ فقیروں کے مشرکانہ عقائد و رسوم کا رواج عام ہو چلا تھا ۔ بہت سے لوگوں نے فوت شدہ پیروں کو خدا کا درجہ اور اس زندہ پیر کو جو اس قبر کا مجاور ہوتا‘ پیغمبر کا مرتبہ دے رکھا تھا۔یہ لوگ صاحب قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور مغفرت طلب کرتے۔ اپنے ائمہ اور شیوخ کی زیارت کو حج بیت اللہ سے افضل سمجھتے ۔ ان کی بیباکی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ اپنے جانوروں کو بسم اللہ کے بجائے ذبح کرتے وقت کہتے، ’’میرے آقا کے نام سے‘‘ ۔ اس قبر پرستی کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ مساجد کی اہمیت کم ہو گئی اور پورے ملک میں جعلی قبروں اور مزارات کا جال بچھ گیا۔ امام صاحب نے تحریر و تقریر کے ذریعے ان مشرکانہ عقائد کی تردید کی ۔ اپنے رسائل‘ الرّدعلی البکری اور التوسل والوسیلۃ میں علی الا علان اس بات کا اظہار کیا کہ غیر اللہ سے دعا مانگنا حرام ہے اور شریعت محمد یﷺ میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ اور انسان میں واسطے کی حقیقت پر ایک کتاب ’’الواسطۃ بین الخلق والحق ‘‘کے نام سے لکھی ۔ آپ نے عقیدہ توحید کو انبیاء کی بعثت کا بنیادی مقصد قرار دے کر سادہ دل مسلمانوں کی توجہ اسلام کی دعوت کے اس مرکزی نقطے کی طرف مبذول کروائی ، آپ کی یہ کوشش ضائع نہیں ہوئی اور توحید کی صدائیں ایک بار پھر گونجنے لگیں۔ 
فلسفیانہ روایت 
قبر پرستی تو عام جاہل آدمی کی گمراہی تھی ۔اہلِ علم کی گمراہی فلسفہ اور علم الکلام تھے ۔ علم کلام اگرچہ فلسفے کے مقابلے کے لیے وجود میں آیا تھا مگر رفتہ رفتہ خود اس میں فلسفے کی روح گھس گئی۔یونانی اصطلاحات کا استعمال تو ہوتا ہی تھا مگر سیدھی بات کے بجائے بات کو طویل و پیچیدہ بنا کر پیش کرنا‘ عقائد کے ثبوت کے لیے عقل کے استعمال پر اصرار اور پھر سب سے بڑھ کرقبل ازسلام کے فلسفی ارسطو کی عظمت و تقدیس کا ایسا قائل ہونا کہ اس کی فکر کے خلاف بات کرنے کی ہمت نہ کر سکنا‘ ان سب باتوں نے مل کر علمِ کلام کو عجیب و غریب نظریات کا معجون مرکب بنا دیا تھا ۔ امام ابن تیمیہ کے زمانے میں نصیر الدین طوسی کا طوطی بول رہا تھا جو یونانی فلسفہ اور منطق کو معیار فضیلت گردانتا تھا۔ محدثین و فقہاء چونکہ اس علم کی باریکیوں سے ناآشنا تھے لہٰذا مقابلے کی سکت نہ رکھتے تھے جبکہ عوام مرعوبیت کا شکار تھے۔ ایسے میں امام صاحب نے علمِ کلام کو مستقل موضوع بنا کر یونانی فلسفہ کی تنقید اور علمی محاسبے کاکام انجام دیا۔ بغیر کسی تعصب کے انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ علمی دنیا بالخصوص طبیعات و ریاضیات کے میدان میں علمائے یونان کی کاوشیں مفید ہیں لیکن الٰہیات میں انہوں نے فلسفیوں کو ناکام اور جامل قرار دیا۔ اپنی کتابوں ، ’’الرد علی المنطقین‘‘ ’’ نقض المنطق ،’’الرد علی البکری‘‘ اور’’ النبوات ‘‘میں گن گن کر ان غلطیوں کی نشاندہی کی جو اہلِ فلاسفہ سے سرزد ہوئیں۔آپ عقلی و استدلالی طریقے سے فلسفے کے پیچیدہ مضامین کا رد کرتے۔ اس طرح عالمِ اسلام جو گزشتہ چند صدیوں سے فلسفہ اور منطق جیسے علوم سے مسحور تھا‘ اس سحر سے باہر آ گیا اور دین کی اصل اور سادہ تعلیمات ایک بار پھر نکھر کر سامنے آ گئیں۔ آپ نے لوگوں کو یہ باور کرایا کہ اگر یہ علوم عقلی ہیں تو ان کی بنیادغو رو فکر پر ہے ،ان کو فکر کی پیروی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے ہر زمانے کے اہل عقل کو یہ حق ہے کہ وہ ان پر ناقد انہ نظر ڈالیں اور خلافِ عقل بات کو رد کر دیں۔ چنانچہ آپ نے عقلی جمود کے اس دور میں یونانی فلسفے پر تنقید کرکے فکر و اجتہاد کا نیا دروازہ کھولا‘جیسا کہ حضرت علامہ ؒ نے بعد کے زمانے میں کہا کہ 
؂ تمدن‘ تصوف‘ شریعت‘ کلام بتانِ عجم کے پجاری تمام 
علامہ اقبال ؔ سے سات صدی قبل بھی ایک بار ایسا ہی حال عالمِ اسلام کا ہو چکا تھا۔ 
غیر اسلامی تصوف
طبقہ اہلِ علم کے علاوہ اہلِ تصوف بھی غیر اسلامی افکار کا نشانہ بن چکے تھے۔ ہر زمانے کی طرح اس زمانے میں بھی اہلِ تصوف ایک بڑے حلقے میں انتہائی مقبول تھے۔ مختلف مذاہب خصوصاً ہند و مذہب کے عقائد و افکار کو اسلام کا لبادہ پہنایا جا رہا تھا۔ حلول کا عقیدہ‘ وحدۃ الوجود کا فلسفہ نیز صوفیوں کے لیے احکام شریعت کا ساقط ہو جانا‘ صوفیانہ عقائد میں شامل ہو چکا تھا۔پھر تصوف کی چند شاخیں شعبدہ بازی اور نظر بندی کی نچلی سطح تک اتر آئی تھیں ۔ عوام اور خواص دونوں ان سے متاثر تھے۔ وحدت الوجود کے عقیدہ میں اس قدر غلو پیدا ہو گیا تھا کہ ابن عربی کے بعد تلمسانی یہاں تک کہہ بیٹھے کہ
قرآن تو سارا کا سارا شرک سے بھرا ہوا ہے۔ اس لیے کہ وہ رب اور عبد میں فرق کرتا ہے۔ توحید تو ہمارے کلام میں ہے۔ (معاذاللہ)۔فرقہ جہنیہ کے شائقین مخلوقات کی پرستش کرنے لگے ۔ یہاں تک کہ ارذل ترین مخلوقات میں بھی خدا دیکھا جانے لگا‘ سو خداہونے کی بنا ء پر لائقِ عبادت ٹھہریں ۔ اس پر مزید یہ کہ اس عقیدے کے مدعی قبیح گناہوں کے مرتکب ہوتے اور اسے اپنے عقائد سے درست ثابت کرنے کی کوشش کرتے۔ بعض لوگ لڑکیوں کے عشق میں مبتلا ہو تے اور کہتے کہ ان میں بھی اللہ کی تجلی ہے۔ بعض بوسہ دیتے ہوئے اپنے محبوب سے کہتے کہ تو خدا ہے۔ (معاذ اللہ) اس سلسلے میں امام صاحب نے ایک خط شیخ نصربن سلیمان کو لکھا اور اس کو دعوت دی کہ وہ ابن عربی کے غیر اسلامی نظریات‘ خصوصاً وحدت الوجود سے توبہ کرے۔ شیخ نصر کے حلقہ اثر میں حکمران طبقہ بھی تھا۔ وہ آپ کے مد لل خط کا جواب تو نہ دے سکا البتہ یہ پورا گروہ آپ کاشدید مخالف ہو گیا۔ 
فرقہ باطنیہ
چوتھا گروہ جس سے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچا تھا ‘وہ فرقہ باطنیہ تھا۔ ان کی تعلیمات مجوسی عقائد‘ افلاطونی تصورات اور خطر ناک سیاسی اغراض کا مجموعہ تھیں۔ یہ مسلمانوں کے خلاف غیر مسلم طاقتوں اور بیرونی حملہ آوروں کی ہمیشہ مدد کرتے۔ شام و فلسطین پر صلیبی حملوں کے موقع پر انہوں نے صلیبیوں کا ساتھ دیا۔ اس کے بعد بھی سازشوں اور بغاوتوں میں مصروف رہے۔ یہاں تک کہ تاتاریوں نے جب شام پر حملہ کیا تو انہوں نے کھل کر تاتاریوں کا ساتھ دیا۔ جب حالات ناقابل برداشت ہو گئے تو حکومت وقت نے ان کے خلاف جہاد کرنے کے لیے علماء سے فتویٰ دریافت کیا۔ امام صاحب نے نہ صرف ان کے خلاف جہاد کرنے کو فرض قرار دیا بلکہ دوسرے شہروں کے مسلمانوں کے نام بھی خطوط لکھے اور انہیں جہاد میں حصہ لینے کی ترغیب دی۔ آخر کار زبردست لشکر کے ساتھ‘ جس میں امام صاحب دیگر مجاہدین کے ساتھ شامل ہوئے‘ان کی جمعیت کو منتشر کر دیاگیا۔
عیسائی مشنری یلغار 
ایک بیرونی محاذ عیسائیوں نے اپنے مذہب کی حقاّنیت کو ثابت کرنے کے لیے کھول رکھا تھا۔ مسلمانوں کی سیاسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اپنے مذہب کی برتری ثابت کرنے کے لیے میدان میں آ چکے تھے ۔ محمد رسول ا للہ ﷺ پر اعتراضات اور اپنے مذہب کی ترجیح پر کتابیں تصنیف کرنے لگے۔ قبرص کے عیسائیوں کی جانب سے ایک مناظرانہ تصنیف شام پہنچی ‘جس میں مسیحیت کو دینِ حق ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور نبی کریمﷺ کی بعثت کوساری دنیا کے بجائے صرف عرب اقوام کی رہنمائی کے لیے مخصوص بتایا گیا تھا۔ جب اس کتاب نے شام کے دینی و علمی حلقوں میں شہرت حاصل کی تو امام صاحب نے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور’’ الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح‘‘ کے نام سے چار جلدوں میں ایک کتاب جس میں نہ صرف عمومی نبوت محمدﷺ کے ثبوت میں دلائل پیش کئے بلکہ مسیحیت کی تثلیث کی بنیادوں پر حملہ کیاگیا۔ ان کے عقائد کی غلطیاں ‘ مسیحیت کی تاریخ‘ ان کی کتابوں میں تحریفات اور رسول اللہ ﷺ کی نبوت کی عالمگیریت کے حوالے سے دلائل دئیے گئے اور مسیحی علم الکلام پر اس قدر سیر حاصل بحث کی کہ یہ عظیم کاوش کسی ایک شخص کی معلوم ہی نہیں ہوتی۔ شیخ الحدیث اپنی کتاب میں ان کی بابت لکھتے ہیں کہ ’’تنہایہ کتاب ہی آپکو غیر فانی مفکر کا مرتبہ دلانے کے لیے کافی ہے۔‘‘ 
روحِ اجتہاد کی بیداری
