بارہویں کہانی
حکیمُ
الاُ مّت مو لا نا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالیٰ
یہ
کہانی حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی ہے‘ جن کی بیاسی سالہ زندگی کا ایک
ایک لمحہ سنت رسولﷺ کی پیروی اور خلق خدا کی نفع رسانی میں گزرا۔ آپ ہندوستان کے
علاقہ مظفر نگر کے قصبہ تھانہ بھون کے رئیس عبدالحق کے یہاں۵ربیع الاول ۲۸۰اھجری میں پیدا ہوئے۔
نسباً آپ دوھیال کی طر ف سے فاروقی اور ننھیال کی طر ف سے علوی تھے۔ آپ کے والد گو
عالم فاضل نہ تھے مگر ان کو حصول علم سے دلچسپی تھی اور فارسی زبان پر انہیں عبور
حاصل تھا ۔اس کے علاوہ وہ عربی بھی اچھی خاصی پڑھ لیا کرتے تھے۔ آپ کی والدہ
پریشان رہتی تھیں کیونکہ آپ کی نرینہ اولاد زندہ نہ رہتی تھی۔ ایک مرتبہ ان کے
میکے کے حافظ غلام مرتضیٰ مجذوب پانی پتی آئے ہوئے تھے‘ ان کو جب علم ہوا تو کہنے
لگے کہ اب کی باربچے کا نام ننھیال کے نام پر رکھاجائے جس کے آخر میں علی آتا ہو۔
پھر کہا کہ اب کے دو لڑکے ہوں گے اور وہ زندہ رہیں گے۔ ایک کا نام اشرف علی اور
دوسر ے کا نام اکبر علی ہو گا۔ ایک میرا ہو گا ‘وہ مولوی ہو گا اور حافظ ہو گا اور
دوسرا دنیا دار ہو گا ۔ ان بزرگ کی پیشنگوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور پہلے اشرف
علی اور بعد میں اکبر علی کی ولادت ہوئی۔اشرف علی تو واقعی اللہ والا مولوی ہوا۔
حافظ ہوا اور خلقِ خدا کو نفع پہنچانے والا حکیم الامت ہوا اور اکبر علی واقعی
دنیا دار ہو ا۔ علیگڑھ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اعلی درجے کا سرکاری
ملازم ہوا اور بالآخر کلکٹر کے بلند مرتبہ عہدے پر پہنچ کر ریٹائرڈ ہوا۔وہ اکثر
حسرت سے کہا کرتا کہ میں جب سرکاری ملازمت میں تھا تو کچھ عزت تھی مگر ریٹائر ہونے
کے بعد کوئی نہیں پوچھتا جانتا کہ کون ہو اور کس کام کے ہو۔ اے کاش مجھے بھی باپ
نے دینی تعلیم دلائی ہوتی تو میں بھی آج اشرف علی جیسا عزت والا نہ سہی کسی چھوٹے
درجے میں اللہ والوں کی صف میں میرا بھی شمار ہوتا۔
بچپن
اشر ف
علی ابھی پانچ سا ل کے تھے کہ والدہ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ باپ نے محبت سے پالا۔
والدہ کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ تربیت کی ذمہ داری بھی احسن طریقے سے پوری کی‘ حرص
سے بچنا اور بزرگوں کا ادب کرنا سکھایا کرتے تھے ۔اشرف علی عادت اور مزاج کی وجہ
سے بہت جلد گھر اور باہر پسندیدہ ہو گئے۔دین کی طرف بچپن ہی سے رحجان تھا ۔ محض
بارہ تیرہ سال کی عمر میں تہجد کو اٹھتے اور نوافل اور وظائف ادا کرتے ۔ والد نے
ان کے طبعی رحجان کی وجہ سے اور کچھ اپنی خواہش کے پیش نظر اشرف علی کو دینی تعلیم
دلانے کا فیصلہ کیا۔
تحصیل
علم
آپ نے
نہایت چھوٹی عمر میں حافظ حسین علی صاحب کی زیر نگرانی قرآن کریم حفظ کر لیا۔
فارسی کی کتب فتح محمد صاحب اور اپنے ماموں واجد علی صاحب سے پڑھ لیں۔ اساتذہ اور
والد دونوں آپ کی ذہانت اور اپنے اسباق میں دلچسپی لینے کی وجہ سے آپ سے بہت خوش
تھے۔ ایک روز آپ کی تائی نے آپ کے والد صاحب کو کہا کہ تم نے چھوٹے کو انگریزی
پڑھائی ہے وہ تو خیر کما کھا ئے گا۔ بڑا عربی پڑ ھ رہا ہے‘وہ کہاں سے کھائے گا
کیونکہ جائیداد تو وارثوں میں تقسیم ہو کر گزارے کے قابل نہ رہے گی۔ انہوں نے جوش
میں آ کر کہا ۔ بھابی صاحبہ تم کہتی ہو یہ عربی پڑھ کر کھائے گا کہاں سے؟ اللہ کی
قسم جس کو تم کمانے والا سمجھتی ہو ایسے ایسے اس کی جوتیوں میں لگے پھریں گے اور
یہ ان کی جانب رخ بھی نہ کرے گا۔ پندرہ برس کی عمر میں ابتدائی علوم سے فراغت کے
بعد آپ کو دارالعلوم دیو بند بھیج دیا گیا۔
دارالعلوم
دیو بند۔
۸۵۷اء کی جنگ آزادی انگریز سے نجات حاصل کرنے کی مسلح کوشش تھی جو ناکام
ہوگئی۔اس جنگ میں انگریزوں کے خلاف لڑنے والوں میں حاجی امداداللہ مہاجر مکی اور
ان کی کمان میں لڑنے والے دو نوجوان مجاہد مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا رشید
احمد گنگوہی بھی تھے۔ جنگ کے بعد ان تینوں کی گرفتاری کے وارنٹ نکلے۔ مولانا امداد
اللہ تو مکہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ مولانا قاسم کئی مقامات تبدیل کر کے گرفتاری سے
بچ گئے۔ رشید احمدگنگوہی پکڑے گئے۔ ان پر مقدمہ چلا مگر بالآخر عزت سے رہا ہو گئے۔
اس کے بعد جب حالات کچھ پرسکون ہوئے تو مسلمان اکابر نے محسوس کیا کہ دنیا تو ہاتھ
سے گئی‘کہیں دین بھی نہ تباہ ہو جائے۔ اس لیے سہا رنپور ضلع کے ایک گمنام قصبے دیو
بند کی چھتہ مسجد کے فرش پر انار کے درخت کے نیچے ایک مدرسے کی بنیاد ‘جنگ آزادی
کے دس سال بعد ۸۶۷اء میں پڑی جس کی قسمت میں آئندہ ہندوستان کے مسلمانوں کا دینی مرکزو
محوربننا لکھا جا چکا تھا ۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کو جب مکہ میں اس مدرسہ کی
خبر ملی تو خوش ہو گئے۔فرمایا ’’سبحان اللہ ‘ اس کی خبر لوگوں کو نہیں کہ یہاں سحر
کے وقت کتنی پیشانیاں سربسجود ہو کر گڑ گڑاتی رہی ہیں کہ خداوند ہندوستان میں بقائے
اسلام اور تحفظِ علم کا کوئی ذریعہ پیدا کردے‘‘۔۔۔۔ اسی مدرسہ دیو بند سے مولانا
اشرف علی تھانوی نے نہایت قابل اساتذہ مولانا قاسم نانوتوی‘ مولانا رشید احمد
گنگوہی اور شیخ محمود الحسن کی شاگردی میں تعلیم حاصل کی ۔مولانا رشید احمد کے
ہاتھوں آپ کی دستار بندی ہوئی۔
حج
کامبارک سفر اور بیعت
مولانا
اشرف علی تھانوی ابھی دارالعلوم دیو بند میں طالبعلمی کے دور سے گزر رہے تھے کہ
حضرت شیخ امداداللہ مہاجر مکی نے آپ کے والد سے کہلا بھیجا کہ جب حج کو آئیں تو
اپنے بڑے لڑکے کو بھی ہمراہ لیتے آئیں ۔ اس طلبی پر لبیک کا موقع جلد میسر ہو گیا
۔والد نے نہایت عجلت میں لڑکی کا نکاح کیا اور تقریب کے فورا بعد بیٹے اشرف علی کے
ہمراہ حج کو روانہ ہو گئے۔ راستے کی مشقتیں اٹھا کر جب مکہ پہنچے اور بیت اللہ
شریف پر نظر پڑی تو کہتے ہیں کہ ایسی کیفیت میرے اوپر طاری ہوئی جو عمر بھر کبھی
طاری نہ ہوئی تھی۔ حضرت حاجی امداد اللہ مکی آپ کے آنے پر بہت خوش ہوئے۔ گو شرف
بیعت سے تو وہ غائبانہ طور پر ہی مشرف ہو چکے تھے‘ اب دست بدست بیعت کا موقع بھی
حاصل ہو گیا۔ حج سے فراغت کے بعد بھی حاجی صاحب کا اصرار تھا کہ چھ ماہ کے لیے رک
جائیں مگر والد صاحب واپسی کے لیے تیار تھے اور اکیلے رکنے کی اجازت نہ دیتے تھے
چنانچہ والد صاحب کی اطاعت کو مقدم رکھتے ہوئے حاجی صاحب نے مشورہ دیا کہ ابھی چلے
جاؤ ‘بعد میں دیکھا جائے گا۔
درس و
تدریس
آپ نے
کچھ عرصہ کا نپور کے مدرسہ فیض عام میں مدرس کے طور پرگزارا مگر جب اراکین مدرسہ
نے چندہ کے لیے تحریک کروانا چاہی تو آپ کو بہت ناگوار ہوا۔ پھر ایک نئے جامع
العلوم کے نام سے قائم کردہ مدرسہ میں آپ تعلیم دینے لگے۔ مولانا کے اندر ذکر و
شغل کا شوق تو ہمیشہ سے تھا۔ اب استفادۂ باطنیِ کے لیے تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہوا
تو دیگر تعلقات سے نفرت ہو گئی اور حضرت حاجی امداداللہ سے بذریعہ خط ملازمت ترک
کرنے کا مشورہ لیا۔ حاجی صاحب نے اجازت نہ دی کیونکہ اس سے عوام الناس کا نقصان
تھا۔ چنانچہ ذکر و شغل کا سلسلہ بھی جاری رہا اور درس و تدریس بھی ہوتی رہی۔ مگر
محض تین برس میں قلبی کیفیت اس قدر اضطراب انگیز ہو گئی کہ کسی طرح سکون نہ آتا
تھا۔ پریشان ہوکر سفر کا سامان باندھا اور حاجی امداد اللہ کے پاس مکہ پہنچ گئے۔
حضرت حاجی صاحب بھی آپ کی آمد سے بہت مسرور ہوئے اور کچھ عرصہ کے استفادہ کے بعد
کہنے لگے کہ تم میرے طریق پر ہو۔ دوران قیام توحید کے فلسفے پر بھر پور توجہ دی
اور چھ ماہ کی قلیل مدت میں باطنی دولتیں سمیٹ کر اس حال میں وطن واپس آئے کہ حضرت
حاجی امداداللہ نے نہ صرف بیعت کی اجازت دی بلکہ اپنا جانشین و خلیفہ بھی بنا دیا۔
خانقاہ
تھانہ بھون
مکہ مکرمہ سے واپسی کے بعد گو طبیعت بظاہر پرسکون ہو چکی تھی لیکن
دنیا سے بے رغبتی کا عنصر نمایاں تھا۔ سارے مشاغل سے دل اچاٹ ہو گیا۔ پہلے وعظ بند
ہو‘ا پھر درس و تدریس کو بھی موقوف کردیا۔ یکسوئی سے ذکر میں لگ گئے۔ کانپور کے
اراکینِ مدرسہ نے کوشش کی کہ آپ پھر سے وہاں درس و تدریس کا فریضہ سنبھال لیں مگر
آپ کا دل نہ مانا اور کانپور کے مدرسے کا انتظام دوسروں کو سپرد کرکے خود۵ا۳اھجری میں کانپور چھوڑ کر تھانہ بھون کا قیام اختیار کیا۔ حاجی امداد
اللہ صاحب کو اپنے اس فیصلہ کی اطلاع دی تو انہوں نے اظہار مسرت فرمایا۔ پے در پے
خطوط میں دعائیں تحریر فرمائیں اور نہایت وثوق سے یہ بات تحریر کی کہ بہتر ہوا۔ آپ
تھانہ بھون چلے گئے ہیں ‘امید ہے کہ آپ سے خلقِ کثیر فائدہ اٹھائے گی اور یہ سلسلہ
جاری رہے گا۔
درس
ووعظ
تھانہ
بھون میں آپ نے خلق کثیر کے فائدے کے لیے درس ووعظ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ وعظ کے
لیے اٹھتے تو کوئی مضمون ذہن میں نہ ہوتا ۔ آپ کو یقین تھا کہ تمام حاضرین کے قلوب
اللہ تعالیٰ ٰکی دو انگلیوں میں ہیں۔ اس لیے حاضرین کے چہروں پر جب مولانا نظر
ڈالتے تو اللہ پاک ان کے دل میں وہ مضمون ڈال دیتے جس کی اس وقت حاضرین کو ضرورت
ہوتی اور پھر وہ اگر چھ چھ سات سات گھنٹے تک بھی حاضرین کی ضرورت کے مضمون کے پرت
کھول کر بیان کرتے تو بھی کسی ایک فرد کو تھکان محسوس نہ ہوتی اور وہ پہلو بدلے
بغیر اطمینان سے سنتے اورباطنی فیض اور علم کی جھولیاں بھر کر گھروں کو لوٹتے۔ بسا
اوقات ان کو حیرت ہوتی کہ آیا ان کی ضرورت کے مضمون کا حضرت صاحب کو شاید الہام
ہوا تھا۔ آپ کو اس بات کا ملکہ حاصل تھا کہ سامعین کے دلوں میں اصل کام کی بات
احسن طریقے سے ڈال دیتے‘ جس سے عمل کی خوب تحریک ہوتی۔ آپ اختلافی مسائل سے ہمیشہ
گریز کرتے۔
باطنی
اصلاح
جس طرح
نبی کریمﷺ کا تلاوتِ قرآن کے بعد پہلا فریضہ تزکیہ نفس تھا‘ اسی طرح حضرت مولانا
مرید کی باطنی اصلاح کو اوّلیت دیتے تھے کیونکہ باطنی اصلاح سے پہلے اگر ذکر اذکار
و مشاغل میں طالب کو ڈال دیاجائے تو ذکر اذکار سے جو اسے کچھ فائدہ ہوتا نظر آتا
ہے تو اپنے آپ کووہ بڑا سمجھنے لگتا ہے۔ اس لیے وہ مطلق جہل کا شکار ہو جاتا ہے
اور اسے مزید اصلاح اور ترقی درجات کی طرف رجوع کرنا آسان نہیں ہوتا۔
تربیت
کے اصول
آپ
لوگوں کو فضولیات سے ہٹا کر ضروریات کی طرف لاتے۔ مختلف سوالات کے مناسب جواب دے
کر سیدھے راستے پر لاتے۔ اصل مقصد رضائے الٰہی کے حصول کے لیے طالبوں کو تعلیم
دیتے‘ تعلیم میں عمل کرنے پر زور دیتے اور مرید کو بتاتے کہ صرف بیعت کافی نہیں
بلکہ عمل کرنا ضروری ہے اور بیعت مفید بھی تب ہو گی جب پیر کی نصیحتوں کو سچے دل
سے مان کر عمل سے تصدیق کی جائے گی۔
تصوف
اور طریقت
طریقت
کی حقیقت سمجھانے کے لیے آپ مرید کو بتاتے کہ :
ا۔ طریقت
میں کشف کرامت ضروری نہیں۔
۲۔ نہ قیامت میں بخشوانے کی ضمانت ہے۔
۳۔ نہ دنیاوی کاربراری کا وعدہ ہے کہ تمہاری دنیا کی ساری حاجتیں پوری
کی جائیں گی۔
۴۔ نہ تصرفات لازم ہیں کہ پیر کی توجہ سے خود بخود مرید کی اصلاح ہو
جائے گی۔
۵۔ نہ یہ ضروری ہے کہ ذکر و فکر میں مشغول ہونے سے انوار کا مشاہدہ ہو
گا۔
۶۔ نہ اعلیٰ باطنی کیفیت کا وعدہ ہے۔
۷۔ نہ عمدہ خوابوں کا وعدہ ہے ۔ اصل میں سب سے بڑھ کر شریعت کے حکموں
پر چل کر اللہ کو راضی کرنے کی فکر ہی زیادہ ضروری ہے۔
مسلم
خواتین کی تعلیم اور اصلاح کے لیے
ہندوستان
کی عورت آدمیوں کی سختی اور تنگ نظری ‘ اپنی پس ماندگی اور بزدلی کی وجہ سے ان
تمام صفات سے محروم رہ گئی جو ایک اچھی ماں بننے کے لئے لازم ہوتی ہیں تاکہ وہ
اپنے بچے کو قوم کا اچھا فرد بنا سکے ۔ وہ مردوں کے ذائقے اور لذت کی تسکین کے لیے
انواع و اقسام کے اچھے کھانے تو تیار کرسکتی تھی لیکن دین و دنیا کی کامیابی کے لیے
جملہ صفات سے تہی دامن تھی۔ ناظرہ قرآن پاک اٹک اٹک کر غلط تلفظ سے پڑھنا وہ جیسے
تیسے سیکھ لیتی تھی۔ مگر اس کا سارا دین سنی سنائی اور عموماً موضوع روایات پر
مبنی ہوتا۔ میلادوں ‘ کونڈوں‘ شب براتوں کو دین کا اصل سمجھتی ۔ وقت کی فراغت اور
مشترکہ خاندانی نظام کے باعث غیبتوں ‘ چغلیوں‘ بہتانوں کی پٹاری بنی رہتی۔ حقوق و