ایک اور چیز جس نے امام صاحب کو بے چین کر رکھا تھا‘وہ مسلمان دنیا پر چھایا ہوا علمی جمود تھا۔ ہر گروہ اپنے دائرے سے باہر قدم نکالنا جرم سمجھتا تھا ۔ جس کی وجہ سے کوئی عالم نئے مسائل کے استنباط کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ اسلامی فقہء اپنے نمو اور ار تقاء کی صلاحیت کھو چکی تھی۔ ایسے میں امام صاحب نے اس ناممکن کو ممکن بنایا ۔آپ کا تعلق حنبلی فقہ سے تھا لیکن آپ نے چاروں اماموں کی آراء کے علاوہ متقدمین اورمتاخرین کے اقوال سے بھی استنباط کیا۔ اگرچہ بہت سے امور میں خالصتاً اپنی رائے کو بھی اختیار کیا۔ 
امام صاحب نے توحید گریزاور مرکز گریز فرقوں کے عقائد پر علی الاعلان تنقید کر کے گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا۔ ہر طرف سے شدت سے آپ کی مخالفت شروع ہو گئی۔ آپ چومکھی لڑائی لڑتے رہے لیکن اپنے موقف سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹے ۔ دن بدن آپ کے حریفوں کی تعداد بڑھنے لگی ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آپ کی ذہنی و علمی سطح اپنے زمانے کے لوگوں سے بہت بلند تھی۔جب وہ آپ کے مقابلے میں آتے تو ان کی علمی کم مائیگی کا احساس ان کے اندر جذبہ حسد کو جنم دیتا۔ آپ جہاں جاتے‘ دلائل کے زورسے سب پر چھا جاتے۔ درس دیتے تو درس کی دیگر محفلیں بے رونق ہو جاتیں۔ پھر آپ کو اپنے راہِ حق پر ہونے کا اس قدر یقین تھا کہ بدعتیوں اور دیگر فاسد خیال لوگوں کے بارے میں سخت الفاظ کا استعمال کرتے۔ نہ صرف یہ کہ آپ زبان اور قلم سے جہاد کرتے بلکہ جہاں موقع ملتا‘ وہاں بزو ر برائی کا قلع قمع کرنا ضروری سمجھتے۔ ایک بار آپ کے پاس ایک پیر لایا گیا جو لمبی چوڑی گدڑی پہنے تھا۔ بال اور ناخن بڑھے ہوئے تھے ۔ گالی اور فحش کثرت سے بکتا تھا اور نشہ آور چیزوں کا استعمال کرتا تھا۔ آپ نے اس کی گدڑی کو تار تار کرنے کا حکم دیا‘ اس کے بال اور ناخن کٹوائے اور فحش گوئی اور نشے سے توبہ کروائی۔ دمشق کی جامع مسجد میں ایک چٹان سے لوگوں کو عقیدت ہو گئی تھی اور وہاں مشرکانہ رسمیں ادا کی جانے لگی تھیں۔ امام صاحب نے اس کے ذرے ذرے کروا کر بکھیر دئیے۔
رفاعی فرقے کے فقراء نے اپنی مقبولیت ثابت کرنے کے لیے کرتب دکھانے چاہے اور دعویٰ کیا کہ ہم پر آگ اثر نہیں کرتی۔ اگر ہم اپنے دعوے کو سچا ثابت کر دیں تو ہم برسر حق ہیں۔ امام صاحب نے اس کو جعل سازی قرار دیا اور کہا جو شخص آگ میں کودے‘ اس کے جسم کو پہلے سر کے اور گھاس سے صاف کر کے نہلایا جائے ۔ اگر پھر بھی وہ اپنا کمال دکھائے تو اس کو دجال سمجھا جائے ۔ اس موقع پر ایک رفاعی صوفی نے اعتراف کیا کہ ہمارے کرتب شریعت کے مقابلے میں نہیں چلتے بلکہ تاتاریوں کے ہاں مقبول ہیں۔ یہ سب باتیں تھیں جنہوں نے آپ کو علم شناسوں میں مقبول اور توحید گریز فرقوں میں انتہائی غیر مقبول بنا دیا تھا۔سو آنے والے وقت میں مصائب کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ آپ کا منتظر تھا۔ 
مصائب وابتلاء کا طوفان اور ابن تیمیہ ؒ کی ثابت قدمی
امام صاحب پر سب سے پہلے علی الاعلان تنقید ۶۹۰ہجری میں ہوئی جب صفات باری تعالیٰ کے مسئلے پر تقریر کرتے ہوئے آپ نے اشاعرہ پر سخت تنقید کی ۔ اس پر شافعی حضرات آپ کی مخالفت میں کھڑے ہو گئے مگر قاضی القضاۃ کی حمایت کی وجہ سے ان کو خاموش ہونا پڑا۔اشاعرہ کا مخالف علمی گروہ جو معتزلہ کہلاتا تھا وہ اس سے قبل امام صاحب کی حق گوئی کے باعث ناراض ہو چکا تھا۔ 
َ ۶۹۸ہجری میں حماۃ کے علاقے سے صفات باری تعالیٰ پر ایک سوال آیا جس کے جواب میں امام صاحب نے ’’العقیدۃ الحموی‘‘تحریر کی‘ جس میں آپ نے سلف کے مذہب کو سراہا اور اشاعرہ متاخرین پر سخت تنقید کی۔ اس پر حاسدین نے اس مسئلے کو خوب اچھالا یہاں تک کہ ایک مجلس کا اہتمام کیا گیا جس میں آپ کو اعتراضات کا جواب دینے کے لیے طلب کیا گیا ۔ آپ نے تمام اعتراضات کا مدلل جواب دیا تب کسی کو زبان کھولنے کی جرأت نہ ہوئی۔ 
اسی اثناء میں شیخ نصر جسے امام صاحب نے ابن عربی کے نظریات سے توبہ کرنے کے لیے خط تحریر کیا تھا‘ آپ کا شدید مخالف ہو گیا۔ نائب سلطنت اس کا معتقد تھا۔ شیخ نصر نے اس کو یقین دلایا کہ امام صاحب کا رسوخ شام میں سلطان کے لیے بڑا خطرہ بن سکتا ہے‘ چنانچہ ملک ناصر کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا گیا۔ ملک ناصر نے نائب شام کو امام صاحب کے عقیدے کی جانچ کے لیے کہا۔ اس سلسلے میں نائب سلطنت شام کے زیر اہتمام تین مجلسیں منعقد ہوئیں‘ جن میں علماء‘ فقہاء نے آپ کے عقائد کے بارے میں پوری تحقیق کی لیکن کوئی بات بھی خلاف سنت ثابت نہ کر سکے۔ یہ روداد ملک ناصر کو لکھ کر بھیج دی گئی۔ جس کو پڑھ کر وہ مطمئن ہو گیا۔
مخالفین سے یہ شکست برداشت نہ ہوئی اور ا نہوں نے سلطان ناصر کو یہ باور کروایا کہ نائب سلطنت خود امام صاحب کا طرفدار ہے‘ اس لیے ان کے عقائد کی صحیح جانچ نہ ہو سکی۔ لہٰذا انہیں مصر طلب کیاجائے۔ سلطان نے حکمنامہ صادر کیا اور امام صاحب مصر کے لیے روانہ ہوئے۔ جس روز آپ دمشق سے روانہ ہوئے ‘اس دن سارا شہر آپ کی زیارت کے لیے ٹوٹ پڑا۔ شہر کے باہر راستوں پر لوگ کھڑے رو رہے تھے‘انہیں اس بات کا اندیشہ تھا کہ آپ کے خلاف کوئی زبردست سازش ہونے والی ہے۔
مصر پہنچ کر آپ کے اوپر حکومت کی جانب سے مقدمہ قائم کیا گیا اور آپ کو سخت ترین سزا کا مستحق قرار دیا گیا۔ جوابِ دعویٰ کے لیے آپ تشریف لائے تو قاضی القضاۃ کے متعصبانہ روئیے کو دیکھتے ہوئے آپ نے بیان دینے سے انکار کر دیا۔ قاضی القضاۃ نے آپ کو اور آپ کے بھائیو ں کو قید کرنے کا حکم دیا۔ قید میں امام صاحب کے وعظ و ارشادات نے بہت سے قیدیوں کی زندگی بدل ڈالی۔
آپ کی عدم موجودگی کے دوران آپ کے حامی اس بات کی کوشش میں لگے رہے کہ کسی طرح امام صاحب اور آپ کے مخالفین متنازع امور پر گفتگو کے لیے راضی ہو جائیں تاکہ حق سچ ثابت ہو سکے۔ آخر کار وہ اس کوشش میں کامیاب ہو گئے۔ پہلے روز کی گفتگو کے بعد مخالفین میں اتنی ہمت نہ رہی کہ امام صاحب کو قید خانے بھیجنے پر ا صرار کریں۔ بالآخر اٹھارہ ما ہ کی اسیری کے بعد رہائی نصیب ہوئی۔
قاہرہ کے شہریوں کے اصرار پر آپ نے وہاں کچھ عرصے قیام کا فیصلہ کیا اور جامع حاکمی میں وعظ کا سلسلہ شروع کیا۔ ابھی قید سے رہائی کو پانچ ماہ ہی گزرے تھے کہ ایک جمعے کی تقریر میں آپ نے صوفیوں کے عقائد پر زبردست گرفت کی۔صوفی اس تنقید کو برداشت نہ کر سکے۔ سلطان سے شکایت کی اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ امام صاحب نے جوابِ دعویٰ کے طور پر ایسی زبردست تقریر کی کہ مدعی خاموش ہو گئے اور عدالت کوئی فیصلہ نہ کرسکی۔ آخر کار مخالفین کے اصرار پر حکومت کی طرف سے آپ کے سامنے تین تجویزیں پیش کی گئیں‘ اول یہ کہ دمشق چلے جائیں‘ دوسری صورت یہ کہ اسکندریہ میں چند شرائط کے ساتھ قیام پذیر ہوں اور تیسری صورت یہ کہ قید کی زندگی کو پسند کریں۔
امام صاحب اپنے عقیدت مندوں کے پرزور اصرار پر دمشق جانے کے لیے تیار ہو گئے۔ ابھی آپ راستے میں ہی تھے کہ آپ کی قید کا فرمان جاری کر دیا گیا۔ دراصل جب آپ نے دمشق جانے کا فیصلہ کیا تو نائب سلطنت ( جو آپ کا مخالف تھا) کو احساس ہو ا کہ دمشق پہنچ کر ایک بار پھر آپ آزادانہ طور پر اپنے کام میں مصروف ہو جائیں گے۔ لہٰذا بغیر وجہ بتائے دوبارہ گرفتار کر لئے گئے۔ قید کا بیشتر وقت ذکر الٰہی اور تلاوتِ قرآن میں بسر ہوتا۔ باقی وقت تصنیف و تالیف اور قیدیوں کو وعظ و نصیحت کرتے گزرتا۔ کچھ عرصے بعد آپ کے بھائی صاحب کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ شوال۷۰۸ہجری میں نائب سلطنت امیر بیبرس نے سلطان ناصر کا تخت الٹ دیا۔ اس کو معلوم تھا کہ سلطان امام صاحب کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہے۔ لہٰذا اس خدشے سے کہ کہیں امام صاحب کا اثر و رسوخ اس کے خلاف کوئی شورش نہ بر پا کر دے ‘ آپ کو اسکندریہ بھیج دیا گیا جو صوفیاء کا گڑھ تھا۔ آپ کے مخالفین اس توقع میں تھے کہ کوئی متعصب صوفی آپ کا کام تمام کر دے گااور ہمیشہ کے لیے آپ سے جان چھوٹ جائے گی۔ اگلے سال سلطان ناصر دوبارہ اقتدار حاصل کر نے میں کامیاب ہو گیا۔ امیر بیبر بس گرفتار ہو کر قتل ہوا۔ سلطان ناصر نے امام ابن تیمیہ کی رہائی کا حکم صادر کیا اور آپ کی آمد پر دربار میں گرمجوشی سے آپ کا استقبال کیا ۔ کچھ عرصہ سلطان اور قاہرہ کے شہریوں کے اصرار پر آپ نے قاہرہ میں قیام کیا۔ پھر بیت المقدس کی زیارت کے بعد واپس دمشق آ گئے اور ایک بار پھر وعظ و نصیحت اور تصنیف و تالیف میں مصروف ہو گئے۔ صوفیاء ‘ فقراء‘ بدعتیوں اور فقیہ حضرات سے اختلافات ایک بار پھر سامنے آنے لگے۔ آپ کی تصنیفات اور فتوے ان پر سخت گراں گزرے۔ حلف بالطلاق کے مسئلے پر بات بڑھ گئی۔ امام صاحب کی رائے تھی کہ حلف بالطلاق سے طلاق واقع نہ ہو گی بلکہ فسخ حلف کا کفارہ لاز م آئے گا۔ اسی طرح چند اور مسائل پر امام صاحب کی رائے حکومت کے زیر سایہ رہنے والے عالموں سے بالکل مختلف تھی۔ قاضی القضاۃ کی جانب سے حکم دیا گیا کہ اس معاملے پر آئندہ فتویٰ جاری نہ کیا جائے۔ آپ کو چونکہ اس معاملے میں شرح صدر حاصل تھا‘اس لیے آپ نے اپنے موقف سے ہٹنے اور اپنے عقیدے کو چھپانے سے انکار کر دیا۔ ۲۲ رجب۷۲۰کو دوبارہ قید کر دیئے گئے ۔ جب علماء کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوگیا تو پانچ ماہ بعد آپ کی رہائی کے ا حکام آ گئے۔ 