فرائض سے نابلد ہونے کی بنا پر شوہر سے تو لڑتی جھگڑتی لیکن دور کے سسرالی رشتہ
داروں سے بھی مروت برتتی۔ شوہر سے حجاب کا معاملہ ہوتا اوردیوروں سے ہنسی مذاق اور
بے تکلفی بھی منع نہ ہوتی ۔ مزید یہ کہ تعلیمی معیار میں زمین و آسمان کا فرق ہونے
کی وجہ سے اس کا اور شوہر کا مذاق بالکل جدا جدا ہوتا اور ایسی جاہل‘غبی اور
بداخلاق عورت کے پاس جانے کے بجائے آدمی کوٹھوں کا رخ کرتے جہاں طوائفیں نہ صرف یہ
کہ تعلیم یافتہ ہوتیں بلکہ اعلیٰ ذوق کی مالک ہوتیں ۔ بناؤ سنگھار کے ساتھ ساتھ وہ
ایسی عمدہ گفتگو کر تیں کہ آدمی بات کر کے بھی خوش ہو جاتا۔ پس مرد اس صورت کو
قبول کر لیتا کہ گھر کے کام کاج کے لیے ایک باندی بیوی کی صورت میں ہو اور دل
بہلانے اور ذہنی آسودگی کے لیے طوائف کی صورت میں کوئی محبوبہ ۔ منکوحہ بیویاں
مجبور بھی تھیں اور بیوقوف بھی۔ سو وہ اس منظر نامے کو بہر صورت قبول کر چکی تھیں۔
دوسری طرف زندگی کے ابتدائی سالوں میں بچے کے اندر مختلف صفات پیدا کرنا‘ اس کی
شخصیت کی نشو و نما ‘ ادب آداب کا سکھانا ‘ حقوق و فرائض کا علم دینا‘ معاملات کی
صفائی ‘ احکامات کی پابندی ‘جن سے وہ خود نابلد تھی‘اپنے بچے کو کیا سکھاتی۔۔۔ بے
شک وہ عورت جو کھانے پکانے ‘ کاڑھنے پہننے اور کشیدہ کاری میں تو خوب ماہر ہو مگر
دین کی ابجد سے بھی واقف نہ ہو‘ کسی صورت ایسی عورت پر فضیلت نہیں رکھتی جو دین و
دنیا کا علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل پیرا بھی ہو اور نونہالوں کی شخصیت
کو عقائد اور کردار کی توانا بنیادوں پر استوار کر رہی ہو ۔ احادیث سے پتہ چلتا ہے
کہ حوریں اگرچہ اپنے حسن اور لباس میں یکتا ہو ں گی مگر جنت کی عورتوں پر ان کو
فضیلت حاصل نہ ہو گی۔ جو اپنے ہمہ پہلو عمل کی بنیاد پر جنت کی مستحق ہو ں گی۔
خوب
غور کے بعد مولانا نے محسوس کیا کہ سبب ان ساری خرابیوں کا علوم دینیہ سے ناواقف
ہونا ہے۔ پس ان کے عقائد ‘ ان کے اعمال‘ ان کے معاملات ‘ ان کے اخلاق‘ ان کا طرز
معاشرت‘ سب برباد ہو رہا ہے بلکہ ایمان تک کا بچنا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ بعض
اقوال و افعال کفر یہ تک ان سے سرزد ہوجاتے ہیں اور چونکہ بچے ان کی گودوں میں
پلتے ہیں‘ زبان کے ساتھ ان کا طرز عمل‘ ان کے خیالات بھی ساتھ ساتھ دل میں جمتے
جاتے ہیں۔ جس سے دین تو ان کا تباہ ہوتا ہے مگر دنیا بھی بے لطف و بے مزہ ہو جاتی
ہے۔ اس وجہ سے بداعتقادی اور بد اخلاقی پیداہوتی ہے اور بداخلاقی سے بداعمالی اور
بداعمالی سے بدمعاملگی جو جڑ ہے تکدر معیشت کی۔ رہا شوہر‘ اگر ان ہی جیسا ہوا تو
دو مفسدوں کے جمع ہونے سے فساد میں اور ترقی ہوئی‘ جس سے آخرت کی تو خانہ ویرانی
ضروری ہے مگر اکثر اوقات انجام باہمی نزاع اور دنیا کی خانہ و یرانی بھی ہوجاتی ہے
اور اگر شوہر میں کچھ صلاحیت ہوئی تو اس بیچارے کوگویا جہنم بھر کی قید نصیب ہوئی۔
مندرجہ بالا حالات کو دیکھ کر مولانا نے ۳۲۰اہجری میں خصوصی طور پر عورتوں کے لیے اور مجموعی طور پر سب کے لیے
اپنی کتاب بہشتی زیور تحریر فرمائی۔یہ کتاب خاص طور پران عورتوں کے لیے لکھی گئی
جن کو عقیدہ ‘ عبادت‘ فرائض کے ساتھ ساتھ سلیس سادہ زبان میں خانہ داری کی تربیت
بھی درکار تھی۔ مولانا نے جیسے سوچا تھاکتاب لکھ دی‘ جس کا چرچا آج تک ہمارے گھروں
میں ہے۔ آج کی خاتونِ خانہ کے لیے اس کتاب کی زبان کو سادہ تر کر کے اسے دوبارہ
لکھنے کی ضرورت ہے کہ آج عربی فارسی سے آشنائی تو دور کی بات ہے ‘خود اردو سے
آشنائی قائم نہیں رہی۔
سماجی
رویوں میں بہتری کا تجدیدی کام
گومولانا
نے اپنی کتاب ’’بہشتی زیور‘‘ میں خطاب عورتوں سے کیا ہے لیکن یہ کتاب مردوں کے لیے
بھی کم مفید نہیں۔ مولانا کی مندرجہ بالا کتاب کے علاوہ ڈھیروں ڈھیر تصانیف میں
ایک پیغام جو صاف نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ امت صحیح عقائد و تصورات کے ساتھ اپنے
معاملات اور کام درست طریقے پر سلیقے‘ قرینے اور حسن انتظام کے ساتھ انجام دے۔ اس
طرح ردِبدعات اور اتباع شریعت کے عظیم کام کے ساتھ ایک تجدیدی کارنامہ جو آپ نے
انجام دیا‘ وہ تین محاذوں پر مسلمانوں کی توجہ کو مرکوز کرنا تھا۔ (ا)۔حقوق کی
ادائیگی اور معاملات کی صفائی۔(ب)۔ حسن معاشرت ۔(ج)۔ حسنِ انتظام۔
ادائیگی
حقوق
حقوق
کی ادائیگی اور معاملات کی صفائی کے بارے میں آپ فرماتے کہ سب سے زیادہ اہتمام مجھ
کو اپنے لیے اور اپنے دوستوں کے لیے اس امر کا ہے کہ کسی کو کسی قسم کی اذیت نہ
پہنچائی جائے۔ خواہ بدنی ہو جیسے مار پیٹ‘ خواہ مالی ہوجیسے کسی کا حق مار لینا یا
ناحق کوئی چیز لے آنا‘ خواہ آبرو کے متعلق جیسے کسی کی غیبت‘ خواہ نفسانی جیسے کسی
کو کسی تشویش میں ڈالنا یا کوئی ناگوار رنج دہ معاملہ کرنا اور اگر اپنی غلطی سے
ایسی بات ہو جائے تو معافی چاہنے سے عار نہ کرناچاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا خود حقوق کی
ادائیگی اور معاملات کی صفائی کا پورا اہتمام کرتے۔ آپ اپنی دو بیویوں کے معاملے
میں پوری مساوات کا رویہ اختیار کرتے۔ دلجوئی بھی برابر کرتے اور وقت بھی برابر
دیتے۔ کسی معاملے میں ذرہ برابر بے انصافی نہ کرتے۔ آپ مالی معاملات میں بھی بہت
احتیاط کرتے۔ مسجد کے سامان کا بھی خوب دھیان رکھتے ۔ نہ کسی کو کسی چیز کا قبضہ
کرنے دیتے نہ خود ناجائز استعمال کرتے۔
حسن
معاشرت
دین کے
پانچ اجزاء ہیں ۔ عقائد‘ عبادات‘ معاملات ‘ اخلاق باطنی اور آداب معاشرت ۔ عوام نے
صرف دو کو یعنی عقائد اور عبادات کو اور علمائے ظاہر نے معاملات کو اور مشائخ نے
چوتھے جزو اخلاق باطنی کی اصلاح کو بھی دین سمجھا مگر پانچویں جزء یعنی آداب
معاشرت کو تقریباً بھلا دیا گیا ہے۔ آداب معاشرت یہ ہیں کہ روز مرہ کے معاملات میں
اس بات کا خاص طور سے اہتمام کیاجائے کہ کسی شخص کی کوئی حرکت اور کوئی حالت دوسرے
شخص کے لیے ادنیٰ درجے میں کسی قسم کی تکلیف و اذیت یا گرانی یا خفگی یا تکدر یا
کراہیت ‘ ناگواری یا تشویش و پریشانی کا سبب یا موجب نہ ہو۔چنانچہ بہت سی باتیں
روزمرہ دیکھنے میں آتی ہیں جو گرانی اور تشویش کا باعث ہوتی ہیں۔ مولانا نے سیرت
سے مثالیں لے کر خود بھی آداب معاشرت ملحوظ رکھے اور لوگوں کو بھی سکھائے۔ چند
مثالیں جن پر آپ خود عمل کرتے تھے اور لوگوں کو بھی تلقین کرتے تھے ذیل میں درج کی
جاتی ہیں:
غرض آنے والا اگر خوش فہم ہوتا تو حسنِ انتظام سے متاثر ہوتا اور بعض
لوگ جو علماء اور بزرگ حضرات کے وقت کو اپنی اجارہ داری سمجھتے ‘ نیز دیندار لوگوں
کی ان سے مروت کو اپنا حق سمجھتے‘ ناراض ہوجاتے اور انتظام کو سختی سمجھتے ۔ ایک
صاحب نے آپ کے منہ پر کہا کہ آپ کے مزاج میں تو انگریزوں کا سا انتظام ہے۔ فرمایا
’’افسوس گویا اسلام میں انتظام ہی نہیں بلکہ اسلام تو ان کے نزدیک بے انتظامی کا
نام ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ انگریزوں میں مسلمانوں کا سا انتظام ہے تو ایک
درجے میں صحیح ہوسکتا ہے ۔ ایک اور موقع پر فرمایاکہ جس کو اسلامی تہذیب کے مقابلے
میں اپنی جدید تہذیب کا دعویٰ ہو‘ کچھ دن میرے پاس رہ کر دیکھ لے۔ اللہ کے بھروسے
پر کہتا ہوں ان شآ ء اللہ خود اسی کے منہ سے کہلواؤں گا کہ واقعی ہم بدتہذیب ہیں
اور حقیقی تہذیب وہی ہے جس کی شریعت مقدسہ نے تعلیم فرمائی ہے۔
وفات۔
مولانا
زندگی کے بیاسی سال پورے کر چکے تھے۔ اس میں سے باسٹھ سال دین کی خدمت ‘ تعلیم‘
تدریس‘ درس‘ وعظ اور تصنیف و تالیف میں بسر ہوئے ۔ بیماری کا آغاز ضعفِ معدہ اور
ورم جگر سے ہوا۔ جس کی وجہ سے قبض لاحق ہو جاتا تو کبھی پیٹ کی خرابی کی صورت
ہوتی۔ پانچ سال تک مرض کی تکلیف بڑھتی گھٹتی رہی اور علاج کا سلسلہ دیگر مصروفیات
کے ساتھ جاری رہا۔
آخری
ایام میں فرماتے کہ اب کسی چیز سے رغبت نہیں ہوتی البتہ جب صاحب فراش ہو گئے تو
کام نہ کر سکنے کا بہت قلق ہوا۔ پھر فرماتے کہ اس طرح لیٹے لیٹے اللہ کا ذکر ہی ہو
جاتا ہے۔ وفات سے دو تین روز قبل فرمایا کہ مجھے نماز اور حقوق کی بہت فکر ہے۔
دستوں کے شدید مرض میں بھی صفائی و طہارت کے پورے انتظام کے ساتھ نماز ادا کرتے
رہے۔
وفات
کے دن جب ہاتھ پاؤ ں سے جان نکل چکی تھی‘ نزع کا عالم طاری ہونے سے ذرا پہلے ایک بار
پھر امانتوں کا صندوقچہ منگوایا کہ کہیں مدرسے کی کوئی امانت تو نہیں ہے۔ لفافوں
میں سے امانتوں کی رقم نکالی تو وہ چودہ آنے تھے۔ فرمایا پندرہ آنے ہونگے ۔ دوبارہ
دیکھا تو ایک ا کنی اسی لفافے سے مل گئی۔ ابھی یہ عمل جاری تھا کہ غشی طاری ہو
گئی‘ نوٹ سینے پر بکھر گئے اور حقوق کی ادائیگی کا انتہائی خیال رکھنے والا اللہ
کے حق میں اپنی جان سے دستبردار ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔اس طرح سولہ
رجب ۳۶۲اہجری بمطابق ۲۰جولائی ۹۴۳اکو بعد نماز عشاء ساڑھے گیارہ بجے وفات پائی۔ مولانا شبیر علی نے
غسل دیا اور عوام کے انبوہ عظیم کے جلوس میں مولانا کے جسد خاکی کو عشقبازاں کے
نامی تاریخی قبر ستان میں مولانا عبدالکریم صاحب کے مدفن کے ساتھ سپردِ خا ک کر
دیا گیا۔
معمولات
و دیگر احوال
مولانا
اپنی سخت مزاجی کے باوجود عوام میں بے حد مقبول تھے۔ فرماتے کہ مجھے اس سے کوئی
فرق نہیں پڑتا کہ لوگ مجھے کیا سمجھتے ہیں۔ پھر اپنی سخت مزاجی کی وجہ خود بیان
فرماتے :
’’یہ جو میں سختی کرتا
ہوں‘ بہ ضرورت کرتا ہوں۔ کچھ اس میں میری خوشی تھوڑی ہی ہے۔ سچ کہتا ہوں کہ بعض
وقت تو جی یہاں تک بھرا ہوتا ہے کہ معافی مانگنے کا تقاضا پیدا ہوتا ہے۔ مگر دوسرے
ہی کی مصلحت سے اس تقاضے پر عمل نہیں کرتا۔ اگر کبھی اصلاح کے کام کو چھوڑ وں گا
تو ان شآء اللہ پھر متحمل ہو کر دکھلادوں گا۔ ‘‘
مولانا
کو باوجود اس یقین کے اپنے نفس سے سو ء ظن ہی رہتا ۔ ہر دفعہ تنبیہ کے بعد بار بار
افسوس و ندامت کا اظہار کرتے ۔ یہاں تک کہ بعض دفعہ رات رات بھر نیند نہ آتی۔ بعض
اوقات خود معافی مانگتے اور بعض دفعہ مالی تدارک بھی کرتے ۔ فرماتے :
’’یہ طرز میری طبیعت کے
بالکل خلاف ہے اور مجھ کو بڑی کلفت اور ندامت ہوتی ہے اور رہ رہ کر سوچتا ہوں کہ
بجائے اس طرح کہنے کے اس طرح بھی کہہ
سکتا تھا ۔ لیکن عین وقت پر مصلحت اصلاح کا ایسا غلبہ ہوتا ہے کہ اور کوئی مصلحت
پیش نظر نہیں رہتی‘‘۔
آگے
فرماتے ہیں میرا اصلی مذاق تو یہ ہے کہ کسی سے کچھ تعرض نہ کروں اور اپنے آپ کو سب
سے یکسو رکھوں۔ اپنے مریدوں اور طالبین میں سے اکثر کو رخصت کرتے وقت نہایت بشاشت
کے ساتھ پیش آتے تاکہ اس کا دل خوش رہے۔
اصلاح
کے موقع کے علاوہ عام معاملات میں مولانا اس سختی سے گریز کرتے ۔ آپ کی اپنی اولاد
تو نہ ہوئی لیکن دوسرے بچوں کے ساتھ بے تکلفی اور شفقت سے پیش آتے۔ خدمت گاروں اور
نوکروں سے تمیز کا معاملہ رکھتے اور اس کی ہدایت بھی کرتے۔ ان کی آسانی اور عزتِ
نفس کا پورا خیال رکھتے ۔ فرماتے میرے جو ملازم تنخواہ دار ہیں ان کو بھی جب
تنخواہ دیتا ہوں یا کبھی کوئی ان کی مالی خدمت کرتا ہوں تو روپیہ پیسہ کبھی ان کی
طرف نہیں پھینکتا بلکہ سامنے رکھ دیتا ہوں ۔ جیسے ہدیہ دیتے ہیں ۔ پھینکنے میں ان
کی اہانت معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک تحقیر کی صورت ہے اور ملازم کو حقیر اور
ذلیل سمجھنے کا کوئی حق نہیں۔
اپنی
بیویوں کے ساتھ نرمی برتنے اور بار بار سب کو یہ ہدایت کرتے کہ عورتوں خصوصا
بیویوں کے معاملے میں نرمی کریں اور ا ن کے حقوق کی حفاظت کریں کیونکہ ان کے لیے
تو شوہر ہی سب کچھ ہوتا ہے۔
مولانا
جہا ں دوسروں کی اصلاح کرتے وقت انہیں سخت کسوٹی پر پرکھتے تو اپنے نفس کو بھی اس
سے مبرّا نہ رکھتے ۔ ایک بار ایک شخص نے کہا کہ مجھے اپنے عیوب نظر نہیں آتے۔ اس
پر آپ نہایت جوش میں آگئے ۔ تین بار قسم کھا کر فرمایا’’ مجھ کو تو اپنی نماز‘اپنے
روزے اور اپنے ہر عمل بلکہ اپنے ایمان تک میں شبہ عدم خلوص کا رہتا ہے اور ہم لوگ
تو کیا چیز ہیں‘ حضرات صحابہ سے بڑھ کر کون مخلص ہوگا۔حدیث میں وارد ہے کہ اصحاب
بدر میں سے ستر حضرات ایسے تھے جن کو اپنے اوپر نفاق کا شبہ تھا کہ کہیں ہم منافق
تو نہیں ہیں۔ ‘‘
ایک
موقع پر فرمایا ’’گو میں متقی‘ پرہیزگار تو نہیں لیکن الحمد اللہ اپنی اصلاح سے