اگلے پانچ سال تک پوری آزادی اور توجہ کے ساتھ درس و تدریس میں مصروف رہے۔ کچھ نئی کتابیں تصنیف کیں اور کچھ پرانی کتابوں پر نظر ثانی کی۔ علمائے وقت چونکہ ذاتی مفاد کی بناء پر امام صاحب سے دِلی پرخاش رکھتے تھے ‘ لہٰذا ایک بار پھر قبروں کی زیارت سے متعلق اس فتوے کی تشہیر کی جانے لگی جو سترہ سال پہلے آپ نے دیا تھا۔ جس کے مطابق قبر کی زیارت کی نیت سے سفر کرنے کو ناجائز کہا گیا تھا۔ تصریح کی گئی تھی کہ نبی کریمﷺ کی قبر کی زیارت کے لیے سفر کے اہتمام کے بجائے مسجد نبوی ﷺ میں نماز پڑھنے کی نیت سے آنا چاہیے اور قبرانور کی زیارت کے وقت اس طرح صلوٰۃ و سلام بھیجنا چاہیے جیسا کہ صحابہ و تابعین کا دستور تھا۔ اس بات کا خوب چرچا کیا گیا اور مخالفین نے شور مچادیا۔ بالآخر حکومت نے آپ کی اسیری کا فرمان جاری کر دیا۔ یہ اطلاع پاتے ہی آپ نے فرمایا۔ میں تو اس کا منتظر ہی تھا۔ اس میں خیر اور مصلحت پوشیدہ ہے۔ امام صاحب کی اسیری کی خبر نے اہل حق کو ایک بار پھر پژمردہ کر دیا۔ بے حساب خط سلطان کو لکھے گئے‘ جن میں آپ کی رہائی کے لیے سفارش کی گئی۔ جیل میں آپ کا سب سے بڑا مشغلہ تلاوت و تدبر قرآن تھا۔ باقی وقت علمی و فقہی سوالات کے جوابات تحریر کرتے گزرتا ۔ امام صاحب کی ہر تحریر جیل سے نکلتے ہی ہاتھوں ہاتھ لے لی جاتی۔ مسئلہ زیارت کے متعلق ایک تحریر میں قاضی عبداللہ بن الاخنائی کی تردید کی اور ان کو قلیل العلم کہا تو قاضی صاحب نے سلطان سے شکایت کر دی۔ حکومت کی طرف سے آپ کے پاس سے لکھنے پڑھنے کا سامان ضبط کر لیا گیا ۔ آپ کے لیے یہ سزا سب سے سخت تھی۔ پھر بھی صبر اور شکر بجا لائے اورجیل کی دیواروں پر کوئلے سے لکھنا شروع کر دیا۔ اسیری کے دوران قرآن کے اَسی(۸۰) دور کئے۔ 
وفات
زمانہ اسیری میں ہی طبعیت خراب رہنے لگی تھی۔ بائیس روز تک علیل رہے۔ آخر کار ۲۲ ذیقعدہ ۷۲۸ہجری کو ۶۷سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ آپ کی وفات کی اطلاع قید خانے کے مؤذّن نے مینار پر چڑھ کر دی۔ تمام شہر سکتے میں آ گیا ۔ جب جنازہ جامع اموی میں لایا گیا تو ہجوم کا یہ حال تھا کہ میدان‘ گلیاں‘ بازار سب بھر گئے‘ دکانیں بند ہو گئیں۔ لوگوں کو کھانے پینے کا ہوش نہ رہا۔ اس ہجوم میں کسی نے بلند آواز سے پکارا‘ سنت کے پیشواؤں کا جنازہ اسی شان کا ہوتا ہے۔ اس پکارنے کہرام مچادیا۔ نمازِ جنازہ کے بعد جنازے کو کندھا دینے کا موقع ملنا مشکل تھا اور جنازہ سروں پر سے گزر رہا تھا۔ ہجوم کی وجہ سے لوگوں کی پگڑیاں‘ رومال اور جوتے گر گئے اور کسی کو ان کا ہوش نہ رہا۔ جنازہ صبح کے وقت نکلا تھا اور عصر کے وقت تدفین کی نوبت آئی۔ تمام عالمِ اسلام میں غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ یہاں تک کہ حمص کے ایک بعید ترین شہر میں نمازِ جنازہ کا اعلان ان الفاظ میں ہوا، ’’ترجمان قرآنِ شیخ ابنِ تیمیہ کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی۔‘‘
امام صاحب کی شخصیت اور اوصافِ حمیدہ:
آپ کے ہم عصر جو آپ کے حریف بھی تھے‘ آپ کے علمی کمال کے معترف تھے۔ امام صاحب کے حریف کمال الدین الزملکانی کہتے ہیں ‘ان جیسا جامعیت رکھنے والا شخص دیکھنے میں نہیں آیا۔ ابن تیمیہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے علوم اس طرح موم کر دیئے تھے جس طرح داؤد علیہ السلام کے لیے لوہا نرم کر دیا تھا۔ جس علم کے بار ے میں ان سے سوال کیاجاتا وہ اس طرح جواب دیتے کہ دیکھنے یا سننے والا یہ سمجھتا کہ وہ اسی علم میں پاک ہیں اور اس کے سواء کچھ نہیں جانتے اور یہ فیصلہ کرتا کہ ان کی طرح کا اور کوئی شخص اس علم کا عالم نہیں ہے۔
آپ جس درجے کے عالم تھے‘ اسی درجے کے عابد بھی تھے۔ نمازِفجر کے بعد اپنی جگہ بیٹھے رہتے‘ یہاں تک کہ دن اچھی طرح نکل آتا۔ اس عرصے میں ذکر اذکار اور توبہ استغفار میں مصروف رہتے۔ کوئی پوچھتا تو کہتے یہ میرا ناشتہ ہے۔ اگر میں ناشتہ نہ کروں تو میری قوت زائل ہونے لگتی ہے۔ پھر تلاوتِ قرآن کے بعد فقہی سوالوں کے جواب دیتے۔ اس کے بعد دارالحدیث السکریہ اور دارالحدیث حنبلیہ کے طلبہ کو درس دیتے۔ یہ سلسلہ نماز ظہر تک جاری رہتا۔ نمازِ عصر کے بعد عام مجلس ہوتی ‘جس میں ہرکوئی شرکت کرسکتا تھا اور علمی اور غیر علمی ہر طرح کی گفتگو ہوتی۔ نمازِ مغرب کے بعد دوبارہ طلباء کو پڑھاتے ۔ عشاء کے بعد رات گئے تک کتابوں کی تصنیف و تالیف کے کاموں میں مصروف رہتے۔ رات کو تمام لوگوں سے علیحدہ رہتے تھے۔ (آپ نے ساری زندگی شادی نہ کی)۔ اس وقت آپ ہوتے اور قرآن مجید ہوتا جس کی برابر تلاوت کرتے رہتے اور آنکھوں سے آنسو جاری رہتے۔ نوافل‘ عبادت اور ذکر میں دیر تک مشغول رہتے۔ جب نماز شروع کرتے تو آپ کے شانے اور اعضاء کانپنے لگتے‘ یہاں تک کہ ان کو دائیں بائیں لرزش ہوتی۔ 
غنائے قلب کی جس نعمت سے اللہ نے آپ کو نوازا تھا‘اس کے بعد دنیا کی کوئی دولت آپ کے لیے اہم نہ تھی۔ ایک بار چند افواہوں سے متاثر ہو کر سلطان نے پوچھا‘کہیں آپ میری سلطنت پر قبضے کے خواب تو نہیں دیکھ رہے؟ آپ نے جواب دیا۔ میں ایسا کس لیے کروں گا؟اللہ کی قسم تمہاری اور تاتاریوں کی سلطنت مل کر بھی میری نگاہ میں ایک پیسے کے برابر بھی نہیں ہے۔ 
آپ کے حریف عمر بھر اپنے طور پر آپ کو ستاتے رہے ۔مگرجتنا وہ آپ کو ستاتے‘ اتنا آپ صبر کرتے اور عزیمت کے درجات طے کرتے جاتے ۔ خود فرماتے ’’میرے دشمن میرا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ میری جنت میرے دل میں ہے اور میرا باغ میرے سینے میں ہے۔ میں جہاں بھی جاؤں گا وہ میرے ساتھ رہیں گے۔ میری قید میرے لیے گوشہ تنہائی ہے‘ میرا قتل میری شہادت ہے اور میری جلاوطنی میری سیاحت ہے‘‘۔ 
اپنے خون کے پیاسے دشمنوں کو فراخ دلی سے معاف کر دیتے۔ سلطان ناصر جب دوبارہ برسر اقتدار آ یا تو جن جن لوگوں نے آپ کو تکلیف پہنچائی تھی‘ ان کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ آپ کو معلوم ہوا تو سلطان سے صاف کہہ دیا کہ میں اپنی ذات کے لیے کوئی انتقام نہیں لوں گا اور اس بات پر اتنا اصرار کیا کہ سلطان کو قائل کر لیا۔ 
امام صاحب کے اوصاف ‘ کمالات اور اخلاقی محاسن اس قدر ہیں کہ اس مختصر مضمون میں ان کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ اپنے مضمون کا اختتام ہم حافظ ذہبی کے الفاظ پر کرتے ہیں ۔حافظ ذہبی اپنی کتاب میں جب آپ کی مدح لکھتے لکھتے تھک گئے تو کہا ’’ان کا مقام اس سے کہیں ارفع و اعلیٰ ہے کہ مجھ جیسا شخص ان کی سیرت و فضیلت بیان کرے۔ قسم اللہ کی اگر میں خانہ کعبہ میں عین رکن یمانی و مقام ابراہیم ؑ کے درمیان کھڑے ہو کر قسم کھاؤں کہ نہ تو میری آنکھوں نے ان کا مثل دیکھا‘ نہ خود انہوں نے اپنا ثانی چھوڑا‘تو میری قسم سچی ہو گی اور مجھے کفارہ ادا نہیں کرنا پڑے گا ۔‘‘مولانا عطا ء اللہ حنیفؒ نے آپ کی ۵۸۲تصنیفات کے نام گنوائے ہیں۔ تفسیر کے ضمن میں۰۲ا‘ کتبِ حدیث کی ا۴‘فقہ و فتاویٰ کی۳۸ا‘ اصول فقہ کی۲۸‘عقائد و کلام کی۲۶ا اور اخلاق و تصوف میں۷۸چھوٹی بڑی کتابیں اور رسالے آپ نے لکھے۔آپ سے لوگوں نے بے حد احسانات وفیض اٹھایا۔ آپ کے شاگردوں میں حافظ ابنِ قیم‘ حافظ ابنِ کثیر‘ حافظ ابنِ عبدالہادی اور حافظ ذہبی نے بہت شہرت پائی۔ 
اللھم اغفرلہ وادخلہ الجنۃ الفردوس وارفع مقامہ۔ آمین! 

Wednesday, 10 September 2014

Imam Malik


آٹھویں کہانی
امام مالکؒ 
یہ کہانی امام مالکؒ کی ہے جو فقہ مالکی کے بانی اور دوسری صدی ہجری میں مدینہ منورہ میں حدیث اور فقہ کے سب سے بڑے عالم تھے۔ آپ کا نام مالک‘ کنیت ابو عبداللہ اور لقب امام دارالہجرہ تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب یہ ہے۔ مالک بن انس بن مالک الاصبحی بن ابی عامر۔ صحیح روایات کے مطابق آپ ۹۳ہجری میں مدینہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام نبی کریم ﷺ کے ساتھ وفا کا عہد نبھانے والوں کی فہرست میں اس لیے شامل کیا ہے کیونکہ آپ نے نبی کریم ﷺکی طرح حق بیان کرنے کے حوالے سے کبھی بھی مداہنت سے کام نہیں لیا۔ نبی کریمﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ اگر جبراً کسی سے طلاق دلائی جائے تو واقع نہ ہو گی۔ اس کے برخلاف عباسی خلیفہ منصور نے لوگوں سے جبراً بیعت لی تو امام مالک ؒ نے اعلان فرمایا جو کام جبراً کرایا جائے‘ شرع میں اس کا اعتبار نہیں ۔ جس طرح جبراً کسی کو طلاق دلائی جائے تو واقع نہیں ہوتی ۔ 
خلیفہ منصور نے اپنے چچا زاد بھائی جعفر کو مدینہ کا والی مقرر کیا اور اس نے نئے سرے سے لوگوں سے منصور کے لیے جبراً بیعت لی اور امام مالکؒ کو کہلا بھیجا کہ آئندہ طلاق جبری کے خلاف فتویٰ نہ دیں ورنہ لوگ جبری بیعت کو بھی بے اعتبار ٹھہرائیں گے ۔ امامؒ صاحب بھلا حق بات کہنے سے کب رکنے والے تھے۔ آپ ؒ نے حق کا اعلان جاری رکھا ۔چنانچہ آپ ؒ کے لیے ستر(۷۰) کوڑوں کی سزا کا فیصلہ سنایا گیا۔
امامؒ صاحب مجرموں کی طرح لائے گئے ۔ قمیص اتار کر ستر کوڑے آپ ؒ کی پیٹھ پر برسائے گئے ۔ کمر خون آلود ہو گئی۔ کاندھوں کے جوڑ تک ہل گئے۔ پھر اونٹ پر بٹھا کر سارے شہر میں اس حال میں پھرایا گیا کہ امام ؒ رِستی ہوئی پیٹھ کے ساتھ نڈھال اونٹ پر بیٹھے تھے اور زبان نعرہ حق بلند کرنے میں مصروف تھی۔ مدینہ کی گلیوں سے گزرتے ہوئے کہتے جاتے تھے۔ ’’جو مجھ کو جانتا ہے‘وہ جانتا ہے جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ میں مالک بن انس ہوں‘ فتویٰ دیتا ہوں کہ جبری طلاق درست نہیں‘‘۔
پھر آپؒ مسجد نبوی میں تشریف لائے ۔ خون صاف کیا اور دوگانہ نماز پڑھ کر فرمایا ۔ سعیدؒ بن مسیب (مشہور تابعی )کو بھی کوڑے مارے گئے تو انہوں نے بھی مسجد میں آ کر نماز پڑھی تھی۔ بعد میں خلیفہ منصور کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو اسے بہت افسوس ہوا۔ آپؒ کی خدمت میں معذرت کی اور اپنے چچا زاد بھائی کے خلاف کارروائی کی ۔ یہ واقعہ آپ ؒ کے خلاف حجّت بننے کی بجائے آپؒ کے حق میں حجت بن گیا اور رہتی دنیا تک کلمہ حق بلند کرنے والوں میں آپؒ کا نام شامل ہو گیا۔َآپ ؒ کا نام اس کتاب میں شامل کرنے کے لیے یہی ایک واقعہ کافی تھا مگرآپؒ کی تو زندگی نبی کریمﷺ سے گہرے عشق کے واقعات سے بھری پڑی ہے‘ جس کا ایک ایک واقعہ حیران کن ہے۔
امامؒ صاحب کا تعلق ایک علمی خانوادے سے تھا۔ آپؒ کے پردادا عہد نبویﷺ میں مسلمان ہوئے ۔ روایات سے ان کے صحابی رسول ﷺہونے کی دلیل بھی ملتی ہے۔ آپ ؒ کے خاندان میں سب سے پہلے ابو عامر نے مدینہ منورہ تشریف لا کر سکونت اختیار کر لی تھی۔ آپ ؒ کے دادا بلند پایہ تابعی تھے۔ حضرت عثمانؓ کے ساتھ ان کاتعلق خصوصی تھا۔ انہوں نے طلحہؓ ‘ عقیلؓ بن ابی طالب ابو ہریرہؓ اور عائشہؓ اُم المومنین کی شاگردی اختیار کی۔ سلیمان بن یسار نے جو مدینہ کے فقہائے سبعہ میں سے تھے‘ ان سے حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ 
آپؒ کے چچا ابو سہیل نافعؒ بھی بلند پایہ محدث تھے۔ ان کے شاگردوں میں امام زہریؒ اور امام اسماعیلؒ بن جعفر بہت مشہور ہوئے۔ خود امام مالک ؒ مدینتہ الرسولﷺ جیسے علمی مرکز میں پرورش پا رہے تھے۔ جہاں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ ‘ عبداللہ بن عمرؓ ‘ ابو ہریرہؓ ‘ عبداللہ بن عباسؓ ‘ زیدؓ بن ثابت کی مبارک درسگاہیں تھیں۔ جن سے قاسم بن محمد بن ابی بکر‘ عروہ بن زبیرؓ جیسی شخصیتوں نے استفادہ کیا۔ عبداللہ بن عمرؓ سے نافع اور عبداللہ بن دینار نے ‘ زیدؓ بن ثابت سے ان کے بیٹے خارجہ بن زید اور عبداللہ بن عباسؓ نے اور ابو ہریرہؓ سے سعید بن مُسیّب(مشہورتابعی) نے تعلیم پائی۔ اس کے علاوہ امام زہری ؒ ‘ امام جعفرصادقؒ اور ربیعہ رائی ؒ نے مدینہ کے علماء میں بہت شہرت پائی۔ یہ ایسا علمی ماحول اور پاکیزہ فضا تھی جس میں امام مالک کی تربیت ہوئی۔ اس وقت تعلیم کا نصاب نہایت سادہ اور مختصر تھا۔ یعنی قرآن مجید‘ حدیث اور فقہ۔ امامؒ صاحب نے بھی ان کے حصول کے لیے کوشش کی ۔ چناچہ قرآن کی قرأت اور سند امام القراء ابو دریم نافع بن عبدالرحمان سے حاصل کی‘جن کی قرأت پر آج تمام دنیائے اسلام کی قرأت کی بنیاد ہے ۔ علم الحدیث کی تعلیم آپ نے شیخ الحدیث نافع ؒ سے حاصل کی‘ خود جنہوں نے تیس۳۰برس عبداللہ بن عمرؓ کی خدمت کر کے علم کا خزانہ سمیٹا اور پھر عمر بھر اسے آگے بانٹتے رہے۔ بڑے بڑے ائمہ حدیث ان کے شاگرد تھے۔ امام مالکؒ نے بھی ابتدائی زمانے میں ان سے تعلیم حاصل کی ۔ خود آپؒ کا بیان ہے ۔ میں نافع ؒ کے پاس آتا تھا تو ایک کمسن لڑکا تھا۔ میرے ساتھ ا یک خادم ہوتا تھا۔ نافعؒ اترکرآتے تھے تو مجھ سے حدیث بیان کرتے تھے۔ 
امامؒ صاحب کو اپنے استاد ؒ کے علم پر اتنا بھروسا تھا کہ فرماتے ہیں جب میں ابن عمرؓ کی حدیث نافع ؒ کی زبان سے سن لیتا ہوں تو پھر اس کی پروا نہیں کرتا کہ کسی اور سے بھی اس کی تائید سنوں۔ بعد میں ان روایات کو جو امام مالکؒ نے نافعؒ سے اور نافعؒ نے ابن عمرؓ سے روایت کی ہیں‘ ان کے مصدقہ ہونے کے باعث انہیں طلائی زنجیر کہا جانے لگا۔ 
اس کے علاوہ آپ ؒ نے محمدؒ بن شہاب الزہری کی شاگردی اختیار کی ۔ ان کا رتبہ روایت حدیث میں بہت بلند ہے۔کتبِ ستہ کی احادیث میں ان سے روایت شدہ احادیث کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ابو بکرؒ بن حزم کے بعد علم حدیث کے یہ دوسرے مدوّن ہیں۔ ناقد ینِ حدیث امام زہریؒ سے بڑھ کر متن و سند کا حافظ کسی کو نہ سمجھتے تھے۔ ان سے یہ علم امام مالکؒ کو منتقل ہوا۔ زہری ؒ کے بے شمار شاگردوں میں امام مالکؒ سب سے بلند مرتبہ سمجھے جاتے ہیں۔ علم حدیث کے لیے نافعؒ اور زہریؒ کے علاوہ امام جعفر صادقؒ ‘ محمدؒ بن المنکد ر‘ محمدؒ بن یحییٰ ‘ ابو حازم اور ابو سعیدؒ یحییٰ کی بھی امام مالکؒ نے شاگردی اختیار کی۔ امام مالک ؒ کے اساتذہ کی فہرست کو دیکھا جائے تو تقریباً ۹۳ شیوخ سے آپؒ کے استفادے کی تفصیل ملتی ہے۔ علم الفقہ کی تعلیم خاص طور سے الرّبیعہؒ سے حاصل کی۔ اجتہاد میں ان کا درجہ اتنا بلند تھا کہ رائی ان کا لقب ہو گیا ۔ ربیعہؒ خاص مسجدِ نبویﷺ میں درس دیتے تھے۔ یوں تو ان کے لائق فائق شاگردوں کی فہرست بہت طویل ہے لیکن امام مالک ؒ کے ساتھ ربیعہؒ کو ایسا تعلق تھا کہ اسماء الرجال میں شیخ مالک ان کے نام کا جزو بن گیا۔ یہ وہی ربیعہ ہیں جن کی تعلیم و تربیت میں ان کی والدہ کا بے مثال تذکرہ کتابوں میں یوں آتا ہے کہ ربیعہؒ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے کہ ان کے والد جنگِ خراسان میں شرکت کی غرض سے چلے گئے اور بیوی کو ۳۰ ہزار دینار دے گئے۔ ۲۷ سال بعد واپس آئے تو ان کے بیٹے ربیعہ جو ان ہو کر صاحب کمال ہو چکے تھے اور مسجد نبوی ﷺمیں درس دیا کرتے تھے۔ ان کے والد نے ان کی یہ شان دیکھی تو بہت مسرور ہوئے ۔ کچھ دن بعد بیوی سے روپیہ کا حساب پوچھا تو بیوی نے پوچھا کہ بیٹے کی یہ شان عزیز ہے یا وہ روپیہ۔ کہنے لگے کہ بیٹے کایہ مرتبہ عزیز ہے‘ بیوی کہنے لگی بس وہ روپیہ سب اس کی تعلیم و تربیت میں خرچ ہو گیا۔