غافل بھی نہیں۔ ہمیشہ یہی ادھیڑ بن لگی رہتی ہے کہ فلاں حالت میں فلاں تغیر کرنا
چاہیے۔ فلاں نقص کی فلاں طریقے سے اصلاح کرنی چاہیے۔ غرض مجھ کو اپنی کسی حالت پر
قناعت نہیں۔‘‘
’’اشرف السوانح ‘‘ آپ کے
خلیفہ خواجہ عزیز الحسن نے آپ کی زندگی میں تحریر کی اور آپ کو اس کا مسودہ دکھا
بھی دیا۔ چونکہ وہ آپ کے ایسے معتقد تھے کہ باوجود تاکید و نصیحت کے تعریف میں غلو
بھی کر جاتے تھے ‘چنانچہ ایک موقع پر فرمایا ’’پہلے تو مجھے اس کتاب سے بالکل
دلچسپی نہ تھی بلکہ سخت وحشت اور نفرت تھی اور ایسی بے غیرتی معلوم ہوتی تھی کہ
بعض اوقات جی چا ہتا تھا کہ سب لکھے ہوئے مسودات کو جلوادوں۔ لیکن اب جس طرز پر یہ
لکھی جارہی ہے اس کی نافعیت دیکھ کر اس کے ساتھ تعلق خاطر ہو گیاہے۔‘‘
ایک
اور موقع پر حسرت سے فرمایاافسوس کوئی بات چھپی نہیں رہی۔ اوّل تو میرے پاس اعمال
ہی کیا تھے جو کچھ تھے وہ سب ظاہر ہو گئے۔ واللہ مجھے سخت اندیشہ ہے کہ کہیں وہ
بھی اس اظہار کی وجہ سے حبط نہ ہو جائیں۔ لیکن کیا کروں ۔ اس لیے اظہار حال اور بے
غیرتی کو گوارا کیا کہ شاید کسی کو نفع پہنچ جائے۔ مولانا نے تھانہ بھون میں کل
وقتی دین کے کام کا بیڑا اٹھایا تو ابتداء میں تنگی ہوئی لیکن بعد میں ہدایا کی
وجہ سے فراخی ہو گئی۔ مولانا ہدایا اور رقوم کی وصولی میں جس قدر احتیاط برتتے اسی
طرح ان کے صحیح مصارف کے لیے بھی مشقت برداشت کرتے۔ آپ چاہتے تھے کہ خانقاہ میں
آنے والوں اور تربیت حاصل کرنے والوں کو حرص اور مفت خوری کی عادت نہ پڑے۔ چنانچہ
طالب اعانت کی درخواست کو فورا پورا نہیں کرتے تھے بلکہ کسی قدر توقف اور مناسب
تحقیق کے بعد پورا فرماتے تھے۔
اسی
طرح لوگوں کے ہدیئے اور رقم اس وقت قبول کرتے‘ جب وہ آپ کے اصول کے مطابق درست
ہوتے۔ ورنہ انکار کر دیتے۔ فرماتے ہدایا میں یہ میرا معمول ہے کہ دو چیزوں کو
دیکھتا ہوں ۔ ایک تو یہ کہ ہدیہ میں کامل شوق ہو۔ میں ایسے شخص کی خدمت کو منظور
کر لیتا ہوں اور ایک یہ کہ ایک دن کی آمدنی سے زائد نہ ہو۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ
بعض اوقات شوق کے غلبے میں اپنے مصالح پر نظر نہیں رہتی مگر اپنا جی چاہتا ہے کہ جو
اپنے سے محبت کرے اس کو بھی تکلیف نہ ہو۔ اس لیے مصلحت سے زیادہ مقدار میں لینا
اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ ایک طرف تو آپ اس کا اہتمام کرتے کہ لوگ مارے مجبوری یا
دکھاوے یا مصلحت کے ہدیہ نہ دیں تو دوسری طرف اس کا بھی خیال رکھتے کہ ہدیہ دینے
والا جائز اور حلال کمائی سے دے رہا ہو۔
ایک
بار پانچ سو کی رقم بذریعہ بیمہ آئی تو آپ نے واپس کر دی۔ وہ رقم ترکے کی تھی اور
مصارفِ خیر میں صرف کرنے سے متعلق بعض ورثاء سے اجازت نہیں لی گئی تھی ۔ بعد میں
ورثاء نے اجازت لکھ کر بھیجی تو قبول فرمائی۔ حاضرین ایسے مواقع پر اس قدر تفتیش پر
حیران ہو تے تو فرماتے کہ دیکھئے جو آنے والی چیز ہوتی ہے وہ آتی ہی ہے ۔ چاہے اس
کو لاکھ واپس کیاجائے۔ پھر کیوں نیت خراب کی جائے اور خلاف اصول کا ارتکاب کیا
جائے۔ یہ بھی فرماتے کہ ہماری طرف جو کچھ لوگوں کی توجہ ہے وہ دین کی بدولت ہے۔ پس
ہم کو اس دین کی عزت قائم رکھنے کی سخت ضرورت ہے۔ مولانا کے ہاں وقت کو کارآمد
بنانے کا جو خصوصی اہتمام تھا ‘اس کا تذکرہ مفید ہو گا۔ آپ کے ہاں ہر کام کا وقت
بندھا ہوا تھا اور پہلے سے مقرر کردہ شیڈول کے مطابق انجام پاتا۔ صبح سے بارہ بجے
تک تنہائی میں تصنیف و تالیف کا کام کرتے ۔ اس وقت کسی کو ملنے کی اجازت نہ تھی۔
بارہ بجے سے ظہر تک قیلولہ اور نماز کا وقت تھا۔ ظہر سے عصر تک مجلس کرتے جس میں
عام حاضری کی اجازت تھی۔ عصر کے بعد آپ کی ذاتی مصروفیت ہوتی تھی۔ بعد مغرب خطوط
کے جوابات تحریر فرماتے اور عشاء کے بعد سب سے معذرت کر لیتے۔ اوقات میں پابندی
اور حسن انتظام کے باعث آپ سینکڑوں کتابوں کی تصنیف کر سکے۔اشرف السوانح کے مصنف
نے آپ کی (۶۶۶) چھ سو چھیاسٹھ کتابوں کی
فہرست دی ہے۔
آپ کی
کتاب ’’ خطبات حکیم الامت ‘‘ کی ۳۲جلدیں موجود ہیں۔ پھر روزانہ آنے والے خطوط کے جوابات اس کے علاوہ
ہیں۔ جن کی تعداد بیس سے پچاس تک ہو ا کرتی تھی۔ بعض اوقات انتہائی لمبے چوڑے خطوط
ہوتے‘ جن کے مختصر اور جامع جوابات فی خط دومنٹ کے حساب سے تحریر کرتے۔ اس معاملے
کی اتنی پابندی کرتے کہ بعض اوقات بعد عشاء بھی ان کے جوابات تحریر کرتے نظر آتے ۔
ایسا بھی دیکھنے میں آیا کہ رات کو وعظ سے واپسی پر دیر ہو گئی تو اسی وقت ڈاک کو
لے کر بیٹھ گئے اور سردرد کی حالت میں سربھی دبا رہے ہیں اور جواب لکھ رہے ہیں۔ جب
کہا جاتا کہ آرام کر لیں تو فرماتے کہ میری طبیعت پر کام کا اتنا تقاضا ہوتا ہے کہ
اگر میں کام پڑے رہنے کی حالت میں سونا بھی چاہوں تو نیند نہیں آ سکتی‘پھر کام ہی
کیوں نہ کروں۔
آپ
اپنے روزانہ کے معمولات میں آئے دن تغیر نہ کرتے بلکہ ان کی پابندی کرتے‘ یہاں تک
کہ جب آپ کے استاد مولانا محمود الحسن تشریف لائے تو ان کے لئے تمام انتظامات مکمل
کرنے کے بعد چونکہ تصنیف کا وقت شروع ہو چکاتھا۔ ان سے اجازت لے کر ا پنے کام میں
مصروف ہو گئے۔ اگر چہ دل نہ لگا اور تھوڑی دیر بعد واپس ان کی خدمت میں تشریف لے
آئے لیکن بالکل ناغہ نہ کیا۔ اسی طرح آپ کی عادت تھی کہ اکثر کاغذ پنسل اپنے ساتھ
رکھتے تھے ۔ جس وقت کوئی مضمون ذہن میں آتا اسے فوراً لکھ لیتے ۔ بلکہ بسااوقات
رات کو بھی کوئی بات ذہن میں آتی تو روشنی کر کے نوٹ کر لیتے۔ اسی طرح سفر و حضر
میں بھی کوئی بات یا مضمون مطلب کا سامنے آتا تو اسے نوٹ فرما لیتے۔ مولانا میں
کام جلد ختم کرنے کا فطری تقاضا تھا ۔ آپ کو جو کام کرنا ہوتا اسے فوری انجام دیتے
اور ٹالتے نہ تھے۔ فرماتے‘ اس میں تھوڑی تکلیف ہوتی ہے لیکن بعد فراغت کے بالکل بے
فکری ہوجاتی ہے اور راحت ہوتی ہے ورنہ ٹالنے سے کام اکثر نہیں ہوتے۔ اگر ہوتے بھی
ہیں تو جتنی فکردامن گیر رہی اتنی کلفت بھی ہوتی ہے۔ جب تصانیف ختم ہونے کے قریب
ہوتیں تو ساری ساری رات بیٹھے لکھتے رہتے ‘ایک منٹ کے لیے بھی آرام نہ فرماتے اور