امام مالکؒ نے صرف انہی اساتذہ سے علم سیکھا جو صدق و سچائی اور حفظ و فقہ میں ممتاز تھے۔ خود فرماتے ہیں کہ مدینہ میں بیسیوں اشخاص تھے‘ جن سے لوگ حدیث سیکھتے تھے لیکن میں نے کبھی ان سے اخذِ علم نہیں کیا۔ ان میں سے بعض مغزِ سخن سے ناواقف اور بعض جاہل تھے۔ امام مالکؒ کی اسی احتیاط کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کے شاگرد کسی بھی شیخ کی روایت کو قبول کرتے ہوئے دیکھتے کہ امامؒ صاحب نے بھی ان کا نام لیا ہے یا نہیں۔ اگر امامؒ صاحب کے تذکروں میں ان کا نام پاتے تو قبول کرتے ‘ ورنہ چھوڑ دیتے۔ طلب علم کے لیے آپ سے سفر ثابت نہیں ہے۔ شایداس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو خود مدینہ ہی دینی علوم کا مرجع بنا ہوا تھا‘ پھر تمام دنیائے اسلام کے طالبین علم خود ہی مدینہ حاضر ہوتے تھے اور بڑے بڑے شیوخ بھی زمانہ حج میں خود یہاں تشریف لا کر علم کے موتی بکھیرتے ۔ امامؒ صاحب کے شیوخ میں ان حضرات کے نام بھی ملتے ہیں جو مدینہ میں سکونت نہیں رکھتے تھے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ نے ان سے اخذ و استفادہ مدینہ ہی میں کیا ہو گا۔
امام مالک ؒ قوی الحافظہ تھے ۔ فرمایا کرتے تھے کہ کوئی چیز میرے خزانہ دماغ میں آکر پھر نہیں نکلتی ۔ اس سے مراد یہ نہیں کہ حصول علم امام مالکؒ کے لیے کوئی سہل چیز تھی۔ آپ ؒ کا بیان ہے کہ حضرت نافع ؒ سے حدیث سیکھنے کا وقت ٹھیک دوپہر تھا۔ دوپہر کی دھوپ میں بلا سایہ شہر سے باہر بقیع میں جاتا تھا جہاں ان کا مسکن تھا۔ ایک اور شیخ ابن ہر مزؒ کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان کے گھر صبح کو جاتا تو رات کو ہی آتا تھا۔ اس خلوص اور محنت شاقہّ نے جلد ہی آپؒ کو صاحب علم و فضل بنا دیا اور آپؒ کے ہم عصر آپؒ پر رشک کرنے لگے۔ 
مجلسِ درس
امام مالکؒ کم عمری میں ہی درسِ حدیث و فقہ کی مسند پر جا بیٹھے۔ شعبہ ؒ جو کوفہ کے سب سے بلند پایہ محدث سمجھے جاتے تھے۔بیان کرتے ہیں کہ نافع کی وفات کے ایک سال بعد مدینہ آیا تو دیکھا کہ مالکؒ ایک حلقہ کے صدر نشین ہیں۔ اس وقت آپ کی عمر اندازاً ۲۴ برس تھی۔ مستقلاً درس کا حلقہ قائم کرنے سے پہلے خود فرماتے ہیں کہ جب تک ۷۰ مشاہیر علماء نے اس بات کی گواہی نہ دی کہ میں فتویٰ کا اہل ہوں‘ اس وقت تک اس منصب کو اختیار نہ کیا۔ ابھی آپؒ کے استاد ربیعہ رائی زندہ تھے کہ آپؒ حدیث و فقہ میں ماہر سمجھے جانے لگے اور ربیعہؒ کی وفات ۳۶اہجری کے بعد فقہ و اجتہاد کے اما م تسلیم کر لیے گئے۔ 
رسول اللہ ﷺ کی پیشینگوئی آپؒ کی خدمت میں لوگ حصولِ علم کے لیے دور دور سے اونٹنیوں پہ سوار ہو کر آتے تھے۔ اکثر لوگوں کا گمان ہے کہ نبی کریم ﷺ کی پیشنگوئی کہ مدینہ کے امام سے علم حاصل کرنے کے لیے ایک زمانے میں دور دور سے لوگ آئیں گے‘ وہ اسی امام مدینہ کی طرف اشارہ تھا‘ جس سے طالبین استفادہ کرتے تھے۔امام مالکؒ کی مجلسِ درس ہمیشہ پرتکلف اور شاندار ہوتی تھی۔ بیش قیمت قالین بچھائے جاتے‘خوشبو مہکائی جاتی‘صفائی کا یہ عالم تھا کہ فرش پر ایک تنکا بھی پڑا دکھائی نہ دیتا تھا۔ امام مالکؒ مجلس کے وسط میں اس جگہ اونچی نشست پر بیٹھتے جہاں امیر المومنین عمر فاروقؓ بیٹھا کرتے تھے۔ پھر حدیث کی سماعت فرماتے تھے۔ مجلس میں ایسی خاموشی ہوتی کہ امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ کتاب کے ورق بھی اس ڈر سے نہیں الٹتے تھے کہ کھڑکھڑاہٹ کی آواز نہ ہو۔ اتنی خاموشی اور اتنا سکوت اس پر تھا کہ آپ ؒ کی مجلس میں سینکڑوں طلباء‘ علماء‘ امراء اور سیاح حاضر ہوا کرتے تھے۔ شورو شغب تو دور کی بات ‘ آپؒ کی مجلس میں تو کسی شخص کو بلند آواز سے بولنے کی مجال نہ تھی۔دورانِ درس امام صاحب کا ایسا رعب طاری ہوتا کہ ایک شاعر کے اس بارے میں شعر کا ترجمہ یہ ہے: ’’ اگر امامؒ صاحب جواب دینا چھوڑ دیں تو سب سرنیچا کیے بیٹھے رہیں اور آپؒ کی ہیبت سے دوبارہ پوچھنے کی جرأت نہ کر سکیں۔ وقار آپ ؒ کا ادب کرتا تھا اور آپؒ پرہیزگاری کی بادشاہت پر عزت کے ساتھ متمکن تھے۔‘‘ عجیب بات یہ تھی کہ آپؒ کی ہیبت لوگوں پر پڑتی‘ حالانکہ آپ بادشاہ نہ تھے۔ مجلس میں امیر و غریب اور خاص و عام کی کوئی تمیز نہ تھی۔ البتہ اپنے قریب سمجھدار اور لائق طلبہ کو جگہ دیتے۔ درس شروع کرنے سے قبل فرماتے صاحب فہم لوگ قریب آ کر بیٹھیں۔ آپ ؒ کا طریقہ تدریس یہ تھا کہ شاگرد پڑھتا اور آپؒ سنتے اور بوقتِ ضرورت اصلاح کر دیتے۔ محدثین کی اصطلاح میں اسے قرأۃ التلمیذ علی الشیخ کہا جاتا ہے۔ ایک اور طریقہ جو رائج تھا ‘اس میں استاد پڑھتا اور شاگرد سنتے تھے۔ اس طریقے کو قرأۃ الشّیخ علی التلمیذ کہا جاتا تھا۔ اول الذکر طریقہ امام مالک ؒ کا تھا جو ہر لحاظ سے بہتر اور محفوظ تھا۔ محدث خود قر ات نہ کرتا تھا۔ اس لیے دوبارہ سننے میں اپنے مسودے کی غلطی کی اصلاح کر لیتا۔ پھر شاگردوں کو بھی پتہ چل جاتا کہ حدیث کا اصل متن کیا ہے اور شیخ نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے ۔ ورنہ دوسری صورت میں اصل متن حدیث اور شیخ کا کلام خلط ملط ہونے کا خدشہ رہتا۔ آپؒ کے درس میں حدیث کی املاء آہستہ اور سکون سے کی جاتی ۔ ایک حدیث ختم ہوجاتی تو پھر دوسری حدیث شروع کرتے۔ 
احترامِ حدیث اور حبِ رسول ﷺ 
عموماً دیکھا گیا ہے کہ جن علماء کا اوڑھنا بچھونا درس وتدریس ہو‘ وہ قرآن و حدیث کے بیان میں ضروری احتیاط اور خصوصی اہتمام نہیں کر تے۔ امامؒ صاحب کا معاملہ مختلف تھا۔ آپؒ کے ہاں نبی کریمﷺ کی ذات اور آپ ﷺ کے اقوال کا اتنا ادب کیاجاتا کہ مناسب ہوگا کہ اس پر ایک الگ عنوان کے تحت روشنی ڈالی جائے۔ امام صاحب درس حدیث سے قبل غسل کرتے ‘ خوشبو لگاتے‘ صاف ستھرے اور عمدہ کپڑے زیب تن کرتے۔ پھر حدیث بیان کرتے تو کمالِ ادب کی وجہ سے کبھی پہلو نہ بدلتے ۔ مصعب بن عبداللہ کہتے ہیں کہ جب آپ نبی کریم ﷺ کا تذکرہ فرماتے تو آپؒ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا اورحد ادب سے سر جھک جاتا۔ اس ضمن میں ایک مشہور واقعہ آپ ؒ کے شاگرد عبداللہ بن مبارک نے روایت کیا ہے ۔ فرماتے ہیں کہ ایک روز جب امام مالک ؒ حدیث روایت فرما رہے تھے‘ ایک بچھو نے آپ ؒ کو کاٹا اور غالباً دس بار ڈنگ مارا ہو گا۔ اس تکلیف کی وجہ سے امامؒ طاحب کا چہرہ زردی مائل ہو گیا۔ مگر انہوں نے سلسلہ حدیث کو منقطع نہ ہونے دیا۔ جب مجلس حدیث ختم ہو گئی اور سب لوگ چلے گئے تو میں نے آپؒ سے عرض کیا کہ آج آپؒ کے چہرے پر کچھ تغیر محسوس ہو رہا تھا۔ اس پر آپؒ نے صورتِ واقعہ بیان کی اور کہا کہ اس قدر صبر کرنا قدرتِ برداشت کی بناء پر نہ تھا بلکہ نبی کریم ﷺ کی حدیث کی تعظیم کی وجہ سے تھا۔ یہ خصوصی اہتمام درس حدیث کے لیے ہی کیا کرتے اور جب فقہ کے لیے تشریف لاتے تو جس حال میں ہوتے‘ بیٹھ جاتے۔ آپؒ کی تمام عمر مدینہ منورہ میں گزری لیکن حرم نبویﷺ کا احترام اس قدر تھا کہ قضائے حاجت کے لیے حدود حرم سے باہر تشریف لے جاتے۔ عمر بھر مدینہ میں سوار ہو کر نہیں پھرے‘ حتیٰ کہ ضعف اور کمزوری کی حالت میں بھی فرماتے کہ مجھ کو شرم آتی ہے کہ میں اپنی سواری کے کھروں سے اس جگہ کو روندوں جس مبارک سر زمین پر حضور ﷺ آرام فرما رہے ہوں۔ اگر کوئی شخص اپنی آواز مسجد نبویﷺ میں بوقت درس حدیث بلند کرتا تو اس کو آواز پست کرنے کو کہتے ‘ اس لیے کہ اللہ کا حکم ہے کہ اے ایمان والو اپنی آواز کو نبیﷺ کی آواز سے بلند نہ کرو۔ امام مالک ؒ کا خیال تھا کہ حدیث بیان کرتے وقت زور سے بولنا ایسا ہی ہے جیسا حضورﷺ کی آواز پر اپنی آواز بلند کرنا۔ایک بار خلیفہ منصور کو مسجد نبوی ﷺ میں زور سے بولنے پر تنبیہ کی۔ مسجد نبویﷺ سے آپؒ کوبہت محبت تھی۔ ایک بار خلیفہ ہارون نے چاہا کہ منبر نبوی ﷺ کو جس پر صرف تین زینے تھے (اضافہ بعد میں کیا گیا تھا ) واپس اس حالت میں لوٹا دیا جائے جیسا وہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں تھا۔ امامؒ صاحب کو معلوم ہوا تو اس کو منع کیا کہ منبر کی لکڑی پرانی اور کمزور ہے۔ ایسا نہ ہو کہ تختوں کے ادھر ادھر کرنے سے ٹوٹ جائے اور یہ یادگار نبیﷺ ضائع ہو جائے۔ آپ ؒ کی یہ بات سن کر ہارون باز آ گیا۔ عمر کے آخری حصے میں آپؒ مدینہ سے باہر کا سفر اختیار نہ کرتے۔ اس کے پیچھے یہ تمنا تھی کہ میں یہیں پر مروں اور یہیں پر دفن ہوں۔ زندگی میں بھی جب کبھی مدینہ سے باہر جانے کی بات سامنے آتی تو انکار کر دیتے۔ ایک بار خلیفہ مہدی نے دو ہزار اشرفیاں روانہ کیں اور اپنے ساتھ بغداد لے جانے کے لیے اصرار کرنے لگا ۔ آپ ؒ نے انکار کر دیا تو کسی کے ہاتھ دوبارہ کہلا بھیجا ۔ آپ نے المدینۃ خیرلھم (مدینہ ان کے حق میں بہتر ہے ) والی حدیث نقل فرمائی اور قاصد کو کہا کہ مال کی تھیلی موجود ہے ‘ چاہو تو اٹھا کر لے جاؤ مگر مدینہ سے دور جانا گوارا نہیں ہے۔ اللہ کے نبی کی ذات، آپ ﷺ کے ارشادات اور آپ ﷺ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز سے شدید محبت تھی۔ مختلف روایات میں آتا ہے کہ خواب میں کئی بار آپ کو نبی اکرمﷺ کا دیدار مبارک بھی نصیب ہوا۔ 