اس کی وجہ یہ بتاتے کہ کام ختم ہونے سے قلب پر بار نہیں ہوتا۔ غرض آپ کے معمولات
کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا کہ گویا ایک مشین ہے جو بلا تھکان چل رہی ہے۔ یہ سب
پابندیِ اوقات اور انتظام کی برکت تھی۔ البتہ آپ اس پر یقین رکھتے تھے کہ قواعد
انسانوں کے لیے ہیں اور انسان تھکان چل رہی ہے۔ یہ سب پابندیِ اوقات اور انتظام کی برکت تھی۔ البتہ
آپ اس پر یقین رکھتے تھے کہ قواعد انسانوں کے لیے ہیں اور انسان قواعد کے لیے نہیں
۔ استشنائی حالت میں لوگوں کو ملاقات کاوقت دے دیا کرتے اور ان کے کام خوش دلی سے
کر دیا کرتے تھے۔
مولانا
کے مشاہدے کی دلچسپ معلومات
آپ کی
طبیعت بہت حساس تھی ۔ قوم کی زبو ں حالی کو دیکھ کر ان اسباب کی ٹوہ میں رہتے‘جو
قوم کو عزت کے تخت سے گرا کر ذلت کی نہایت نچلی کھائی میں لے ڈوبے۔ آخر اس نتیجے
پر پہنچے کہ سبب اس تنزل کا جہالت اور تکبر ہے۔ چند واقعات آپ کے ملفوظات میں سے
لے کر قارئین کی دلچسپی کے لیے نیچے درج کئے جا تے ہیں۔
ا۔ ایک
کابلی طالب علم لمبا سفر کر کے تھانہ بھون حضرت صاحب کی خانقاہ میں پہنچا۔ آپ نے
آنے کا مقصد پوچھا تو اس نے بتایا کہ مثنوی مولانا رومی پوری تشریح کے ساتھ آپ کی
شاگردی میں پڑھنا چاہتا ہوں۔ آپ نے کہا ’’کابل میں فلاں عالم ہے‘پشاور میں فلاں
شیخ ہیں‘ لاہور میں فلاں عالم ہیں ان میں سے کسی کی شاگردی اختیار کی ہوتی۔‘‘ کہنے
لگا حضرت جی میں آپ ہی کی شاگردی اختیار کروں گا۔ آپ نے فرمایا ‘اچھا تم کو یہاں
سونے کی جگہ مل جائے گی۔ طہارت خانے اور وضو کرنے کی جگہیں بھی ہیں مگر کھانے کی
کوئی ضمانت نہیں۔ اس کا بندوبست تمہارا اپنا ہو گا۔ اس نے کہا میں نے کھانا کب
مانگا ہے۔ رزق میرے اللہ کے ذمے ہے‘ مجھے اس کی فکر نہیں۔ مولانا فرماتے ہیں میں
اس کے توکل کو دیکھ کر متعجب ہوا مگر میں سوچتا رہا کہ کوئی بندوبست اس کے کھانے
کا ضرورہونا چاہیے۔
صبح
فجر کی نماز کے بعد ایک صاحب نے مولانا کو بتایا کہ ان کی ایک عزیز ہ کا انتقال ہو
گیا ہے۔ اس کی روح کے ایصال ثواب کے لیے چالیس روز کے لیے کسی مسکین یامسافرکے لیے
صبح شام کاکھانا میں پہنچاؤں گا‘ آپ کی خانقاہ میں کوئی مستحق ہو تو بتائیں۔ میں
دل ہی دل میں خوش ہوا کہ چلو اس مسافر کا چالیس روز کا ا نتظام ہو گیا۔ اطمینان سے
پڑھا ؤں گا اور اس کو فائدہ پہنچے گا۔ پھر جب چالیس روز پورے ہو گئے تو ایک اور
صاحب نے کسی عزیز کی وفات کے بعد چالیس روز کے کھانے کا ذمہ لے لیا۔ مزید چالیس
روز کے کھانے کے بندوبست سے اور اطمینان ہوا مگر جب یہ وعدے کی مدت پوری ہوئی تو
پھر فکر دامنگر ہوئی کہ اب کیا ہو گا۔ اتفاق سے اب پھر ایک صاحب نے اسی طرح کے
اپنے کسی مرحوم عزیز کے لیے ثواب کی خاطر چالیس روز کا کھانا پہنچانے کاذمہ لے
لیا۔ اس پر مولانا نے حاضرین سے کہا کہ اس مسافر کے کھانے کا مستقل بندوبست کوئی
صاحب اپنے ذمے لے لے۔ وگرنہ ہر چالیس روز کے بعد آپ کو ایک عزیز کی موت کا صدمہ
سہنا پڑے گا۔ مسافر کا رزق تو اللہ اس کو ضرور پہنچائے گا ‘اگر سیدھے ہاتھوں اس کو
کھانا نہیں پہنچاؤ گے تو اپنے جاہلانہ عقیدے کے مطابق تم ایک بندے کی قربانی دے کر
مجبوراََ چالیس روز کا کھانا پہنچاتے رہو گے۔
۲۔ عبدالماجد دریا آبادی جدید علوم کے مشہور عالم فلسفی اور محقق جو
دینی علوم میں بھی خاصی دسترس رکھتے تھے‘ انہیں اپنے علمی تبحر کا پندار تھامگر
قرآن کے محکم دلائل کے سامنے اپنی عقل کو عاجز محسوس کرتے ہوئے اپنی تسلی کے لیے
انہوں نے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی خدمت میں خط لکھا اور ان سے
درخواست کی کہ قرآن مجید کے مطالعہ سے میرے دل میں بعض شدید قسم کے اشکا لات پیدا
ہوتے ہیں۔ میں ایک ایک کر کے آپ سے وضاحت حاصل کرنے کے لیے آپ کو خط لکھوں گا۔ آپ
براہ کرم تسلی بخش جواب دیتے جائیں تاکہ میں اطمینان محسوس کر کے دینی استقامت
حاصل کروں۔ آپ نے جواب میں لکھا کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ آپ اپنے اشکالات رفع
ہونے کی مخلصانہ خواہش رکھتے ہیں مگر چونکہ آپ بہت ذہین ہیں ‘جدید علوم کے ماہر
اور محقق ہیں‘ اس لیے میری وضاحت پر آپ کو مزید کوئی اشکال پیدا ہو گا اور مجھے
پھر لکھ کر قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح بات نہیں بنے گی۔ میری تجویز یہ ہے
کہ آپ چالیس روز کے لیے میر ے یہاں آجائیں۔ آپ کی رہائش کا معقول انتظام ہو
گا۔ البتہ کھانے پینے کا آپ اپنا بندوبست خودکریں گے۔ ان چالیس دنوں میں آپ مجھ سے
کوئی سوال نہیں کریں گے۔ صرف میرے شب و روز کے اشغالات کو دیکھتے جائیں اور نمازوں
اور دیگر مشغولات میں شامل رہیں‘ پھر چالیس روز کے بعد جو اشکالات آپ محسوس کریں‘ بتائیں‘
اس وقت میں کچھ وضاحت کروں تو شاید آپ جو چاہتے ہیں وہ آپ حاصل کر کے مطمئن
ہوجائیں۔
عبدالماجد
صاحب نے اس تجویز کو مان کر چالیس روزآپ کی خانقاہ میں مکمل کیے۔ پھر جب حضرت صاحب
نے پوچھا کہ میاں اب بتاؤ کیا اشکالات ہیں۔ اس وقت انہوں نے بتایا کہ حضرت سب اشکالات
خود بخود رفع ہو گئے ہیں ۔ بقول مولانا رومی:
اے
لقائے تو جوابِ ہر سوال نکتہ ہائے حل شود بے قیل و قال
۳۔ غالی مرید کا انجام :
ایک
مرید آپ کے بتائے ہوئے اذکار پر سختی سے کاربند ہو گیا اور کبھی کبھی اس کو ایسے
خواب نظر آتے جیسے وہ جنت کے باغات میں ہے۔ وہاں کے چشموں اور سبزہ زاروں میں سیر
کر رہا ہے۔ طرح طرح کے میوہ جات اور مشروبات سے لذت یاب ہو رہا ہے ۔اس مضمون کا خط
اس نے لکھ کر حضرت مولانا سے مزید اذکار کا اذن مانگا۔ آپ نے لکھ بھیجا کہ تمہارے
اذکار میں بے پایاں مشغولیت کی وجہ سے دماغ میں خشکی پیدا ہو گئی ہے،تم کچھ مرغن
غذا کا استعمال کرو اور ذکر نہایت کم کردو۔ اس نے حضرت صاحب کی نصیحت پر عمل نہ
کیا بلکہ لکھ بھیجا کہ میں تو ذکر بہت زیادہ کرتا ہوں‘ کھانے کی طرف مجھے کوئی
رغبت نہیں اور میں بہت اچھے اچھے خواب دیکھتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ کثرت