سیاسی حالات
امام مالکؒ صاحبِ علم تو تھے ہی‘ صاحبِ بصیرت اور صاحبِ حق بھی تھے۔ اللہ نے آپ ؒ کی زبان پر حق کو جاری کر دیا تھا اور آپؒ کے دل کو حق بات کا محافظ بنایا تھا۔ ایسے مواقع آئے کہ آپؒ نے اپنی جان اور آبرو کی پروا کئے بغیر کلمہ حق بلند کیا۔ قبل اس کے کہ امامؒ صاحب کے اس تاریخی کردار پر روشنی ڈالی جائے‘ اس زمانے کے سیاسی حالات مختصر بیان کرنا مناسب ہو گا۔ چوتھے خلیفہ راشد حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد خلافت بنو امیہ کے پاس چلی گئی لیکن ہاشمیوں نے جن میں سیدہ فاطمہؓ کی اولاد‘ عباسؓ کی اولاد اور عام علوی شامل تھے ‘وہ دل سے ان کی حکومت کو قبول نہ کرتے تھے اور خلافت ہاشمیہ کے قیام کی خفیہ کوششیں جاری رہیں۔ یہ لوگ اپنے سیاسی و دینی مقاصد کے حصول کے لیے امام نامزد کر تے۔ ابتداء میں کسی علوی کو امام نامزد کر دیتے۔ بعد ازاں ابو ہشام کا جب شا م میں انتقال ہوا تو وہاں سوائے عباسؓ کے پڑپوتے محمد کے اور کوئی بھی ہاشمی موجود نہ تھا۔ ابو ہشام نے موت سے قبل اپنی جانشینی کی وصیت محمد کے حق میں کی۔ یہ پہلا دن تھا جب علوی خاندان سے خلافت کا دعویٰ خاندان عباس میں منتقل ہوگیا۔ محمد کے بعد ان کے بیٹے ابراہیم امام بنے اور ان کے بعد ابو العباس سفاح بنو ہاشم کا سرخیل ہوا۔۳۲ا ہجری میں سفاح بنو امیہ سے حکومت چھیننے میں کامیاب ہو گیا۔ مروان جو بنو امیہ کا حاکم تھا ‘ بنو عباس سے شکست کھا کر بھاگا اور بالآخر مارا گیا۔ مروان کے قتل اور اموی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی بنو عباس کے جذبہ انتقام کو تسکین نہ ملی اور انہوں نے عوام کے دلوں پر اپنا رعب بٹھانے کے لیے نہایت بیدردی سے اموی خاندان کا نام و نشان مٹانے کی کوشش کی۔یہاں تک کہ اموی خلفاء کی قبریں کھدوا کر ان کی خاک برباد کی۔ حکومت ملنے کے بعد ابوالعباس سفاح نے حقِ خلافت کو بنو ہاشم میں سے صرف بنو عباس کے لیے مخصوص کر دیا۔ 
ایک طرف بنو امیہ کی بیخ کنی میں ظلم و ستم کی تمام حدیں توڑ دی گئیں تو دوسری طرف فاطمی اور علوی بھی خلافت کو بنو عباس تک محدود کرنے پر سخت ناراض تھے۔ سفاح کی خلافت کا ساڑھے چار سالہ دور خانہ جنگیوں کی نذر ہو گیا۔ ابو مسلم خراسانی جو عباسی تحریک کا روحِ رواں تھا ، دراصل پارسی نژاد نو مسلم تھا اور انتہائی تیز طرار اور زبردست ذہن کا مالک تھا۔ اس نے اپنی کارگزاریوں اور حسن خدمت سے ایک طرف تو عباسیوں میں رسوخ حاصل کر لیا تھا تو دوسری طرف عربوں سے شدید نفرت کے باعث ان کو لڑانے کے درپے رہتا۔ اس کو اپنی کوششوں میں کامیابی حاصل ہوئی اور عرب قبیلے آپس میں الجھ پڑے جس سے ان کی طاقت پارہ پارہ ہو گئی۔ 
امام مالک ؒ کی بے نفسی اور علمی انکساری 
ابو العباس سفاح کی موت کے بعد اس کابھائی ابو جعفر منصور خلیفہ ہوا تو وہ ۴۰اہجری میں حج و زیارت کے لیے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ آیا۔ منصور امام مالک کا زبردست معتقد تھا۔ وہ اس انقلاب سے پہلے مدینہ کی درسگاہ کا ایک طالب علم اورا مام مالکؒ کے حلقے کا ایک شریک صحبت تھا۔ آپ ؒ کی قدرومنزلت سے واقف تھا ۔ اس نے علماء کی محفل میں خاص طو ر سے آپ ؒ کو مخاطب کر کے کہا اے ابو عبداللہ میں اختلافات فقہی سے گھبراگیا ہوں ۔ عراق میں تو کچھ نہیں ہے ۔ شام میں صرف شوقِ جہاد ہے‘ وہاں کوئی بڑا عالم نہیں ہے۔ جو کچھ ہے وہ حجاز میں ہے اور حجاز کے علماء کے سرخیل آپؒ ہیں ۔ میں چاہتا ہوں کہ آپؒ کی تصنیف’’ موطاء‘‘ کو خانہ کعبہ میں آویزاں کر دوں تاکہ لوگ اسی کی طرف رجوع کریں اور تمام اطرافِ مملکت میں اس کی نقلیں بھیجوں تاکہ اسی کے مطابق لوگ فتویٰ دیں۔ اس پر امامؒ صاحب نے فرمایا صحابہ تمام اطراف مملکت میں پھیل گئے تھے ۔ ان کے فتاویٰ اور احکام اپنے اپنے مقام میں وراثتاً ان کے فقہا اور علماء تک پہنچے ہیں اور ہر جگہ وہی مقبول ہیں۔ ایسی حالت میں ایک شخص کی رائے و عقل پر جو صحت اور غلطی دونوں کر سکتا ہے ‘ تمام ملک کو مجبور کرنا مناسب نہیں۔ منصور نے کہا اگر آپ ؒ مجھ سے متفق ہوتے تو میںآپ ؒ کی کتاب ’’موطاء ‘‘کے مطابق ہی لوگوں کو فتویٰ دینے کی تاکید کرتا۔ امام مالک ؒ کے اس علمی انکسار کا موازنہ ہمارے یہاں کے طرزِ عمل سے کرنا چاہیے ‘جہاں کیا علماء اور کیا عوام سبھی اپنی فقہ کے بزور نفاذ کے لیے حکام وقت کو دہائیاں دیتے رہتے ہیں بلکہ اس کے لیے تحریک چلانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ منصور امام مالکؒ کی کس قدر عزت کرتا تھا‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بار سفیان ؒ ثوری منصور سے ملاقات کو گئے اور دیر تک اسے سخت الفاظ میں نصیحت کرتے رہے۔ ایک درباری نے کہا آپؒ ایسے زبان دراز شخص کے قتل کا حکم کیوں نہیں دیتے؟ منصور نے کہا خاموش‘ سفیان ثوریؒ اور مالکؒ بن انسؒ کے سوا کوئی نہیں جس کا ادب کیاجائے۔ 
صاحب عزیمت 
خلیفہ ء وقت کی یہ قدر شناسی آپؒ کو اپنی طرف مائل کر سکتی تھی مگر حق شناسی اور حق گوئی کی راہ میں نہ ظالم کا ظلم حائل ہوا اور نہ قدر شناس حاکم کی نظرِکرم۔ خلیفہ منصور نے جب دیکھا کہ فاطمی و علوی خلافت کو بنو عباس کے لیے مخصوص کرنے پر خوش نہیں ہیں تو ان کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک اختیار کیا گیا۔ یہاں تک کہ جب ظلم و تعدّی حد سے بڑھ گیا تو سادات میں سے نفس زکیہ نے مدینہ میں خروج کیا۔ امامؒ صاحب نے فتویٰ دیا کہ خلافت نفس زکیہ کاحق ہے ۔ لوگوں نے پوچھا ہم منصور کی بیعت پر حلف اٹھا چکے ہیں۔ امامؒ صاحب نے فرمایا ‘ منصور نے جبراً بیعت لی ہے اور جو کام جبراً کرایاجائے شرع میں اس کا اعتبار نہیں ۔ حدیث ہے کہ اگر جبراً کسی سے طلاق دلائی جائے تو واقع نہ ہو گی۔ مدینہ کے اکثر لوگوں نے نفس زکیہ کا ساتھ دیا مگر ان کو کامیابی حاصل نہ ہوئی اور وہ بڑی بہادری سے میدان جنگ میں لڑتے ہوئے شہیدہوئے۔ ان کے بھائی ابراہیم بھی میدان میں آئے مگر وہ بھی شہید ہوئے ۔ منصور نے اپنے چچا زاد بھائی جعفر کو مدینہ کا والی مقرر کیا ۔ جعفر نے مدینہ پہنچ کر نئے سرے سے لوگوں سے بیعت لی اور امام مالکؒ کو کہلا بھیجا کہ آئندہ طلاق جبری کے خلاف فتویٰ نہ دیں ورنہ لوگ جبری بیعت کو بھی بے اعتبار ٹھہرائیں گے۔ امامؒ صاحب بھلا حق بات کہنے سے کب رکنے والے تھے ۔ستر کوڑوں کی سزا جس کا ذکر شروع میں آیا ‘اس کا پس منظریہ واقعہ تھا۔
منصور کو ایک بار معلوم ہوا کہ علماء اس کی حکومت سے ناراض ہیں ۔ مشورے کے لیے اس نے رات کے وقت ہی آپ ؒ کو اور چند دیگر علماء کو بلا بھیجا ۔ امامؒ صاحب غسل کر کے اور حنوط مل کر حاضر ہوئے ۔ منصور نے کہا اے گروہ فقہاء تم کو فرض تھا کہ میری اطاعت کرتے مگر تم تو مجھ کو برا بھلا کہتے ہو ۔ اگر مجھ میں کچھ برائی ہے تو تم نصیحت کرتے ۔ پھر امامؒ صاحب سے پوچھا کہ میں تمہارے نزدیک کیسا ہوں۔امامؒ صاحب نے کہا کہ اللہ کے لیے مجھے اس کے جواب سے معاف رکھیے۔ آپؒ کی یہ خاموشی خود آپ ؒ کی رائے کی مظہر تھی۔ پھر دوسرے علماء سے بھی یہ سوال کرتا رہا ۔ جب سب اٹھ کر چلے گئے تو امامؒ صاحب سے پوچھنے لگا کہ کیا وجہ ہے کہ آپؒ کے کپڑوں سے حنوط کی بو آتی ہے۔ امام مالکؒ نے فرمایا میں اس بے وقت حاضر ی کا سن کر اپنی زندگی سے مایوس ہو کر آیا تھا۔منصور نے کہا سبحان اللہ، ابو عبداللہ !کیا میں خود اپنے ہاتھ سے اسلام کا ستون گرا ؤں گا۔ خلفائے وقت میں منصور کے بعد مہدی‘ ہادی اور پھر خود ہارون رشید آپؒ کی مجلس میں شریک ہوئے مگر رواج کے برخلاف امام مالکؒ نے نہ کسی کے ہاتھ چومے اور نہ ہی آپؒ کی جلالت اور رعب کے سامنے کسی کو ہمت ہوئی کہ اس پر اصرار کر سکے۔ 
فتاویٰ میں احتیاط اور تحقیق 
ایک فقیہ کا رتبہ یقیناًایک محدث سے زیادہ ہوتا ہے ۔ محدث علم حدیث پر عبور رکھتا ہے جبکہ ایک فقیہ علم حدیث پر قدرت رکھنے کے ساتھ اجتہاد اور قوانین کی تشریح و تدوین میں بھی کما ل رکھتا ہے۔ اس لیے فقیہ میں اصابتِ رائے اور بصیرت کا ہونا ضروری ہے۔ ہر شخص اس رتبے پر فائز ہونے کا اہل نہیں۔ امام مالکؒ کے نزدیک یہ ایک ایسا اہم منصب تھا کہ خود بتا تے ہیں کہ جب تک ستر فقہا نے اس بات کی گواہی نہ دی کہ میں فتویٰ دینے کے لائق ہوں‘ اس وقت تک فتویٰ دینے کی جرأت نہ کی۔ پھر احتیاط کا یہ عالم تھا کہ محض ظن و گمان پر کبھی فیصلہ نہ دیتے۔ آپؒ کے ایک شاگرد نے کہا کہ اگر میں امامؒ صاحب کے’’ نہیں معلوم ‘‘والے فیصلوں کو لکھتا تو تختیاں بھر جاتیں۔ ابن عبداللہ کی روایت ہے کہ ایک شخص نہایت دور دراز کی مسافت طے کر کے امامؒ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اس نے ایک مسئلہ پوچھا امامؒ صاحب نے کہا میں اس کو نہیں جانتا سائل نے کہا کہ میں چھ ماہ کی مسافت طے کر کے اس مسئلے کی خاطر حاضرہوا ہوں ۔ آخر میں واپس جا کر کیا جواب دوں گا۔ امام ؒ صاحب نے اطمینان سے جواب دیا ۔ کہہ دینا مالکؒ نے کہا ہے کہ میں اسے نہیں جانتا ۔لوگوں کا آپؒ کی طرف رجوع عام تھا ۔ خود حکومت وقت کی طرف سے خاص اعلان کیا گیا تھا کہ ابن ابی ذئب اور مالکؒ بن انس کے سواء کوئی حج کے موقع پر فتویٰ نہ دے۔ تاہم اس قبول عام کے باوجود آپؒ تلاشِ حق کے لیے علمی جستجو اور محنت میں کمی کرنے کے روادار نہ تھے۔ایک بار کسی نے آپؒ سے کہا کہ فتویٰ دینے کے لیے آپ بہت مشقت برداشت کرتے ہیں‘ یہاں تک کہ خود بتاتے ہیں کہ آپ کی نیند بعض اوقات پریشانی کے باعث غائب ہو جاتی ہے حالانکہ لوگ توآپؒ کی بات کو پتھر پر لکیر سمجھتے ہیں۔ خدا ترس امامؒ نے جواب میں دلسوزی سے کہا اس صورت میں تو مجھے اور بھی محنت کرنی چاہیے۔ امامؒ صاحب اپنی غلطی معلوم ہونے کی صورت میں اس کی اصلاح کرنے میں اپنی علمی وجاہت کو حائل نہ ہونے دیتے ۔ ایک با رآپؒ کے شاگرد ابن وہب نے آپؒ کی تصحیح کی اور آپؒ کو صحیح حدیث پیش کی تو آپ ؒ نے اس کو تسلیم کیا اور پھر آئندہ اس کے مطابق فتویٰ دیا۔
آپ ؒ اپنی رائے لوگوں پر زبردستی ٹھونسنے کے حق میں نہ تھے۔ ہارون الرشید نے بھی خلیفہ منصور کی طرح چاہا تھا کہ تمام مسلمانوں کو فقہی احکا م میں آپؒ کی آراء کا پابند کیاجائے مگر آپؒ نے انکار کر دیا۔ 
فقہ مالکی کی بنیادی خصوصیات
امام صاحب ۶۲برس تک دین کی خدمت‘حدیث نبویﷺ کے درس اور فقہ و فتاویٰ میں مصروف رہے۔ آپ ؒ کی زندگی میں ہی آپ ؒ کی فقہ کو قبو ل عام حاصل ہو رہا تھا ۔ اب ہم مالکی فقہ کی بنیادی خصوصیات کا تذکرہ کریں گے:
ا۔ مالکی فقہ میں اجتہاد کی نوبت کم آتی ہے۔ زیادہ ترانحصار کتاب و سنت اور آثارِ صحابہ و تابعین پر کیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات جو وقوع پذیر ہی نہ ہوئے ہوں‘ امام صاحب ان کا جواب دینے سے احتراز کرتے۔ فرماتے جو ہوتا ہے وہ پوچھو جو نہیں ہوتا اسے چھوڑ دو۔ 
۲۔ کتاب و سنّت اور اجماع و قیاس کے علاوہ اس فقہ میں اہلِ مدینہ کے عمل کو بھی ایک دلیل کا درجہ دیاجاتا ہے۔ کیونکہ مدینہ دارالاسلام اور شریعت و قانون کا منبع تھا ۔ اس لیے مالکی فقہ میں مدنی فتاویٰ کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے۔ 
۳۔ اس فقہ میں مصالحِ مرسلہ (مصلحت عامہ یا PUblic good) کو بھی اصول فقہ میں داخل کیا گیا۔ کسی مسئلے میں امام مالک کواگر کوئی نص نہیں ملتی تھی تو مصلحتِ عامہ کے پیش نظر اجتہاد کرتے۔یہ ایسے اصول ہوتے جن کے ذریعے ان مقاصد کی تکمیل ہوتی جن کے لیے شریعت اسلامی وجود میں لائی گئی ہے۔ اس کے دلیلِ شرعی ہونے کے لیے کم از کم دو شرائط ہیں: 
* مسئلے کا تعلق عبادت سے نہ ہو بلکہ امورِ دنیا سے ہ�ؤ * مصلحتِ عامہ کا تعلق ضروریات زندگی سے ہو نہ کہ تعیشات سے اور ضروریات میں مذہب ‘ جان‘مال‘ نسل اور عقل شامل ہیں۔ 
مصلحت میں فوجی اخراجات اور ملک کے تحفظ کے لیے مالداروں پر ٹیکس لگاناجائز ہے‘چوری کے مال کی برآمدگی نہ ہو تو اس کے بدلے دوسرا مال لینا مصلحت عامہ میں شامل ہے کیونکہ ہوسکتاہے کہ چوری کا مال چور نے کچھ استعمال کر کے اور کچھ کسی کو بخش کر ختم کر دیا ہو۔ مالکی فقہ کے پیرو بعد میں اہلِ حدیث کہلائے۔ اس مذہب میں تصنیف و تالیف کا وہ چرچا نہیں رہا جو حنفی اور شافعی مکاتب میں رہا ہے۔ مالکی فقہ حجاز‘ بصرہ‘ اندلس‘ سوڈان‘ طرابلس‘ مصر‘قطر‘ بحرین اور کویت میں زیادہ پھیلا ۔ افریقہ میں اب تک مالکی مذہب غالب ہے۔ اندلس میں اموی خلافت کا سرکاری مذہب بھی مالکی تھا۔ اہل مغرب جو کہ حجاز والوں کی سادگی سے متاثر تھے ‘ان کا رجحان بھی فقہ مالکی کی طرف ہی زیادہ رہا۔ 
موطا ء امام مالکؒ 
’’موطاء ‘‘امام مالکؒ کی سب سے مشہور تصنیف ہے۔ ایک روایت کے مطابق امام مالکؒ نے منصور ہی کی تجویز پر’’موطاء‘‘کی تالیف کا کام شروع کیا۔ اس نے فرمائش کی تھی کہ ایک ایسا مجموعہ احکام سامنے آنا چاہیے جس میں ابن عمرؓ کی سختی‘ ابن عباسؓ کی رخصت اور ابن مسعودؓ کے شواذ کے بیچ کی کوئی راہ ہو۔ موطاء کی تالیف ۳۰اہجری سے ۴۰اہجری کے درمیا ن ہوئی۔ موطاء کے اندر احادیث کے علاوہ آثارِ صحابہ و تابعین‘ اقوالِ فقہاء‘ فتاویٰ اور امام مالکؒ کے اجتہاد شامل ہیں۔ ابتداء میں اس میں کم و بیش دس ہزار احادیث شامل کی گئیں۔ تنقید و بحث کے بعد آٹھ ہزارسے زائد خارج کر دی گئیں اور سترہ سو بیس روایات کو برقرار رکھا گیا ۔’’موطاء‘‘ کے معنی روندنے کے ہیں۔’’ موطاء‘‘ اس راستے کو کہتے ہیں جس پر بکثرت لوگ گزرتے ہوں۔سنت کے معنی بھی راستے کے ہیں۔ یہ وہ راستہ ہے جس پر حضورﷺ گزرے اور ’’موطا ء‘‘وہ پامال راستہ ہے جس پر حضورﷺ کے بعد صحابہ گزرے۔ غرض ’’موطاء‘‘ کا لفظ اپنی حقیقت کا آپ مفسر ہے۔’’ موطا ء‘‘کا موضوع احکامِ فقہ ہیں‘ اس لیے اس کو کتاب السنن کہا جاتا ہے ۔’ موطا ء‘‘کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہ کلام اللہ کے بعد مسلمانوں کے لیے دوسری صحیح کتا ب تھی جواحادیث رسول ﷺ پر مشتمل تھی۔ اس کو ایک فضیلت یہ بھی حاصل ہے کہ بخاری کی بیشتر روایات پانچ یا چھ واسطوں کی ہیں جبکہ موطاء میں نہ صرف ثلا ثیات ہیں بلکہ ثنائیات بھی موجود ہیں۔ ثلاثیات وہ روایات ہیں جن میں حضور ﷺتک صرف تین واسطے ہوں اور ثنائیات وہ روایات ہیں جن میں حضور ﷺ تک صرف دو واسطے ہوں۔ اس کے بارے میں امام شافعی کی یہ گواہی کافی ہے کہ روئے زمین پر کتاب اللہ کے بعد کوئی کتاب ’’موطاء ‘‘امام مالک ؒ سے زیادہ صحیح نہیں ہے۔ اس موقع پر مناسب ہو گا کہ وہ واقعہ بھی بیان کر دیاجائے جو کتاب کی تالیف میں امامؒ صاحب کے خلوص کو ظاہر کرتا ہے۔ امامؒ صاحب جب موطا ء کی تالیف میں مشغول تھے تو مدینہ کے دیگر علماء نے بھی اپنے اپنے احادیث کے مجموعے تیار کر نا شروع کر دیئے۔ لوگوں نے امامؒ صاحب کو اطلاع دی تو آپ ؒ نے فرمایا:’’صرف حسنِ نیت کو بقاہے۔‘‘ آپ کے اس تاریخی جملے کی سچائی کو وقت نے ثابت کر دیا اور امامؒ صاحب کی پیشنگوئی درست ثابت ہوئی۔ امام ؒ صاحب کی ’’موطا ء‘‘آج تک موجود ہے جبکہ دیگر لوگوں کی کوششوں کا نام و نشان بھی مٹ گیا۔’’موطاء‘‘ کو ایک امتیاز یہ بھی حاصل ہے کہ مہدی‘ہادی‘ ہارون رشید‘ مامون اور امین جیسے حکمرانوں نے اس کو سننے کی خواہش ظاہر کی اور اس کے لیے سفر کیا۔ یہاں تک کہ چھٹی صدی ہجری میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے قاہرہ سے اسکندریہ تک صرف اسی کی خاطر اتنا لمبا سفر گوارا کیا۔ ’’موطاء‘‘ کے علاوہ کافی ساری کتابیں امامؒ صاحب سے منسوب کی جاتی ہیں لیکن علماء کا خیال ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کتب آپؒ کے شاگردوں کی تالیف کردہ ہیں۔ آپؒ کے شاگردوں میں امام شافعیؒ اور محمدؒ بن الحسن کے علاوہ یحییٰ بن یحییٰ لیثی‘ سلیمان بن داؤد طیالسی‘ محمد بن مبار ک اور لیث بن سعد بہت مشہور ہیں۔