اذکار اور کھانے پینے میں بے رغبتی کی وجہ سے درجات بلند حاصل کر رہا ہوں اور
عنقریب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ترین حضرات کی صف میں مقام حاصل کر لوں
گا۔ آپ نے آخری بار پھر نصیحت کی کہ تمہاری سوچ غلط ہے‘ تمہارے دماغ میں انتہائی
درجہ کی خشکی پیداہو گئی ہے‘ اگر تم نے میری نصیحت پر عمل نہ کیا تو پاگل ہو جاؤ
گے۔ آخر وہی ہوّا ۔اس نے نصیحت پر عمل نہ کیا اور کپڑے پھاڑ کر دلی کے بازاروں میں
ننگ دھڑنگ پاگلوں کی طرح پھر رہا ہوتا۔
۴۔ نو مسلم چماروں کے ساتھ سلوک:
ایک
قصبے کے رئیس نے حضرت صاحب کی دعوت کی اور وعظ کہنے کی فرمائش بھی کی۔ آپ ان کے
یہاں پہنچے ‘ ظہر کی نماز کے بعد وعظ طے پایا۔ جب نماز کے بعد وعظ کے لیے اٹھے تو
صاحب خانہ رئیس نے کہا کہ یہاں پچھلے دنوں کچھ چمار اسلام کی حقانیت سے متاثر ہو
کر بخوشی مسلمان ہوئے ہیں‘ اس وقت مسجد میں موجود ہیں‘ وعظ کے بعد کھانے کی دعوت
میں بھی شریک ہوں گے ۔ یہاں کے پرانے خاندانی مسلمان ان نو مسلموں سے گھن محسوس
کرتے ہیں ۔ان سے میل جول سے کتراتے ہیں۔ مسجد میں نماز میں شرکت سے منع نہیں کرتے
مگر دل میں ان کی شرکت کو اچھا نہیں سمجھتے ۔اس لیے درخواست ہے کہ اپنے بیان میں
اس سلسلے میں بھی کچھ عمدہ طریقے سے وعظ فرمائیں ۔ مولانا فرماتے ہیں کہ میں نے اس
موضوع پراپنی تقریر میں کچھ ذکر نہ کیا ۔ صاحب خانہ نے کہا’’ حضرت صاحب! آپ نے
میری درخواست پر نو مسلموں کی دلجوئی اور ان کے مسلم معاشرے میں برابری کی کوئی
بات اپنی تقریر میں نہیں کی‘‘۔ حضرت نے فرمایا ’’باتوں سے کچھ نہیں ہوتا عملاََ
کچھ کرنا پڑے گا۔‘‘ چنانچہ جب بعد میں کھانے کے لیے صف بچھی تو آپ نے فرمایا ’’جو
بھائی نئے مسلمان ہوئے ہیں‘ان سے ملاقات کرواؤ‘یہ تو بالکل گناہوں سے پاک ہیں۔‘‘
پھر ان میں سے ایک کو اپنی رکابی میں ہاتھ سے کھانے کے لیے شریک کیا اور جس برتن
یا لوٹے سے اس نو مسلم نے پانی پیا‘ اسی برتن سے اسی جگہ منہ لگا کر پانی پیا۔ یہ
دیکھ کر تمام قدیم مسلمان بھائی نو مسلموں سے بغلگیر ہوئے اور یوں برابری کی شان
پیدا ہو گئی۔ انہوں نے دیکھا کہ حضرت صاحب نے جب ان کا جھوٹا پانی پی لیا ہے تو اب
باقی کیا رہ گیا ہے
:
ایک ہی
صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
۵۔ ماشکیوں کی دعوت :
تھانہ
بھون قصبے میں عام گھروں میں پینے اور استعمال کے لیے عمدہ میٹھا پانی ہینڈ پمپوں
یا کنوؤں سے حاصل نہیں کیا جاتا تھا ۔ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ماشکیوں کی ایک
پوری برادری تھی جو صبح وشام گھروں میں رکھے مٹکے اپنی مشکوں سے بھر جاتے تھے۔ ۹۴۰اء تک راولپنڈی میں بھی ماشکی ہی گھروں میں عمدہ میٹھا پانی آٹھ آنے
ماہوار فی مشک کے حساب سے پہنچاتے تھے۔ لوگوں نے اپنے گھروں میں مٹی کے مٹکے ایک
ایک مشک پانی والے رکھے ہوتے تھے۔ سردیوں میں ان مٹکوں میں پانی کے اوپر ایک ایک
انچ موٹی برف کی گول اینٹ سی جمی ہوتی جسے ہٹا کر استنجے اور وضو کے لیے نیچے سے
پانی نکالا جاتا تھا۔
مولانا
صاحب کی خانقاہ میں وہاں کے ماشکیوں کے مکھیا کا آنا جانا تھا۔ وہ مولانا کی تقریر
یں سنتا‘ ان کے شب و روز کے معمولات کو دیکھتاتھا تو دل ہی دل میں ان کا عاشق ہو
گیا۔ مگر ان کی عالمانہ وجاہت اور زہد و تقویٰ کے روشن آثار دیکھ کر زیادہ قریب ہو
کر آپ سے بات کرنے کی حسرت دل ہی دل میں لئے رہتا۔اللہ کا کرنا ایسے ہوا کہ ایک
روز آپ گھر جاتے ہوئے اسے راستے میں مل گئے۔ اس وقت اس نے آپ کو سلام کیا ‘آپ
نہایت شفقت سے مسکرائے اور جواب دیا ۔ اس پر ماشکیوں کے مکھیا نے ان سے عرض کی۔
حضرت ایک روز آپ اپنے چندقریبی ساتھیوں کے ساتھ ہمارے یہاں تشریف لائیں اور نہایت
عاجزی سے کہا حضور ہم غریبوں کی دعوت قبول فرمائیں۔ ہمیں مایوس نہ کریں۔ آپ نے
دعوت قبول فرما لی۔کیونکہ حضورﷺ بھی کسی کی دعوت رد نہیں کرتے تھے۔
چنانچہ
طے شدہ وقت پر بعد نماز مغرب آپ ماشکیوں کی بستی میں اپنے ساتھیوں سمیت پہنچ گئے۔
گرمیوں کا موسم تھا‘ ماشکیوں نے گلی میں خوب چھڑکاؤ کیا ہوا تھا۔ نالیاں صاف کر کے
کناروں پر چونا ڈالا ہوا تھا۔ گلی کے شروع میں ایک خوبصورت محرابی دروازہ کیلے کے
پیڑ اور پتوں سے بنایا ہوا تھا اور گلی میں رنگ برنگی جھنڈیوں کا جال تھا۔ مولانا
اس قسم کی سجاوٹ والی عزت افزائی کے خواہاں نہ تھے مگر ماشکیوں نے آپ کی تشریف
آوری پر خوشی سے عزت افزائی کی خاطر دل کے ارمان نکالے۔ جس کمرے میں دعوت کا
انتظام تھا‘اس میں عرق گلاب کا چھڑکاؤ کیا ہواتھا۔کئی قسموں کے نہایت عمدہ کھانے
قرینے سے دوصفوں کے درمیان بچھے دسترخوان پر چنے تھے۔ چار جوان دونوں صفوں کے
پیچھے بڑے بڑے دستی پنکھوں سے ہوا دے رہے تھے۔ میزبان مکھیا نے سب مہمانوں کے خود
ہاتھ دھلا کر بسم اللہ کرنے کی دعوت دی اور نہایت لجاجت کے ساتھ ایک ایک رکابی پیش
کر کے تناول فرمانے کی میزبانوں کی طرف سے درخواست کی جا رہی تھی ۔ کھانے کے بعد
حضرت صاحب نے سب کی طرف سے اللہ کا شکرا دا کیا اور رزق میں برکت کی دعا دی۔ پھر
ماشکیوں نے کئی مسائل پوچھے اور مولانا نے ان کے تسلی بخش جواب دیئے۔ بعد میں
مولانا نے اکثر ان غریب ماشکیوں کی دعوت کا ذکر کیا اور اعتراف کیا کہ زندگی میں
بہت دعوتوں میں شریک ہوا مگر جتنی محبت اور پرخلوص دعوت تھانہ بھون کے ماشکیوں نے
کی اس کے برابر کی اور کوئی دعوت نہ تھی۔
۶۔ حاجی امداداللہ مہاجر مکی کا تعویذ:
حاجی
صاحب ایک روز صبح کی نماز کے بعد اپنے مریدوں کے حلقہ میں بیٹھے وعظ فرما رہے تھے
۔ اچانک ایک شخص تکلیف سے کراہتا ہوا مجلس میں آ وارد ہوا اور حاجی صاحب سے گڑگڑا
کر درخواست کرنے لگا کہ میں دنبل کے پھوڑے کی وجہ سے سخت تکلیف میں ہوں‘ نہ بیٹھ
سکتا ہوں نہ سیدھا لیٹ سکتا ہوں اورنہ کروٹ بدل کر لیٹ سکتا ہوں۔ مجھے تعویذ لکھ
دیں۔ آپ کے تعویذسے ٹھیک ہوجاؤں گا ۔ آپ نے کہا ۔ بھئی میں تعویذنہیں لکھتا ۔ مگر
اس نے کہا حضرت جی میں تو آپ سے تعویذ لے کر جاؤں گا۔ آپ ہی کے تعویذ سے مجھے شفا
ہو گی۔ اس نے اتنا اصرار کیا کہ آخر حضرت صاحب نے خادم سے کہا کہ جاؤ کاغذا ور قلم