وفات
۷۹ا ہجری میں ۸۶برس کی عمر میں آپؒ بیمار ہوئے اور تقریبا تین ہفتے بیمار رہے۔ لوگوں کو اندازہ ہوا کہ اب آپؒ کا آخری وقت آگیا ہے تو مدینہ کے علماء اور فقہاء آپؒ کے گرد جمع ہوئے ۔ آپؒ کی آنکھوں سے آنسو جا ری تھے۔ لوگوں نے رونے کا سبب دریافت کیاتو فرمایا کہ میں نہ روؤں تو کون روئے ۔ اے کاش مجھ کو میرے ہر فتویٰ کے بدلے ایک کوڑا مارا جاتا اور میں فتویٰ نہ دیتا۔ یہاں امامؒ صاحب کی مراد شاید قیاسی فتوے سے تھی۔ تھوڑی دیر بعد آپؒ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ جنازے میں خلقت کا ہجوم تھا ۔ والیء مدینہ خود پاپیادہ شریک تھا بلکہ جنازے کو کاندھا دینے والوں میں شامل تھا۔ امامؒ صاحب کی آخری آرام گاہ جنت البقیع میں تیار کی گئی۔ پورے عالم اسلام میں آپ ؒ کی وفات کی خبر کے ساتھ ہی صفِ ماتم بچھ گئی۔ سفیانؒ بن عینیہ نے سنا تو سکتے میں آ گئے اور پھر کہا مالک ؒ نے اپنی کوئی مثال روئے زمین پر نہیں چھوڑی۔
سیرتِ مالکؒ 
امام مالک کا تذکرہ ادھورا رہ جائے گا اگر آپؒ کے ذاتی حالات اور سیرت کو بیان نہ کیاجائے۔ یہاں مختصر اً آپؒ کے اخلاق و عادات اور طرز زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ امام صاحب دراز قد‘ موٹے بدن‘ کشادہ پیشانی والے خوش رنگ آدمی تھے۔ آپؒ بیش قیمت پوشاک استعمال کرتے اور عدن کے بنے ہوئے کپڑے زیب تن کرتے ۔ (عدن جو یمن کا شہر تھا عمدہ اور بیش قیمت لباس کے لیے مشہور تھا) ۔ عطرکا استعمال کرتے۔ آپؒ اس بات کے قائل تھے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اظہار انسان کے ظاہری حلیے سے ہونا چاہیے۔ آپؒ جس مکا ن میں رہتے وہ کرائے کا تھا ۔یہ وہ بابرکت گھر تھا جس میں صحابی رسولﷺ عبداللہؓ بن مسعود رہا کرتے تھے۔ آپؒ خاموش طبع تھے۔ سوالوں کا مختصر اور جامع جواب دیا کرتے۔ ایک بار کسی نے سوال کیا’’ جناب نے صبح کس حال میں کی؟ آپ ؒ نے فرمایا ’’عمر میں کمی ہو گئی اور گناہوں میں زیادتی‘‘ ۔ 
عبادت کی کیفیت یہ تھی کہ درس و تدریس سے فراغت کے بعد جو وقت ہاتھ آتا اس میں تلاوتِ قرآن میں مشغول رہتے۔ شبِ جمعہ اور ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو تمام رات عبادت میں مصروف رہتے۔طبیعت میں رعب کا غلبہ تھا لیکن فخر و کبر کا نام و نشان نہ تھا۔ امام شافعیؒ جو طلبِ علم کے لیے امامؒ صاحب کے گھر اترے تھے‘ بتاتے ہیں کہ کھانے کے بعد امامؒ مالک مکہ والوں کے حالات پوچھتے رہے۔ جب رات زیادہ ہو گئی تو مجھے آرام کرنے کا کہہ کر چلے گئے۔ میں تھکا ہوا تھا لیٹتے ہی بے خبر سوگیا۔ رات کے آخری حصے میں میری کوٹھڑی پر دستک ہوئی اور آواز آئی کہا ا للہ کی رحمت ہو تم پر نماز کے لیے اٹھ جاؤ۔ میں اٹھ بیٹھا ۔کیا دیکھتا ہوں کہ خو د امام صاحب لوٹا لیے کھڑے ہیں۔ مجھے بڑی شرمندگی ہوئی مگر وہ کہنے لگے کچھ خیال نہ کرو‘ مہمان کی خدمت فرض ہے۔ آپ کے مزاج میں انتقام اور نفرت کے بجائے رحم اور درگزر موجود تھا۔ منصور کے گورنر نے آپ کو کوڑے مارے اور پورے شہر کے سامنے بے آبرو کیا۔ منصور کو جب اس واقعے کی اطلاع ہوئی تو معافی کا خواستگار ہوا اور اپنے گورنر کی نسبت حکم دیا کہ اس کو ذلت و ایذا کے ساتھ گدھے پر بٹھا کر بغداد لے جایا جائے۔ امام ؒ صاحب نے جواباً صرف اتنا کہا کہ اس انتقام کی حاجت نہیں۔رسول اللہﷺ کی قرابت کی خاطر میں اس کو معاف کرتا ہوں۔ 
اپنی رائے منوانے کا آپؒ کو کوئی شوق نہ تھا۔ مختلف روایات کے مطابق دو خلفائے وقت منصوراور ہارون الرشید نے آپ کی تالیف ’’موطاء‘‘ کو حرفِ آخر قرار دینے کی تجویز دی تھی۔ آپؒ نے جواباً کہا ‘ ایسا نہ کرو‘ خود صحابہ کرام فروع میں مختلف ہیں۔ وہ مختلف ممالک میں پھیل چکے ہیں۔ ان میں ہر شخص راہِ صواب پر تھا۔ اپنے فیصلے اور نقطہ نظر سے اختلاف کو برحق سمجھناجماعت علماء میں آج مفقود ہے۔ اس حوالے سے علماء کے لیے امامؒ صاحب کے طرزِ عمل میں بڑا سبق ہے۔ مام مالکؒ علم کے سچے قدر دان تھے۔ علمِ حدیث کی شان کو بلند کرنے کے لیے جو خصوصی اہتمام آپؒ کی مجلس میں ہوتا‘ اس کا تذکرہ گزر چکا ہے ۔ خلیفہ مہدی حج سے واپسی پر مدینہ آیا تو اپنے دونوں بیٹوں موسیٰ اور ہارون کو حکم دیا کہ امامؒ سے’’ موطاء ‘‘سنیں۔ شہزادوں نے امامؒ صاحب کو بلا بھیجا ۔ آپؒ نے فرمایا علم بیش قیمت شئے ہے‘ اس کے پاس خود شائقین آتے ہیں۔آخر کار دونوں شہزادے خود حاضر ہوئے ۔ شہزادوں کے اتالیق نے کہا پڑھ کر سنائیے۔ امام ؒ صاحب نے فرمایا ہمارے علماء کا دستور یہ ہے کہ طلباء پڑھیں اور شیوخ سنیں۔ مہدی کو خبر کی گئی تو اس نے کہا علماء کی اقتداء کرو۔ آخر کارشہزادوں نے پڑھا اور امامؒ صاحب نے سماعت کی۔ 
مہدی کے بعد ہارون رشید بھی حج سے واپسی پر مدینہ پہنچا تو امامؒ صاحب کو’’ موطاء‘‘ کی املاء کے لیے طلب کیا۔ آپ ؒ نے انکار کر دیا اور خود بغیر ’’موطاء ‘‘کے تشریف لائے۔ خلیفہ نے آپؒ سے شکایت کی تو کہنے لگے ہارون!علم تیرے گھر سے نکلا ہے ‘خواہ اس کو ذلیل کر‘ خواہ اس کو عزت دے۔ ہارون لاجواب ہو گیا۔ پھر اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ مجلسِ درس میں حاضر ہوا ۔ طلبا کی بھیڑ دیکھ کر کہنے لگا ‘ان کو الگ کر دیجیے۔ آپؒ نے فرمایا شخصی فائدے کے لیے عوام کے فائدے کو قربان نہیں کیاجاسکتا۔ہارون اس کے بعد مسند پر جا بیٹھا ۔اب پھر امامؒ صاحب سے رہا نہ گیا فرمایا ’’امیر المومنین حلم اور تواضع پسندیدہ عمل ہے۔ آخر کا ر ہارون نے عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر حدیث کی سماعت کی۔ایک طرف بادشاہِ وقت کے لیے آپؒ نے کوئی تخصیص نہ کی اور دوسری طرف جب امام ابوحنیفہ ؒ آپؒ سے ملنے کے لیے تشریف لائے تو آپؒ نے ان کے لیے اپنی چادر بچھا دی۔ اسی طرح اپنے شاگردوں کے استقبال کے لیے آپؒ شہر سے با ہر تشریف لے جاتے۔عباسی خلفاء کی کمزوریاں اپنی جگہ لیکن اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ وہ انتہائی علم دوست اور علماء و فضلا ء کی قدر کرنے والے تھے۔ امام مالک ؒ نے اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بارہا خلفاء سے مدینہ کے ناداروں کا حال بیان کیا۔ خلیفہ امامؒ صاحب کی بات کو رد نہ کر تے اور فقرائے مدینہ کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھو ل دیتے۔ 
یوں آپؒ نے اپنی ذات کے لیے فائدہ سمیٹنے کے بجائے امت کے ان خستہ حال لوگوں کے بارے میں فکر کی جونہ ذاتی حیثیت میں ممتاز تھے اور نہ ہی علمی حیثیت کی بناء پر کوئی ان کی حاجت پوری کرنے والا تھا۔ آج ہم میں سے ہر صاحبِ حیثیت اور صاحب رسوخ شخص کے لیے امامؒ صاحب کے اس طرز عمل میں بھی بڑا سبق ہے‘ جو دولت‘ عزت یا شہرت اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے کسی کو نصیب ہوئی ہو اسے مخلوق کی بھلائی اور فائدے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ اجتماعی فائدے کاکام دیر پا اور آخر ت میں اجرکا باعث ہے۔ جبکہ شخصی فائدے کے کام وقتی اور ختم ہو جانے والے ہیں۔ امام مالک ؒ کی زندگی کو چند لفظوں میں سمیٹنا چاہیں تو ذہانت‘ اخلاص‘ علم‘ حق شناسی و حق گوئی اور نبی کریمﷺ سے محبت‘ یہ چند خصوصیات آپ ؒ کا طرہء امتیاز نظر آتی ہیں۔ امام مالکؒ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں زندگی ہی میں قبولِ عام نصیب ہوا اور آپ ؒ الا مام الکبیر‘ امام دارالہجرہ اور امام مدینہ کے القاب سے مخاطب کیے جانے لگے۔ آپؒ کی فقہ تیرہ سو سال سے کروڑوں مسلمانوں کی رہنمائی کر رہی ہے۔دعا ہے اللہ پاک امامؒ صاحب کو جنّت الفردوس میں نہایت بلند مرتبہ مرحمت فرمائیں۔ آمین۔