لاؤ۔آپ نے تھوڑا سا ٹکڑا کا غذ کا لیااور اس پر کچھ لکھ کر آنے والے سائل کو دے
دیا۔ وہ لے کر چلاحضرت صاحب نے خادم سے کہا کہ جاؤ کاغذا ور قلم لاؤ۔آپ نے
تھوڑا سا ٹکڑا کا غذ کا لیااور اس پر کچھ لکھ کر آنے والے سائل کو دے دیا۔ وہ لے
کر چلا گیا۔ چار پانچ روز بعد وہ سائل لڈؤوں سے بھرا تھال لے کر صبح کی مجلس میں
حاضرہوا۔ اپنی صحت یابی کی خبر دے کر حضرت صاحب کا نہایت ادب سے شکریہ ادا کرنے
لگا‘اسی خوشی میں وہ شیرینی تقسیم کرنے کے لیے لڈو لایاتھا۔ آپ نے اللہ کی حمد
بیان کی اورلڈو حاضرین میں تقسیم کیے۔ صحت پانے والا مریض جب چلا گیا تو خادم نے
پوچھا حضرت جی آپ تو تعویذ نہیں لکھا کرتے۔ اس شخص کو آپ نے کیا لکھ کر دیا ۔ آپ
نے مسکرا کر کہا ۔ میں نے لکھا’’ یا اللہ میں جانتا نہیں پر یہ مانتا نہیں۔ تیرا
بندہ ہے اور سخت تکلیف میں ہے۔ اس کی تکلیف رفع کر دے اور کون ہے آپ کے سوا جو اس
کی تکلیف دور کر دے۔ ‘‘
۷۔ ہندہ پنڈت اور مومن صالح کے مابین مناظرہ :
ایک
مرتبہ دہلی کے ایک بڑے میدان میں ہندو مت اور دین اسلام کے پیروکاروں کے عالموں کے
درمیان مناظرہ منعقد ہوا ۔ مسلم خیمے کے عالم کا ایک خادم فجر کی نماز کے بعد ہندو
خیمے کا جائزہ لینے کے لیے ادھر جا نکلا۔ دیکھتا کیا ہے کہ ایک کمرے کے دروازے کے
اندر لڈوؤں سے بھر ے تھال پے درپے جا رہے ہیں۔ اس نے گنا تو سات تھال اندر گئے۔
پھر کوئی آدھے گھنٹے بعد ساتوں تھال خالی ہو کر واپس آئے۔ اس نے خیال کیا شاید بہت
سے لوگ اندر بیٹھے ہیں‘جنہوں نے ان لڈوؤں سے ناشتہ کیا ہے۔ لیکن پھر اس نے سوچا کہ
کچھ دیر انتظار کر کے دیکھوں کہ کتنے آدمی اندر تھے‘ جنہوں نے سات لڈوؤں کے تھالوں
سے ناشتہ کیا ہے۔ بہت انتظار کے بعد پنڈت صاحب کا ایک چیلا جو باہر آیا تو اندر
جھانکنے سے معلوم ہوا کہ وہاں صرف ایک بڑے پنڈت ہی تھے‘ جنہوں نے سات تھال لڈوؤں
سے پیٹ کی آگ بجھائی ۔ یہ جان کر خادم سخت حیران ہوا اور واپس آ کر اپنے مرشد حضرت
صاحب کو یہ واقعہ سنایا اور کہا کہ حضرت جی اگر کھانے میں مقابلہ ہوا تو آپ ہار
جائیں گے۔ حضرت صاحب نے اپنے خادم کو کہا’’ نالائق! اتنے دنوں ہمارے ساتھ رہے ہو
اور یہ نہیں پتہ چلا تمہیں کہ مقابلہ اعلیٰ صفات کا ہوتا ہے سفلی صفات کا نہیں
ہوتا۔ کھانا سفلی اور حیوانی صفت ہے۔ اعلی ٰ صفت ہے فاقہ کشی۔اعلیٰ صفت میں مقابلہ
کریں۔ مجھے بھی ایک کمرے میں بند کر دیں۔ ہندو پنڈت کو بھی ایک کمرے میں بند کر
دیں اور کھانے پینے کو کچھ نہ دیں۔ تیسرے روز ہندو پنڈت مر چکا ہو گا اور اس کے
کمرے سے بدبو کے بھبھوکے اٹھ رہے ہوں گے جبکہ مجھے اگر چھ ماہ کے بعد بھی کمرہ
کھول کر دیکھو گے تو میرا چہرہ الحمد للہ اسی طرح ترو تازہ ہو گا جیسا اب ہے۔وجوہ
یومئذِِ نا ضرۃ الٰی ربِّھا نا ظِرۃ۔ (اس روزکچھ چہرے بہت ترو تازہ ہوں گے اپنے رب
کے دیدار سے محظوظ ہورہے ہوں گے۔) (سورۃالقیامہ)
مولانا
کی تحریک پاکستان کے حوالے سے عملاً حصہ لینے کی خواہش
آپ نے ۴جولائی ۹۴۳اء کو ایک سچا خواب
دیکھنے کے بعد مولانا شبیر احمد عثمانی اور ظفر احمد عثمانی کو طلب کیااور فرمایا ۹۴۰اکی قرار داد پاکستان کو کامیابی نصیب ہوگی۔ میرا وقت آخری ہے‘ میں
زندہ رہتا تو ضرور کام کرتا۔ مشیت ایزدی یہی ہے کہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن
قائم ہو ۔ قیام پاکستان کے لیے جو کچھ ہو سکے تم کرنااور اپنے بندو ں کو بھی کام
کرنے پر ابھارنا۔ تم دونوں عثمانیوں میں سے ایک میرا جنازہ پڑھائے گا اور دوسرا
عثمانی جناح صاحب کا جنازہ پڑھائے گا۔
حکیم
الامت تھانوی صاحب قیام پاکستان سے تین چار برس پہلے اللہ کو پیارے ہو گئے‘ لیکن
چشم فلک نے دیکھا کہ پاکستان قائم ہوا ‘ مولانا ظفراحمد عثمانی نے تھانوی صاحب کی
نماز جنازہ پڑھائی اور سوا پانچ سال قبل کی گئی پیشین گوئی کے مطابق قائداعظمؒ کی
نماز جنازہ مولانا شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی۔
آپ قائداعظم کا دل سے احترام کرتے تھے‘آپ کو یقین تھا کہ قائداعظم کی
زیر قیادت تحریک پاکستان کامیابی سے ہمکنار ہو گی۔ اس لیے آپ نے یہ بھی ضروری
سمجھا کہ قائداعظم کو پاکستان کے دستور کے لیے قرآن پاک کے موٹے موٹے اصول جو خود
ان کو معلوم بھی ہیں مگر تفصیلی آگاہی کے لیے ان کے پاس ظفر احمد عثمانی کو چند
رفقاء کے ساتھ بھیجا۔ قائداعظم دینی طور پر زیادہ پر یقین ہو کر نہایت ہوشیاری سے
سب کو اپنے استدلال سے قائل کر لیتے‘اللہ ان سب اکابر کی کوششوں کی جزائے خیر عطا
فرمائے۔ آمین!
مندرجہ
بالا حالات زندگی جومحترمہ ناعمہ صہیب کی تصنیف ’’تاریخ اسلام کی عظیم شخصیات ‘‘
سے ماخوذ ہیں اورکچھ مشاہدے کے واقعات جو آپ کے ملفوظات سے لئے گئے ہیں۔ ان کو جان
کر محسوس ہوتا ہے کہ مولانا تمام عمرامت مسلمہ کے غم میں کڑھتے رہے اور اصلاحِ
احوال کے لیے لکھتے رہے ‘وعظ کرتے رہے‘عمل سے بھی آپ ظاہر کرتے رہے کہ زندگی
اتّباع سنت رسولﷺ میں کیسے گزاری جانی چاہیے۔ تکلیف دہ سفر بھی اختیار کیے۔ تزکیہ
نفس اور کتاب و حکمت کی تعلیم بھی دی ۔غیر اسلامی رسموں اور بدعت کے نقصانات بتا
کر اصلاح کی کوشش کی‘ حسن معاشرت ‘ حسن انتظام اور مالی امور میں انتہا درجے کی
دیانت کی تحریر اور تقریر کے ذریعے سے بھی اور عملی نمونہ پیش کر کے بھی تلقین کی
اور بہت رنج اس حوالے سے سہے‘ بہت دکھ جھیلے‘ بہت روئے اور بالآخر اللہ پاک نے آپ
کو ابدی راحت اور آرام پہنچانے کے لیے ۶ارجب ۳۴۸اھ کواپنے پاس بلا لیا
کہ’’ اے نفس مطمئنہ! تم نے بہت دکھ جھیلے ہیں ‘تم بہت روئے ہو‘اب آ میرے محبوب
بندوں میں شامل ہو کر میری جنّت میں داخل ہو جا‘ ایسی جنت جو تیرے جیسے جاں نثاروں
کے لیے ہم نے سجا رکھی ہے‘ جس میں داخلے کے وقت میرے فرشتے تیرا استقبال سلامُٗ
علیکم طِبتم کا ترانہ پڑھ کر کریں گے اور خود میرا سلام بھی تجھے پہنچے گا،(سلامُٗ
قَولاًٗ مِن رَّبِّ رَّحِیم۔)‘‘
اَّللھُمََْ
اغْفِرْلَہُ وَاَدْخِلْہُ فیِ الْجَنّتِ الْفِرْدَوْسِ۔۔
ایں
دعا از من واز جملہ جہاں آمین باد!
******